Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

دیباچہ
مقدمہ طبع اوّل
تعارف مقصد
تحریک اِسلامی کا تنزل
ضمیمہ
نسلی مسلمانوں کے لیے دوراہیں عمل‘ خواہ انفرادی ہویااجتماعی‘ بہرحال اس کی صحت کے لیے دو چیزیں شرط لازم ہیں:
اقلیت واکثریت
شکایات ناظرین’’ترجمان القرآن‘‘میں سے ایک صاحب لکھتے ہیں:
راہ رَوپِشت بمنزل
اسلام کی دعوت اور مسلمان کا نصب العین
اصلی مسلمانوں کے لیے ایک ہی راہِ عمل
اسلام کی راہِ راست اور اس سے انحراف کی راہیں
۱۔اسلامی نصب العین
۲- اس نصب العین تک پہنچنے کا سیدھا راستہ
۳-مشکلات
۴-انحراف کی راہیں
۵- منحرف راستوں کی غلطی
پاکستانی خیال کے لوگ
۶-مشکلات کا جائزہ
اسلامی حکومت کس طرح قائم ہوتی ہے؟
استدراک
ایک صالح جماعت کی ضرورت
مطالبۂ پاکستان کو یہود کے مطالبہ ’’قومی وطن‘‘ سے تشبیہ دینا غلط ہے
مسلم لیگ سے اختلاف کی نوعیت
وقت کے سیاسی مسائل میں جماعت ِاسلامی کا مسلک
نظام کفر کی قانون ساز مجلس میں مسلمانوں کی شرکت کا مسئلہ
مجالس قانون ساز کی رکنیت شرعی نقطۂ نظر سے
پُر امن اِنقلاب کا راستہ
۱۹۴۶ء کے انتخابات اور جماعت ِاسلامی
جواب
تقسیم سے قبل ہندستان کے مسلمانوں کو آخری مشورہ (یہ وہ تقریر ہے‘ جو ۲۶اپریل ۱۹۴۷ء کو جماعت ِاسلامی کے اجلاس منعقدہ مدراس میں کی گئی تھی)
صوبہ سرحد کے ریفرنڈم میں جماعت ِاسلامی کا مسلک
تقسیم ہند‘ حالات پر تبصرہ
تقسیم کے وقت مسلمانوں کی حالت کا جائزہ
تقسیم کے بعد سامنے آنے والے مسائل
کیا پاکستان کو ایک مذہبی ریاست ہونا چاہئے؟
پاکستان میں اسلامی قانون کیوں نہیں نافذ ہوسکتا؟
اسلامی نظامِ زندگی کا مآخذ
پاکستان میں اسلامی قانون کس طرح نافذ ہوسکتا ہے؟
مطالبہ نظام اسلامی

تحریک آزادی ہند اور مسلمان (حصہ دوم)

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

مطالبہ نظام اسلامی

یہ ان تقریروں کا مجموعی خلاصہ ہے‘ جو مولانا سید ابوالا علیٰ مودودی امیر جماعت ِاسلامی (حال اسیرِ حکومت پاکستان) نے اپریل اور مئی ۱۹۴۸ء میں لاہور‘ ملتان‘ کراچی‘ راولپنڈی‘ سیالکوٹ اور پشاور کے مقامات پر جماعت ِاسلامی کے عام اجتماعات میں فرمائی تھیں۔ ان تقریروں کو جن ہزاروں مسلمانوں نے سُنا‘ ان کو پہلی مرتّبہ واضح طور پر یہ احساس ہوا کہ حصولِ پاکستان پران کا کام ختم نہیں ہوگیا ہے‘ بلکہ اصل نصب العین کی طرف قدم بڑھانے کا تو ابھی آغاز ہی ہوا ہے۔اسے مکمل کرنے کے لیے ابھی مزید محنت وایثار کی ضرورت ہے۔
اس تقریر کو مرتّب کرنے کا وقت نکالنے سے پہلے مولانا ئے محترم ۴ اکتوبر ۱۹۴۸ء کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت نظر بند کر دئیے گئے۔ لیکن ادھر چونکہ اس تقریر کی اشاعت کی ضرورت کو شدت سے محسوس کیا جا رہا ہے‘ اور مولانا کی رہائی میں ابھی دیر ہے‘ اس لیے مجبوراً اخبارات کی مدد سے اسے ہم بطور خود مرتّب کر کے پیش کر رہے ہیں۔
ناظم مکتبہ جماعت ِاسلامی
بعد از حمد وثناء:
ہم دورا ہے پر کھڑے ہیں
حاضرین وحاضرات ! یہ وقت جس سے ہم آج گزر رہے ہیں ہماری قومی تاریخ کے نازک ترین اوقات میں سے ہے۔ اس وقت ہم ایک دوراہے پر کھڑے ہیں‘ اور ہمیں فیصلہ کرنا ہے‘ کہ ہمارے سامنے جو دوراستے کھلے ہوئے ہیں ان میں سے کس کی طرف بڑھیں۔ اس موقع پر جو فیصلہ بہ حیثیت قوم ہم کریں گے وہ نہ صرف ہمارے مستقبل پر بلکہ نہ معلوم کتنی مدّت تک ہماری آئندہ نسلوں پر اثر انداز ہوتا رہے گا۔ ہمارے سامنے ایک راستہ تو یہ ہے‘ کہ ہم ان اصولوں پر اپنے نظامِ زندگی کی بنیادیں کھڑی کریں‘ جو اسلام نے ہم کو دئیے ہیں۔ ہماری ساری کی ساری زندگی ہماری معاشرت‘ ہماری معیشت‘ ہمارا تمدّن‘ ہماری سیاست غرض سب کچھ ان اصولوں پر استوار ہوجو اسلام نے مقرر کر دئیے ہیں۔ دوسرا راستہ ہمارے سامنے یہ ہے‘ کہ ہم کسی مغربی قوم کے نظامِ زندگی کوقبول کر لیں۔ خواہ وہ اشتراکیت ہو‘ لادینی جمہوریت ہویا کوئی اور نظامِ زندگی۔
اگر خدا نخواستہ ہم نے دوسرے راستے کو پسند کیا‘ تو ہم اپنے اسلام کی بہ حیثیت قوم نفی کریں گے‘ اور اپنے ان تمام اعلانات سے منحرف ہوں گے‘ جو ایک مدّت سے ہم خدا اور خلق دونوں کے سامنے کرتے رہے ہیں‘ اور اس اجتماعی وعدہ خلافی کی وجہ سے خداوخلق دونوں کے سامنے ہمیں رسوا ہونا پڑے گا۔ پھر اس راستے پر چلنے کا سب سے زیادہ افسوس ناک نتیجہ یہ ہوگا‘ کہ برصغیر ہندستان میں اسلام کی تاریخ کا قطعی خاتمہ ہوجائے گا۔ بخلاف اس کے اگر ہم پہلا راستہ انتخاب کریں‘ اور خالص اسلامی اصولوں پر اپنی قومی زندگی کو قائم کریں‘ تو ہم دنیا میں بھی سر فراز ہوں گے‘ اور آخرت میں بھی ہمارے لیے کامیابی ہوگئی‘ ہم خدا کے حضور بھی سرخرو ہوں گے‘ اور خلق کے سامنے بھی ہمارا وقار قائم ہوسکے گا۔ ہم اسلامی نظامِ زندگی کے علم بر دار بن کر پھر اسی مقام پر کھڑے ہوجائیں گے‘ جس پر ہزاروں برس پہلے جب ایک قوم کھڑی ہوئی تھی تو اﷲ تعالیٰ نے اسے مخاطب کر کے ارشاد فرمایا تھا‘ کہ اَنِّىْ فَضَّلْتُكُمْ عَلَي الْعٰلَمِيْنَo البقرہ2:47 یعنی ہم نے تمہیں دنیا کی ساری اقوام پر فضیلت عطا کی۔ پھر اس کے بعد جب اسی مقام عظمت پر ایک دوسری قوم کھڑی ہوئی‘ تو اسے کہا گیا كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّۃٍ آل عمران3:110 اوروَكَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا البقرہ2:143 یعنی تم بہترین اُمت ہو‘ اور تمہیں مرکزی اُمت بنایا گیا ہے۔
ہمارے مسلمان ہونے کا تقاضا
بہرحال آج یہ دونوں مواقع ہمارے سامنے ہیں‘ اور ان میں سے جس کا بھی ہم انتخاب کر یں گے‘ اس کا اثر مدّت ہائے دراز تک ہماری قسمتوں اور ہماری آئندہ نسلوں کی قسمتوں پر پڑے گا۔ اس موقع پر اگر ہم اسلام کے اصولوں کو اپنے لیے پسند کرتے ہیں‘ اور اپنے نظامِ حکومت کی تشکیل اسلام کے نقشے پر کرتے ہیں‘ تو یہ کئی وجہ سے درست ہے۔ پہلی وجہ تو یہ ہے‘ کہ ہمارے مسلمان ہونے کا عین تقاضا یہی ہے۔ مسلمان ہونے کے معنی خدا کا مطیع ہوجانا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے‘ کہ اپنی خود مختار اور آزادی کو خدا کے حق میں تسلیم ( surrender)کر دیا جائے‘ اور اقرار کر لیا جائے کہ اب میں جو زندگی بسر کروں گا خدا کے مقرر کیے ہوئے حدود اور ضابطوں کے اندر رہ کر بسر کروں گا‘ اس کی طرف سے جدہر بڑھنے کا اشارہ ہوگا ادھر بڑھوں گا‘ اور جدہر سے رک جانے کا حکم ہوگا اُدھر سے رک جائوں گا۔ جس طرح ایک فرد اپنے خدا سے یہ عہدباندھ کر جب اپنی زندگی کو اس کی رضا کے تابع کر دیتا ہے‘ تو مسلمان ہوجاتا ہے‘ بالکل اسی طرح اجتماعی حیثیت سے ایک قوم کے مسلمان ہونے کا طریقہ بھی یہی ہے‘ کہ وہ اپنی آزادی وخود مختاری سے اﷲ تعالیٰ کے حق میں دست بردار ہوجائے‘ اور اپنے آپ کو اس کے حدود وقوانین کا پابند بنا لے۔ یہ ایک عجیب اور نرالی بات ہوگی کہ کسی قوم کا ایک ایک فرد تو اپنی اپنی جگہ مسلم ہو‘ لیکن جب وہ مل کر ایک اسٹیٹ بنیں‘ تو وہ اسٹیٹ غیر مسلم ہو۔ اگر مجموعہ غیر مسلم ہو‘ تو افراد کس طرح مسلم ہوسکتے ہیں؟ اور اگر افراد مسلم ہوں‘ تو ان کا مجموعہ غیر مسلم کیوں ہو؟ افراد اگر مسلمان ہوں ‘اور مسلمان رہنا چاہتے ہوں‘ تو ان کے لیے لازم ہے‘ کہ وہ جب مل کر ایک قوم اور ایک اسٹیٹ کی شکل اختیار کریں‘ تو وہ قوم اور اسٹیٹ ہونے کی حیثیت سے بھی مسلمان ہوں۔
پاکستان برائے اسلام
