ہم تسلیم کرتے ہیں کہ زمانے کے حالات بدل چکے ہیں۔ دنیا کے تمدنی اور معاشی احوال میں بہت بڑا انقلاب رونما ہوا ہے اور اس انقلاب نے مالی اور تجارتی معاملات کی صورت کچھ سے کچھ کر دی ہے۔ ایسے حالات میں وہ اجتہادی قوانین جو اسلام کے ابتدائی دور میں حجاز، عراق، شام اور مصر کے معاشی و تمدنی حالات کو ملحوظ رکھ کر مدوّن کیے گئے تھے، مسلمانوں کی موجودہ ضرورتوں کے لیے کافی نہیں ہیں۔ فقہائے کرام نے اس دور میں احکام شریعت کی جو تعبیر کی تھی وہ معاملات کی ان صورتوں کے لیے تھی جو ان کے گرد و پیش کی دنیا میں پائی جاتی تھیں مگر اب ان میں سے بہت سی صورتیں باقی نہیں رہی ہیں اور بہت سی دوسری صورتیں ایسی پیدا ہوگئی ہیں جو اس وقت موجود نہ تھیں۔ اس لیے بیع و شرا اور مالیات و معاشیات کے متعلق جو قوانین ہماری فقہ کی قدیم کتابوں میں پائے جاتے ہیں ان پر بہت کچھ اضافے کی اب یقینا ضرورت ہے۔ پس اختلاف اس امر میں نہیں ہے کہ معاشی اور مالی معاملات کے لیے قانونِ اسلامی کی تدوین جدید ہونی چاہیے یا نہیں بلکہ اس امر میں ہے کہ تدوین کس طرز پر ہو؟
تجدید سے پہلے تفکر کی ضرورت
ہمارے جدت پسند حضرات نے جو طریقہ اختیار کیا ہے اگر اس کا اتباع کیا جائے اور اُن کی اَہوا کے مطابق احکام کی تدوین کی جائے تو یہ دراصل اسلامی شریعت کے احکام کی تدوین نہ ہوگی بلکہ ان کی تحریف ہوگی اور اس کے معنی یہ ہوں گے کہ ہم درحقیقت اپنی معاشی زندگی میں اسلام سے مرتد ہو رہے ہیں۔ اس لیے کہ وہ طریقہ جس کی طرف یہ حضرات ہماری رہنمائی کر رہے ہیں اپنے مقاصد اور نظریات اور اصول و مبادی میں اسلامی طریقے سے کلی منافات رکھتا ہے۔ ان کا مقصود محض کسب مال ہے اور اسلام کا مقصود اکل حلال۔ ان کا منتہائے آمال(آرزو‘ خواہش) یہ ہے کہ انسان لکھ پتی اور کروڑ پتی بنے، عام اس سے کہ جائز ذرائع سے بنے یا ناجائز ذرائع سے۔ مگر اسلام یہ چاہتا ہے کہ انسان جو کچھ کمائے جائز طریقے سے اور دوسروں کی حق تلفی کیے بغیر کمائے، خواہ لکھ پتی بن سکے یا نہ بن سکے۔ یہ لوگ کامیاب اس کو سمجھتے ہیں جس نے دولت حاصل کی۔ زیادہ سے زیادہ معاشی وسائل پر قابو پایا اور ان کے ذریعے سے آسائش، عزت ، طاقت اور نفوذ و اثر کا مالک ہوا۔ خواہ یہ کامیابی اس نے کتنی ہی خود غرضی، ظلم، شقاوت، جھوٹ، فریب اور بے حیائی سے حاصل کی ہو، اس کے لیے اپنے دوسرے ابنائے نوع کے حقوق پر کتنے ہی ڈاکے ڈالے ہوں اور اپنے ذاتی مفاد کے لیے دنیا میں شر و فساد، بداخلاقی اور فواحش پھیلانے اور نوعِ انسانی کو مادی، اخلاقی اور روحانی ہلاکت کی طرف دھکیلنے میں ذرّہ برابر دریغ نہ کیا ہو لیکن اسلام کی نگاہ میں کامیاب وہ ہے جس نے صداقت، امانت، نیک نیتی اور دوسروں کے حقوق و مفاد کی پوری نگہداشت کے ساتھ کسب معاش کی جدوجہد کی۔
اگر اس طرح کی جدوجہد میں کروڑ پتی بن گیا تو یہ اللہ کا انعام ہے‘ لیکن اگر اس کو تمام عمر صرف قُوت لایموت ہی پر زندگی بسر کرنی پڑی ہو اور اس کو پہننے کے لیے پیوند لگے کپڑوں اور رہنے کے لیے ایک ٹوٹی ہوئی جھونپڑی سے زیادہ کچھ نصیب نہ ہوا ہو تب بھی وہ ناکام نہیں۔ نقطۂ نظر کا یہ اختلاف ان لوگوں کو اسلام کے بالکل مخالف ایک دوسرے راستے کی طرف لے جاتا ہے جو خالص سرمایہ داری کا راستہ ہے۔ اس راستے پر چلنے کے لیے ان کو جن آسانیوں اور رخصتوں اور اباحتوں کی ضرورت ہے وہ اسلام میں کسی طرح نہیں مل سکتیں۔ اسلام کے اصول اور احکام کو کھینچ تان کر خواہ کتنا ہی پھیلا دیجیے مگر یہ کیوں کر ممکن ہے کہ جس مقصد کے لیے یہ اصول اور احکام وضع ہی نہیں کیے گئے ہیں ان کی تحصیل کے لیے ان سے کوئی ضابطہ اور دستور العمل اخذ کیا جا سکے۔ پس جو شخص اس راستے پر جانا چاہتا ہو اس کے لیے تو بہتر یہی ہے کہ وہ دنیا کو اور خود اپنے نفس کو دھوکہ دینا چھوڑ دے اور اچھی طرح سمجھ لے کہ سرمایہ داری کے راستے پر چلنے کے لیے اس کو اسلام کے بجائے صرف مغربی یورپ اور امریکہ ہی کے معاشی اور مالی اصول و احکام کا اتباع کرنا پڑے گا۔
