از : مرتب
مسلمان اور غلامی … یہ دونوں چیزیں ایک ساتھ جمع نہیںہو سکتیں۔ مسلمان کے لیے یہ ممکن ہی نہیں ہے‘ کہ وہ غلامی کی فضا میں اپنے دین کے تقاضوں کو پورا کر سکے۔ اسلام پر اسی وقت پوری طرح عمل ہو سکتا ہے‘ جب انسان ساری بندشوں کو توڑ کر صرف خدا کا مطیع ہو جائے۔ اسلام غلبہ اور حکمرانی کے لیے آیا ہے، دوسروں کی چاکری اور باطل نظاموںکے تحت جزوی اصلاحات کے لیے نہیں آیا۔
ہُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰی وَ دِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَo الصف 9:61
وہی ہے (ذات باری تعالیٰ) جس نے بھیجا اپنا رسول (a) ہدایت اور دین حق کے ساتھ تاکہ اس دین کو دنیا کے تمام ادیان پر غالب کر دے۔ خواہ یہ مشرکوں کو کتنا ہی ناگوار گزرے۔
اسلام نے مسلمانوںکا مزاج یہ بنایا ہے‘ کہ طاغوت کی حکومت، خواہ، وہ کسی رنگ میں ہو، کھل کر اس کی مخالفت کی جائے، اسے کبھی ٹھندے پیٹوں برداشت نہ کیا جائے‘ اور خدا کی حاکمیّت کو سیاسی حیثیت سے عملاً قائم کرنے اور اس کے قانون کو زندگی کے ہر شعبے میں جاری و ساری کرنے کی کوشش کی جائے، مسلمانوں کی پوری تاریخ میں یہی کشمکش اور کوشش نظر آتی ہے۔
برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کے سامنے یہ مسئلہ اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں بہت نمایاں ہو کر اُبھرا۔ سلطنت مغلیہ کے ختم ہونے تک صورت حال یہ تھی‘ کہ گو مجموعی طور پر ملک کا نظامِ اجتماعی اسلام کے مطابق نہ تھا‘ لیکن ایک طرف مسلم معاشرہ میں ہماری ثقافت کی روایات بڑی مضبوطی سے جاگزیںتھیں‘ اور دوسری طرف ساری خرابیوں کے باوجود ملک کا قانون شریعت اسلامی پر مبنی تھا۔ اس لیے مسلمانوں کی کوششوںکا محور مزید اصلاح و تبدیلی اور نظامِ اجتماعی کے بگاڑ کو دور کرنا تھا۔ برطانوی سامراج کی آمد نے مسلمانوں کے سیاسی اقتدار کو ختم کر دیا اور نئے حکمرانوں کی تمام قوّت اسی کام پر صرف ہوئی کہ مسلمانوں کو ملی زندگی میں نظریاتی نقطۂ نظر سے جو بگاڑ آچکا تھا اس کو بڑھائیں اور اسے اس کی انتہا تک پہنچا دیں، تاکہ مسلمان سیاسی، معاشی،ذہنی، مذہبی، اخلاقی، ثقافتی، غرض ہر حیثیت سے غلام بن جائیں‘ اور ان کا جُدا گانہ وجود باقی نہ رہے۔
مسلمانوں نے اس نئی حیثیت کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ وہ زندہ رہنا چاہتے تھے‘ لیکن مسلمان کی حیثیت سے، محض ہندوستان میں بسنے والی ایک مخلوق کی حیثیت سے نہیں۔ انہوں نے آزادی کی کوشش کی۔ سیّد احمد شہیدؒ نے جہاد کا اعلان کیا اور تحریکِ مجاہدین نے آخری دم تک اعدائے اسلام کا مقابلہ کیا۔ فرائضی تحریک نے مشرقی ہند میں جہاد کا علم بلند کیا۔ ۱۸۵۷ء کی جنگِ آزادی مسلمانوں ہی کے خون سے سینچی گئی اور اس طرح اپنی تمام خرابیوں اور کمزوریوں کے باوجود مسلمانوں نے اسلام کے اس مزاج کا بار بار اظہار کیا‘ کہ وہ غیر اللہ کی غلامی کو قبول نہیں کر سکتا‘ اور طاغوت کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہیں کر سکتا۔
انیسویں صدی کے دوسرے نصف میں ’’سمجھوتہ بندی‘‘کی روش کو خاصی تقویت حاصل ہوئی۔ مسلمانوں کی حیثیت ایک ہاری ہوئی فوج کی سی تھی‘ اور جو لوگ ذہناً مغرب سے شکست کھا چکے تھے‘ انہوں نے جدید تہذیب و تمدّن سے سمجھوتہ کرنے اور اس کے رنگ میں اپنے کو رنگنے ہی کی روش کی طرف مسلمانوں کو بلایا۔ لیکن بحیثیت مجموعی قوم نے اس راستہ کو اختیار نہ کیا‘ اور پورے معاشرہ میں ایک کش مکش جاری رہی۔ ایک دوسرے گروہ نے نئے تقاضوں اور نئے حالات سے کلی طور پر صرف ِنظر کیا‘ اور اپنے کو ماضی کے حسین نظاروں میں گُم رکھا۔ لیکن یہ روش بھی چلنے والی نہ تھی۔ بیسویں صدی کے شروع ہی سے حالات نے ایک ایسا رخ اختیار کیا‘ جس میں ملکی معاملات میںمسلمانوں کی شرکت لابدی ہو گئی۔ نئی تحریکات اُبھریں۔ سیاسی اسٹیج پر بڑی گہما گہمی ہوئی۔ پرانی دوستیاں ٹوٹیں اور نئی دشمنیاں پیدا ہوئیں۔ وقتی اور ہنگامی طور پر بڑے بڑے کارنامے بھی انجام دئیے گئے۔ لیکن ابھی تک مسلمانوں کے سامنے وہ راہ واضح نہ ہو ئی تھی‘ جو ایک طرف انہیں غلامی سے نجات دلائے‘ اور آزادی کے وسیع میدانوں کو ان کے لیے مسخر کرے، اور دوسری طرف ان کے رشتہ کو ان کے دین اور ان کی ثقافت و تہذیب سے مستحکم تر کرکے ان تاریخی تقاضوں کو بر آنے کا موقع دے‘ جن کے اظہار کے لیے ملت اسلامیہ ہند کا اجتماعی ضمیر بے چین تھا۔ سیاست کی زمامِ کار بڑی حد تک ان لوگوں کے ہاتھوں میں تھی‘ جو ملت کے مزاج اور دین کے تقاضوں کا پورا شعور نہیں رکھتے تھے۔ علما جو ایک مدت سے قوم کی قیادت کر رہے تھے‘ اب آہستہ آہستہ ان میں سے اکثر اس مقام سے ریٹائر ہو رہے تھے۔ اس دوگونہ عدم مطابقت کی وجہ سے قوم کے ہاتھ وہ راہ نہیں آرہی تھی جسے اس کی روح تلاش کر رہی تھی۔
ان حالات میں مولانا سیّد ابوالا علیٰ مودودی صاحب نے احیائے اسلام کی جدوجہد کا آغاز کیا۔ ایک طرف موصوف نے ۱۹۳۲ء میں اسلام کی بنیادی تعلیمات کو عقلی دلائل کے ساتھ پیش کیا اور ذہنوں سے شکوک کے ان کانٹوں کو نکالا‘ جو الحاد، بے دینی اور اشتراکیت کی یلغار نے پیوست کر دئیے تھے۔ پھر انہوں نے ان تمدّنی، معاشرتی اور معاشی مسائل کا حل بھی اسلام کی روشنی میں بتایا‘ جو سوچنے سمجھنے والے طبقات کو پریشان کیے ہوئے تھے۔ تعمیر افکار کے ا س عمل کے ساتھ ساتھ مولانا مودودی صاحب نے ملت کو ان اجتماعی مسائل کا احساس بھی دلایا‘ جن کے نرغہ میں وہ گھِر گئی تھی، ان خرابیوں کی نشاندہی بھی کی‘ جو اس کی سیاسی جدوجہد کو کمزور تر کر رہی تھیں‘ اور ان خطوط کو بھی واضح کیا‘ جن پر اپنی اجتماعی جدوجہد کو منظم کرکے‘ وہ آزادی اور اسلام دونوں کو حاصل کر سکتی تھی۔ یہ کام ابھی ایک تدریجی رفتار کے ساتھ جاری تھا‘ کہ ہندوستان میںیکایک حالات نے پلٹا کھایا اور وہ منزل بالکل قریب نظر آنے لگی ‘جہاں سے اقتدار برطانوی سامراج سے ہندو قوم پرستی کی طرف منتقل ہونے و الا تھا۔ اس موقعہ پر یہ مضامین مولانا مودودی صاحب نے ۱۹۳۷ء میں لکھنے شروع کیے اور ۳۹ء کے آغازتک ترجمان القرآن میں مسلسل شائع ہوتے رہے۔ اس کے بعد یہی مضامین ’’مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش‘‘ کے عنوان سے دو جلدوں میں شائع ہوئے اور اس کتاب کے نو دس ایڈیشن تقسیمِ ملک سے قبل نکل چکے تھے۔ بلا شبہ اس کتاب نے ایک نسل کو متاثر کیا، متحدہ قومیّت کے طلسّم کو چاک کیا‘ اور اسلامی قومیّت کے احساس کو پختہ کرکے اسے ایک سیاسی نصب العین کی شکل دی۔
(۲)
برطانوی ہند کے مسلمانوں کو انگریز کی غلامی کے دور میں جو سب سے بڑا خطرہ پیش آیا وہ ’’متحدہ قومیّت‘‘ کا تھا۔ یہ خطرہ ۱۹۲۵ء میں تحریکِ خلافت کے غیر مؤثر ہو جانے کے بعد سے شدید تر صورت اختیار کرتا چلا گیا۔ مسلمانوں کا حال یہ تھا‘ کہ ہر میدان میں شکست پر شکست کھانے سے ان پر شدید مایوسی کا غلبہ تھا۔ کوئی قومی تنظیم باقی نہیں رہی تھی۔ قومی لیڈر ایک ایک کرکے یا تو تھک گئے تھے، یا اللہ کو پیارے ہو گئے تھے، اور یا پھر قوم کا اعتماد کھو بیٹھے تھے۔ نِت نئے فتنے اُبھر رہے تھے‘ اور کوئی نہ تھا جو ان کا مقابلہ کرے۔ ان حالات میں کانگریس نے مسلمانوں کو نرم نوالہ سمجھ کر نگل لینا چاہا‘ اور اس غرض کے لیے متحدہ قومیّت کی تحریک کو تیز تر کر دیا۔ علمی میدان میں مغرب کی پوری سیاسی فکر کی بنا پر متحدہ قومیّت کے تصوّر کو پیش کیا جا رہا تھا‘ اور کوئی اس سیلاب کا مقابلہ کرنے والا نہ تھا۔ رابطہ عوام (mass contact) کے نام پر‘ مسلمانوں کو ان کی اپنی تنظیمات سے کاٹ کر‘ کانگریس میں ضم کرنے کی سعی بڑے وسیع پیمانے پر ہو رہی تھی۔ پھر مسلم نام رکھنے والے اہلِ قلم روٹی کے مسئلہ کو سب سے اہم مسئلہ قرار دے کر‘ اشتراکیت کی تبلیغ بالکل کھلے بندوںاور جمعیت العلماء کے اخبارات تک کے ذریعہ کر رہے تھے۔ علما کا ایک بڑا طبقہ انگریز کی مخالفت میں متحدہ قومیّت تک کی تائید پر اتر آیا تھا۔ ان حالات میں صاف نظر آرہا تھا‘ کہ ملت اسلامیہ ہند کی کشتی ڈانواں ڈول ہے‘ اور اگر حالات کو بدلنے کی فوری کوشش نہ کی گئی‘ تو اس کشتی کو بچانا ممکن نہ رہے گا۔
یہ ہے وہ پس منظر جس میں زیر نظر مضامین لکھے گئے۔ ان میں بتایا گیا ہے‘ کہ مسلمانوں کا اصل مسئلہ کیا ہے، ان کے زوال کے اسباب کیا ہیں، ان کی حقیقی کمزوریاں کیا ہیں، ان کو بے جا استعمال کرنے کی کیا کوششیں ہو رہی ہیں، انہیں کون کون سے خطرات درپیش ہیں، اور ان خطرات کا مقابلہ وہ کیوں کر‘ کر سکتے ہیں۔ پھر ان میں کانگریس کی متحدہ قومیّت کی تحریک کا پورا پس منظر اور اس میں مسلمانوں کے لیے پوشیدہ خطرات کا مفصّل جائزہ ہے۔ یہ وہ پہلی کوشش ہے‘ جس میں متحدہ قومیّت پر علمی اور عقلی تنقید کی گئی ہے‘ اور اتنے بلند علمی معیار سے کی گئی ہے‘ کہ آج تک اس کے پائے کی کوئی دوسری چیز ملک کے سامنے نہیں آئی۔ بلا شبہ برصغیر ہندو پاکستان سے شائع ہونے والے بیسویں صدی کے لٹریچر میں متحدہ قومیّت کے بارے میں علاّمہ اقبال اور مولانا مودودی کی تحریرات اپنی نظیر نہیں رکھتیں۔
پھر مولانا کے ان مضامین کی یہی خصوصیت نہیں ہے‘ کہ اپنے علمی اور منطقی طرز استدلال، تاریخی ا ستشہاد، حسن بیان اور قوّت اثر کی بناء پر یہ منفرد ہیں، بلکہ ان کا عظیم ترین کارنامہ یہ ہے‘ کہ ان کی وجہ سے اسلامی تصوّر قومیّت نے ایک سیاسی نصب العین کی شکل اختیار کی‘ اور مسلمانوں کے سامنے ایک جُدا گانہ قوم ہونے اور اپنی جُدا گانہ قومیّت اور تہذیب کو محفوظ رکھنے اور ترقی دینے کے لیے اپنی آزاد مملکت قائم کرنے کا جذبہ پیدا ہوا۔ اور بالآخر قیام پاکستان پر منتج ہوا۔
تحریک پاکستان کی بنیاد دو قومی نظریہ پر تھی۔ اس تصوّر کو پیش کرنے، اسے نکھارنے اور فروغ دینے میں مولانا مودودی صاحب کی تحریرات کا حصہ کیا تھا، اسے اس شخص کی زبان سے سُنیئے‘ جو قائد اعظم اور خان لیاقت علی خان کا دستِ راست تھا … یعنی آل انڈیا مسلم لیگ کے جائنٹ سیکرٹری، اس کی مجلس عمل (committee of action) اور مرکزی پارلیمانی بورڈ کے سیکرٹری، جناب ظفر احمد انصاری صاحب۔ وہ لکھتے ہیں :
’’اس موضوع پر مولانا ابوالا علیٰ مودودی صاحب نے ’’مسئلہ قومیّت‘‘ کے عنوان سے ایک سلسلہ مضامین لکھا جو اپنے دلائل کی محکمی، زورِاستدلال اور زور بیان کے باعث مسلمانوںمیں بہت مقبول ہوا اور جس کا چرچا بہت تھوڑے عرصے میں اور بڑی تیزی کے ساتھ مسلمانوں میں ہو گیا۔ اس اہم بحث کی ضرب متحدہ قومیّت کے نظریہ پر پڑی اور مسلمانوں کی جُدا گانہ قومیّت کا احساس بڑی تیزی کے ساتھ پھیلنے لگا۔ قومیّت کے مسئلہ پر یہ بحث محض ایک نظری بحث نہ تھی بلکہ اس کی ضرب کانگریس اور جمعیت العلمائے ہند کے پورے موقف پر پڑتی تھی۔ ہندوؤں کی سب سے خطرناک چال یہی تھی‘ کہ مسلمانوں کے دلوں سے ان کی جُدا گانہ قومیّت کا احساس کسی طرح ختم کرکے ان کے ِملّی وجود کی جڑیں کھوکھلی کر دی جائیں۔ خود مسلم لیگ نے اس بات کی کوشش کی کہ اس بحث کا مذہبی پہلو زیادہ سے زیادہ نمایاں کیا جائے‘ تاکہ عوام کانگریس کے کھیل کو سمجھ سکیں‘ اور اپنے دین و ایمان کے تقاضوں کو پورا کرنے کی طرف متوجہ ہوں‘‘۔ { FR 2877 }
آگے چل کر مولانا انصاری صاحب پھر لکھتے ہیں :
