مسلم لیگ کی مجلس عمل کی جانب سے حسب ذیل سوال نامہ ہمارے پاس بھیجا گیا ہے۔
’’کن اصول‘ خطوط اور بنیادوں پر ہندستانی مسلمانوں کی سیاسی ومعاشی اصلاح‘ ان حالات کے اندر رہتے ہوئے‘ جن میں وہ گھرے ہوئے ہیں‘ اسلامی اصول‘ روایات اور نقطۂ نظر کے مطابق ممکن ہے؟براہ کرم حسب ذیل خطوط پر اپنی تفصیلی رائے تحریر کیجئے:۔
(الف) ایک ایسا قابلِ عمل دستور تجویز کیجیے‘ جس کے ذریعہ قومی احیائ کے مشترکہ مقصد کے لیے مسلمانوں کے مختلف فرقوں اور مدارسِ فکر کو متحد اور مربوط کیا جا سکے۔
(ب) ایک ایسا اقتصادی نقشہ ونظام مرتّب کیجیے جو اصولِ اسلام کے ساتھ مطابقت رکھتا ہو۔
(ج) ہندستانی مسلمان جن مخصوص حالات میں گھرے ہوئے ہیں انہیں ذہن میں رکھ کر بتائیے کہ کیا یہ ممکن ہے‘ کہ اگر‘ اور جب وہ ایسی آزاد ریاستیں حاصل کر لیں جن میں ان کی اکثریت ہو‘ تو ایک ایسا نظامِ حکومت قائم کر سکیں جس میں مذہب اور ریاست کے درمیان ایک خوش آئند ہم آہنگی پیدا ہوجائے۔
(د) اسلامی اصول‘ روایات‘ تصوّرات اور نظریات کے مطابق ایک ایسی اسکیم مرتّب کیجیے‘ جو مسلمانوں کے معاشرتی‘ تہذیب اور تعلیمی پہلوئوں پر حاوی ہو۔
(ر) مجموعی قومی بہبودی کی خاطر مذہبی ادارات یعنی اوقاف اور دوسرے ذرائع آمدنی کو ایک مرکز کے ماتحت منظم کرنے کے لیے طریق کار اور نظام اس طرح مرتّب کیجیے‘ کہ ان اداروں پر قبضہ رکھنے والے اشخاص کے احساسات‘ میلانات‘ اغراض اور مختلف نظریات کا لحاظ رہے۔‘‘
اس سوالنامے کا جو جواب ہماری طرف سے بھیجا گیا وہ درج ذیل ہے:۔
آپ نے جو تفصیلی سوالات دریافت کیے ہیں‘ وہ دراصل ایک ہی بڑے سوال کے اجزاء ہیں۔ پھر کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ ان مسائل کو الگ الگ لینے اور ان پر الگ الگ رائے ظاہر کرنے کے بجائے اسی بڑے سوال کو بیک وقت سامنے لے آیا جائے جس کے یہ سب اجزاء ہیں؟وہ بڑا سوال یہ ہے‘ کہ مسلمان کس طرح وہ اصلی مسلمان بنیں جنہیں بنانا قرآن کا اصل منشا تھا؟یہ ہے اصل سوال اور اس کے حل ہونے سے باقی سب سوالات خود بخود حل ہوجائیں گے۔
میرے پاس اس سوال کا سیدھا اور صاف جواب یہ ہے‘ کہ پہلے اسلام کو‘جو کچھ کہ وہ ہے‘ اور جو کچھ کہ انسان سے اس کے مطالبات ہیں‘ واضح طور پر مسلمانوں کے سامنے رکھ دیا جائے‘ اور ان سے شعوری طور پر اسے قبول کرنے کا مطالبہ کیا جائے۔ پھر جو لوگ اسے جاننے اور سمجھنے کے بعد قبول کریں‘ اور اپنے طرزِعمل سے ثابت کریں کہ واقعی انہوں نے اسے قبول کیا ہے‘ ان کو ایک پارٹی کی صورت میں منظم کرنا شروع کیا جائے‘ اور باقی مسلمانوں میں مسلسل تبلیغ وتلقین کا سلسلہ اس ارادہ کے ساتھ جاری رکھا جائے کہ بالآخر ہمیں اس پارٹی میں پوری قوم کو جذب کر لینا ہے۔
