Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

عرضِ ناشر
دیباچہ طبع اوّل
دیباچہ طبع ہشتم
باب اوّل
مسلمان ہونے کے لیے علم کی ضرورت
مسلم اورکافر کا اصلی فرق
سوچنے کی باتیں
کلمۂ طیبہ کے معنی
کلمۂ طیّبہ اور کلمۂ خبیثہ
کلمۂ طیبہ پر ایمان لانے کا مقصد
باب دوم
مسلمان کسے کہتے ہیں؟
ایمان کی کسوٹی
اسلام کا اصلی معیار
خدا کی اطاعت کس لیے؟
دین اور شریعت
باب سوم
عبادت
نماز
نماز میں آپ کیا پڑھتے ہیں؟
نماز باجماعت
نمازیں بے اثر کیوں ہو گئیں؟
باب چہارم
ہر امت پر روزہ فرض کیا گیا
روزے کا اصل مقصد
باب پنجم
زکوٰۃ
زکوٰۃ کی حقیقت
اجتماعی زندگی میں زکوٰۃ کا مقام
انفاق فی سبیل اللہ کے احکام
زکوٰۃ کے خاص احکام
باب ششم
حج کا پس منظر
حج کی تاریخ
حج کے فائدے
حج کا عالمگیر اجتماع
باب ہفتم
جہاد
جہاد کی اہمیت
ضمیمہ ۱ ۱۔اَلْخُطْبَۃُ الْاُوْلٰی
۲۔اَلْخُطْبَۃُ الثَّانِیَۃُ
ضمیمہ ۲ (بسلسلہ حاشیہ صفحہ نمبر ۲۰۷)

خطبات

اسلام کو دل نشیں، مدلل اور جا مع انداز میں پیش کرنے کا جو ملکہ اور خداداد صلاحیت سید ابو الاعلیٰ مودودی ؒ کو حاصل ہے وہ محتاج بیان نہیں۔ آپ کی تصانیف و تالیفات کی ایک ایک سطر جیسی یقین آفریں اور ایمان افزا ہے، اس کا ہر پڑھالکھا شخص معترف و مدّاح ہے ۔ کتنے ہی بگڑے ہوئے افراد، جوان، بچے، مرد وعورت ان تحریروں سے متاثر ہو کر اپنے سینوں کو نورِ ایمان سے منور کر چکے ہیں۔ ان کتابوں کی بدولت تشکیک کے مارے ہوئے لاتعداد اشخاص ایمان و یقین کی بدولت سے مالا مال ہوئے ہیں اور کتنے ہی دہریت و الحاد کے علم بردار اسلام کے نقیب بنے ہیں۔ یوں تو اس ذہنی اور عملی انقلاب لانے میں مولانا محترم کی جملہ تصانیف ہی کو پیش کیا جا سکتا ہے لیکن ان میں سر فہرست یہ کتاب خطبات ہے۔ یہ کتاب دراصل مولانا کے ان خطبات کا مجموعہ ہے جو آپ نے دیہات کے عام لوگوں کے سامنے جمعے کے اجتماعات میں دیے۔ ان خطبات میں آپ نے اسلام کے بنیادی ارکان کو دل میں اُتر جانے والے دلائل کے ساتھ آسان انداز میں پیش کیا ہے اور کمال یہ ہے کہ اس کتاب کو عام وخاص،کم علم واعلیٰ تعلیم یافتہ،ہر ایک یکساں ذوق وشوق سے پڑھتا ہے اور اس سے فائدہ اُٹھاتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اسلام کے بنیادی ارکان کو سمجھنے کے لیے ہماری زبان ہی میں نہیں بلکہ دنیا کی دوسری بلند پایہ زبانوں میں بھی اس کتاب کی نظیر نہیں ملتی۔ علم و حقانیت کا ایک ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہے جو ان صفحات میں بند کردیا گیا ہے۔

مسلمان کسے کہتے ہیں؟

برادرانِ اسلام! آج میں آپ کے سامنے مسلمان کی صفات بیان کروں گا۔ یعنی یہ بتائوں گا کہ مسلمان ہونے کے لیے کم سے کم شرطیں کیا ہیں؟ آدمی کو کم از کم کیا ہونا چاہیے کہ وہ مسلمان کہلائے جانے کے قابل ہو؟