’’دراصل پاکستان کی قراردار سے پہلے ہی مختلف گوشوں سے ’’حکومتِ الٰہیہ‘‘، ’’مسلم ہندوستان‘‘ اور ’’خلافتِ ربانی‘‘ وغیرہ کی آوازیں اٹھنے لگی تھیں۔ علاّمہ اقبال نے ایک ’’مسلم ہندوستان‘‘ کا تصوّر پیش کیا تھا۔ مودودی صاحب کے لٹریچر نے حکومتِ الٰہیہ کی آواز بلند کی تھی۔ چوہدری افضل حق نے اسلامی حکومت کا نعرہ بلند کیا تھا۔ مولانا آزاد سبحانی نے خلافت ربانی کا تصوّر پیش کیا تھا۔ جگہ جگہ سے اس آواز کا اٹھنا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے‘ کہ مسلمان اپنے مخصوص طرزِفکر کی حکومت قائم کرنے کی ضرورت پوری شدّت سے محسوس کر رہے تھے‘ اور حالات کے تقاضے کے طور پر ان کے عزائم خفتہ اُبھر کر سامنے آرہے تھے۔‘‘۔ { FR 2878 }
علاّمہ اقبال مرحوم مولانا مودودی کی ان تحریرات سے بے حد متاثر تھے۔ بقول میاں محمد شفیع مدیر اقدام علاّمہ موصوف ’’‘ترجمان القرآن‘‘ کے ان مضامین کو پڑھوا کر سنتے تھے۔ انہی سے متاثر ہو کر علاّمہ اقبال نے مولانا مودودی کو حیدر آباد دکن چھوڑ کر پنجاب آنے کی دعوت دی‘ اور اسی دعوت پر مولانا ۱۹۳۸ء میں پنجاب آئے۔ میاں محمد شفیع ’لاہور کی ڈائری‘‘ میں لکھتے ہیں :
’’مولانا سیّد ابو الا علیٰ مودودی تو درحقیقت نیشنلسٹ مسلمانوںکی ضد تھے‘ اور میں یہاں پوری ذمّہ داری کے ساتھ عرض کرتا ہوں کہ میں نے حضرت علاّمہ اقبالؒ کی زبان سے کم و بیش اس قسم کے الفاظ سنے تھے‘ کہ ’’مودودی ان کانگریسی مسلمانوںکی خبر لیں گے‘‘۔ جہاں علاّمہ اقبال ؒ بالکل واضح طور سے آزاد اور مدنی کے نقّاد تھے وہاں وہ مولانا کا ’’ترجمان القرآن‘‘ جستہ جستہ مقامات سے پڑھوا کر سننے کے عادی تھے۔ اور اس امر کے متعلق تو میں سو فی صدی ذمّہ داری سے یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ علاّمہ نے مولانا مودودی کو ایک خط کے ذریعے حیدر آباد (دکن) کے بجائے پنجاب کو اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنانے کی دعوت دی تھی بلکہ وہ خط انہوں نے مجھ سے ہی لکھوایا تھا‘‘۔ { FR 2879 }
مارشل لا حکومت کے قائم کردہ دستوری کمیشن کے مشیر اور کمپنی لا کمیشن کے صدر سیّد شریف الدین پیرزادہ صاحب اپنی تازہ ترین کتاب ’’ارتقائے پاکستان‘‘ (evolution of pakistan) میں لکھتے ہیں:
’’مولانا مودودی نے ’’ترجمان القرآن‘‘ کے ایک سلسلہ مضامین کے ذریعے جو ۱۹۳۸ء اور ۱۹۳۹ء میں شائع ہوئے، کانگریس کے چہرے سے نقاب اتاری اور مسلمانوں کو متنبہ کیا۔ موصوف نے برصغیر میں مسلمانوں کی تاریخ کا جائزہ لیا، کانگریس کی لادینیت کی قلعی کھولی اور یہ ثابت کیا کہ ہندستان کے مخصوص حالات میں اس کے لیے جمہوریت نا موزوں ہے۔ اس لیے کہ اس میں مسلمانوں کو ایک ووٹ اور ہندوؤںکو چار ووٹ ملیں گے۔
انہوں نے ہندوؤں کے قومی استعمار کی بھی مذمت کی‘ اور اس رائے کا اظہار کیا‘ کہ محض مخلوط انتخاب اور اسمبلیوں میں کچھ زیادہ نمائندگی (weightage) اور ملازمتوں میں ایک شرح کا تعین‘ مسلمان قوم کے سیاسی مسائل کا حل نہیں ہے۔ جو تجویز انہوں نے پیش کی اس میں تین متبادل صورتوںکی نشاندہی کی گئی تھی‘‘۔{ FR 2881 }
ان صورتوں میں آخری صورت تقسیمِ ملک کی تھی۔ یہی وجہ ہے‘ کہ سیّد شریف الدین پیر زادہ صاحب ارتقائے پاکستان کے سلسلہ میں جس نتیجہ پر پہنچے ہیں اس میں اس امر کا اظہار کرتے ہیں‘ کہ :
’’وہ تجاویز اور مشورے جو سر عبد اللہ ہارون، ڈاکٹر لطیف، سر سکندر حیات، ’’ایک پنجابی‘‘، سیّد ظفر الحسن، ڈاکٹر قادری، مولانا مودودی، چودھری خلیق الزماں وغیرہ نے دئیے، وہ ایک معنی میں پاکستان تک پہنچنے والی سڑک کے سنگ ہائے میل ہیں‘‘۔ { FR 2882 }