رہے وہ لوگ جو مسلمان ہیں اور مسلمان رہنا چاہتے ہیں، قرآن اور طریق محمدیa پر ایمان رکھتے ہیں اور اپنی عملی زندگی میں اسی کا اتباع کرنا ضروری سمجھتے ہیں تو ان کو ایک جدید ضابطۂ احکام کی ضرورت دراصل اس لیے نہیں ہے کہ وہ نظام سرمایہ داری کے ادارات سے فائدہ اٹھا سکیں، یا ان کے لیے قانون اسلامی میں ایسی سہولتیں پیدا کی جائیں جن سے وہ کروڑ پتی تاجر، ساہو کار اور کارخانہ دار بن سکیں بلکہ ان کو ایسے ایک ضابطے کی ضرورت صرف اس لیے ہے کہ وہ جدید زمانے کے معاشی حالات اور مالی و تجارتی معاملات میں اپنے طرز عمل کو اسلام کے صحیح اصولوں پر ڈھال سکیں اور اپنے لین دین میں ان طریقوں سے بچ سکیں جو خدا کے نزدیک پسندیدہ نہیں ہیں، اور جہاں دوسری قوموں کے ساتھ معاملات کرنے میں ان کو حقیقی مجبوریاں پیش آئیں۔ وہاں ان رخصتوں سے فائدہ اٹھا سکیں جو اسلامی شریعت کے دائرے میں ایسے حالات کے لیے نکل سکتی ہیں اس غرض کے لیے قانون کی تدوین جدید بلاشبہ ضروری ہے اور علمائے اسلام کا فرض ہے کہ اس ضرورت کو پورا کرنے کی سعی بلیغ کریں۔
اسلامی قانون میں تجدید کی ضرورت
اسلامی قانون کوئی ساکن اور منجمد (static) قانون نہیں ہے کہ ایک خاص زمانے اور خاص حالات کے لیے اس کو جس صورت پر مدوّن کیا گیا ہو اسی صورت پر وہ ہمیشہ قائم رہے اور زمانے اور حالات اور مقامات کے بدل جانے پر بھی اس صورت میں کوئی تغیر نہ کیا جا سکے۔ جو لوگ اس قانون کو ایسا سمجھتے ہیں وہ غلطی پر ہیں بلکہ ہم یہ کہیں گے کہ وہ اسلامی قانون کی روح ہی کو نہیں سمجھتے ہیں۔
اسلام میں دراصل شریعت کی بنیاد حکمت اور عدل پر رکھی گئی ہے۔ تشریع (قانون سازی) کا اصل مقصد بندگانِ خدا کے معاملات اور تعلقات کی تنظیم اس طور پر کرنا ہے کہ ان کے درمیان مزاحمت اور مقابلے (competition) کے بجائے تعاون اور ہمدردانہ اشتراک عمل ہو، ایک دوسرے کے متعلق ان کے فرائض اور حقوق ٹھیک ٹھیک انصاف اور توازن کے ساتھ مقرر کر دیے جائیں اور اجتماعی زندگی میں ہر شخص کو نہ صرف اپنی استعداد کے مطابق ترقی کرنے کے پورے مواقع ملیں بلکہ وہ دوسروں کی شخصیت کے نشوونما میں بھی مددگار ہو یا کم از کم ان کی ترقی میں مانع و مزاحم بن کر موجب فساد نہ بن جائے۔
اس غرض کے لیے اللہ تعالیٰ نے فطرتِ انسانی اور حقائق اشیا کے اس علم کی بنا پر جو اس کے سوا کسی کو حاصل نہیں ہے زندگی کے ہر شعبے میں چند ہدایات کو عملی زندگی میں نافذ کرکے ہمارے سامنے ایک نمونہ پیش کر دیا ہے۔ یہ ہدایات اگرچہ ایک خاص زمانے اور خاص حالات میں دی گئی تھیں اور ان کو ایک خاص سوسائٹی کے اندر نافذ کرایا گیا تھا، لیکن ان کے الفاظ سے اور ان طریقوں سے جو رسول اللہ a نے ان کو عملی جامہ پہنانے میں اختیار فرمائے تھے، قانون کے چند ایسے وسیع اور ہمہ گیر اصول نکلتے ہیں جو ہر زمانے اور ہر حالت میں انسانی سوسائٹی کی عادلانہ تنظیم کے لیے یکساں مفید اور قابل عمل ہیں۔
اسلام میں جو چیز اٹل اور ناقابل تغیر و تبدل ہے وہ یہی اصول ہیں۔ اب یہ ہر زمانے کے مجتہدین کا کام ہے کہ عملی زندگی میں جیسے جیسے حالات اور حوادث پیش آتے جائیں ان کے لیے شریعت کے اصولوں سے احکام نکالتے چلے جائیں اور معاملات میں ان کو اس طور پر نافذ کریں کہ شارع کا اصل مقصود پورا ہو۔ شریعت کے اصول جس طرح غیر متبدل ہیں اس طرح وہ قوانین غیر متبدل نہیں ہیں جن کو انسانوں نے ان اصولوں سے اخذ کیا ہے، کیونکہ وہ اصول خدا نے بنائے ہیں اور یہ قوانین انسانوں نے مرتب کیے ہیں ، وہ تمام از منہ و امکنہ اور احوال و حوادث کے لیے ہیں، اور یہ خاص حالات اور خاص حوادث کے لیے۔
تجدید کے لیے چند ضروری شرطیں