کفر کیا ہے اور اسلام کیا؟
اس بات کو سمجھنے کے لیے سب سے پہلے آپ کو یہ جاننا چاہیے کہ کفر کیا ہے اور اسلام کیا ہے؟ کفر یہ ہے کہ آدمی خدا کی فرماں برداری سے انکار کر دے، اور اسلام یہ ہے کہ آدمی صرف خدا کا فرماں بردار ہو، اور ہر ایسے طریقے، یا قانون، یا حکم کو ماننے سے انکار کر دے جو خدا کی بھیجی ہوئی ہدایت کے خلاف ہو۔ اسلام اور کفر کا یہ فرق قرآن مجید میں صاف صاف بیان کر دیا گیا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے:
وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْكٰفِرُوْنَo (المائدہ 5:44)
یعنی جو خدا کی اتاری ہوئی ہدایت کے مطابق فیصلہ نہ کریں، ایسے ہی لوگ دراصل کافر ہیں۔
فیصلہ کرنے سے یہ مراد نہیں ہے کہ عدالت میں جو مقدمہ جائے، بس اسی کا فیصلہ خدا کی کتاب کے مطابق ہو، بلکہ دراصل اس سے مراد وہ فیصلہ ہے جو ہر شخص اپنی زندگی میں ہر وقت کیا کرتا ہے۔ ہر موقع پر تمھارے سامنے یہ سوال آتا ہے کہ فلاں کام کیا جائے یا نہ کیا جائے؟ فلاں بات اِس طرح کی جائے، یا اُس طرح کی جائے؟ فلاں معاملے میں یہ طریقہ اختیار کیا جائے، یا وہ طریقہ اختیار کیا جائے؟ تمام ایسے موقعوں پر ایک طریقہ خدا کی کتاب اور اس کے رسولؐ کی سنت بتاتی ہے، اور دوسرا طریقہ انسان کے اپنے نفس کی خواہشات، یا باپ دادا کی رسمیں، یا انسانوں کے بنائے ہوئے قانون بتاتے ہیں۔ اب جو شخص خدا کے بتائے ہوئے طریقے کو چھوڑ کر کسی دوسرے طریقے کے مطابق کام کرنے کا فیصلہ کرتا ہے وہ دراصل کفر کا طریقہ اختیار کرتا ہے۔ اگر اس نے اپنی ساری زندگی ہی کے لیے یہی ڈھنگ اختیار کیا ہے تو وہ پورا کافر ہے اور اگر وہ بعض معاملات میں تو خدا کی ہدایت کو مانتا ہو، اور بعض میں اپنے نفس کی خواہشات کو، یا رسم ورواج کو، یا انسانوں کے قانون کو خدا کے قانون پر ترجیح دیتا ہو، تو جس قدر بھی وہ خدا کے قانون سے بغاوت کرتا ہے اسی قدر کفر میں مبتلا ہے۔ کوئی آدھا کافر ہے، کوئی چوتھائی کافر ہے، کسی میں دسواں حصہ کفر کا ہے اور کسی میں بیسواں حصہ۔ غرض جتنی خدا کے قانون سے بغاوت ہے اتنا ہی کفر بھی ہے۔
اسلام اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ آدمی صرف خدا کا بندہ ہو۔ نفس کا بندہ نہ باپ دادا کا بندہ، نہ خاندان اور قبیلے کا بندہ، نہ مولوی صاحب اور پیر صاحب کا بندہ، نہ زمین دار صاحب اور تحصیل دار صاحب اور مجسٹریٹ صاحب کا بندہ، نہ خدا کے سوا کسی اور صاحب کا بندہ۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے:
قُلْ يٰٓاَھْلَ الْكِتٰبِ تَعَالَوْا اِلٰى كَلِمَۃٍ سَوَاۗءٍؚبَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ اَلَّا نَعْبُدَ اِلَّا اللہَ وَلَا نُشْرِكَ بِہٖ شَـيْـــًٔـا وَّلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللہِ۝۰ۭ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُوْلُوا اشْہَدُوْا بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ o (آل عمران 3:64)