ہمیں اپنی بات کو ثابت کرنے کے لیے مندرجہ بالا اقتباسات کی ضرورت نہ تھی۔ لیکن صرف ان لوگوں کی سہولت کے لیے جو اس زمانہ کی پوری تاریخ سے واقف نہیں ہیں‘ ہم نے یہ چند تائیدی بیانات بھی شامل کر لیے تھے۔ ان سے اندازہ کیا جا سکتا ہے‘ کہ آزادی ہندکی جدوجہد ’’مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش‘‘ اور ’’مسئلہ قومیّت‘‘ نے کتنا اہم کردار اداکیا ہے۔
(۳)
قیام پاکستان کے لیے مسلم لیگ نے جو جدوجہد کی اس میں مولانا مودودی صاحب نے عملاً جس وجہ سے شرکت نہیں کی وہ مسلم لیگ کے طریق کار سے مولانا کا اختلاف تھا۔ ان کا استدلال یہ تھا کہ:
(الف) اگر ہمارے پیشِ نظر ایک اسلامی ریاست ہے‘ تو ضروری ہے‘ کہ ہم قوم کو اس مقصد کے حصول کے لیے اخلاقی حیثیت سے بھی تیار کریں، صرف سیاسی جنگ اس کے لیے کافی نہیں ہے۔ اس کے لیے علمی، فکری، اخلاقی، تہذیبی، سیاسی، غرض ہر میدان میں کام کرنا ہوگا۔ اس کے بغیر اس مقصد کا حصول مشکل ہے۔
(ب) تحریک کی ہمہ گیر اور اس کے ہر شعبہ اور سطح کی قیادت کے انتخاب میں پوری احتیاط سے کام لینا ہو گا۔ اشتراکیوں، ملحدوں اور بے دینوں، جاگیرداروںاور زمینداروں، سب کو بلا سوچے سمجھے ایک ساتھ جمع کر دینے سے جو بھیڑ جمع ہو جاتی ہے‘ وہ کبھی بھی قوم کی رہنمائی صحیح سمت میں نہیں کر سکتی۔ یہ تو ایک دوسرے کا گلا کاٹنے اور اپنے اپنے مقاصدکے لیے قوم کو استعمال کرنے کی کوشش کریں گے‘ اور نتیجتاً اصل منزل کھوٹی ہو جائے گی۔
(ج) مسلمانوںکی بنیاد ی حیثیت ایک اصولی جماعت اور داعی گروہ کی ہے‘ اور کسی قیمت پر بھی یہ حیثیت متاثر نہیں ہونی چاہیے۔
طریق کار کے اختلاف کو مولانا نے صاف طور پر ظاہر کر دیا تھا، چنانچہ آل انڈیا مسلم لیگ کی مجلس عمل کے ایک خط کے جواب میں مولانا نے لکھا تھا :
’’آپ حضرات ہرگز یہ گمان نہ کریں کہ میں اس کام میں کسی قسم کے اختلافات کی وجہ سے حصہ لینا نہیں چاہتا۔ دراصل میری مجبوری یہ ہے‘ کہ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ حصہ لوں تو کس طرح۔ادھوری تدابیر میرے ذہن کو بالکل اپیل نہیں کرتیں۔ نہ داغ دوزی (patch work) سے ہی مجھ کو کبھی دلچسپی رہی ہے۔ اگر کُلّی تخریب اور کُلّی تعمیر پیشِ نظر ہوتی‘ تو میں بہ دل و جان اس میں ہر خدمت انجام دینے کے لیے تیار تھا۔ میرے لیے یہی مناسب ہے‘ کہ اس باب میں عملاً کوئی خدمت انجام دینے کے بجائے ایک طالب علم کی طرح دیکھتا رہوں‘ کہ سوچنے والے اس جزوی اصلاح و تعمیر کی کیا صورتیں نکالتے ہیں‘ اور کرنے والے اسے عمل میں لاکر کیا نتائج پیدا کرتے ہیں۔ اگر فی الواقع انہوں نے اس طریقہ سے کوئی بہتر نتیجہ نکال دکھایا‘ تو وہ میرے لیے ایک انکشاف ہو گا‘ اور ممکن ہے‘ کہ اس کو دیکھ کر میں مسلکِ کُلّی سے مسلک جزی کی طرف منتقل ہو جاؤ‘‘۔ (ترجمان القرآن، جولائی، اکتوبر ۱۹۴۴ء)
اندیشے صحیح ثابت ہوئے
یہ تھا طریق کار کے بارے میں مولانا کا اختلاف اور اس کی نوعیت۔{ FR 2883 } مولانا کی رائے کے بارے میں دو آراء ہو سکتی ہیں، لیکن مستقبل کا مؤرخ بمشکل ہی اس بات کو نظر انداز کر سکے گا کہ تقسیمِ ملک کے بعد پاکستان میں اسلامی نظام کو قائم کرنے کی راہ میں جو جو مشکلات پیش آئی ہیں‘اور آرہی ہیں‘ اور آزادی کے سولہ سال کے بعد بھی ملک ابھی تک صرف اصولاً ہی ایک اسلامی ریاست ہے،عملاً حقیقی اسلامی ریاست میں تبدیل نہیںہو سکا ہے، بلکہ اسلامی خطوط پر تبدیل کرنے و الوںکو جس طرح جیل، قتل اور پھانسی سے سابقہ پیش آرہا ہے اس کا پیشگی شعور مولانا مودودی صاحب کی تحریرات میں صاف پایا جاتا ہے‘ اور آنے والے واقعات نے ان کے اندیشوں کی تکذیب کرنے کے بجائے توثیق کی ہے۔
(۴)
یہ تھے وہ وجوہ جن کی بناء پر مولانا نے عملاً شرکت نہیں کی۔ لیکن علمی طور پر وہ نظریہ پاکستان کی برابر خدمت کرتے رہے۔ اسلام کے نظامِ حیات کے خدوخال واضح کرتے رہے‘ اور تصوّر پاکستان کی بھی تائید کرتے رہے۔ جب مسلمانوں کے ایک گروہ نے کہا کہ ہندوستان کی تقسیم اور اس کو ٹکڑے ٹکڑے کر دینے کو کیسے گوارا کیا جا سکتا ہے‘ تو مولانا مودودی صاحب نے کہا :