پس اسلام میں اس امر کی پوری وسعت رکھی گئی ہے کہ تغیر احوال اور خصوصیات حوادث کے لحاظ سے احکام میں اصول شرع کے تحت تغیر کیا جا سکے اور جیسی جیسی ضرورتیں پیش آتی جائیں ان کو پورا کرنے کے لیے قوانین مرتب کیے جا سکیں۔ اس معاملے میں ہر زمانے اور ہر ملک کے مجتہدین کو اپنے زمانی اور مکانی حالات کے لحاظ سے استنباط احکام اور تخریج مسائل کے پورے اختیارات حاصل ہیں اور ایسا ہرگز نہیں ہے کہ کسی خاص دور کے اہل علم کو تمام زمانوں اور تمام قوموں کے لیے وضع قانون کا چارٹر دے کر دوسروں کے اختیارات کو سلب کر لیا گیا ہو لیکن اس کے معنی یہ بھی نہیں ہیں کہ ہر شخص کو اپنے منشا اور اپنی اہوا کے مطابق احکام کو بدل ڈالنے اور اصول کو توڑ موڑ کر ان کی الٹی سیدھی تاویلیں کرنے اور قوانین کو شارع کے اصل مقصد سے پھیر دینے کی آزادی حاصل ہو۔ اس کے لیے بھی ایک ضابطہ ہے اور وہ چند شرائط پر مشتمل ہے۔
پہلی شرط ] مزاجِ شریعت کو سمجھنا[
فروعی قوانین مدوّ ن کرنے کے لیے سب سے پہلے جس چیز کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ مزاج شریعت کو اچھی طرح سمجھ لیا جائے۔ یہ بات صرف قرآن مجید کی تعلیم اور نبیa کی سیرت میں تدبر کرنے ہی سے حاصل ہو سکتی{ FR 2244 } ہے۔ ان دونوں چیزوں پر جس شخص کی نظر وسیع اور عمیق ہوگی وہ شریعت کا مزاج شناس ہو جائے گا اور ہر موقع پر اس کی بصیرت اس کو بتا دے گی کہ مختلف طریقوں میں سے کون سا طریقہ اس شریعت کے مزاج سے مناسب رکھتا ہے، اور کس طریقے کو اختیار کرنے سے اس کے مزاج میں بے اعتدالی پیدا ہو جائے گی۔ اس بصیرت کے ساتھ احکام میں جو تغیر و تبدل کیا جائے گا وہ نہ صرف مناسب اور معتدل ہوگا بلکہ اپنے محل خاص میں شارع کے اصل مقصد کو پورا کرنے کے لیے وہ اتنا ہی بجا ہوگا جتنا خود شارع کا حکم ہوتا۔
اس کی مثال میں بہت سے واقعات پیش کیے جا سکتے ہیں۔ مثلاً حضرت عمرؓ کا یہ حکم کہ دوران جنگ میں کسی مسلمان پر حد نہ جاری کی جائے،{ FR 2391 } اور جنگ قادسیہ میں حضرت سعدؓ بن ابی وقاص کا ابومحجن ثقفیؓ کو شربِ خمر پر معاف کر دینا{ FR 2392 } اور حضرت عمرؓ کا یہ فیصلہ کہ قحط کے زمانے میں کسی سارق کا ہاتھ نہ کاٹا جائے۔{ FR 2393 } یہ امور اگرچہ بظاہر شارع کے صریح احکام کے خلاف معلوم ہوتے ہیں لیکن جو شخص شریعت کا مزاج داں ہے وہ جانتا ہے کہ ایسے خاص حالات میں حکم عام کے امتثال کو چھوڑ دینا مقصودِ شارع کے عین مطابق ہے۔ اسی قبیل سے وہ واقعہ ہے جو حاطبؓ بن ابی بلتعہ کے غلاموں کے ساتھ پیش آیا۔ قبیلہ مزینہ کے ایک شخص نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے شکایت کی کہ حاطب کے غلاموں نے اس کا اونٹ چرا لیا ہے۔ حضرت عمرؓ نے پہلے تو ان کے ہاتھ کاٹے جانے کا حکم دے دیا۔ پھر فوراً ہی آپ کو تنبہ ہوا اور آپ نے فرمایا کہ تم نے ان غریبوں سے کام لیا مگر ان کو بھوکا مار دیا اور اس حال کو پہنچایا کہ اگر ان میں سے کوئی شخص حرام چیز کھا لے تو اس کے لیے جائز ہو جائے۔ یہ کہہ کر آپ نے ان غلاموں کو معاف کر دیا اور ان کے مالک سے اونٹ والے کو تاوان دلوایا۔{ FR 2394 } اسی طرح تطلیقات ثلاثہ کے مسئلے میں حضرت عمرؓ نے جو حکم صادر فرمایا وہ بھی عہد رسالت کے عمل درآمد سے مختلف تھا۔{ FR 2395 } مگر چونکہ احکام میں یہ تمام تغیرات شریعت کے مزاج کو سمجھ کر کیے گئے تھے اس لیے ان کو کوئی نامناسب نہیں کہہ سکتا۔ بخلاف اس کے جو تغیر اس فہم اور بصیرت کے بغیر کیا جاتا ہے وہ مزاج شرع میں بے اعتدالی پیدا کر دیتا ہے اور باعث فساد ہو جاتا ہے۔
دوسری شرط] حکم کی حکمت اور مصلحت کو سمجھنا[
مزاج شریعت کو سمجھنے کے بعد دوسری اہم شرط یہ ہے کہ زندگی کے جس شعبے میں قانون بنانے کی ضرورت ہو اس کے متعلق شارع کے جملہ احکام پر نظر ڈالی جائے اور ان میں غوروفکر کرکے یہ معلوم کیا جائے کہ ان سے شارع کا مقصد کیا ہے۔ شارع کس نقشے پر اس شعبے کی تنظیم کرنا چاہتا ہے، اسلامی زندگی کی وسیع تر اسکیم میں اس شعبہ خاص کا کیا مقام ہے اور اس مقام کی مناسبت سے اس شعبے میں شارع نے کیا حکمت عملی اختیار کی ہے۔ اس چیز کو سمجھے بغیر جو قانون بنایا جائے گا، یا پچھلے قانون میں جو حذف و اضافہ کیا جائے گا، وہ مقصود شارع کے مطابق نہ ہوگا اور اس سے قانون کا رخ اپنے مرکز سے منحرف ہو جائے گا۔