پھر ہمارے مطالبہ پاکستان کا بھی یہی تقاضا ہے‘ کہ ہم یہاں کا نظام اسلامی اصولوں پر قائم کریں۔ پچھلے دس سال میں بہ حیثیت قوم ہمارا یہ مطالبہ تھا‘ کہ ہمیں ایک خطہ زمین ایسا ملنا چاہئے‘ جس میں ہم اپنی تہذیب وتمدّن کو از سرِنو قائم کر سکیں۔ اور اپنے دین کے اصولوں پر اپنی زندگی کو نشو ونما دے سکیں کیونکہ ایک غیر مسلم اکثریت کے تحت ہمارے لیے اس طرح کی زندگی ممکن نہیں ہے۔ آپ جانتے ہیں‘ کہ اب سے ڈیڑھ سال پہلے تک‘ اس امر کے کوئی آثار نہ تھے‘ کہ ہندستان تقسیم ہوجائے گا‘ اور یہاں مسلمانوں کی ایک آزاد سلطنت قائم ہوجائے گی۔ حتیٰ کہ جو لوگ آگے چل رہے تھے‘ اور اس مطالبے کی جدوجہد میں قیادت کا فرض ادا کر رہے تھے خود اُن کو بھی اس بات کا قطعی یقین نہ تھا‘ کہ پاکستان قائم ہوجائے گا۔ اس کے بعد حالات جس طرح بدلے اور پاکستان کے قیام کے لیے جس طرح فضا ساز گار ہوئی اور ملک آناً فاناً تقسیم ہوگیا اس کی آپ جو چاہیں عقلی تو جیہیں کریں‘ لیکن میں اس انقلاب میں ارادہ الٰہی کو خاص طور پر شامل پاتا ہوں۔ واقعہ درحقیقت یہ ہے‘ کہ صدیوں کے بعد تاریخ میں یہ بات پیش آئی ہے‘ کہ ایک قوم نے کھڑے ہوکر بہ حیثیت قوم یہ کہا کہ ’’ہم اسلام کے مطابق زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں‘ اور چونکہ غیر مسلم اکثریت کی حکومت میں ہمارے لیے اس کا امکان نہیں ہے لہٰذا ہمیں ایک آزاد خطہ زمین ملنا چاہئے‘ اگر ہمیں یہ آزاد خطہ مل جائے‘ تو اس میں ہم پورے کے پورے اسلام کو غالب کریں گے‘‘۔ خدا کے ہاں یہ بات مقبول ہوئی‘ کہ جب یہ قوم کہتی ہے‘ کہ ہم اسلامی نظامِ حیات کو اختیار کرنا چاہتے ہیں‘ تو ایک بار اسے اس کا موقع دینا چاہئے۔ ایک مدّت سے آپ کو پا مال کیا جا رہا تھا۔ لیکن آپ نے جب یہ خواہش ظاہر کی کہ آپ پنپنا چاہتے ہیں‘ تو اﷲ تعالیٰ نے آپ کے لیے اس کا موقع فراہم کر دیا۔
ایک نازک امتحان
آپ کو یہ موقع مل جانا جس طرح فضل ورحمت ہے‘ اسی طرح یہ آزمائش وامتحان بھی ہے‘ پاکستان مل جانے کے بعد آپ سب امتحان گاہ میں کھڑے ہیں۔ اب آپ کا اس امر میں امتحان ہے‘ کہ آپ پچھلے دس سال میں جو کچھ زبانوں سے کہتے رہے ہیں‘ کیا فی الواقع آپ کے دلوں میں بھی وہی ہے؟ جن باتوں کا آپ اعلان کرتے رہے ہیں‘ کیا آپ کی نیتیں بھی انہی کے مطابق ہیں؟ خدا وخلق کے سامنے جو اقرار آپ نے کیے ہیں‘ کیا وہ سچے اقرار تھے یا جھوٹے؟ اﷲ تعالیٰ یہ دیکھنا چاہتا ہے‘ کہ اسلامی حکومت قائم کرنے کا جو چرچا آپ نے کیا تھا‘ کیا وہ لوگوں کو دھوکا دینے کے لیے تھا یا اب صدق دل سے آپ اپنی زبان سے نکالی ہوئی بات پر عمل کر کے دکھاتے ہیں؟ آپ کہتے تھے‘ کہ پاکستان کا مطالب کیا‘ لاالہ الا اﷲ آپ کہتے تھے‘ کہ ہم پاکستان اس لیے چاہتے ہیں‘ کہ اسلام پر پوری طرح عمل کر سکیں۔ اب اﷲ تعالیٰ نے پاکستان دے کر آپ کو آزمائش میں ڈال دیا ہے‘ اور وہ یہ دیکھنا چاہتا ہے‘ کہ آپ سچّے تھے یا جھوٹے؟
اِسلام کے حفظ وبقا کی واحد صورت
تیسری بات جس کی وجہ سے یہ فیصلہ اور بھی زیادہ اہمیت رکھتا ہے‘ وہ بہت زیادہ دردناک ہے‘ اور وہ یہ ہے‘ کہ اس انقلاب نے جو پچھلے سال ہوا ہے‘ ہمیں ایک نازک مقام پر لاکر کھڑا کر دیا ہے۔ ہندستان کا ایک اچھا خاصا بڑا حصّہ‘ اسلام سے اور اسلام کا نام لینے والوں سے بالکل خالی ہوچکا ہے۔ جس خطے نے کبھی شاہ ولی اﷲ اور مجدد الف ثانی رحمہم اﷲ کو جنم دیا تھا‘ آج وہاں اذان کی آواز بھی سنائی نہیں دیتی۔ وہاں نہ کوئی اذان دینے والا رہا ہے نہ کوئی اس کا سننے والا۔ اس کے علاوہ ہندستان کے باقی حصّہ میں بھی‘ اسلام بے دردی کے ساتھ مٹایا جا رہا ہے۔ اب وہاں صورت حالات یہ ہے‘ کہ ریل میں سفر کرتے ہوئے ‘یہ پہچاننا مشکل ہے‘ کہ مسافروں میں مسلمان کون ہے۔ بہت سے لوگ جو کل تک اسلام اسلام پکار رہے تھے۔ آج وہ اسلام سے توبہ کر رہے ہیں۔ اب وہاں اگر کوئی مسلمان رہ سکتا ہے‘ تو صرف اسی طرح رہ سکتا ہے‘ کہ وہ یہ ثابت کرے کہ اس میں اسلام کی بُو بھی باقی نہیں ہے۔اگر یہی رفتار رہی تو آئندہ چند برسوں میں مسلمان کا وجود ہندستان میں عنقا ہوجائے گا۔ ہمارے اسلاف نے ہندستان میں جو اسلام صدیوں کی لگاتار کوششوں سے پھیلایا تھا وہ اب آٹھ سو سال کے بعد پاکستان کے دو خطوں میں سکڑ کر رہ گیا ہے‘ اب اگر ہم نے ایک قدم بھی غلط سمت میں اُٹھا دیا‘ تو ہندستان میں اسلام کی ایک ہزار سال کی تاریخ پر پوری طرح پانی پھر جائے گا۔ اس برّعظیم ہند کے تین چوتھائی حصے سے تو اسلام دوسروں کے مٹانے سے مٹ رہا ہے۔یہاں یہ ہمارے اپنے مٹائے مٹے گا۔ اس لیے اب ہمیں اگلا قدم خوب سوچ سمجھ کر اُٹھانا چاہئے۔ اب صرف ایک ٹھوکر ہمارے اور اسلام کے مٹنے میں حائل ہے۔ اگر ہم نے اس موقع پر ٹھوکر کھائی‘ تو ہمارے اسلاف کے دینی کارنامے کی ساری تاریخ حرفِ غلط کی طرح مٹ جائے گی۔ یہ سب وجوہ اس امر کے داعی ہیں‘ کہ ہم فیصلہ کر لیں کہ ہمیں اس ملک کے نظام کو بہرحال اسلامی بنیادوں پر اُٹھانا ہے‘ اور یہاں ہمارے ہاتھوں سے سیاست وتمدّن کا جو نقشہ بنے گا‘ وہ اسلام کے منشا کے مطابق ہی بنے گا۔
موجودہ نظام کو مسلمان بنانے کا طریقہ
اس موقع پر میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اس نظام کو جو یہاں اب تک چل رہا ہے‘ مسلمان بنانے کا طریقہ کیا ہے؟ کسی نظام کے مسلمان ہونے کا فطری طریقہ‘ بالکل وہی ہے‘ جو ایک فرد کے مسلمان ہونے کے لیے مقرر ہے۔ سوال یہ ہے‘ کہ کیا ایک غیر مسلم فرد کو مسلمان بنانے کے لیے ہم یہ طریقہ اختیار کرتے ہیں‘ کہ اس کی ظاہری شکل وصورت اور لباس میں کچھ تبدیلیاں کرا دی جائیں‘ اور اسے کہا جائے کہ اپنے کھانے پینے کی فہرست میں سے بعض چیزوں کو نکال دو اور اپنی عادات میں چند تبدیلیاں کرلو۔ اور پھر اسے چھوڑ دیا جائے کہ جائو اب تم آہستہ آہستہ مسلمان ہوجائو گے۔ پھر کچھ مدّت کے بعد جب وہ غیر مسلم فرد اپنے اندر بہت سی تبدیلیاں کر چکے تو آخر میں اسے کلمہ پڑھایا جائے؟ نہیں ہم ایسا نہیں کرتے‘ بلکہ جب کوئی فرد مسلمان ہونا چاہتا ہے‘ تو سب سے پہلے اسے کلمہ پڑھایا جاتا ہے‘ اور جب وہ کلمہ پڑھ کے یہ اقرار کر لیتا ہے‘ کہ اب اسے اپنی زندگی‘ خدا کی بندگی اور محمدa کی اطاعت میں بسر کرنی ہے‘ تو پھر ہم اسے ایک ایک کر کے دین کے احکام بتاتے ہیں‘ اور اس کے اعمال وافعال اور اس کی عادات واطوار میں تبدیلیاں کراتے ہیں۔ ٹھیک یہی طریقہ ایک نظامِ حکومت اور نظامِ ملکی کو بھی مسلمان بنانے کا ہے‘ کہ پہلے اس سے چند بنیادی اصول منوائے جاتے ہیں‘ اور پھر جب وہ ان اصولوں کو تسلیم کر لیتا ہے‘ تو اس کے سامنے اسلام کے عملی مطالبات تدریجاً رکھے جاتے ہیں‘ اور اس میں وہ ساری تبدیلیاں پیدا کی جاتی ہیں‘ جو دین کو مطلوب ہیں۔
ہمارے ملک کا نظام اس وقت گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ ۱۹۳۵ء پر قائم ہے‘ جسے انگریز نے اپنے اصول ومقاصد کے مطابق بنایا تھا۔ انگریز کی حکومت اسلام کی حکومت نہیں تھی‘ کفر کی حکومت تھی۔ پاکستان میں بھی وہی نظامِ حکومت اب تک قائم ہے۔ اگر چہ اسے مسلمان چلا رہے ہیں‘ لیکن یہ نظام اپنی فطرت کے لحاظ سے کافرانہ ہی ہے۔ اب اس نظام کو مسلمان بنانے کے لیے اگر کوئی بنیادی تبدیلی سب سے پہلے کرنے کی ہے‘ تو وہ یہی ہے‘ کہ جس طرح فرد کو مسلمان بنانے کے لیے کلمہ پڑھایا جاتا ہے اسی طرح اسے بھی کلمہ پڑھایا جائے۔ ایک حکومت کو کلمہ پڑھانے کے لیے جو دستوری طریقہ ہوسکتا ہے اسے ہم نے ایک مطالبہ کی شکل میں مرتّب کیا ہے۔ میں اسے پڑھ کر سناتا ہوں ‘اور پھر اس کی تشریح کروں گا‘ تاکہ معلوم ہوجائے کہ اس اسٹیٹ کو مسلمان بنانے کے لیے پہلا قدم کیا ہونا چاہئے۔ اور اس کے مطابق کیا جدوجہد کی جانی چاہیے!