’’مسلمان ہونے کی حیثیت سے میری نگاہ میں اس سوال کی کوئی اہمیت نہیں کہ ہندوستان ایک ملک رہے‘ یا دس ٹکڑوں میں تقسیم ہو جائے۔ تمام روئے زمین ایک ملک ہے۔ انسان نے اس کو ہزاروں حصوں میں تقسیم کر رکھا ہے۔ یہ اب تک کی تقسیم اگر جائز تھی‘ تو آئندہ مزید تقسیم ہو جائے گی‘ تو کیا بگڑ جائے گا۔ اس بت کے ٹوٹنے پر‘ تڑپے وہ جو اسے معبود سمجھتا ہو۔ مجھے تو اگر یہاں ایک مربع میل کا رقبہ بھی ایسا مل جائے‘ جس میں انسان پر خدا کے سوا کسی حاکمیّت نہ ہو تو میں اس کے ایک ذرّہ خاک کو تمام ہندوستان سے قیمتی سمجھوں گا‘‘۔{ FR 2884 }
جس وقت پاکستان کے مطالبہ کو اسرائیل کے مطالبہ کے مثل قرار دیا گیا‘ تو مولانا مودودی صاحب نے اس کی پُر زور تردید کی‘ اور لکھا :
’’میرے نزدیک پاکستان کے مطالبہ پر یہودیوں کے قومی وطن کی تشبیہ چسپاں نہیں ہوتی۔ فلسطین فی الواقع یہودیوں کا قومی وطن نہیں ہے۔ یہودیوں کی اصل پوزیشن یہ نہیں ہے‘ کہ ایک ملک واقعی ان کا قومی وطن ہے‘ اور وہ اسے تسلیم کرانا چاہتے ہیں۔ بلکہ ان کی اصل پوزیشن یہ ہے‘ کہ ایک ملک ان کا قومی وطن نہیں ہے‘ اور ان کا مطالبہ یہ ہے‘ کہ ہم کو دنیا کے مختلف گوشوں سے سمیٹ کر وہاں لابسایا جائے‘ اور اسے بزور ہمارا قومی وطن بنا دیا جائے۔ بخلاف اس کے مطالبہ پاکستان کی بنیاد یہ ہے‘ کہ جس علاقہ میں مسلمانوں کی اکثریت آباد ہے وہ بالفعل مسلمانوںکا قومی وطن ہے۔ مسلمانوں کا کہنا صرف یہ ہے‘ کہ موجودہ جمہوری نظام میں‘ ہندستان کے دوسرے حصوں کے ساتھ لگے رہنے سے ان کے قومی وطن کی سیاسی حیثیت کو جو نقصان پہنچتا ہے اس سے ان کو محفوظ رکھا جائے‘ اور متحدہ ہندستان کی ایک آزاد حکومت کے بجائے ’’ہندو ہندستان’‘‘ اور ’’مسلم ہندستان‘‘ کی دو آزاد حکومتیں قائم ہوں۔ بالفاظِ دیگر مسلمان یہ نہیں کہتے کہ ہمارے لیے ایک قومی وطن بنایا جائے بلکہ وہ یہ کہتے ہیں‘ کہ ہمارا قومی وطن جو بالفعل موجود ہے اس کو اپنی آزاد حکومت الگ قائم کرنے کا حق حاصل ہونا چاہیے۔
یہ چیز وہی ہے‘ جو آج کل دنیا کی ہر قوم چاہتی ہے۔ ہم اصولاً اس بات کے مخالف ہیں‘ کہ دنیا کی کوئی قوم کسی دوسری قوم پر سیاسی و معاشی حیثیت سے مسلط ہو۔ ہمارے نزدیک اصولاً ہر قوم کا حق ہے‘ کہ اس کی سیاسی و معاشی باگیں اس کے اپنے ہاتھوں میں ہوں۔ اس لیے ایک قوم ہونے کی حیثیت سے‘ اگر مسلمان یہ مطالبہ کرتے ہیں‘ تو جس طرح دوسری قوموں کے معاملہ میں یہ مطالبہ صحیح ہے اسی طرح ان کے معاملہ میں بھی صحیح ہے ‘‘۔{ FR 2885 }
ریفرنڈم میںپاکستان کی حمایت
صوبہ سرحد اور سلہٹ کے ریفرنڈم کے موقع پر مولانا مودودی صاحب نے پاکستان کے حق میں ووٹ ڈالنے کا مشورہ دیا اور لوگوںکو اس پر آمادہ کرنے کے لیے فرمایا:
’’اگر میںصوبہ سرحد کا رہنے والا ہوتا تو استصواب رائے میں میرا ووٹ پاکستان کے حق میں پڑتا۔ اس لیے کہ جب ہندستان کی تقسیم ہندو اور مسلم قومیّت کی بنیاد پر ہو رہی ہے‘ تو لامحالہ ہر اس علاقے کو جہاں مسلمان قوم کی اکثریت ہو اس تقسیم میں مسلم قومیّت ہی کے علاقے کے ساتھ شامل ہونا چاہے‘‘۔{ FR 2886 }
اسی موقع پر پاکستان کے آئندہ نظام کے سلسلہ میں مولانا نے فرمایا :
’’وہ نظام اگر فی الواقع اسلامی ہوا‘ جیسا کہ وعدہ کیا جا رہا ہے‘ تو ہم دل و جان سے اس کے حامی ہوں گے،ا ور اگر وہ غیر اسلامی نظام ہوا‘ تو ہم اسے تبدیل کرکے اسلامی اصولوں پر ڈھالنے کی جدوجہد اسی طرح کرتے رہیں گے‘ جس طرح موجودہ نظام میں کر رہے ہیں۔‘‘{ FR 2887 }
۹-۱۰ مئی ۱۹۴۷ء کے کل ہند اجتماع میں ۳ جون ۱۹۴۷ء کی تجویز تقسیم سے تقریباً ایک ماہ قبل، مولانا مودودی نے خطاب عام کے اختتام پر فرمایا:
