(۳)آغازمیںیہ نزاع صرف ایک مذہبی نزاع تھی مگربہت جلدی اس نے مسلمانوںکے اندرایک پیچیدہ اورنہایت تلخ معاشرتی مسئلے کی شکل اختیارکرلی۔اس کی وجہ مرزاصاحب اوران کے خلفا کایہ فتویٰ تھاکہ احمدیوںاورغیراحمدیوںکے درمیان بس وہی تعلقات رہ سکتے ہیںجومسلمانوںاورعیسائیوںیایہودیوںکے درمیان ہوتے ہیں۔یعنی ایک احمدی کسی غیراحمدی کے پیچھے نمازنہیںپڑھ سکتا۔اس کی یااس کے بچے کی نمازجنازہ نہیںپڑھ سکتا۔اس کی بیٹی لے سکتاہے مگراس کوبیٹی دے نہیںسکتا۔اس فتوے کاردعمل مسلمانوںکی طرف سے بھی ایسے ہی طرزعمل کی صورت میںرونماہوااوراس طرح دونوں گروہوںکے درمیان معاشرتی مقاطعہ کی حالت پیداہوگئی۔اس مقاطعہ سے مسلم معاشرہ میںجوتفرقہ رونماہواوہ بس ایک وقتی تفرقہ ہی نہ تھاجوایک دفعہ رونماہوکررہ گیاہوبلکہ وہ ایک روزافزوںتفرقہ تھا،کیونکہ قادیانیت ایک تبلیغی تحریک تھی اوروہ آئے دن کسی نہ کسی مسلمان کوقادیانی بناکرایک نئے خاندان میںتفرقہ برپاکررہی تھی۔اپنے اس معاشرتی مقاطعہ کے رویہ کولے کروہ جس گھرجس خاندان ،جس گائوں، جس برداری اور جس بستی میں بھی پہنچی وہاں اس نے پھوٹ ڈال دی۔ اندازہ کیاجاسکتاہے کہ جہاں شوہر اور بیوی ایک دوسرے کو اپنے لیے حرام سمجھنے لگیں یا کم ازکم اپنے تعلقات کے جائز ہونے میں شک کرنے لگیں اور جہاں ایک بھائی کے بچے کی نماز جنازہ دوسرا بھائی نہ پڑھے۔ جہاں بیٹا باپ سے اور باپ بیٹے سے کافروں سا معاملہ کرنے لگے اور جہاں ایک ہی خاندان یا برادری میں رشتے ناطے کے تعلقات ختم ہوجائیں، وہاں معاشرہ میں کیسی کچھ تلخیاں پیداہوسکتی ہیں۔
یہ تلخیاں قادیانیت کی رفتار اشاعت کے ساتھ پچھلے پچاس سال کے دوران میں برابربڑھتی چلی گئی ہیں اور سب سے زیادہ پنجاب کو ان سے سابقہ پیش آیا ہے، کیونکہ یہاں ہزار ہا خاندانوں میں اس کازہر پھیل چکاہے۔