دستوری ’’مطالبہ‘‘
مذکورہ مطالبہ جو اس موقع پر پڑھ کر سنایا گیا درج ذیل ہے:
’’چونکہ پاکستان کے باشندوں کی عظیم اکثریت اسلام کے اصولوں پر ایمان رکھتی ہے‘ اور چونکہ پاکستان کی آزادی کے لیے مسلمانوں کی ساری جدوجہد اور قربانیاں صرف اسی خاطر تھیں‘ کہ وہ ان اصولوں کے مطابق زندگی بسر کر سکیں‘ جن پر وہ ایمان رکھتے ہیں‘
لھذا
اب قیام پاکستان کے بعد ہر پاکستانی مسلمان‘ دستور ساز اسمبلی سے یہ مطالبہ کرتا ہے‘ کہ وہ اس بات کا اعلان کرے کہ:۔
۱- پاکستان کی بادشاہی صرف اﷲ تعالیٰ کے لیے ہے‘ اور حکومت پاکستان کی کوئی حیثیت اس کے سوا نہیں ہے‘ کہ وہ اپنے بادشاہ کی مرضی اس کے ملک میں پوری کرے۔
۲- پاکستان کا بنیادی قانون اسلامی شریعت ہے۔
۳- وہ تمام قوانین جو اسلامی شریعت کے خلاف اب تک جاری رہے ہیں‘ منسوخ کیے جائیں گے‘ اور آئندہ کوئی ایسا قانون نافذ نہ کیا جائے گا‘ جو شریعت کے خلاف ہو۔
۴- حکومت ِپاکستان اپنے اختیارات ان حدود کے اندر استعمال کرے گی ‘جو شریعت نے مقرر کر دی ہیں۔‘‘
اس مطالبہ کی حقیقت کو سمجھنے کے لیے یہ جان لینا چاہئے کہ جب کسی ملک کا دستور مرتّب کیا جاتا ہے‘ تو سب سے پہلے بطور اصول موضوعہ یہ طے کیا جاتا ہے‘ کہ کن اصولوں کے مطابق نظام بنانا ہے۔ ابھی آپ کے سامنے ہندستان کا دستور بن چکا ہے‘ اور وہاں آپ دیکھ چکے ہیں‘ کہ سب سے پہلے ملک کی دستور سازاسمبلی نے ایک قرار داد مقاصد پاس کر کے ان مقاصد (objectives)کا تعین کیا ہے‘ جن کے لیے وہاں کی حکومت کام کرے گی۔ بالکل اسی طرح پاکستان میں بھی دستور سازی کاپہلا قدم یہی ہوسکتا ہے‘ کہ مقاصدکو طے کر لیا جائے۔ انہی مقاصد کو ہم نے دستوری زبان میں چار نکات کی صورت میں مرتّب کیا ہے۔ اب میں اس کی ایک ایک شق کی تشریح کرتا ہوں۔
پہلی شق کی تشریح:۔
خدا کی حاکمیت
سیاست اور دستور(constitution)میں بنیادی سوال یہ ہوا کرتا ہے‘ کہ حاکمیت(sovereignty)کس کی ہے؟ اگر حاکمیت کسی شخص یا کسی خاندان کے لیے مخصوص کی جاتی ہے‘ تو پھر حکومت کی پوری مشینری اسی شخص یا خاندان کی مرضی کے گرد گھومتی ہے۔ اگر حاکمیت (sovereignty)ملک کے عام باشندوں کی ہو‘ اور مالک الملک خود ملک کے عوام ہوں‘ تو پورا نظام باشندگان ملک کی مرضی کے گرد گھومتا ہے‘ اور حکومت کے تمام ذرائع اور طاقتیں اس لیے استعمال ہوتی ہیں‘ کہ ان مالکان ملک‘ یعنی عام لوگوں کے منشا کو پورا کیا جائے۔ یہ ایک بنیادی سوال ہے‘ اس لیے ہم نے سب سے پہلے اسی کو رکھا ہے۔ پاکستان کے باشندے چونکہ مسلمان ہیں‘ اسے لیے وہ مالک الملک نہیں ہوسکتے۔ ان کے مسلمان ہونے کا مطلب ہی یہ ہے‘ کہ وہ اپنی حاکمیت اور آزادی سے خدا کے حق میں دست بردار ہوچکے ہیں۔ اب ان کا مقصد زندگی ہی یہ ہے‘ کہ وہ ہر شعبہ زندگی میں خدا کی حاکمیت کو تسلیم کر کے اسی کے منشا کو پورا کریں۔
پس مسلمانوں کی قائم کی ہوئی حکومت بھی اسی صورت میں مسلمان ہوسکتی ہے‘ جب کہ وہ اﷲ تعالیٰ کو مالک الملک مان کر اس کی مرضی کو پورا کرنے کا فیصلہ کر لے۔
بعض لوگوں نے اس مطالبہ کو یہ شکل دی ہے‘ کہ حکومت یہ اعلان کرے کہ اس کا مذہب اسلام ہے۔ ہمارے نزدیک یہ کافی نہیں‘ اس لیے کہ بہت سے ملک ایسے ہیں‘ جنہوں نے اپنے دستور (constitution) میں اپنی حکومت کا مذہب اسلام ہی قرار دے رکھا ہے‘ لیکن وہاں حاکمیت کسی فرد یا خاندان یا عام باشندگان ملک کی ہے‘ میں کسی ملک کا نام لینا نہیں چاہتا کیونکہ ہم ایک آزاد قوم ہیں‘ اور ہم کسی ہمسایہ ملک سے اپنے تعلقات بگاڑنا نہیں چاہتے‘ بہرحال جب تک کوئی حکومت حاکمیت (sovereignty) کو اﷲ تعالیٰ کے لیے مخصوص نہ قرار دے لے‘ دستوری حیثیت سے وہ اسلامی حکومت نہیں بن سکتی۔ یہی وجہ ہے‘ کہ ہم اپنی دستور ساز اسمبلی سے پہلا مطالبہ اسی بات کا کرتے ہیں‘ کہ وہ اﷲ تعالیٰ کی حاکمیت پر ایمان لانے کا صاف صاف اعلان کرے۔
دوسری شق کی تشریح:۔
پاکستان کا بنیادی قانون
دوسری شق پہلی شق کا منطقی نتیجہ ہے‘ چونکہ مالک الملک خدا ہے‘ اس لیے اسی کی مرضی کو بنیاد ی قانون کی حیثیت حاصل ہونی چاہئے۔ اس شق کو مان لینے کے بعد یہاں کی پارلیمنٹ کا حقِ قانون سازی محدود(limited)ہو جاتا ہے‘ اور ہماری اسمبلیوں کے اختیارات دوسری اسمبلیوں کی طرح غیر محدود نہیں رہتے۔ دوسرے لفظوں میں ہماری اسمبلیاں خدا کی ہدایت سے آزاد ہوکر کوئی قانون سازی نہیں کر سکتیں۔ بلکہ ان کے لیے دستوری طور پر لازم ہوجائے گا‘ کہ جو قوانین اﷲ تعالیٰ نے صاف طور پر بتا دئیے ہیں انہیں وہ جوں کا توں بے چون وچرا قبول کر لیں‘ اور انکو پاکستان کے بنیادی قانون کی حیثیت سے نافذ العمل کریں‘ رہے وہ احکام جن کی ایک سے زیادہ تعبیریں ممکن ہیں‘ ان کی مختلف تعبیروں میں سے کسی ایک تعبیر کو اختیار کر نے کا حق ان لوگوں کو ہوگا‘ جو کتاب وسنّت کا علم اور فہم رکھتے ہوں۔ پھر جن امور کے متعلق خدا اور رسول ؐ نے کوئی واضح احکام نہیں دئیے۔وہاں واضح احکام نہ دے کر خدا اور رسول ؐ نے خود یہ ظاہر کر دیا ہے‘ کہ ان معاملات کے بارے میں مسلمانوں کی جماعت آزاد ہے‘ کہ وہ اپنی ضرورت کے مطابق واعد وضوابط بنائے اور اس کام کے لیے مسلمان عوام بہرحال ان لوگوں ہی کو متعین کر سکتے ہیں‘ جو اجتہاد کی صلاحیت رکھتے ہوں۔
تیسری شق کی تشریح:
شریعت اسلامی کا احیا
یہ شق دوسری شق کا منطقی نتیجہ ہے۔ اس کا منشا یہ ہے‘ کہ جس شریعت کو منسوخ کر کے انگریز نے اپنے قوانین جاری کیے تھے اب وہی شریعت پھر نافذ ہونی چاہئے۔ اور انگریز کی بنائی ہوئی ’’کا فرانہ شریعت‘‘ کو اب منسوخ کرنا چاہیے۔ اب اس ملک کا ہر قانون شریعت اسلامی کے مطابق ہوگا ‘اور کسی کو یہ حق حاصل نہیں ہوگا کہ شریعت کے خلاف کوئی قانون بنا دے۔ اب اگر کوئی مسودہ قانون شریعت کے خلاف یہاں کی پارلیمنٹ میں پیش ہوگا‘ تو وہ ازروئے دستور ردّ کر دیا جائے گا‘ اور اگر کوئی ایسا قانون پاس ہوہی جائے‘ تو اس کے خلاف عدالت میں دعویٰ دائر کر کے اس قانون کو منسوخ کرایا جا سکے گا۔
چوتھی شق کی تشریح:۔
اسلامی حکومت کی عام پالیسی
کسی نظام کا انحصار صرف قانون پر نہیں ہوتا‘ بلکہ اس عام پالیسی پر ہوتا ہے‘ جس پر نظامِ حکومت کو چلایا جاتا ہے۔ حکومت کو تعلیم وتربیت کے لیے ایک نظام بنانا ہوگا‘ وہ فوج اور پولیس کی تربیت کے لیے کوئی پالیسی اختیار کرے گی‘ وہ مالیات کا نظام چلانے کے لیے کوئی خاص نقشہ کار تجویز کرے گی‘ وہ صلح وجنگ اور بین الاقوامی تجارت اور سفارتی ومعاہداتی تعلقات کے لیے کوئی خاص روش اپنائے گی۔ ہم چاہتے ہیں‘ کہ حکومت یہ سارے کام ان حدود کے اندر رہ کر کرے‘ جو اسلام نے اس کے لیے مقرر کر دی ہیں‘ اگر ہماری حکومت اپنے اختیارات کو مختلف داخلی وخارجی معاملات میں اسلام کی مرضی کے خلاف استعمال کرے‘ تو اسلامی قانون کا اجراء بے معنی ہوجاتا ہے۔ اسی لیے ہم نے اس شق کو بھی اپنے مطالبہ میں شامل کر دیا ہے‘ تاکہ اگر اسلامی حدود سے باہر جا کر کوئی پالیسی اختیار کی جائے‘ تو اس کے خلاف بھی عدالت میں دعوے دائر کر کے اسے بدلوایا جا سکے۔
تبدیلی کا نقطہ آغاز