قانون اسلامی میں ظواہر احکام کی اہمیت اتنی نہیں ہے جتنی مقاصد احکام کی ہے۔ فقیہ کا اصل کام یہی ہے کہ شارع کے مقصود اور اس کی حکمت و مصلحت پر نظر رکھے۔ بعض خاص مواقع ایسے آتے ہیں جن میں اگر ظواہر احکام پر (جو عام حالات کو مدنظر رکھ کر دیے گئے تھے) عمل کیا جائے تو اصل مقصد فوت ہو جائے۔ ایسے وقت میں ظاہر کو چھوڑ کر اس طریق پر عمل کرنا ضروری ہے جس سے شارع کا مقصد پورا ہوتا ہو۔
قرآن مجید میں امر بالمعروف ونہی عن المنکر کی جیسی کچھ تاکید کی گئی ہے معلوم ہے‘ نبیa نے بھی اس پر بہت زور دیا ہے مگر اس کے باوجود آپ نے ظالم و جابر امرا کے مقابلے میں خروج سے منع فرما دیا کیونکہ شارع کا اصل مقصد تو فساد کو صلاح سے بدلنا ہے۔ جب کسی فعل سے اور زیادہ فساد پیدا ہونے کا اندیشہ ہو اور صلاح کی اُمید نہ ہو تو اس سے احتراز بہتر ہے۔
علامہ ابن تیمیہؒ کے حالات میں لکھا ہے کہ فتنہ تاتار کے زمانے میں ایک گروہ پر ان کا گزر ہوا جو شراب و کباب میں مشغول تھا۔ علامہ کے ساتھیوں نے ان لوگوں کو شراب سے منع کرنا چاہا مگر علامہ نے ان کو روک دیا اور فرمایا کہ اللہ نے شراب کو فتنہ و فساد کا دروازہ بند کرنے کے لیے حرام کیا ہے اور یہاں یہ حال ہے کہ شراب ان ظالموں کو ایک بڑے فتنے یعنی قتل نفوس اور نہب اموال سے روکے ہوئے ہے۔ لہٰذا ایسی حالت میں ان کو شراب سے روکنا مقصود شارع کے خلاف ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ حوادث کی خصوصیات کے لحاظ سے احکام میں تغیر کیا جا سکتا ہے مگر تغیر ایسا ہونا چاہیے جس سے شارع کا اصل مقصد پورا ہو نہ کہ الٹا فوت ہو جائے۔
اسی طرح بعض احکام ایسے ہیں جو خاص حالات کی رعایت سے خاص الفاظ میں دیے گئے تھے۔ اب فقیہ کا کام یہ نہیں ہے کہ تغیر احوال کے باوجود انھی الفاظ کی پابندی کرے بلکہ اس کو ان الفاظ سے شارع کے اصل مقصد کو سمجھنا چاہیے اور اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے حالات کے لحاظ سے مناسب احکام وضع کرنے چاہییں۔ مثلاً نبیa نے صدقہ فطر میں ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو، یا ایک صاع کشمش دینے کا حکم فرمایا تھا۔{ FR 2396 } اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ اس وقت مدینہ میں جو صاع رائج تھا اور یہ اجناس جن کا حضورa نے ذکر فرمایا یہی بعینہٖ منصوص ہیں۔ شارع کا اصل مقصد صرف یہ ہے کہ عید کے روز ہر مستطیع شخص اتنا صدقہ دے کہ اس کا ایک غیر مستطیع بھائی اس صدقے میں اپنے بال بچوں کے ساتھ کم از کم عید کا زمانہ خوشی کے ساتھ گزار سکے۔ اس مقصد کو کسی دوسری صورت سے بھی پورا کیا جاسکتا ہے جو شارع کی تجویز کردہ صورت سے اقرب ہو۔
تیسری شرط] قانون سازی کے اُصولوں کو سمجھنا[
پھر یہ بھی ضروری ہے کہ شارع کے اصول تشریع اور طرزِ قانون سازی کو خوب سمجھ لیا جائے تاکہ موقع و محل کے لحاظ سے احکام وضع کرنے میں انھی اصولوں کی پیروی اور اسی طرز کی تقلید کی جا سکے۔ یہ چیز اس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتی جب تک کہ انسان مجموعی طور پر شریعت کی ساخت اور پھر فرداً فرداً اس کے احکام کی خصوصیات پر غور نہ کر لے۔ شارع نے کس طرح احکام میں عدل اور توازن قائم کیا ہے۔ کس کس طرح اس نے انسانی فطرت کی رعایت کی ہے۔ دفع مفاسد اور جلب مصالح کے لیے اس نے کیا طریقے اختیار کیے ہیں، کس ڈھنگ پر وہ انسانی معاملات کی تنظیم اور ان میں انضباط پیدا کرتا ہے، کس طریقے سے وہ انسان کو اپنے بلند مقاصد کی طرف لے جاتا ہے اور پھر ساتھ ساتھ اس کی فطری کمزوریوں کو ملحوظ رکھ کر اس کے راستے میں مناسب سہولتیں بھی پیدا کرتا ہے، یہ سب امور تفکر و تدبر کے محتاج ہیں اور ان کے لیے نصوص قرآنی کی لفظی و معنوی دلالتوں اور نبیa کے افعال و اقوال کی حکمتوں پر غور کرنا ضروری ہے۔ جو شخص اس علم اور تفقہ سے بہرہ ور ہو وہ موقع و محل کے لحاظ سے احکام میں جزوی تغیر و تبدل بھی کر سکتا ہے اور جن معاملات کے حق میں نصوص موجود نہیں ان کے لیے نئے احکام بھی وضع کر سکتا ہے کیونکہ ایسا شخص اجتہاد میں جو طریقہ اختیار کرے گا وہ اسلام کے اصول تشریع سے منحرف نہ ہوگا۔
مثال کے طور پر قرآن مجید میں صرف اہل کتاب سے جزیہ لینے کا حکم ہے۔ مگر اجتہاد سے کام لے کر صحابہ نے اس حکم کو عجم کے مجوسیوں، ہندوستان کے بت پرستوں اور افریقہ کے بربری باشندوں پر بھی وسیع کر دیا۔ اسی طرح خلفائے راشدین کے عہد میں جب ممالک فتح ہوئے تو غیر قوموں کے ساتھ بکثرت ایسے معاملات پیش آئے جن کے متعلق کتاب و سنت میں صریح احکام موجود نہ تھے۔ صحابہ کرام نے ان کے لیے خود ہی قوانین مدوّن کیے اور وہ اسلامی شریعت کی اسپرٹ اور اس کے اصول سے پوری مطابقت رکھتے تھے۔
چوتھی شرط] حالات کی تبدیلی کو سمجھنا[
احوال اور حوادث کے جو تغیرات احکام میں تغیر یا جدید احکام وضع کرنے کے لیے مقتضی ہوں ان کو دو حیثیتوں سے جانچنا ضروری ہے۔ ایک یہ حیثیت کہ وہ حالات بجائے خود کس قسم کے ہیں، ان کی خصوصیات کیا ہیں اور ان کے اندر کون سی قوتیں کام کر رہی ہیں۔ دوسری یہ حیثیت کہ اسلامی قانون کے نقطۂ نظر سے ان میں کس کس نوع کے تغیرات ہوئے ہیں اور ہر نوع کا تغیر احکام میں کس طرح کا تغیر چاہتا ہے۔
مثال کے طور پر اسی سود کے مسئلے کو لے لیجیے جو اس وقت زیر بحث ہے۔ معاشی قوانین کی تدوین جدید کے لیے ہم کو سب سے پہلے زمانہ حال کی معاشی دنیا کا جائزہ لینا ہوگا ہم گہری نظر سے معاشیات، مالیات اور لین دین کے جدید طریقوں کا مطالعہ کریں گے، معاشی زندگی کے باطن میں جو قوتیں کام کر رہی ہیں ان کو سمجھیں گے۔ ان کے نظریات اور اصول سے واقفیت حاصل کریں گے۔ اس کے بعد ہم یہ دیکھیں گے کہ زمانہ سابق کی بہ نسبت ان معاملات میں جو تغیرات ہوئے ہیں ان کو اسلامی قانون کے نقطۂ نظر سے کن اقسام پر منقسم کیا جا سکتا ہے اور ہر قسم پر شریعت کے مزاج اور اس کے مقاصد اور اصول تشریع کی مناسبت سے کس طرح احکام جاری ہونے چاہییں۔
جزئیات سے قطع نظر کرکے اصولاً ان تغیرات کو ہم دو قسموں پر منقسم کر سکتے ہیں۔
(۱) وہ تغیرات جو درحقیقت تمدنی احوال کے بدل جانے سے رونما ہوئے ہیں اور جو دراصل انسان کے علمی و عقلی نشو وارتقا اور خزائن الٰہی کے مزید اکتشافات اور مادّی اسباب و وسائل کی ترقی اور حمل و نقل اور مخابرات (communications) کی سہولتوں اور ذرائع پیداوار کی تبدیلی، اور بین الاقوامی تعلقات کی وسعتوں کے طبیعی نتائج ہیں۔ ایسے تغیرات اسلامی قانون کے نقطۂ نظر سے طبیعی اور حقیقی تغیرات ہیں۔ ان کو نہ تو مٹایا جا سکتا ہے اور نہ مٹانا مطلوب ہے، بلکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان کے اثر سے معاشی احوال اور مالی معاملات اور تجارتی لین دین کی جو نئی صورتیں پیدا ہوگئی ہیں، ان کے لیے اصولِ شریعت کے تحت نئے احکام وضع کیے جائیں تاکہ ان کے بدلے ہوئے حالات میں مسلمان اپنے عمل کو ٹھیک ٹھیک اسلامی طرز پر ڈھال سکیں۔
(۲) وہ تغیرات جو دراصل تمدنی ترقی کے فطری نتائج نہیں ہیں، بلکہ دنیا کے معاشی نظام اور مالی معاملات پر ظالم سرمایہ داروں کے حاوی ہو جانے کی وجہ سے رونما ہوئے ہیں۔ وہی ظالمانہ سرمایہ داری جو عہد جاہلیت میں پائی جاتی تھی۔{ FR 2245 } اور جس کو اسلام نے صدیوں تک مغلوب کیے رکھا تھا، اب دوبارہ معاشی دنیا پر غالب آ گئی ہے اور تمدن کے ترقی یافتہ اسباب و وسائل سے کام لے کر اس نے اپنے انھی پرانے نظریات کو نت نئی صورتوں سے معاشی زندگی کے مختلف معاملات میں پھیلا دیا ہے۔