’’اب یہ بات تقریبا طے شدہ ہے‘ کہ ملک تقسیم ہو جائے گا۔ ایک حصہ مسلمان اکثریت کے سپرد کیا جائے گا‘ اور دوسرا حصہ غیر مسلم اکثریت کے زیرِ اثر ہو گا۔ پہلے حصہ میںہم کوشش کریں گے‘ کہ رائے عامہ کو ہم وار کرکے اس دستور و قانون پر ریاست کی بنیاد رکھیں‘ جسے ہم مسلمان خدائی دستور و قانون مانتے ہیں۔ غیر مسلم حضرات وہاں ہماری مخالفت کرنے کے بجائے ہمیں کام کرنے کا موقع دیں‘ اور دیکھیں کہ ایک بے دین قومی جمہوریت کے مقابلہ میں‘ یہ خدا پرستانہ خلافت، جو محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی لائی ہوئی ہدایت پر قائم ہو گی، کہاں تک خود باشندگانِ پاکستان کے لیے اور کہاں تک تمام دنیا کے لیے رحمت و برکت ثابت ہوتی ہے‘‘ { FR 2888 }
یہ تھے وہ جذبات جن کا اظہار مولانا مودودی صاحب نے تقسیم سے قبل کیا اور اس طرح علمی حیثیت سے ایک محاذ کو مضبوط تر کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ جن مقامات پر علمی اور عملی تعاون ہو سکتا تھا اس سے کبھی گریز نہیں کیا۔
اسلامی تصوّر قومیّت پر ان کے مضامین مسلم لیگ کے حلقوںمیںبہت بڑے پیمانے پر استعمال ہوتے رہے‘ اور سب سے بڑھ کر جب یو پی مسلم لیگ نے اسلامی نظام مملکت کا خاکہ تیار کرنے کے لیے علما کی ایک کمیٹی بنائی‘ تو مولانا مودودی صاحب نے اس کی رکنیت قبول کی‘ اور کام میں پوری دلچسپی لی۔ حال میں وہ مسوّدہ چھپا ہے‘ جو اس کمیٹی سے وابستہ ایک معاون تحقیق مولانا محمد اسحاق سندیلوی نے بطور ابتدائی خاکہ (working paper) تیار کیا تھا۔ اس کے پیش لفظ میں مولانا عبد الماجد دریا بادی صاحب تحریر فرماتے ہیں۔
’’غالباً ۱۹۴۰ء یا شاید اس سے بھی کچھ قبل جب مسلم لیگ کا طوطی ہندستان میں بول رہا تھا، اربابِ لیگ کو خیال پیدا ہوا کہ جس اسلامی حکومت (پاکستان) کے قیام کا مطالبہ شدّ و مد سے کیا جا رہا ہے‘ خود اس کا نظام نامہ یا قانونِ اساسی بھی تو خالص اسلامی بنانا چاہیے۔ اس غرض سے یو پی کی صوبہ مسلم لیگ نے ایک چھوٹی سی مجلس ایسے ارکان کی مقرر کر دی جو اس کے خیال میں شریعت کے ماہرین تھے‘ کہ یہ مجلس ایسا نظام نامہ مرتب کرکے لیگ کے سامنے پیش کرے۔ اس مجلس نظام اسلامی کے چار ممبران کے نام تو اچھی طرح یاد ہیں:
(۱) مولانا سیّد سلیمان ندوی
(۲) مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودی
(۳) مولانا آزاد سبحانی
(۴) عبد الماجد دریا بادی { FR 2889 }
اس سلسلہ میں قمر الدین خاں صاحب ریڈر سنٹرل انسٹیٹیوٹ آف اسلامک ریسرچ کے ایک حالیہ مضمون کا اقتباس بھی دلچسپی سے خالی نہ ہو گا۔ موصوف نے لکھا ہے‘ کہ وہ مولانا مودودی صاحب کے ایماء پر ۱۹۴۱ء میں قائد اعظم سے ملے اور
’’راجہ آف محمود آباد کی مدد سے گلِ رعنا (دہلی) میں ہماری ملاقات کا انتظام کیا گیا۔ قائد اعظم پینتالیس منٹ تک بڑے صبر سے میری بات سنتے رہے‘ اور پھر کہا کہ مولانا (مودودی) کی خدمات کو وہ نہایت پسندیدگی کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ لیکن برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک آزاد ریاست کا حصول ان کی زندگی اور کردار کی تطہیر سے زیادہ فوری اہمیت کا حامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ جماعت اور لیگ میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ جماعت اگر ایک اعلیٰ مقصد کے لیے کام کر رہی ہے‘ تو لیگ اس فوری حل طلب مسئلے کی طرف متوجہ ہے‘ جسے اگر حل نہ کیا جا سکا تو جماعت کا کام مکمل نہ ہوسکے گا‘‘۔{ FR 2890 }