میرے خیال میں اس تشریح کے بعد ’’مطالبہ‘‘ کا ٹھیک ٹھیک مفہوم سمجھنے میں کوئی دشواری نہ ہوگی۔ کسی اسٹیٹ کو مسلمان بنانے کے لیے سب سے پہلا قدم یہی ہوسکتا ہے‘ جس کا تقاضا اس مطالبہ میں کیا گیا ہے پس اگر ہم اپنے ملک میں اسلامی نظامِ حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں‘ تو سب سے پہلے ہمیں حکومت سے اس مطالبہ کو منوانا چاہئے۔ اور اگر اس مطالبہ کو مان لیا جائے‘ تو دوسرا قدم یہ ہوگا کہ ایسے اہلِ علم کی ایک کمیٹی بنائی جائے‘ جو قرآن وحدیث کے ساتھ ساتھ دستور (constitution)اور قانون (law)دونوں کو خوب اچھی طرح سمجھتے ہوں۔ وہ باہم سر جوڑ کر بیٹھیں اور یہ طے کریں کہ قرآن وحدیث کی رُو سے وہ کون سے اصول ہیں‘ جنہیں پاکستان کا بنیادی قانون قرار پانا چاہیے۔ اور خلافت راشدہ سے وہ کون کون سی باتیں حاصل ہوتی ہیں‘ جن کو نظائر (precedents) کی حیثیت سے پیشِ نظر رکھنا ہوگا۔ لیکن یہ معاملہ تو بہرحال بعد کا ہے‘ اور جب اس کا وقت آئے گا‘ تو یہ بھی ہوجائے گا۔ اس وقت تو سب سے اہم معاملہ یہی ہے‘ کہ حکومت پاکستان اپنے دستور کی زبان سے اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کرے۔ اس لیے اگر پاکستان کے لوگ فی الواقع یہ چاہتے ہیں‘ کہ یہاں کا نظامِ حکومت اسلامی ہو‘ تو وہ اس مطالبہ کواپنا مطالبہ بنائیں۔ یہ میرا یا کسی پارٹی کا مطالبہ نہیں ہے‘ اس میں کسی شخص کو ’’شیخ الاسلام‘‘ بنانے کا‘ یا کسی خاص فرقے کے علما کو عہدے دلوانے کا یا کسی خاص سیاسی پارٹی کے حقوق منوانے کا کوئی سوال شامل نہیں ہے‘ بلکہ یہ مطالبہ پوری اُمت کا ایک عام اجتماعی مطالبہ ہے۔
مطالبہ کیوں؟
اس مطالبہ کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ یہاں ایک مصنوعی انقلاب رونما ہوگیا ہے۔ اگر یہ انقلاب اسلامی اصولوں کے مطابق فطری طور پر رونما ہوا ہوتا‘ تو اس مطالبہ کی ضرورت پیش نہ آتی‘ بلکہ انقلاب کے ساتھ ہی آپ سے آپ اس ملک میں اسلامی حکومت قائم ہوجاتی۔ لیکن بحالاتِ موجودہ ایک مصنوعی انقلاب کے بعد جتنا اس امر کا امکان ہے‘ کہ یہاں اسلامی نظام قائم ہوجائے‘ اتنا ہی اس امر کا بھی امکان ہے‘ کہ ایک غیراسلامی نظام اس ملک پر مسلّط کر دیا جائے۔ اس لیے اسلامی نظام اب ایک منظم اور پُرزور مطالبے ہی کے ذریعے قائم کیا جا سکتا ہے۔ اس مطالبے کے لیے جدوجہد کرنے کی ضرورت اس وجہ سے بھی ہے‘ کہ جن لوگوں کے ہاتھ میں ہم نے اپنی باگیں دے دی ہیں وہ ایک مدّت سے متضاد باتیں کہہ رہے ہیں۔ یہ حضرات کبھی یہ کہتے ہیں‘ کہ ہمارے پاکستان حاصل کرنے کے کوئی معنی ہی نہیں‘ اگر یہاں اسلامی نظامِ حکومت قائم نہ کیا جائے۔کبھی کہتے ہیں‘ کہ یہاں ایک لادینی جمہوری اسٹیٹ(secular democratic state)قائم کیا جائے گا۔ کبھی کہتے ہیں‘ کہ یہاں قرآن کی حکومت ہوگی۔ اور کبھی یہ اعلان کرتے ہیں‘ کہ یہاں سیاسی حیثیت سے نہ ہندو ہندو ہوگا‘ نہ مسلمان مسلمان‘ بلکہ سب محض پاکستانی ہوکے رہیں گے۔ پھر اسلامی حکومت کی بھی مختلف تعبیریں کی جاتی ہیں۔ کبھی اس کی تعبیر یہ کی جاتی ہے‘ کہ یہ انصاف اور مساوات اور اخوت کا ہم معنی ہے‘ اور کبھی ’’اسلامی سوشل ازم‘‘ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ نہ معلوم یہ اسلامی سوشل ازم کیا چیز ہے؟ میرا خیال ہے‘ کہ یہ لوگ خود بھی اس کا مطلب نہیں جانتے۔ کبھی یہ اسلامی جمہوریت کا بھی چرچا کرتے ہیں۔ ہم ان سے صاف صاف کہے دیتے ہیں‘ کہ اگر موجودہ نظام جمہوری نظام ہے‘ اور اس میں آپ عوام کے نمائندوں کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں‘ تو آپ کا فرض ہے‘ کہ لوگ جس معنی میں اسلامی نظام کے خواہش مند ہیں‘ آپ اسی معنی میں اسے قائم کریں‘ آپ کو اور کچھ کرنے کا حق ہی نہیں پہنچتا۔
مطالبہ کرنے کی دوسری وجہ
پھر یہ مطالبہ کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے‘ کہ ہم نے جن لوگوں کے ہاتھ میں اختیارات دئیے ہیں ان میں سے بعض ان اختیارات کواسی خلافِ اسلام طریق پر استعمال کر رہے ہیں‘ جو قوم کو اسلام سے ہٹا کر غیر اسلام کی طرف لے جانے والا ہے۔ ان میں سے ایک اچھا خاصا گروہ ایسا ہے‘ جو اسلام کے اصولوں پر فی الواقع عقیدہ نہیں رکھتا۔ جنہوں نے مغربی اصولوں کو اپنے لیے اور اپنی نسلوں کے لیے پسند کر لیا ہے‘ اور اپنے گھروں کی فضا کو ان کے مطابق ڈھال لیا ہے۔ یہ چاہتے ہیں‘ کہ جتنے یہ خود بگڑے ہیں‘ اتنا ہی پوری قوم کو بگاڑ دیں‘ اور اس کام کے لیے وہ ان اختیارات کو استعمال کر رہے ہیں‘ جو قوم نے ان کے ہاتھ میں دئیے ہیں‘ اس بارے میں جو کچھ ہورہا ہے‘ اس کی بے شمار مثالیں دن رات ہمارے سامنے آتی رہتی ہیں‘ میں اس کی صرف ایک مثال پیش کرتا ہوں۔ یہ ہمارے ایک فوجی بھائی کا خط ہے‘ جو اخبار ’’کوثر‘‘ لاہور کے ۲ فروری ۱۹۴۸ء کے پرچہ میں اور ’’جہان نو‘‘ کراچی کی ۹ اپریل کی اشاعت میں شائع ہوچکا ہے۔
(خط پڑھ کر سنایا گیا جس میں ملٹری آفیسرز کے ایک تفریحی مجمع کا افسوس ناک نقشہ مذکور تھا۔ جہاں کنگ جارج اور قائد اعظم کے جامِ صحت کے طورپر شراب پی گئی۔ ماتحت افسروں کو بیویوں کے بے پردہ کرنے کی تلقین کی گئی اور اس کو ترقی منصب کا لازمہ قرار دیا گیا‘ ’’نماز‘‘ کو فوجی فرائض کے مقابلہ میں مُوّخر رکھنے کے لیے ریمارک دئیے گئے۔)
یہ ایک مثال ہے‘ اور اس قسم کی بہت سی مثالیں ہمارے سامنے روز آرہی ہیں‘ ایک جگہ ایک چپراسی نماز کے لیے گیا‘ تو اسے ڈانٹا گیا۔ لاہور کے کالج کا واقعہ ہے‘ کہ لدھیانہ کا ایک طالب علم جس نے جوشِ ایمان کے تقاضے سے اپنی صورت مسلمانوں کی سی بنا رکھی تھی‘ جب کالج میں داخلہ کے لیے گیا‘ تو پرنسپل صاحب نے انٹرویو میں فرمایا کہ تمہارے چہرے پر ڈاڑھی ہے‘ تم کسی مسجد میں جا کر ملاں بن جائو‘ کالج سے تمہیں کیا واسطہ؟ ’’جہان نو‘‘ کی ۹ اپریل کی اشاعت میں ایک مراسلہ شائع ہوا ہے‘ جس سے معلوم ہوتا ہے‘ کہ محکمہ فوج میں ڈاڑھیوں پر پابندی لگائی جا رہی ہے۔ میں دریافت کرنا چاہتا ہوں‘ کہ ہماری فوج کے ان اعلیٰ عہدے داروں کو کبھی کسی سِکھ پر بھی اس قسم کے اعتراض کرنے یا اس طرح کی پابندیاں لگانے کی جرات ہوتی تھی؟ میں نے یہ اخبار جس میں ہمارے فوجی بھائی کا خط چھپا ہے‘ یہاں کراچی بھیجا‘ اور دستور ساز اسمبلی کے ارکان کے پاس بھجوایا کہ وہ حکومت سے پوچھیں کہ کیا یہ گورنمنٹ کی پالیسی ہے‘ یا محض افسرانِ حکومت کی ذاتی روش ہے؟ لیکن کوئی شخص اس سوال کو اُٹھانے کے لیے تیار نہ ہوسکا۔ یہ بات ظاہر کرتی ہے‘ کہ وہ اس کی کوئی اہمیت محسوس نہیں کرتے‘ یا کم از کم اس کی طرف سے بے اعتنائی برتنا چاہتے ہیں۔
’’دلیل معہ قوّت‘‘ کی ضرورت
پھر اس مطالبے کی ضرورت اس لیے بھی پیش آئی‘ کہ ہمارے یہ رہنما انگریز کے شاگرد ہیں۔اگر یہ دلیل سے ماننے والے ہوتے‘ تو ایک آدمی کا کہہ دنیا کا فی ہوتا۔ لیکن یہ اس طرح سے ماننے والے نہیں ہیں یہ کسی بات کو اس وقت تک نہیں مانتے‘ جب تک اس کے پیچھے قوّت نہ ہو‘ہم نے خود اس مطالبہ کو بھی دستور ساز اسمبلی کے ارکان کے پاس بھجوا کر حالات کو جانچنے کی کوشش کی ہے‘ اور ہمیں افسوس سے کہنا پڑتا ہے‘ کہ انہوں نے اس کو قابلِ اعتنا نہیں سمجھا‘ اور کوئی رکن اسے دستور ساز اسمبلی میں غور وبحث کے لیے پیش کرنے پر آمادہ نہیں ہوسکا۔ اس لیے اب ہم اس مطالبے کو لے کر قوم کے سامنے آئے ہیں۔ اب یہ فیصلہ آپ کو کرنا ہے‘ کہ آپ کو اسلامی حکومت درکار ہے‘ یا نظامِ کفر؟
منظم اور متحدہ مطالبہ
