ہم تسلیم کرتے ہیں کہ زمانے کے حالات بدل چکے ہیں۔ دنیا کے تمدنی اور معاشی احوال میں بہت بڑا انقلاب رونما ہوا ہے اور اس انقلاب نے مالی اور تجارتی معاملات کی صورت کچھ سے کچھ کر دی ہے۔ ایسے حالات میں وہ اجتہادی قوانین جو اسلام کے ابتدائی دور میں حجاز، عراق، شام اور مصر کے معاشی و تمدنی حالات کو ملحوظ رکھ کر مدوّن کیے گئے تھے، مسلمانوں کی موجودہ ضرورتوں کے لیے کافی نہیں ہیں۔ فقہائے کرام نے اس دور میں احکامِ شریعت کی جو تعبیر کی تھی وہ معاملات کی ان صورتوں کے لیے تھی جو ان کے گرد و پیش کی دنیا میں پائی جاتی تھیں۔ مگر ان میں سے بہت سی صورتیں باقی نہیں رہی ہیں اور بہت سی دوسری صورتیں ایسی پیدا ہو گئی ہیں جو اس وقت موجود نہ تھیں۔ اس لیے بیع و شرا اور مالیات و معاشیات کے متعلق جو قوانین ہماری فقہ کی قدیم کتابوں میں پائے جاتے ہیں ان پر بہت کچھ اضافے کی اب یقیناً ضرورت ہے۔ پس اختلاف اس امر میں نہیں ہے کہ معاشی اور مالی معاملات کے لیے قانونِ اسلامی کی تدوینِ جدید ہونی چاہیے یا نہیں، بلکہ اس امر میں ہے کہ تدوین کس طرز پر ہو؟