یعنی اے نبیؐ! اہلِ کتاب سے کہو کہ آئو ہم تم ایک ایسی بات پراتفاق کر لیں جو ہمارے اور تمھارے درمیان یکساں ہے (یعنی جو تمھارے نبی بھی بتا گئے ہیں، اور خدا کا نبی ہونے کی حیثیت سے میں بھی وہی بات کہتا ہوں)۔ وہ بات یہ ہے کہ ایک تو ہم اللہ کے سوا کسی کے بندے بن کر نہ رہیں، دوسرے یہ کہ خدائی میں کسی کو شریک نہ کریں، اور تیسری بات یہ ہے کہ ہم میں کوئی انسان کسی انسان کو اللہ کے بجائے اپنا مالک اور اپنا آقا نہ بنائے۔ یہ تین باتیں اگر وہ نہیں مانتے تو ان سے کہہ دو کہ گواہ رہو ہم تو مسلمان ہیں۔ یعنی ہم ان تینوں باتوں کو مانتے ہیں۔
اَفَغَيْرَ دِيْنِ اللہِ يَبْغُوْنَ وَلَہٗٓ اَسْلَمَ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ طَوْعًا وَّكَرْھًا وَّاِلَيْہِ يُرْجَعُوْنَo (آل عمران 3:83)
اب کیا یہ لوگ اللہ کی اطاعت کا طریقہ (دین اللہ) چھوڑ کر کوئی اور طریقہ چاہتے ہیں حالانکہ آسمان و زمین کی ساری چیزیں چار و ناچار اللہ ہی کی تابع فرمان (مسلم) ہیں اور اسی کی طرف سب کو پلٹنا ہے؟
ان دونوں آیتوں میں ایک ہی بات بیان کی گئی ہے، یعنی یہ کہ اصلی دین خدا کی اطاعت اور فرماں برداری ہے۔ خدا کی عبادت کے معنی یہ نہیں ہیں کہ بس پانچ وقت اس کے آگے سجدہ کر لو، بلکہ اس کی عبادت کے معنی یہ ہیں کہ رات دن میں ہر وقت اس کے احکام کی اطاعت کرو۔ جس چیز سے اس نے منع کیا ہے اس سے رُک جائو۔ جس چیز کا اس نے حکم دیا ہے اس پر عمل کرو۔ ہر معاملے میں یہ دیکھو کہ خدا کا حکم کیا ہے۔ یہ نہ دیکھو کہ تمھارا اپنا دل کیا کہتا ہے، تمھاری عقل کیا کہتی ہے، باپ دادا کیا کر گئے ہیں، خاندان اور برادری کی مرضی کیا ہے، جناب مولوی صاحب قبلہ اور جناب پیر صاحب قبلہ کیا فرماتے ہیں، اور فلاں صاحب کا کیا حکم ہے اور فلاں صاحب کی کیامرضی ہے۔ اگر تم نے خدا کے حکم کو چھوڑ کر کسی کی بات بھی مانی تو خدائی میں اس کو شریک کیا۔ اس کو وہ درجہ دیا جو صرف خدا کا درجہ ہے۔ حکم دینے والا تو صرف خدا ہے:
اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلہِ ط (الانعام 6:57)
فیصلے کا سارا اختیار اللہ کو ہے۔
بندگی کے لائق تو صرف وہ ہے جس نے تمھیں پیدا کیا اور جس کے بل بوتے پر تم زندہ ہو۔ زمین اور آسمان کی ہر چیز اُسی کی اطاعت کر رہی ہے۔ کوئی پتھر کسی پتھر کی اطاعت نہیں کرتا، کوئی درخت کسی درخت کی اطاعت نہیں کرتا، کوئی جانور کسی جانور کی اطاعت نہیں کرتا۔ پھر کیا تم جانوروں اور درختوں اور پتھروں سے بھی گئے گزرے ہو گئے کہ وہ تو صرف خدا کی اطاعت کریں، اور تم خدا کو چھوڑ کر انسانوں کی اطاعت کرو؟ یہ ہے وہ بات جو قرآن کی ان دونوں آیتوں میں بیان فرمائی گئی ہے۔