میں مسلمانوں کے تمام گروہوں سے کہتا ہوں کہ یہاں شخصیتوں اورگروہوں کا سوال نہیں ہے‘ بلکہ ہم سب خدا کے سامنے جوابدہ ہیں۔ اگر ہمارے ہاتھوں سے یا ہماری نگاہوں کے سامنے یہاں غیراسلامی نظام قائم ہوگیا‘ تو ہم سب اس کی عدالت میں پکڑے جائیں گے‘ اس لیے آپ اپنے سارے اختلافات کوبھول جائیے۔ آپ اگر آرام سے بیٹھے رہے تو یہ کام نہیں ہوسکے گا۔ اس مطالبہ کو منوانے کے لیے تمام ضروری تدابیر اختیار کیجیے‘ اور آپ کو خوب معلوم ہے‘ کہ کسی مطالبہ کو منوانے کے لیے کیا کیا تدابیر اختیار کی جاتی ہیں۔ ابھی ابھی آپ نے پاکستان کا مطالبہ منوا کر جو تجربہ کیا ہے اس سے فائدہ اُٹھائیے‘ اور جن صحیح اور موثر تدابیر کو آپ نے اس مطالبہ کو منوانے میں استعمال کیا ہے‘ ان سب کو نظام اسلامی کے مطالبے کے لیے بھی اختیار کیجیے۔ یہ مطالبہ بھی مخلصانہ کوشش چاہتا ہے یہ بھی منظم اور متحد طاقت چاہتا ہے‘ اور یہ بھی مال اور وقت اور آرام کی قربانیاں چاہتا ہے۔ اگر ان شرائط کو پورا کر کے آپ یہ ثابت کر دیں کہ یہ قوم کا اجتماعی مطالبہ ہے‘ تو کس طرح ممکن ہے‘ کہ آپ کے لیڈر اس کے خلاف جائیں۔ آپ اس کے لیے جلسے کیجیے‘ اس کے لیے ریزو لیوشن پاس کیجیے‘ اس کے پوسٹر آویزاں کیجیے۔ اس کو ریل کے ڈبوں اور موٹر بسوں میں لکھوائیے‘ اسے اپنی خط وکتابت کے کارڈوں اور لفافوں پر طبع کرائیے‘ تاکہ اس مطالبے کے چار نکات آپ کے بچے بچے کی زبان پر چڑھ جائیں۔

مسلم لیگی بھائیوں کی ذمّہ داری
میں اپنے مسلم لیگی بھائیوں سے کہتا ہوں کہ آپ نے پاکستان اسلامی حکومت قائم کرنے کے لیے مانگاتھا‘ آپ نے سب کچھ اسلام کے نام پر کیا‘ اب آپ آزمائش میں ڈال دئیے گئے ہیں۔ اس آزما ئش پر آپ پورے اُترنا چاہتے ہیں‘ تو اس مطالبہ کو اپنا مطالبہ بنائیے۔ اسے ابتدائی مسلم لیگوں سے پاس کرائیے‘ پھر صوبائی مسلم لیگوں کے سامنے یہ مسئلہ لائیے‘ اور پھر جو لوگ اس مطالبے سے متفق نہ ہوں‘ انہیں لیگ سے باہر نکال دیجیے۔ اب اشتراکیوں اور ملحد قسم کے لوگوں کے مسلم لیگ پر قابض رہنے کی کوئی وجہ باقی نہیں رہی ہے۔ اگر یہ دونوں باتیں ہوجائیں‘ تو پھر مسلم لیگ اور جماعت ِاسلامی میں کوئی اختلاف باقی نہیں رہتا‘ بلکہ دونوں قریب قریب ایک ہوجاتی ہیں۔
تعلیم یافتہ طبقہ کا فرض
میں اپنے ملک کے تعلیم یافتہ طبقے سے بھی اپیل کرتا ہوں‘ کہ وہ وقت کی نزاکت کو محسوس کریں۔ ان پر اس سلسلہ میں بڑی ذمّہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ کسی ملک کی قوّت لوہا اور کوئلہ نہیں ہے‘ بلکہ اس کے سوچنے اور سمجھنے والے لوگ ہی اس کی اصلی قوّت ہوتے ہیں‘ آپ حضرات قوم کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ آپ کو فیصلہ کرنا چاہیے کہ آپ کو اپناوزن کس پلڑے میں ڈالنا ہے؟ اگر آپ کو اپنے اطمینان کے لیے دلائل درکار ہیں‘ تو ہم آپ کے تمام شکوک وشبہات دور کرنے کے لیے تیار ہیں‘ اور آپ کو مطمئن کر سکتے ہیں‘ کہ آپ کی‘ آپ کی قوم کی‘ بلکہ پوری دنیا کی فلاح اسی میں ہے‘ کہ یہاں اسلامی نظامِ حکومت قائم ہو۔اگر آپ اس پر مطمئن ہوچکے ہیں‘ تو آپ کی ساری قوّتیں اور قابلیتیں اس کی تائید میں صرف ہونی چاہیں۔ پہلے پاکستان بننے کا مقصد بھی قوم کو اس وقت تک حاصل نہیں ہوا‘ جب تک آپ نے اپنا سارا وزن اس پلڑے میں نہیں ڈالا۔ اب نظامِ اسلامی قائم کرنے کا مقصد بھی اسی وقت پورا ہوگا‘ جب کہ آپ اپنا پورا وزن اس پلڑے میں ڈال دیں گے۔
علما مشائخ سے گزارش
میں علما اور مشائخ سے بھی کہتا ہوں‘ کہ براہ کر م جزئی اختلافات کو چھوڑ دیجئے‘ اور اپنی ساری کوششیں اس کام پر مرتکز کر دیجئے۔ اگر یہ اصلاح ہوگئی‘ تو سارے مسائل حل ہوجائیں گے۔ آپ کو معلوم ہے‘ کہ جب کسی ملک میں غیراسلامی نظام نافذ ہوجاتا ہے‘ تو ایک ایک کر کے اس میں سے اسلام کے سارے نشانات مٹ جاتے ہیں۔ آپ کو معلوم ہے‘ کہ دنیا میں ایک ملک ایسا بھی ہے‘ جس نے مسلمان ہوتے ہوئے حج کو برسوں ممنوع رکھا‘ قرآن کے قوانین کو منسوخ کر کے ان کے بجائے دوسرے قوانین بنائے‘ قرآن مجید نے عورت کا حصّہ وراثت میں مرد سے آدھا رکھا ہے‘ اس نے ازروئے قانون عورت کا حصّہ مرد کے برابر کر دیا‘ ہمارے ملک میں اب تک اسلام سے جو رعایات روا رکھی گئی ہیں‘ اور جو نرمی کا سلوک اس سے کیا گیا ہے اس کی وجہ یہ تھی کہ یہاں ایک غیر قوم کی حکومت تھی‘ اور اس کی مصلحت اسی میں تھی کہ وہ مذہب کے معاملہ میںذرا ڈھیل دے دے۔ لیکن اگر آپ کے اپنے ووٹوں سے یہاں لادینی حکومت قائم ہوگئی‘ تو پھر اسلام کا نشان اس ملک میں باقی نہ چھوڑا جائے گا۔ کیونکہ آپ کو معلوم ہے‘ کہ اس دنیا میں ایک مسلمان ملک کی حکومت ایسی بھی ہے‘ جس نے لادینی نظام قائم کرنے کے بعد دینی تعلیم کو قانون کی طاقت سے حرام کر دیا ہے۔ اس لیے آپ اب جزئیات اور فروعات کو بھول جائیے‘ اور ساری قوّت اس کام پر اور اس بنیادی اصول کو منوانے پر صرف کر دیجیے‘ کہ یہاں کا نظام اپنی بنیادی فطرت کے لحاظ سے صحیح معنوں میں اسلامی ہوگا۔
یہ جو کبھی کہا جاتا ہے‘ کہ شراب بند کی جائے ‘کبھی یہ کہ زنا کے اڈے اڑا دئیے جائیں‘ تو یہ کام تو کانگریسی حکومت بھی کرتی رہی ہے۔ کیا ان کاموں کے کرنے سے کوئی حکومت اسلامی حکومت ہوجائے گی؟ پھر کبھی یہ کہا جاتا ہے‘ کہ مسلمانوں کا ایک بیت المال قائم کیاجائے‘ جس میں زکوٰۃ کی وصولی اور صرف کا انتظام کیا جائے۔ لیکن یہ تو وہ حقوق ہیں‘ جو کبھی ہم نے اپنی اسلامی حکومتوں میں اپنے ہاں کے ذمیوں کو دئیے تھے‘ اور جو امریکہ‘ رومانیہ اور یوگو سلاویہ‘ بلکہ روسی ترکستان تک کی حکومتوں نے اپنی مسلمان رعایا کو دے رکھے ہیں۔ کیا ان باتوں سے کوئی نظامِ حکومت اسلامی نظام میں بدل جاتا ہے؟
جزئی مطالبات چھوڑ دیجیے
ہم تو وہ حکومت چاہتے ہیں‘ جس کی ساری اسمبلیاں اور وزارتیں نظامِ تعلیم اور نظامِ عدالت اور پورے کا پورا مالیاتی نظام‘ اسلام کے سانچے میں ڈھل جائے۔ ہم یہ نہیں چاہتے کہ بیت المال توعلما کی تحویل میں رہے‘ اور مالیات کا نظام غیراسلامی ہاتھوں میں رہے‘ ہم تو یہ چاہتے ہیں‘ کہ ملک کا پورا خزانہ اسلامی بیت المال میں بدل جائے‘ لہٰذا براہ کرم آپ حضرات چھوٹی چھوٹی چیزیں نہ مانگیے‘ ورنہ ایسی دو ایک چیزیں دے کر آپ کو مطمئن کر دیا جائے گا‘ پھر اگر آپ اس کے بعد کوئی اور جزئی مطالبات سامنے لائیں گے تو کہا جائے گاکہ یہ مُلّا لوگ نہایت نامعقول ہیں‘ ان کے مطالبات کبھی ختم نہ ہوں گے‘ اور یہ ملک کی ترقی اور استحکام کے راستے میں خواہ مخواہ روڑے اٹکاتے رہیں گے‘ پس آپ اپنی ساری قوّت اس بنیادی مطالبے کے منوانے پر صرف کیجیے‘ جس کے اندر آپ کے سارے مطالبات مضمر ہیں۔
سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کو تنبیہ
اب میں کچھ باتیں اپنے ملک کے جاگیر داروں اور سرمایہ داروں سے کہنا چاہتا ہوں۔ آپ حضرات نے ناجائز طریقوں سے جو کچھ سمیٹ رکھا ہے۔ اسے تو اب بہرحال جانا ہے‘ سرمایہ پرستانہ طور طریقوں کا اب زمانہ نہیں رہا۔ اب روپے کی خدائی کا تخت متزلزل ہورہا ہے‘ اب دوسروں کی محنتوں سے ناجائز فائدہ اُٹھانے اور اسراف اور عیاشی کی زندگی کے لیے دوسروں کی کمائیوں میں سے سرمائے کے زور پر اپنے حق سے زائد وصول کرنے کا سلسلہ بہرحال ختم ہونا ہے۔ ان چیزوں کو ختم کرنے کے لیے آپ دو ہاتھوں میں سے ایک ہاتھ کو پسند کر لیجیے۔ ایک ہاتھ وہ ہے‘ جو آپ کے خود ساختہ حقوق اور اعزازات کے ساتھ خود آپ کو بھی مٹا دے گا‘ اور دوسرا ہاتھ وہ ہے‘ جو جب بھی اُٹھے گا انتقام کے لیے نہیں انصاف کے لیے اُٹھے گا ‘اور وہ آپ سے صرف اتنا ہی چھینے گا‘ جو آپ نے ناجائز طور پر سمیٹ رکھا ہے۔ اگر آپ نے انصاف کرنے والے خدا پرست ہاتھ کو پسند نہ کیا تو پھر یہاں دوسرا انتقامی ہاتھ بھی بہرحال دراز دستی کے لیے موجود ہے‘ اور وہ اپنا کام کر کے رہے گا!
