مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کے مقدمہ میں یہ بات پیش نظر رکھنی ضروری ہے کہ ان پر ضابطہ مارشل لا نمبر۸ بشمول تعزیرات پاکستان کی دفعات نمبر۱۵۳(رعایا کے درمیان منافرت پھیلانا اور نمبر۱۲۴/الف(حکومت کے خلاف بغاوت پر ابھارنا) کے تحت مقدمہ چلایا گیا …یہ وہی دفعات ہیں جن کے تحت حال ہی میں کراچی کے ایک انگریزی روزنامہ ’’ایوننگ ٹائمز ‘‘ کے ایڈیٹر مسٹر زیڈ ۔ اے سلہری پر حکومت کی طرف سے مقدمہ چلایا گیاتھا مگر بالآخر جسٹس لاری نے اپنے تاریخی فیصلہ میں ان کو دونوں الزامات سے نہ صرف بری قرار دیا بلکہ آزاد مملکت پاکستان کے مخصوص حالات میں ان دفعات کے اطلاق اور بغاوت کی تعریف پر سیرحاصل بحث بھی کی ہے۔ اس سلسلہ میں پہلی عجیب بات یہ ہے کہ مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کو گرفتاری کے وقت سے مقدمہ چلائے جانے سے دو دن پہلے تک جرم کی نوعیت سے آگاہ نہیں کیاگیا۔ یہی نہیں بلکہ گرفتاری کی تاریخ ۲۸مارچ سے لے کر ۳ مئی ۱۹۵۳ء تک کی مدت میں ان سے قلعہ لاہور میں ان دفعات کی خلاف ورزی کے جرم کی تحقیق و تفتیش کے بجائے، جماعت اسلامی کے ذرائع آمدنی ، بیت المال کے حسابات اور کسی فرضی خفیہ امداد کے بارے میں جرح و سوالات ہوتے رہے ۔ اگر ان کا جرم وہی تھاجس پر حراست کے ۳۷دن بعد مقدمہ چلایا گیاتو کیا وجہ تھی کہ اس پورے عرصہ میں نہ پبلک کو اور نہ خود ملزم ہی کو ان کے جرم سے واقف کیا گیا۔ اس سے تو مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کے اس بیان کی تصدیق ہوتی ہے کہ دراصل نیت تو ان پر کسی اور نوعیت کا الزام لگانے کی تھی مگر جب سرتوڑ کوششوں کے باوجود تفتیش کنندگان کو کہیں سے کچھ مواد ہاتھ نہ لگا تو پھر یہ تلاش شروع ہوئی کہ آخرکار کون سا الزام لگایا جائے۔
اس دوران میں ۴ مئی ۱۹۵۳ء کو اخبارات میں یہ خبر شائع ہوئی کہ مسٹر غلام محمد گورنر جنرل پاکستان ۳ مئی کو اچانک لاہور پہنچ گئے ہیں …چونکہ ناظم الدین وزارت کی برخواستگی کی وجہ سے عام خیال کے مطابق گورنر جنرل کی پوزیشن محض آئینی سربراہی کی نہیں رہی تھی بلکہ وہ براہ راست ملک کے روز مرہ کے معاملات میں گہری دلچسپی لیتے نظر آ رہے تھے ، اس لیے قدرتی طور پر لوگ لاہور میں مارشل لا کے اختتام کی خوش خبری سننے کے منتظر تھے ۔ مگر خبر یہ ملی کہ مولانا ابوالاعلیٰ مودودی رحمۃ اللہ علیہ امیرجماعت اسلامی پاکستان پر ۵ مئی ۱۹۵۳ء سے مارشل لا ہی کے تحت فوجی عدالت میں مقدمہ چلایا جائے گا۔