گمراہی کے تین راستے
اب میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ کفر اور گمراہی دراصل نکلتی کہاں سے ہے۔ قرآن مجید ہم کو بتاتا ہے کہ اس کم بخت بلا کے آنے کے تین راستے ہیں:
۱۔ نفس کی بندگی
پہلا راستہ انسان کے اپنے نفس کی خواہشات ہیں:
وَمَنْ اَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ ہَوٰىہُ بِغَيْرِ ہُدًى مِّنَ اللہِ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ لَا يَہْدِي الْقَوْمَ الظّٰلِـمِيْنَo
(القصص 28:50)
یعنی اس سے بڑھ کر گمراہ کون ہو گا جس نے خدا کی ہدایات کے بجائے اپنے نفس کی خواہش کی پیروی کی۔ ایسے ظالم لوگوں کو خدا ہدایت نہیں دیتا۔
مطلب یہ ہے کہ سب سے بڑھ کر انسان کو گمراہ کرنے والی چیز انسان کے اپنے نفس کی خواہشات ہیں۔ جو شخص خواہشات کا بندہ بن گیا، اس کے لیے خدا کا بندہ بننا ممکن ہی نہیں۔ وہ تو ہر وقت یہ دیکھے گا کہ مجھے روپیہ کس کام میں ملتا ہے، میری عزت اور شہرت کس کام میں ہوتی ہے، مجھے لذت اور لطف کس کام میں حاصل ہوتا ہے، مجھے آرام اور آسائش کس کام میں ملتی ہے۔ بس یہ چیزیں جس کام میں ہوں گی اسی کو وہ اختیار کرے گا، چاہے خدا اس سے منع کرے، اور یہ چیزیں جس کام میں نہ ہوں اس کو وہ ہرگز نہ کرے گا، چاہے خدا اس کا حکم دے۔ تو ایسے شخص کا خدا، اللہ تبارک وتعالیٰ نہ ہوا، اس کا اپنا نفس ہی اس کا خدا ہو گیا۔ اس کو ہدایت کیسے مل سکتی ہے؟
اسی بات کو دوسری جگہ قرآن میں یوں بیان کیا گیا ہے:
اَرَءَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰـہَہٗ ہَوٰىہُ۝۰ۭ اَفَاَنْتَ تَكُوْنُ عَلَيْہِ وَكِيْلًاo لا اَمْ تَحْسَبُ اَنَّ اَكْثَرَہُمْ يَسْمَعُوْنَ اَوْ يَعْقِلُوْنَ۝۰ۭ اِنْ ہُمْ اِلَّا كَالْاَنْعَامِ بَلْ ہُمْ اَضَلُّ سَبِيْلًاo ع (الفرقان 25:43-44)
یعنی اے نبیؐ! تم نے اس شخص کے حال پر غور بھی کیا جس نے اپنے نفس کی خواہش کو اپنا خدا بنا لیا ہے؟ کیا تم ایسے شخص کی نگرانی کر سکتے ہو؟ کیا تم سمجھتے ہو کہ ان میں سے بہت سے لوگ سنتے اور سمجھتے ہیں؟ ہرگز نہیں، یہ تو جانوروں کی طرح ہیں، بلکہ ان سے بھی گئے گزرے۔
نفس کے بندے کا جانوروں سے بدتر ہونا ایسی بات ہے جس میں کسی شک کی گنجائش ہی نہیں ہے۔ کوئی جانور آپ کو ایسا نہ ملے گا جو خدا کی مقرر کی ہوئی حد سے آگے بڑھتا ہو۔ ہر جانور وہی چیز کھاتا ہے جو خدا نے اس کے لیے مقرر کی ہے۔ اسی قدر کھاتا ہے جس قدر اس کے لیے مقرر کی ہے، اور جتنے کام جس جانور کے لیے مقرر ہیں بس اتنے ہی کرتا ہے، مگر یہ انسان ایسا جانور ہے کہ جب یہ اپنی خواہش کا بندہ بنتا ہے تو وہ وہ حرکتیں کر گزرتا ہے جن سے شیطان بھی پناہ مانگے۔ یہ تو گمراہی کے آنے کا پہلا راستہ ہے۔