سرمایہ داری کے اس غلبے سے جو تغیرات واقع ہوئے ہیں وہ اسلامی قانون کی نگاہ میں حقیقی اور طبعی تغیرات نہیں ہیں بلکہ جعلی تغیرات ہیں جنھیں قوت سے مٹایا جا سکتا ہے اور جس کا مٹا دیا جانا نوعِ انسانی کی فلاح و بہبود کے لیے ضروری ہے۔ مسلمان کا اصلی فرض یہ ہے کہ اپنی پوری قوت ان کے مٹانے میں صرف کر دے اور معاشی نظام کو اسلامی اصول پر ڈھالنے کی کوشش کرے۔ سرمایہ داری کے خلاف جنگ کرنے کا فرض کمیونسٹ سے بڑھ کر مسلمان پر عائد ہوتا ہے۔ کمیونسٹ کے سامنے محض روٹی کا سوال ہے اور مسلمان کے سامنے دین و اخلاق کا سوال۔ کمیونسٹ محض صعالیک (proletariates) کی خاطر جنگ کرنا چاہتا ہے اور مسلمان تمام نوع بشری کے حقیقی فائدے کے لیے جنگ کرتا ہے۔ جس میں خود سرمایہ دار بھی شامل ہیں۔ کمیونسٹ کی جنگ خود غرضی پر مبنی ہے اور مسلمان کی جنگ للہیت پر۔ لہٰذا مسلمان تو موجودہ ظالمانہ سرمایہ داری نظام سے کبھی مصالحت کر ہی نہیں سکتا۔ اگر وہ مسلم ہے اور اسلام کا پابند ہے تو اس کے خدا کی طرف سے اس پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ اس ظالمانہ نظام کو مٹانے کی کوشش کرے اور اس جنگ میں جو ممکن نقصان اس کو پہنچ سکتا ہو اسے مردانہ وار برداشت کرے۔
معاشی زندگی کے اس شعبے میں اسلام جو قانون بھی بنائے گا اس کی غرض یہ ہرگز نہ ہوگی کہ مسلمانوں کے لیے سرمایہ داری نظام میں جذب ہونے اور اس کے ادارات میں حصہ لینے اور اس کی کامیابی کے اسباب فراہم کرنے میں سہولتیں پیدا کی جائیں، بلکہ اس کی واحد غرض یہ ہوگی کہ مسلمانوں کو اور تمام دنیا کو اس گندگی سے محفوظ رکھا جائے اور ان تمام دروازوں کو بند کیا جائے جو ظالمانہ اور ناجائز سرمایہ داری کو فروغ دیتے ہیں۔
تخفیفات کے عام اُصول
اسلامی قانون میں حالات اور ضروریات کے لحاظ سے احکام کی سختی کو نرم کرنے کی بھی کافی گنجائش رکھی گئی ہے۔ چنانچہ فقہ کے اصول میں سے ایک یہ بھی ہے الضَّرُوْرَاتُ تَبِیْحُ الْمَحْظُوْرَاتُ اور اَلْمُشَقّٰۃُ تَجْلِبُ التّٰیْسِیْرَ { FR 2246 } قرآن مجید اور احادیث نبوی میں بھی متعدد مواقع پر شریعت کے اس قاعدے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے مثلاً۔
﴿لَا يُكَلِّفُ اللہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَہَا۰ۭ ﴾ ( البقرہ286:2)
اللہ کسی پر اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں ڈالتا۔
﴿يُرِيْدُ اللہُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ۰ۡ﴾ ( البقرہ185:2)
اللہ تمھارے ساتھ نرمی کرنا چاہتا ہے سختی نہیں کرنا چاہتا۔
﴿ وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّيْنِ مِنْ حَرَجٍ۰ۭ ﴾ ( الحج10:22)
اس نے تم پر دین میں سختی نہیں کی ہے۔
﴿وَفِی الْحَدِیْثِ: اَحَبُّ الدِّیْنِ اِلَی اللّٰہِ تَعَالٰی اَلْحَنِیْفَۃُ السَّمْحَۃُ{ FR 2397 } وَلاَ ضَرَرَ وَلاَ ضِرَارَ فِی الْاِسْلاَمِ۔﴾{ FR 2398 }
اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ دین وہ ہے جو سیدھا سادھا اور نرم ہو۔ اسلام میں ضرر اور ضرار نہیں ہے۔
پس یہ قاعدہ اسلام میں مسلم ہے کہ جہاں مشقت اور ضرر ہو وہاں احکام میں نرمی کر دی جائے لیکن اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ ہر خیالی اور وہمی ضرورت پر شریعت کے احکام اور خدا کی مقرر کردہ حدود کو بالائے طاق رکھ دیا جائے۔ اس کے لیے بھی چند اصول اور ضوابط ہیں جو شریعت کی تحقیقات پر غور کرنے سے بآسانی سمجھ آ سکتے ہیں:۔