یہ ہے تحریک پاکستان کے بارے میں مولانا مودودی صاحب کی اصل پوزیشن، افسوس ہے‘ کہ کچھ نا عاقبت اندیش حضرات نے اصل حقائق کو جاننے اور سمجھنے کے بجائے اپنے مخصوص مفادات کی خاطر ان کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کو اپنا وطیرہ بنا لیا ہے۔ توقع ہے‘ کہ ہماری مندرجہ بالا گزارشات اصل حقیقت کو واضح کرنے میں مدد دیں گی۔
(۵)
اب آخر میں ہم چند معروضات اس کتاب کے بارے میں بھی پیش کرتے ہیں :
اس کتاب کی تاریخی اہمیت کے بارے میں دو آراء ممکن نہیں۔ لیکن یہ کتاب ایک عرصہ سے ناپید تھی‘ اور تحریک آزادی کے طلبا اور دوسرے عام لوگوں کو اسے حاصل کرنے میں سخت ترین دشواریاں پیش آرہی تھیں۔ ایک عرصہ سے اس بات کا مطالبہ کیا جارہا تھا‘ کہ اسے دوبارہ شائع کیا جائے‘ تاکہ ہمارے ماضی کا یہ آئینہ لوگوں کو آنکھوں کے سامنے رہے۔ اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے ہم یہ کتاب دوبارہ شائع کر رہے ہیں۔
پھر تھوڑے دنوں سے مولانا مودودی صاحب پر بے بنیاد الزامات لگانے کی ایک ناپاک مہم جاری ہے۔ ان کی تحریرات کو توڑ مروڑ کر اور سیاق و سباق سے الگ کرکے ان کی طرف ایسی ایسی باتیں منسوب کی جا رہی ہیں‘ جن میں صداقت کا کوئی عنصر نہیں۔ ان تمام اتہامات کا بہترین جواب یہ کتاب ہے۔ ہم ا صل مضامین کو پبلک کے سامنے پیش کر رہے ہیں‘ تاکہ اسے معلوم ہو جائے‘ کہ حق پر کون ہے‘ اور جھوٹی الزام تراشیاں کون کر رہا ہے۔
ہمارا اصل پروگرام تو یہ تھا‘ کہ اشاعت نو کے وقت اس کتاب کو از سر نو ایڈٹ کریں گے‘ اور وہ چیزیں اس میں سے حذف کر دیں گے جن کا تعلق محض وقتی چیزوں سے تھا۔ لیکن الزامات کی حالیہ مہم کی وجہ سے ہم نے یہ تبدیلی نہیں کی ہے‘ اور تمام مضامین کو اسی طرح پیش کیا جا رہا ہے‘ جس طرح وہ اولاً لکھے گئے تھے۔ البتہ اگر کسی چیز کی وضاحت کی ضرورت محسوس کی گئی ہے‘ تو اس پر ضروری حواشی کا اضافہ کر دیا ہے۔
مرتّب نے صرف ان جملوں کو حذف کیا ہے‘ یا ان میں کچھ تبدیلی کی ہے‘ جن کا تعلق اصل مضمون سے نہیںبلکہ کتاب کی موجودہ شکل سے ہے۔ اس پہلو سے چند مقامات پر ایڈٹینگ کی گئی ہے۔ اسی طرح حصوں کی تقسیم اور مضامین کی ترتیب بھی جدید ہے۔ اس کتاب میں ’’مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش‘‘ حصہ اوّل اور حصہ دوم کے سارے مضامین اور ’’مسئلہ قومیّت‘‘ میں سے تین مضمون شامل کیے گئے ہیں۔ اسی طرح تحریک ِآزادی ہند کے بارے میں مولانا مودودی صاحب کے بیشتر مضامین اسی ایک جلد میں آگئے ہیں۔
کتاب کا نام بھی ہم نے نیا رکھا ہے‘ اور اس کی تین وجوہ ہیں:
اولاً : مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش‘‘ کا عنوان اب ایک حد تک غیر موزوں ہو گیا ہے۔ اس لیے کہ اس کے ابتدائی نام میں ’’موجودہ‘‘ سے مراد ۱۹۳۷ء اور ۱۹۳۹ء کے حالات تھے نہ کہ آج کے۔ اس بناء پر ہم نے ضروری سمجھا کہ اس نام کے بجائے دوسرا نام رکھیں تاکہ کسی کو غلط فہمی نہ پیدا ہو۔
ثانیاً موجودہ مجموعہ میں ’’مسئلہ قومیّت‘‘ کے تین مضامین بھی شامل ہیں‘ جو ’’مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش‘‘ میں نہ تھے بلکہ الگ رسالہ کی حیثیت سے چھپے تھے۔
ثالثاً اب کتاب کی مستقل حیثیت کو جس نام سے زیادہ خوبی کے ساتھ ظاہر کیا جا سکتا ہے‘ اور جو اس کے مندرجات کی بہترین طریقے پر نشاندہی کر سکتا ہے، وہ وہی نام ہے‘ جو ہم نے اب دیا ہے، یعنی ’’تحریک ِآزادی ہند اور مسلمان‘‘ اس طرح یہ نئی کتاب ہماری تاریخی جدوجہد کے اس باب کو پیش کرتی ہے‘ اور اس برصغیر کی تاریخ کا طالب علم اس سے کبھی مستغنی نہیں ہو سکتا۔
ہمیں توقع ہے‘ کہ یہ کتاب ایک طرف بہت سی غلط فہمیوں کو دور کرے گی‘ اور دوسری طرف طلبائے تاریخ کے لیے بڑا قیمتی اور مفید مواد پیش کرے گی۔
۱۴ شعبان ۱۳۸۳ھ (دسمبر ۱۹۶۳ء) خورشید احمد
۱- نیو کوئنس روڈ، کراچی
خ خ خ