۲۔ باپ دادا کی اندھی پیروی
دوسرا راستہ یہ ہے کہ باپ دادا سے جو رسم ورواج، جو عقیدے اور خیالات، جو رنگ ڈھنگ چلے آ رہے ہوں، آدمی ان کا غلام بن جائے اور خدا کے حکم سے بڑھ کر ان کو سمجھے، اور اگر ان کے خلاف خدا کا حکم اس کے سامنے پیش کیا جائے تو کہے کہ میں تو وہی کروں گا جو میرے باپ دادا کرتے تھے اور جومیرے خاندان اور قبیلے کا رواج ہے۔ جو شخص اس مرض میں مبتلا ہے وہ خدا کا بندہ کب ہوا۔ اس کے خدا تو اس کے باپ دادا اور اس کے خاندان اور قبیلے کے لوگ ہیں۔ اس کو یہ جھوٹا دعویٰ کرنے کا کیا حق ہے کہ میں مسلمان ہوں؟ قرآنِ کریم میں اس پر بھی بڑی سختی کے ساتھ تنبیہ کی گئی ہے:
وَاِذَا قِيْلَ لَہُمُ اتَّبِعُوْا مَآ اَنْزَلَ اللہُ قَالُوْا بَلْ نَتَّبِــعُ مَآ اَلْفَيْنَا عَلَيْہِ اٰبَاۗءَنَا۝۰ۭ اَوَلَوْ كَانَ اٰبَاۗؤُھُمْ لَا يَعْقِلُوْنَ شَـيْــــًٔـا وَّلَا يَہْتَدُوْنَ o (البقرہ 2:170)
اور جب کبھی ان سے کہا گیا کہ جو حکم خدا نے بھیجا ہے اس کی پیروی کرو، تو انھوں نے یہی کہا کہ ہم تو اُس بات کی پیروی کریں گے جو ہمیں باپ دادا سے ملی ہے۔ اگرا ن کے باپ دادا کسی بات کو نہ سمجھتے ہوں اور راہِ راست پر نہ ہوں تو کیا یہ پھر بھی انھی کی پیروی کیے چلے جائیں گے؟
دوسری جگہ فرمایا:
وَاِذَا قِيْلَ لَہُمْ تَعَالَوْا اِلٰى مَآ اَنْزَلَ اللہُ وَاِلَى الرَّسُوْلِ قَالُوْا حَسْبُنَا مَا وَجَدْنَا عَلَيْہِ اٰبَاۗءَنَا۝۰ۭ اَوَلَوْ كَانَ اٰبَاۗؤُہُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ شَـيْــــًٔـا وَّلَا يَہْتَدُوْنَo يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا عَلَيْكُمْ اَنْفُسَكُمْ۝۰ۚ لَا يَضُرُّكُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اہْتَدَيْتُمْ۝۰ۭ اِلَى اللہِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيْعًا فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ o (المائدہ 5:105-104)
اور جب ان سے کہا گیا کہ آئو اس فرمان کی طرف جو خدا نے بھیجا ہے اور آئو رسولؐ کے طریقے کی طرف، تو انھوں نے کہا کہ ہمارے لیے تو بس وہی طریقہ کافی ہے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے۔ کیا یہ باپ دادا ہی کی پیروی کیے چلے جائیں گے چاہے ان کو کسی بات کا علم نہ ہو، اور وہ سیدھے راستے پر نہ ہوں؟ اے ایمان لانے والو! تم کو تو اپنی فکر ہونی چاہیے۔ اگر تم سیدھے راستے پر لگ جائو تو کسی دوسرے کی گمراہی سے تمھیں کوئی نقصان نہ ہو گا، پھر آخر کار سب کو خدا کی طرف واپس جانا ہے۔ اس وقت خدا تم کو تمھارے اعمال کا نیک وبد سب کچھ بتا دے گا۔