مزدوروں اور کسانوں سے اپیل
اسی طرح میں اپنے ملک کے مزدوروں اور کسانوں سے بھی کچھ کہنا چاہتا ہوں ‘اور وہ یہ ہے‘ کہ آدمی صرف روٹی کے لیے نہیں جیتا‘ آدمی کے لیے سب سے زیادہ ضروری چیز آدمیت ہے اگر آپ کو کوئی ایسا نظام ملے‘ جو آپ کے لیے روٹیوں کا تو انتظام کر دے‘ مگر آپ کی آدمیت کو ختم کر دے‘ تو اسے ہر گز قبول نہ کیجیے۔ ایک نظام ایسا بھی موجود ہے‘ جو آپ کو روٹی بھی دیتا ہے‘ اور آپ کی آدمیت کا بھی انتظام کرتا ہے۔ وہ آپ کے مسئلے بھی حل کرتا ہے‘ اور آپ کو روحانیت اور انسانیت کے مدارج بھی طے کراتا ہے۔
مسلم عوام سے خطاب
اب میں مسلمان عوام سے چند باتیں کہنا چاہتا ہوں۔آپ کو سمجھنا چاہیے کہ اسلام کیا ہے‘ اگر آپ اسلام کی حقیقت سے ناواقف رہے تو ہوسکتا ہے‘ کہ اسلام کا نام لے کر آپ کو کفر کی طرف دھکیل دیا جائے‘ شراب کی بوتل پر شربت کا لیبل لگا کر اسے آپ کے ہاتھ فروخت کیا جائے‘ اور آپ اسے لپک کر لے لیں‘ یہاں ایک غیراسلامی نظام قائم کر دیا جائے‘ اور اس کے ساتھ کچھ نمائشی چیزیں اسلام کی شامل کر دی جائیں‘ اور آپ ان نمائشی چیزوں سے دھوکا کھا کر مطمئن ہوجائیں کہ بس اب اسلامی نظام قائم ہوگیا۔
ہم نے اپنی ساری قوّت اس مقصد پر لگا دینے کا فیصلہ کر لیا ہے‘ کہ ملک کے عوام میں صحیح اسلامی شعور بیدار ہو۔ ہم ان کو جھنڈوں اور جلوسوں اور جذباتی نعروں سے ایک کھوکھلے اشتعال میں مبتلا کرنے کا طریق کار صحیح نہیں سمجھتے‘ اور نہ یہ چاہتے ہیں‘ کہ وہ اندھے جذبات کی رُو سے بہنے لگیں۔ بلکہ ہم ان کے اندر اسلام کے لیے جینے اور مرنے کا شعوری ولولہ پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے‘ کہ اگر ہمارے ملک کی حکومت کے لیے ایک ایسا دستور بنا دیا جائے‘ جو سو فیصدی اسلامی ہولیکن اس کی پشت پر اسلامی سوسائٹی نہ ہو‘ تو وہ اسلامی دستور کوئی حقیقی نتیجہ نہیں دکھا سکتا‘ اور نہ اس کے بل پر اسلامی نظام چل سکتا ہے کوئی دستور کا غذ کے اوراق پر نہیں چلا کرتا‘ بلکہ اس کا بننا اور اس کا کام کرنا اس بات پر موقوف ہوتا ہے‘ کہ ملک کے عوام کی کتنی منظم طاقت اس کو چلانے کا عزم رکھتی ہے۔ اسی لیے ہم چاہتے ہیں‘ کہ جو لوگ اسلام کو اپنے دین اور مسلک زندگی کے طورپر پسند کرتے ہیں وہ ہمارا ساتھ دیں‘ اور دین کی خدمت کے لیے منظم ہوں۔
اب میں ان عذرات کو رفع کرنے کی کوشش کروں گا‘ جو وہ طبقہ ہمارے سامنے پیش کر رہا ہے‘ جو اسلامی نظام کو پسند نہیں کرتا‘ اور اس کے قیام کامخالف ہے۔
استحکام پاکستان کا عذر
ہم سے کہا جاتا ہے‘ کہ یہ نوزائیدہ حکومت ابھی ابھی بنی ہے‘ اور جمی نہیں ہے‘ سرحد پر چاروں طرف سے خطرہ ہے۔ بس اِس وقت ساری طاقت پاکستان کو مضبوط کرنے میں صرف ہونی چاہئے‘ اور اسلامی حکومت کی بنیاد رکھنے کے کام کو ملتوی رکھنا چاہئے۔
میں کہتا ہوں کہ پاکستان کو مضبوط کرنے کی کوشش کرنا ہر اس شخص کا فرض ہے‘ جو اس میں رہتا ہے‘ لیکن دیکھنا یہ ہے‘ کہ پاکستان کے لیے اصل خطرہ کہاں ہے؟ اس کے اندر یا باہر؟ میں کہتا ہوں کہ اصل خطرہ باہر سے نہیں‘ بلکہ اندر سے ہے‘ اس لیے کہ اس کشتی کے ملاح دن رات اس میں چھید کرتے رہتے ہیں۔ان کی رشوت خوری اور اعزّہ پروریاں پاکستان کو مسلسل کمزور کر رہی ہیں‘ جن نازک حالات کا رونا یہ دن رات خود روتے ہیں‘ ان میں جو حرکات یہ لوگ خود کر رہے ہیں‘ انہیں دیکھ دیکھ کر اکثر مسلمان یہ کہتے سنے جاتے ہیں‘ کہ اگر پاکستان میں بھی یہی کچھ ہونا تھا تو ہم ہندستان میں کیا برے تھے؟ کتنے ہی مظلوم مہاجر یہ سوال کرتے پائے گئے ہیں‘ کہ کیا پاکستان ان ہی مقاصد کے لیے بنایا گیا ہے؟ یہ چیزیں ہمارے عوام کا دل توڑنے والی اور ان کے جذبات کو سرد کرنے والی ہیں۔
پاکستان کو مضبوط بنانے کے لیے ضروری ہے‘ کہ اس کے ایک ایک نوجوان اور ایک ایک فوجی سپاہی کے دل میں یہ بات بیٹھ جائے‘ کہ جب وہ لڑے گا‘ تو محض زمین کے لیے نہیں‘ بلکہ خدا کے لیے لڑے گا ‘اور اگر وہ جان دے گا‘ تو قو م کے کچھ لیڈروں اور عہدیداروں کے لیے نہیں‘ بلکہ خدا کے دین کے لیے دے گا۔ اگر آپ اپنے ہر فوجی کو اس بات پر مطمئن کر دیں کہ تیری خدمات صرف اسلام کے لیے حاصل کی گئی ہیں‘ تو پھر دیکھیے کہ وہ کس جرأت اور دلیری سے لڑتا ہے۔ ظاہر بات ہے‘ کہ ہم اپنے نوجوانوں اور اپنے سپاہیوں کے دلوں کو اطمینان دلانے کی اس کے سوا کوئی اور تدبیر نہیں رکھتے ‘کہ پاکستان میں اسلامی نظام کے قیام کا صاف صاف دستوری اعلان کر دیں۔پھر کون معقول آدمی اس حقیقت سے انکار کر سکتا ہے‘ کہ جو چیز ہم پیش کر رہے ہیں وہ پاکستان کو مستحکم کرنے والی ہے‘ اور عین اس کے استحکام ہی کے لیے اس کو کامیاب بنانے کی ضرورت ہے۔
انتشار انگیز مصیبتیں
پاکستان کو مستحکم کرنے کے لیے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے‘ کہ مختلف عناصر اور مختلف صوبے متحد ہوکر ایک بنیانِ مرصوص بن جائیں‘ لیکن جن اصولوں پر ہم آج تک کام کرتے رہے ہیں ان کا قدرتی نتیجہ یہ نمو دار ہورہا ہے‘ کہ ہر گروہ جو اپنا کوئی مختلف مفاد رکھتا ہے وہ ایک جدا گانہ عصبیت کا مظاہرہ کرتا ہے یہ بے اصول قومی وحدت پیدا کرنے والی مغربی سیاست کے زہر کا اثر ہے‘ کہ اب ایک پاکستان میں ایک مسلمان قوم نہیں‘ بلکہ پانچ علاقائی قومیں بن گئی ہیں سندھی‘ بلوچی‘ پنجابی‘ افغانی اور بنگالی ! ان سب کو یکجا کر کے بنیان مرصوص صرف اسلام ہی کے ذریعہ بنایا جا سکتا ہے۔
پھر یہاں ’’انصار‘‘ اور’’مہاجرین‘‘{ FR 2575 }کی باہمی کش مکش کے سبب سے ان کے دو الگ الگ نظام بن رہے ہیں‘ اور دو الگ الگ ریاستیں رونما ہورہی ہیں۔ اور اگر حالات اسی رفتار پر رہے‘ اور ان کا کوئی سدباب نہ کیا گیا‘ تویہ مسئلہ بھی پاکستان کے لیے ایک مستقل خطرہ بن کے موجود رہے گا۔ آپ اس واقعہ سے خطرہ کا اندازہ کیجیے کہ مشرقی پنجاب سے آئی ہوئی ایک برادری کو جب مغربی پنجاب کی سرحد پر آباد کیا گیا‘ تو وہاں کے مقامی باشندوں نے سکھوں کو دعوت دے کر ان پر حملہ کر ا دیا۔ یہ متضاد عناصر پاکستان کے لیے اس وقت تک خطرہ ہیں جب تک ان کے درمیان عصبیتّیں کام کرتی رہیں۔ ان کو اگر باہم جوڑا جا سکتا ہے‘ تو اسلامی نظام کی فضا میں اسلامی اصولوں کے ذریعہ ہی جوڑا جا سکتا ہے ورنہ ان کے ہر وقت متصادم ہوجانے کا امکان ہے۔
مسئلہ مہاجرین کا واحد حل