اوّلاً یہ دیکھنا چاہیے کہ مشقت کس درجے کی ہے۔ مطلقاً ہر مشقت پر تو تکلیف شرعی رفع نہیں کی جا سکتی، ورنہ سرے سے کوئی قانون ہی باقی نہ رہے گا۔ جاڑے میں وضو کی تکلیف، گرمی میں روزے کی تکلیف، سفر حج اور جہاد کی تکالیف، یقینا یہ سب مشقت کی تعریف میں آتی ہیں، مگر یہ ایسی مشقتیں نہیں ہیں جن کی وجہ سے تکلیفات ہی کو سرے سے ساقط کر دیا جائے۔ تخفیف یا اسقاط کے لیے مشقت ایسی ہونی چاہیے جو موجب ضرر ہو مثلاً سفر کی مشکلات، مرض کی حالت، کسی ظالم کا جبر و اکراہ، تنگ دستی، کوئی غیر معمولی مصیبت، فتنہ عام یا کوئی جسمانی نقص۔ ایسے مخصوص حالات میں شریعت نے بہت سے احکام میں تخفیفات کی ہیں اور ان پر دوسری تخفیفات کو بھی قیاس کیا جا سکتا ہے۔
ثانیاً تخفیف اسی درجے کی ہونی چاہیے جس درجے کی مشقت اور مجبوری ہے، مثلاً جو شخص بیماری میں بیٹھ کر نماز پڑھ سکتا ہے اس کے لیے لیٹ کر پڑھنا جائز نہیں۔ جس بیماری کے لیے رمضان میں دس روزوں کا قضا کرنا کافی ہے اس کے لیے پورے رمضان کا افطار ناجائز ہے۔ جس شخص کی جان شراب کا ایک چلو پی کر یا حرام چیز کے ایک دو لقمے کھا کر بچ سکتی ہے وہ اس حقیقی ضرورت سے بڑھ کر پینے یا کھانے کا مجاز نہیں ہے۔ اسی طرح طبیب کے لیے جسم کے پوشیدہ حصوں میں سے جتنا دیکھنے کی واقعی ضرورت ہے اس سے زیادہ دیکھنے کا اس کو حق نہیں۔ اس قاعدے کے لحاظ سے تمام تخفیفات کی مقدار مشقت اور ضرورت کی مقدار پر مقرر کی جائے گی۔
ثالثاً کسی ضرر کو دفع کرنے کے لیے کوئی ایسی تدبیر اختیار نہیں کی جا سکتی جس میں اتنا ہی یا اس سے زیادہ ضرر ہو بلکہ صرف ایسی تدبیر کی اجازت دی جا سکتی ہے جس کا ضرر نسبتاً خفیف ہو۔ اسی کے قریب قریب یہ قاعدہ بھی ہے کہ کسی مفسدہ سے بچنے کے لیے اس سے بڑے یا اس کے برابر کے مفسدے میں مبتلا ہو جانا جائز نہیں۔ البتہ یہ جائز ہے کہ جب انسان دو مفسدوں میں گھر جائے اور کسی ایک میں مبتلا ہونا بالکل ناگزیر ہو تو بڑے مفسدے کو دفع کرنے کے لیے چھوٹے مفسدے کو اختیار کر لے۔
رابعاً جلب مصالح پر دفع مفاسد مقدم ہے، شریعت کی نگاہ میں بھلائیوں کے حصول اور مامورات و واجبات کے ادا کرنے کی بہ نسبت برائیوں کو دور کرنا اور حرام سے بچنا، اور فساد کو دفع کرنا زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ اسی لیے وہ مشقت کے مواقع پر مامورات میں جس فیاضی کے ساتھ تخفیف کرتی ہے‘ اتنی فیاضی ممنوعات کی اجازت دینے میں نہیں برتتی، سفر اور مرض کی حالتوں میں، نماز روزے اور دوسرے واجبات کے معاملے میں جتنی تخفیفیں کی گئی ہیں اتنی تخفیفیں ناپاک اور حرام چیزوں کے استعمال میں نہیں کی گئیں۔
خامساً، مشقت یا ضرر کے زائل ہوتے ہی تخفیف بھی ساقط ہو جاتی ہے، مثلاً بیماری دفع ہو جانے کے بعد تیمم کی اجازت باقی نہیں رہتی۔
مسئلہ سود میں شریعت کی تخفیفات
مذکورہ بالا قواعد کو ذہن نشین کر لینے کے بعد غور کیجیے کہ موجودہ حالات میں سود کے مسئلے میں احکام شریعت کے اندر کس حد تک تخفیف کی جا سکتی ہے۔
(۱) سود لینے اور سود دینے کی نوعیت یکساں نہیں ہے۔ سود پر قرض لینے کے لیے تو انسان بعض حالات میں مجبور ہو سکتا ہے لیکن سود کھانے کے لیے درحقیقت کوئی مجبوری پیش نہیں آ سکتی۔ سود تو وہی لے گا جو مال دار ہو‘ اور مال دار کو ایسی کیا مجبوری پیش آ سکتی ہے جس میں اس کے لیے حرام حلال ہو جائے۔
(۲) سودی قرض لینے کے لیے بھی ہر ضرورت مجبوری کی تعریف میں نہیں آتی۔ شادی بیاہ اور خوشی و غمی کی رسموں میں فضول خرچی کرنا کوئی حقیقی ضرورت نہیں ہے۔ موٹر خریدنا یا مکان بنانا کوئی واقعی مجبوری نہیں ہے۔ عیش و عشرت کے سامان فراہم کرنا، یا کاروبار کو ترقی دینے کے لیے روپیہ فراہم کرنا کوئی ضروری امر نہیں ہے۔ یہ اور ایسے ہی دوسرے امور جن کو ’’ضرورت‘‘ اور ’’مجبوری‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے، اور جن کے لیے مہاجنوں سے ہزاروں روپے قرض لیے جاتے ہیں۔ شریعت کی نگاہ میں ان کی قطعاً کوئی وقعت نہیں اور ان اغراض کے لیے جو لوگ سود دیتے ہیں وہ سخت گناہ گار ہیں۔
