سوال:۔’’ہمارا عقیدہ ہے‘ کہ مسلمان آدم علیہ السّلام کی خلافت ِارضی کا وارث ہے۔ مسلمان کی زندگی کا مقصد صرف اﷲ پاک کی رضا اور اس کے مقدس قانون پر چلنا اور دوسروں کو چلنے کی ترغیب دینا ہے۔ اس لیے اس کا فطری نصب العین یہ قرار پاتا ہے‘ کہ سارے عالم کو قانون الٰہیہ کے آگے مفتوح کر دے۔ لیکن مسٹر جناح اور ہمارے دوسرے مسلم لیگی بھائی پاکستان چاہتے ہیں‘ ہندوستان کی زمین کا ایک گوشہ!تاکہ ان کے خیال کے مطابق مسلمان چین کی زندگی گزار سکیں۔ کیا خالص دینی نقطۂ نظر سے یہ قابلِ اعتراض نہیں؟ یہودی قوم مقہورو مغضوب قوم ہے۔ اﷲ پاک نے اس پر زمین تنگ کر دی ہے‘ اور ہر چند کہ اس قوم میں دنیا کے بڑے سے بڑے سرمایہ دار اور مختلف علوم کے ماہرین موجود ہیں‘ لیکن ان کے قبضہ میں ایک انچ زمین بھی نہیں ہے آج وہ اپنا قومی وطن بنانے کے لیے کبھی انگریزوں سے بھیک مانگتے ہیں‘ اور کبھی امریکہ والوں سے‘ میرے خیال میں مسلمان یا بالفاظ دیگر مسلم لیگ بھی یہی کر رہی ہے۔ وہ یہودیوں کی طرح پاکستان کی بھیک کبھی ہندوئوں سے اور کبھی انگریزوں سے مانگتی پھر رہی ہے۔ تو پھر کیا یہ ایک مقہور اور مغضوب قوم کی پیروی نہیں ہے؟ اور کیا ایک مقہورو مغضوب قوم کی پیروی مسلمانوں کو بھی اسی صف میں لاکر کھڑانہ کر دے گی۔‘‘؟
جواب:پاکستان کے متعلق آپ میرے مفصل خیالات ’’مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش‘ حصّہ سوم میں ملا حظہ فرمائیے۔ میرے نزدیک پاکستان کے مطالبہ پر یہودیوں کے قومی وطن کی تشبیہ چسپاں نہیں ہوتی۔ فلسطین فی الواقع یہودیوں کا قومی وطن نہیں ہے ان کو وہاں سے نکلے ہوئے دو ہزار برس گزر چکے ہیں‘ اسے اگر ان کا قومی وطن کہا جا سکتا ہے‘ تو اسی معنی میں جس معنی میں جرمنی کی آریہ نسل کے لوگ وسط ایشیا کو اپنا قومی وطن کہہ سکتے ہیں۔ یہودیوں کی اصل پوزیشن یہ نہیں ہے‘ کہ ایک ملک واقعی ان کا قومی وطن ہے‘ اور وہ اسے تسلیم کرانا چاہتے ہیں۔ بلکہ ان کی اصلی پوزیشن یہ ہے‘ کہ ایک ملک ان کا قومی وطن نہیں ہے‘ اور ان کا مطالبہ یہ ہے‘ کہ ہم کو دنیا کے مختلف گوشوں سے سمیٹ کر وہاں بسایا جائے‘ اور اسے بزور ہمارا قومی وطن بنا دیا جائے۔ بخلاف اس کے مطالبہ پاکستان کی بنیاد یہ ہے‘ کہ جس علاقہ میں مسلمانوں کی اکثریت آباد ہے‘ وہ بالفعل مسلمانوں کا قومی وطن ہے‘ اور مسلمانوں کا مطالبہ صرف یہ ہے‘ کہ موجودہ جمہوری نظام میں ہندستان کے دوسرے حصوں کے ساتھ لگے رہنے سے ان کے قومی وطن کی سیاسی حیثیت کو جو نقصان پہنچتا ہے‘ اس سے اس کو محفوظ رکھا جائے‘ اور متحدہ ہندستان کی ایک آزاد حکومت کے بجائے ہندو ہندوستان اور مسلم ہندستان کی دو آزاد حکومتیں قائم ہوں۔ یعنی بالفاظ دیگر وہ صرف یہ چاہتے ہیں‘ کہ ان کا قومی وطن جو بالفعل موجود ہے اس کو اپنی آزاد حکومت الگ قائم کرنے کا حق حاصل ہوجائے۔
یہ چیز بعینہٖٖ وہی ہے‘ جو آج دنیا کی ہر قوم چاہتی ہے‘ اور اگر مسلمانوں کے ’’مسلمان‘‘ ہونے کی حیثیت کو نظر انداز کر کے انہیں صرف ایک قوم کی حیثیت کو نظر انداز کر کے انہیں صرف ایک قوم کو حیثیت سے دیکھا جائے‘ تو ان کے اس مطالبہ کے حق بجانب ہونے میں کوئی کلام نہیں کیا جا سکتا۔ ہم اصولاً اس بات کے مخالف ہیں‘ کہ دنیا کی کوئی قوم کسی دوسری قوم پر سیاسی ومعاشی حیثیت سے مسلّط ہو۔ ہمارے نزدیک اصولاً یہ ہر قوم کا حق ہے‘ کہ اس کی سیاسی ومعاشی باگیں اس کے اپنے ہاتھوں میں ہوں۔ اس لیے ایک قوم ہونے کی حیثیت سے اگر مسلمان یہ مطالبہ کرتے ہیں‘ تو جس طرح دوسری قوموں کے معاملہ میں یہ مطالبہ صحیح ہے اسی طرح ان کے معاملہ میں بھی صحیح ہے۔ البتہ ہمیں اس چیز کو نصب العین بنانے پر جو اعتراض ہے وہ صرف یہ ہے‘ کہ مسلمانوں نے ایک اصولی جماعت اور ایک نظام کی داعی اور علم بردار جماعت ہونے کی حیثیت کو نظر انداز کر کے صرف ایک ’’قوم‘‘ ہونے کی حیثیت اختیار کر لی ہے۔ اگر وہ اپنی اصلی حیثیت کو قائم رکھتے تو ان کے لیے قومی وطن اور اس کی آزادی کا سوال ایک نہایت حقیر سوال ہوتا بلکہ حقیقتاً سرے سے وہ ان کے لیے پیدا ہی نہ ہوتا۔ اب وہ کروڑوں ہوکر ایک ذرا سے خطے میں اپنی حکومت حاصل کر لینے کو ایک انتہائی نصب العین سمجھ رہے ہیں‘ لیکن اگر وہ نظام اسلامی کے داعی ہونے کی حیثیت اختیار کریں‘ تو تنہا ایک مسلمان ساری دنیا پر اپنی‘ یعنی درحقیقت اپنے اس نظام کی‘ جس کا وہ داعی ہے حکومت کا مدعی ہوسکتا ہے‘ اور صحیح طور پر سعی کرے تو اسے حاصل بھی کر سکتا ہے۔
(ترجمان القرآن‘ جولائی‘ اگست‘ ستمبر‘ اکتوبر۱۹۴۴ء)
خ خ خ