اگر پاکستان حاصل ہونے سے پہلے‘ ہمارے لیڈروں نے قوم کے اخلاق کی صحیح تعمیر‘ اسلامی اصول پر کرلی ہوتی‘ تو مہاجرین واقعی’’مہاجرین‘‘ ہوتے اورانصار واقعی ’’انصار‘‘ پھر ان کا مسئلہ حل کرنے میں ہمیں وہ مشکلات پیش نہ آتیں‘ جو آج دن رات درپیش ہیں۔ قوم میں اسلامی حس بے دار ہوتی تو یہاں کے لوگ اپنے گھروں سے نکل کر مشرقی پنجاب کے مظلوموں کا استقبال کرتے‘ خود زمین پر سوتے اور اپنے بستر اور پلنگ آنے والوں کے حوالے کر دیتے یہ مسئلہ کوئی آج ہی ہمارے سامنے نہیں آیا۔ اس سے پہلے بھی آچکا ہے۔ مدینہ کی چھوٹی سی بستی نے مکّہ اور عرب کے مختلف قبائل کے مہاجرین کی‘ ایک کثیر تعداد کو اس صبر وسکون سے جذب کیا‘ کہ کسی کو کانوں کان خبر بھی نہ ہوئی‘ کہ اہلِ مدینہ کو کوئی مشکل مسئلہ درپیش ہے‘ درآنحالیکہ اس زمانے میں تمدّنی ذرائع ووسائل بہت ہی ابتدائی حالت میں تھے۔ وہاں بھی اس مسئلہ کو اسلامی اسپرٹ اوراسلامی اخلاق نے حل کیا تھا‘ اور یہاں بھی اس گتھی کا واحد حل یہی ہے۔
اب یہ بات ہر شخص کے خود سوچنے کی ہے‘ کہ پاکستان کو کمزور کرنے والی شے وہ ہے‘ جسے ہم پیش کرتے ہیں‘ یا وہ ہے‘ جو اس کے خلاف کی جا رہی ہے؟
ہندستان میں ہندو حکومت کے قیام کا خدشہ
دوسرا عذریہ پیش کیا جاتا ہے‘ کہ اگر یہاں اسلامی حکومت قائم کر دی گئی تو ہندستان میں ہندو حکومت قائم ہوجائے گی۔ میں کہتا ہوں کہ کیا ہندستان میں ہندو حکومت قائم نہیں ہوچکی؟ کاغذ پر کہا جا رہا ہے‘ کہ انڈین یونین کی حکومت کا کوئی مذہب نہیں اور اس میں سب کو برابر کے حقوق حاصل ہیں‘ لیکن واقعہ یہ ہے‘ کہ وہاں مسلمانوں کو زمین پر چلنے کے بھی حقوق حاصل نہیں ہیں۔ اس لیے آپ وہاں کی فکر نہ کریں وہاں تو جو کچھ ہونا تھا‘ ہوچکا‘ دوسری بات میں یہ کہتا ہوں کہ اب تک جو نقصان ہمیں پہنچا ہے وہ اسی لیے پہنچا ہے‘ کہ ہم اسلام کا نام تو لیتے ہیںلیکن اسے اپنی زندگی کا دستور العمل نہیں بناتے۔ اگر یہاں ایک مرتّبہ اسلامی نظام قائم ہوجائے‘ جو بے لوث انصاف کے بل پر چلے اور یہاں کی حکومت وعدے کی کھری ہو‘ اور اپنے طرزِعمل سے ثابت کر دے کہ اس کے تمام معاملات عدل وانصاف اور صداقت ودیانت پر مبنی ہوتے ہیں‘ تو میں کہتا ہوں کہ نہ صرف ہندوستان کے مسلمانوں کی قسمت جاگ اُٹھے بلکہ خود ہندوستان کی قسمت بھی بدل جائے۔ آخرپہلے یہ ہندوستان کے مسلمان کہاں سے آئے تھے؟ یہیں کے ہندو ہی تو زیادہ تر مسلمان ہوئے تھے۔ تو پھر آج بھی اگر آپ دکھا دیں کہ اسلام سے ملک کا انتظام کیسا درست ہوتا ہے معاشی اور معاشرتی نظام کتنے صالح ہوجاتے ہیں‘ پالیسی کتنی بے لاگ ہوتی ہے‘ تو ہندوستان کے لوگ سوچنے لگیں گے کہ آخر کیوں نہ ہم بھی اس نظام کو اختیار کرلیں۔ وہ آپ کے دشمن تو ہوسکتے ہیں‘ مگر اپنے تو دشمن نہیں ہیں۔ یہی ایک صورت ہے‘ جس سے ہماری آٹھ سو سالہ تاریخ جس پر خط نسخ پھر گیا ہے از سرِنو زندہ کی جا سکتی ہے۔
ہندو اقلیت کا عذر
پھر یہ عذر کیا جاتا ہے‘ کہ اسلام کی حکومت کو ہندو اقلیت کیسے گوارا کرلے گی۔ یہ عذر بھی مہمل ہے۔ ابھی پچھلے دنوں سرحد اسمبلی میں کو ٹورام نے ایک ریزولیوشن پیش کیا ہے‘ جس میں سرحد اسمبلی سے مطالبہ کیا گیا ہے‘ کہ وہ دستور ساز اسمبلی کو صوبہ سرحد کے عوام کی اس خواہش سے آگاہ کرے‘ کہ وہ پاکستان میں اس نظامِ حیات کو جلد از جلد نافذ کرانا چاہتے ہیں‘ جس کی بنیاد قرآن کے قوانین پر ہو‘یہ نظام یقینا دنیا کے لیے ایک قابلِ تقلید مثال ثابت ہوگا۔
چند ہی روز پہلے میرے پاس مدراس سے ایک خط آیا ہے‘ جس میں بتایا گیا ہے‘ کہ ’’اسلام کا نظریہ سیاسی‘‘ اور ’’معاشی مسئلہ اور اس کا اسلامی حل‘‘ (میرے دور سالے) پڑھنے کے بعد ایک تعلیم یافتہ ہندو نے کہا کہ ’’ہم پر یہ چیز کبھی واضح نہیں کی گئی کہ پاکستان میں اس طرح کا صالح نظامِ حیات قائم کیا جائے گا۔ اگر مسٹر جناح اس چیز کی وضاحت فرما دیتے تو کوئی ذی فہم انسان اس کی مخالفت نہ کرتا۔
غیر مسلم اقلیتوں سے اپیل
تاہم مجھے معلوم ہے‘ کہ ہمارے ملک کے بہت سے غیر مسلم حضرات اس سے گھبرا رہے ہیں‘ کہ وہ ایک ایسی حکومت کے فرماںبردار کیسے ہوسکتے ہیں‘ جو ایک مذہب کی پابند ہو۔ اصل واقع یہ ہے‘ کہ ہمارے غیر مسلم بھائی ایک چیز کو محض نہ جاننے کی وجہ سے اس سے اختلاف کر رہے ہیں‘ حالانکہ یہ صحیح معنوں میں وہی چیز ہے‘ جسے گاندھی جی’’رام راجیہ‘‘ کہتے تھے‘ اور ہمارے عیسائی بھائی ’’آسمانی بادشاہت‘‘ کہتے ہیں۔ ہم اپنے ہندستانی ہندو بھائیوں کے شکر گزار ہوں گے‘ اگر وہ ہندستان میں حقیقی رام راجیہ قائم کردیں۔ اس رام راجیہ میں بنیادی انسانی حقوق کی حفاظت موجودہ لادینی حکومت کی بہ نسبت زیادہ بہتر طریق سے ہوگی۔ میں اپنے غیر مسلم بھائیوں کو یقین دلاتا ہوں کہ اگر یہاں اسلامی حکومت قائم ہوگی‘ تو ان کے حقوق بالکل محفوظ ہوں گے‘ اور زمین پر بھی ان کو وہی حقوق دئیے جائیں گے‘ جو کاغذ پر ہوں گے۔ لیکن اگر یہاں جمہوریت کی لادینی حکومت قائم ہوئی‘ تو یہ مسلمانوں کی ’’قومی حکومت‘‘ ہوگی‘ جس میں اکثریت اپنی مرضی کے مطابق اپنے سارے قومی تعصّبات کے ساتھ من مانی کارروائیاں کرے گی۔ اسلامی حکومت کے قائم ہونے کی صورت میں جو حقوق اسلام میں آپ کے لیے مقرر ہیں مسلمانوں کو اور ان کی حکومت کو اس کا اختیار ہی نہیں رہے گا کہ وہ ان میں کمی بیشی کریں۔ یہاں کا مسلمان اپنے اخلاقی طرزِعمل کو انڈین یونین کے یاد نیا کی کسی اور غیر مسلم قوم یا حکومت کے رویے کو دیکھ دیکھ کر نہیں بدلے گا۔ بلکہ اس کا طرز فکر یہ ہوگا کہ دوسری قومیں اور حکومتیں اگر اپنے عہد کو توڑتی ہیں‘ تو توڑیں میں مسلمان ہوکر اپنے عہد کر کیسے توڑ سکتا ہوں۔
یہ بات آپ کو معلوم ہے‘ کہ گزشتہ فسادات میں اگر کسی نے یہاں غیر مسلموں کو ظلم سے بچانے کی کوئی بے غرضا نہ کوشش کی ہے‘ تو وہ دین دار لوگ ہی تھے۔ وہ جانتے تھے‘ کہ ہندوستان میں ان کے بھائیوں کے ساتھ کیا ہورہا ہے‘ لیکن پھر بھی ان کی خدا خوفی اور انسانی ہمدردی نے انہیں زیادتی اور ظلم سے نہ صرف باز رکھا‘ بلکہ انہوں نے حتی الامکان اپنے غیر مسلم بھائیوں کو پناہ دی‘ اور محفوظ مقامات تک پہنچایا‘ اور اس کام میں اپنی جان اور مال کی ذرا پروا نہ کی۔ ہمارے پاس ایسے بہت سے واقعات کا نہ صرف یہ کہ ریکارڈ ہے‘ بلکہ خود غیر مسلم حضرات کے متعدد اعترافی خطوط ہم تک پہنچے ہیں‘ اور ہندوستان جانے والے غیر مسلموں میں سے ہزاروں اس کی گواہی دیں گے۔
اسلامی حکومت کی گارنٹی