شریعت اگر کسی مجبوری پر سودی قرض لینے کی اجازت دے سکتی ہے تو وہ اس قسم کی مجبوری ہے جس میں حرام حلال ہو سکتا ہے یعنی کوئی سخت مصیبت جس میں سود پر قرض لیے بغیر کوئی چارہ نہ ہو، جان یا عزت پر آفت آ گئی ہو، یا کسی ناقابل برداشت مشقت یا ضرر کا حقیقی اندیشہ ہو۔ ایسی صورت میں ایک مجبور مسلمان کے لیے سودی قرض لینا جائز ہوگا۔ مگر وہ تمام ذی استطاعت مسلمان گناہ گار ہوں گے جنھوں نے اس مصیبت میں اپنے اس بھائی کی مدد نہ کی اور اس کو فعل حرام کے ارتکاب پر مجبور کر دیا بلکہ میں تو کہتا ہوں کہ اس گناہ کا وبال پوری قوم پر ہوگا کیونکہ اس نے زکوٰۃ و صدقات اور اوقاف کی تنظیم سے غفلت کی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس کے افراد بے سہارا ہوگئے اور ان کے لیے اپنی ضرورتوں کے وقت ساہوکاروں کے آگے ہاتھ پھیلانے کے سوا کوئی ذریعہ باقی نہیں رہا۔
(۳) شدید مجبوری کی حالت میں بھی صرف بقدر ضرورت قرض لیا جا سکتا ہے اور لازم ہے کہ استطاعت بہم پہنچتے ہی سب سے پہلے اس سے سبکدوشی حاصل کی جائے، کیونکہ ضرورت رفع ہو جانے کے بعد سود کا ایک پیسہ دینا بھی حرام مطلق ہے۔ یہ سوال کہ آیا ضرورت شدید ہے کہ نہیں اور اگر شدید ہے تو کس قدر ہے اور کس وقت وہ رفع ہوگئی، اس کا تعلق اس شخص کی عقل اور احساس دین داری سے ہے جو اس حالت میں مبتلا ہوا ہو۔ وہ جتنا زیادہ دین دار اور خدا ترس ہوگا اور اس کا ایمان جتنا زیادہ قوی ہوگا اتنا ہی زیادہ وہ اس باب میں محتاط ہوگا۔
(۴) جو لوگ تجارتی مجبوریوں کی بنا پر یا اپنے مال کی حفاظت یا موجودہ انتشار قومی کی وجہ سے اپنے مستقبل کی طمانیت کے لیے بینکوں میں روپیہ جمع کرائیں، یا انشورنس کمپنی میں بیمہ کرائیں، یا جن کو کسی قاعدے کے تحت پراویڈنٹ فنڈ میں حصہ لینا پڑے۔ ان کے لیے لازم ہے کہ صرف اپنے رأس المال ہی کو اپنا مال سمجھیں اور اس راس المال سے بھی ڈھائی فیصدی سالانہ کے حساب سے زکوٰۃ ادا کریں کیونکہ اس کے بغیر وہ جمع شدہ رقم ان کے لیے ایک نجاست ہوگی۔ بشرطیکہ وہ خدا پرست ہوں، زر پرست نہ ہوں۔
(۵) بینک یا انشورنس کمپنی یا پراویڈنٹ فنڈ سے سود کی جو رقم ان کے حساب میں نکلتی ہو اس کو سرمایہ داروں کے پاس چھوڑ نا جائز نہیں ہے کیونکہ یہ ان مفسدوں کے لیے مزید تقویت کی موجب ہوگی۔ صحیح طریقہ یہ ہے کہ اس رقم کو لے کر ان مفلس لوگوں پر خرچ کر دیا جائے جن کی حالت قریب قریب وہی ہے جس میں حرام کھانا انسان کے لیے جائز ہو جاتا ہے۔{ FR 2247 }
(۶) مالی لین دین اور تجارتی کاروبار میں جتنے منافع سود کی تعریف میں آتے ہوں، یا جن میں سود کا اشتباہ ہو، ان سب سے حتیٰ الامکان احتراز نہ ہو تو وہی طریقہ اختیار کرنا چاہیے جو نمبر ۵ میں بیان کیا گیا ہے۔ اس معاملے میں ایک ایمان دار مسلمان کی نظر جلب منفعت پر نہیں بلکہ دفع مفاسدپر ہونی چاہیے۔ اگر وہ خدا سے ڈرتا ہے اور یوم آخر پر اعتقاد رکھتا ہے تو حرام سے بچنا اور خدا کی پکڑ سے محفوظ رہنا اس کے لیے کاروبار کی ترقی اور مالی فوائد کے حصول سے زیادہ عزیز ہونا چاہیے۔
یہ تخفیفات صرف افراد کے لیے ہیں۔ اور بدرجہ آخر ان کو ایک قوم تک بھی اس حالت میں وسیع کیا جا سکتا ہے جب کہ وہ غیروں کی محکوم ہو اور اپنا نظام مالیات و معیشت خود بنانے پر قادر نہ ہو لیکن آزاد و خود مختار مسلمان قوم، جو اپنے مسائل خود حل کرنے کے اختیارات رکھتی ہو، سود کے معاملے میں کسی تخفیف کا مطالبہ اس وقت تک نہیں کر سکتی جب تک یہ ثابت نہ ہو جائے کہ سود کے بغیر مالیات اور بینکنگ اور تجارت و صنعت وغیرہ کا کوئی معاملہ چل ہی نہیں سکتا اور اس کا کوئی بدل ممکن ہی نہیں ہے۔ یہ چیز اگر علمی اور عملی حیثیت سے غلط ہو اور فی الواقع ایک نظامِ مالیات سود کے بغیر نہایت کامیابی کے ساتھ بنایا اور چلایا جا سکتا ہو تو پھر مغربی سرمایہ داری کے طریقوں پر اصرار کیے چلے جانا بجز اس کے کوئی معنی نہیں رکھتا کہ خدا سے بغاوت کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔
٭…٭…٭