اس پارٹی کے سامنے صرف ایک ہی نصب العین ہو‘ یعنی اسلام کو بحیثیت ایک نظامِ زندگی کے عملاً زمین پر قائم کرنا۔ اور اس کا ایک ہی اصول ہو‘ یعنی اسلام کے خالص طریقہ پر چلنا (خواہ یہ طریقہ دنیا کو مرغوب ہویا نہ ہو) اور غیر اسلام کے ساتھ ہر مدارات ومصالحت (compromise)اور ہر آمیزس واختلاط کو قطعی چھوڑ دینا۔اس نصب العین اور اس اصول پر جو پارٹی کام کرے گی اس کے لیے وہ سوالات جو آپ کے سامنے آرہے ہیں اوّل تو سرے سے پیدا ہی نہ ہوں گے‘ اور اگر ان میں سے بعض سوالات پیدا ہوئے بھی تو وہ اس شکل میں نہیں ہوں گے جس شکل میں آپ کے سامنے اب یہ سوالات آرہے ہیں۔انہیں کوئی نئی اسکیم وضع نہیں کرنی ہوگی‘ بلکہ صرف وہ قوّت فراہم کرنی ہوگی‘ جس سے وہ اس اسکیم کو نافذ کر سکیں جو پہلے ہی بنی ہوئی موجود ہے۔ وہ اس کی پروا نہیں کریں گے کہ موجودہ حالات ہماری اسکیم کے نفاذ کے لیے ساز گار ہیں‘ یا نہیں۔ وہ ناساز گار حالات کو بزور بدلیں گے‘ تاکہ وہ اس اسکیم کے لیے ساز گاری کرنے پر مجبور ہوں۔ غرض یہ کہ ان کا نقطۂ نظر اس معاملہ میں اس نقطۂ نظر سے بالکل مختلف ہوگا‘ جو آپ حضرات نے اختیار کیا ہے۔
میرا خیال ہے‘ کہ آپ حضرات ایک ایسی پیچیدگی میں پڑ گئے ہیں‘ جس کا کوئی حل شاید آپ نہ پا سکیں اور وہ پیچیدگی یہ ہے‘ کہ ایک طرف تو آپ اس پوری مسلمان قوم کو ’’مسلمان‘‘کی حیثیت سے لے رہے ہیں‘ جس کے ننانوے فی صد افراد اسلام سے جاہل‘ اور پچانوے فی صد منحرف اور نوے فی صدی انحراف پر مصر ہیں‘ یعنی وہ خود اسلام کے طریقہ پر چلنا نہیں چاہتے اور نہ اس منشا کو پورا کرنا چاہتے ہیں‘ جس کے لیے ان کو مسلمان بنایا گیا ہے۔ دوسری طرف آپ حالات کے اس پورے مجموعہ کو جو اس وقت عملاً قائم ہے‘ تھوڑی سی ترمیم کے بعد قبول کر لیتے ہیں‘ اور چاہتے ہیں‘ کہ حالات تو یہی رہیں اور پھر ان کے اندر کسی اسلامی اسکیم کے نفاذ کی گنجائش نکل آئے۔ یہی چیز آپ کے لیے ایک بڑی پیچیدگی پیدا کرتی ہے‘ اور اسی وجہ سے میرا خیال یہ ہے‘ کہ جن مسائل سے آپ حضرات تعرض کر رہے ہیں ان کا کوئی حل آپ کبھی نہ پا سکیں گے۔
(ترجمان القرآن‘ جولائی‘ اگست‘ ستمبر‘ اکتوبر۱۹۴۴ء)
خ خ خ