اسلامی حکومت کی صورت میں یہاں جو گارنٹی دی جائے گی‘ وہ ہماری طرف سے نہیں‘ بلکہ خدا اور رسولa کی طرف سے ہوگی‘ حضورa کے الفاظ ہیں‘ کہ جو ذمّہ دے کر پھر خلاف عہد کرے قیامت کے روز میں خود اس کے خلاف مدعی ہوں گا ‘اور وہ جنت کی بو بھی نہ سونگھے گا۔ پھر حضورa کی آخری وصیت میں جہاں نماز اور عورتوں کے حقوق کی تاکید تھی وہاں ذمیوں کے حقوق کی ادائیگی کا بھی حکم تھا حضرت عمر ؓ کے زمانے کا واقعہ ہے‘ کہ ایک دفعہ جب مسلمان فوج ایک جگہ سے پسپا ہونے پر مجبور ہوئی‘ تو انہوں نے غیر مسلموں کو بلا کر ان کے ٹیکس واپس کر دئیے کہ ہم نے یہ ٹیکس آپ کی حفاظت کی ذمّہ داری کے مصارف کے طور پر لیے تھے‘ اور چونکہ اب ہم حفاظت کی ذمّہ داری پوری کرنے سے قاصر ہیں اس لیے اس رقم پر بھی اب ہمارا کوئی حق نہیں رہا جو تمہاری حفاظت کے لیے لی گئی تھی۔میں غیر مسلم بھائیوں سے کہوں گا‘ کہ یہ نظام آپ کے لیے رحمت ہوگا آپ اس کے قائم کرنے میں ہمارا ساتھ دیجیے اور ہمیں مدد بہم پہنچائیے۔ اسلامی نظام میں آپ کے لیے مغربی طرز کی بے دینِ جمہوریت کے مقابلے میں اتنی زیادہ برکات ہیں‘ کہ اگر آپ کو ان کا اندازہ ہو‘ تو آپ مغربی جمہوریت کی مخالفت اور اسلامی حکومت کے قیام کے لیے مسلمانوں سے بڑھ چڑھ کر کوشش کریں۔
دنیا کی رائے عام کے بگڑ جانے کا ہول
یہ عذر بھی کیا جاتا ہے‘ کہ اگر ہم نے مذہبی حکومت قائم کی‘ تو دنیا کی رائے عام ہمارے متعلق خراب ہوجائے گی۔ اس کا مطلب یہ ہے‘ کہ لوگوں کی وجہ سے ہمیں اپنے اسلام پر شرمانا چاہیے۔ میں کہتا ہوں کہ ہمیں اسلام پر اتنا بھی ایمان نہیں جتنا ۱۹۱۷ء میں روس کے کمیونسٹوں کو کمیونزم پر تھا۔ وہ لوگ جب جنگ سے نکلے تھے‘ تو ملک کی معاشی حالت ناگفتہ بہ تھی‘ سارا نظام درہم برہم تھا ملک چاروں طرف سے دشمنوں میں گھرا ہوا تھا‘ فوج شکست خور دہ اور صنعت وحرفت خستہ حال تھی۔ اور یہ بھی واضح تھا‘ کہ اشتراکی نظام کے قیام کے ساتھ ہی دنیا کی ساری سرمایہ دار طاقتیں اس کے خلاف ہوجائیں گی‘ لیکن ان ساری باتوں کے علی الرغم انہوں نے یہ نظام قائم کیا‘ اور اب ہر سرمایہ دار طاقت اس سے لرزہ بر اندام ہے‘ ہمیں دوسروں کی طرف نہیں اپنی طرف دیکھنا چاہیے کہ ہمارے مسلمان ہونے کا تقاضا کیا ہے ہمیں اس تقاضے کو پورا کرنا چاہیے دنیا کی رائے عام اسلام اورمسلمانوں کے متعلق خراب ہوئی ہی اس وجہ سے ہے‘ کہ ہم نے اسلام کو میدان عمل سے باہر رکھ کر اپنے آپ کو مسلمان کی حیثیت سے روشناس کرایا ہے چنانچہ اسلام بھی مضحکہ بن گیا‘ اور مسلمان بھی۔ لیکن اب اگر ہم اسلام کو میدان عمل میں لاکر اسے پورا اقتدار دے دیں‘ تو دنیا کی رائے عام مستقل طور پر اسلام کے بارے میں بھی درست ہوجائے گی‘ اور ہم مسلمانوں کے بارے میں بھی ! ہوسکتا ہے‘ کہ لوگ ایک دو سال تک غلط فہمیوں میں مبتلا رہیں‘ لیکن دو چار سال کے بعد وہ ہمارے متعلق اپنی رائے بدلنے پر مجبور ہوں گے‘ اور یہ تسلیم کریں گے کہ یہ لوگ تو ہمارے رہنما بننے کے قابل ہیں‘ کیونکہ ان کے پاس وہ چیز ہے‘ جس کی بنیاد پر ایک جہانی ریاست (world state)بن سکتی ہے‘ کوئی وجہ نہیں کہ پاکستان میں اسلامی نظام کے تجربے کو دیکھ کر ان کے دل آپ کے سامنے جھکنے نہ شروع ہوجائیں۔
’’مُلّائوں‘‘ کی حکومت کا شبہ
ایک عذر تو یہ بھی تراشا گیا ہے کہ اسلامی حکومت تو ’’مُلَّاوں‘‘ کی حکومت ہوگی‘ اور مُلّا دنیا کے معاملات کو کیا جانیں۔ میں اس عذر کے گھڑنے والوں کو یہ بتا دینا چاہتا ہوں‘ کہ ہم آپ کے اس ’’با دبان‘‘ سے بھی ہوا نکال چکے ہیں۔ پاکستان میں اب جو لوگ اسلامی نظام کے مطالبے کو لے کر اُٹھے ہیں‘ وہ ’’ملا‘‘نہیں ہیں‘ بلکہ آپ کی طرح دنیا کے معاملات کو بھی خوب سمجھتے ہیں‘ اور اس کے ساتھ قرآن وحدیث کو بھی ! اسلامی حکومت کے مطالبے کو لانے والے لوگ جدید فلسفہ وسیاست کو بھی آپ سے بہتر طورپر سمجھنے والے ہیں‘ اور قرآن کے فلسفہ وسیاست سے بھی کورے نہیں ہیں۔ ظاہر بات ہے‘ کہ اسلامی حکومت اگر قائم ہوگی‘ تو وہ اپنے چلانے کے لیے ایسے ہی آدمی طلب کرے گی ‘جو موجودہ دور میں اسلامی اصول پر کام کر سکیں‘ ہمیں مل کے باشندوں اور رائے دہندوں کوبتانا پڑے گا ‘اور اس بارے میں ان کی ذہنی تربیت کرنی ہوگی کہ وہ اسلامی حکومت کے لیے کیسے آدمی فراہم کریں۔ اگر کہیں مندر کے انتظام کے لیے آدمی مطلوب ہوں‘ تو لوگ ویسے ہی آدمی تلاش کر کے دیں گے‘ اور اگر مسجد کے انتظام کے لیے کارکن درکار ہوں‘ تو وہی آدمی ان کے سامنے آئیں گے اور ایک بنک کا نظام چلانا ہو‘ تو اس کی صلاحیت رکھنے والے آدمی ہی چنے جائیںگے۔ اسی طرح اگراسلامی حکومت کو چلانے کے لیے کارکنوں کی ضرورت ہوگی‘ تو رائے عام اس کام کی صحیح صلاحیتیں رکھنے والوں کو چھانٹ کر آگے لانے لگے گی‘ یہ سمجھنا درست نہیں ہے‘ کہ ہمارے ملک میں اسلامی نظام کو چلا سکنے والے کارکنوں کا بالکل قحط ہے۔ ایسے آدمی موجود ہیں‘ اور پبلک ہی کے اندر نہیں‘ بلکہ خود آپ کی حکومت کے موجودہ پرزوں میں بھی اس معیار کا ایک بڑا طبقہ موجود ہے۔
غیراسلامی نظام میں اسلامی قانون
پھر یہ کہا جاتا ہے‘ کہ کیوں نہ نظام تو غیراسلامی رکھا جائے‘ اور عدالتی قانون اسلام کا جاری کر دیا جائے؟ میں کہتا ہوں کہ پھر کیوں نہ ایک سکھ کو مسجد کا امام بنا دیا جائے؟ یہ کیسے ممکن ہے‘ کہ ایک ریاست تو اپنے آپ کو لامذہب کہے‘ اور قانون وہ مذہب کا جاری کرے۔ مجھے اس رائے کے پیش کرنے والوں کی عقل پر رحم آتا ہے۔ ایک غیراسلامی نظام کے سائے میں اسلامی قانون کا صحیح طور پر نشو ونما پانا ممکن ہی نہیں ہے۔ اسلامی قانون کا قیام واجرا نظامِ تعلیم اور معاشرتی ماحول کو اسلام کے مطابق ڈھالے بغیر ہر گز نتیجہ خیز نہیں ہوسکتا۔ اسلا م کا قانونی نظام اس کے معاشی اور معاشرتی نظاموں سے الگ ہوکر اور کسی دوسرے نظام کا جزوبن کر نہ تو پروان چڑھ سکتا ہے‘ اور نہ وہ برگ وبار لاسکتا ہے‘ جو اس سے مطلوب ہیں۔ یہ حرکت تو بالکل ایسی ہی ہوگی جیسے آم کی ایک ٹہنی کو کیکر کے تنے پر پیوند کر دیا جائے۔ اس صورت میں اس ٹہنی سے آم ملنا تو کجا‘ دیر تک اس کا سر سبز رہنا بھی مشکل ہے۔ یہ مہمل باتیں اچھے خاصے تعلیم یافتہ لوگ ہمارے سامنے پیش کرتے ہیں‘ جو اس ملک کے نظام کو چلا رہے ہیں۔ سیدھی بات یہ ہے‘ کہ آپ اگر اس ملک کو اسلام کے اصولوں پر چلانا چاہتے ہیں‘ تو پھر اس کا دستور لازماً اسلامی ہونا چاہیے۔
ان عذرات کے علاوہ اگر کوئی اور عذر بھی ہوں‘ تو ہم ان کو بھی سننا چاہتے ہیں‘ اور ان کے جواب میں جو دلائل ہمارے پاس ہوں گے ہم انہیں پیش کر کے ذہنوں کو صاف کرنے کی کوشش کریں گے‘ کیونکہ ہماری خواہش یہ ہے‘ کہ اس ملک کی رائے عام کو پوری طرح مطمئن کریں‘ اور عوام النّاس خوب اچھی طرح جان لیں کہ ان کی فلاح اسی شے میں ہے‘ کہ ان کے ملک میں اسلامی نظام قائم ہو۔

خ خ خ

شیئر کریں