یہ ایسی گمراہی ہے جس میں تقریباً ہر زمانے کے جاہل لوگ مبتلا رہے ہیں، اور ہمیشہ خدا کے رسولوں کی ہدایت کو ماننے سے یہی چیز انسان کو روکتی ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب لوگوں کو خدا کی شریعت کی طرف بلایا تھا، اس وقت بھی لوگوں نے یہی کہا تھا:
اَجِئْتَنَا لِتَلْفِتَنَا عَمَّا وَجَدْنَا عَلَیْہِ اٰبَآئَ نَا (یونس 10:78)
کیا تو ہمیں اس راستے سے ہٹانا چاہتا ہے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے؟
حضرت ابراہیم ؑ نے جب اپنے قبیلے والوں کو شرک سے روکا تو انھوں نے بھی یہی کہا تھا:
وَجَدْنَآ اٰبَآئَ نَا لَھَا عٰبِدِیْنَ o (الانبیائ 21:53)
ہم نے اپنے باپ دادا کو انھی خدائوں کی بندگی کرتے ہوئے پایا ہے۔
غرض اسی طرح ہر نبی کے مقابلے میں لوگوں نے یہی حجت پیش کی ہے کہ تم جو کہتے ہو یہ ہمارے باپ دادا کے طریقے کے خلاف ہے، اس لیے ہم اسے نہیں مانتے۔ چنانچہ قرآن میں ارشاد ہے:
وَكَذٰ لِكَ مَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ فِيْ قَرْيَۃٍ مِّنْ نَّذِيْرٍ اِلَّا قَالَ مُتْرَفُوْہَآ۝۰ۙ اِنَّا وَجَدْنَآ اٰبَاۗءَنَا عَلٰٓي اُمَّۃٍ وَّاِنَّا عَلٰٓي اٰثٰرِہِمْ مُّقْتَدُوْنَo قٰلَ اَوَلَوْ جِئْتُكُمْ بِاَہْدٰى مِمَّا وَجَدْتُّمْ عَلَيْہِ اٰبَاۗءَكُمْ۝۰ۭ قَالُـوْٓا اِنَّا بِمَآ اُرْسِلْتُمْ بِہٖ كٰفِرُوْنَo فَانْتَقَمْنَا مِنْہُمْ فَانْـظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَۃُ الْمُكَذِّبِيْنَ o (الزخرف 43:25-23)
یعنی ایسا ہی ہوتا رہا ہے کہ جب کبھی ہم نے کسی بستی میں کسی ڈرانے والے یعنی پیغمبر کو بھیجا تو اس بستی کے کھاتے پیتے لوگوں نے یہی کہا کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک طریقے پر پایا ہے اور ہم انھی کے قدم بقدم چل رہے ہیں۔ پیغمبر ؑنے ان سے کہا: اگر میں اس سے بہتر بات بتائوں جس پر تم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے تو کیا پھر بھی تم باپ دادا ہی کی پیروی کیے چلے جائو گے؟ انھوں نے جواب دیا کہ ہم اس بات کو نہیں مانتے جو تم لے کر آئے ہو۔ پس جب انھوں نے یہ جواب دیا تو ہم نے بھی ان کو خوب سزا دی، اور اب دیکھ لو کہ ہمارے احکام کو جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہوا ہے۔
یہ سب کچھ بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یا تو باپ دادا ہی کی پیروی کر لو، یا پھر ہمارے ہی حکم کی پیروی کرو۔ یہ دونوں باتیں ایک ساتھ نہیں ہو سکتیں۔ مسلمان ہونا چاہتے ہو تو سب کو چھوڑ کر صرف اس بات کو مانو جو ہم نے بتائی ہے:
وَاِذَا قِيْلَ لَہُمُ اتَّبِعُوْا مَآ اَنْزَلَ اللہُ قَالُوْا بَلْ نَتَّبِعُ مَا وَجَدْنَا عَلَيْہِ اٰبَاۗءَنَا۝۰ۭ اَوَلَوْ كَانَ الشَّيْطٰنُ يَدْعُوْہُمْ اِلٰى عَذَابِ السَّعِيْرِo وَمَنْ يُّسْلِمْ وَجْہَہٗٓ اِلَى اللہِ وَہُوَمُحْسِنٌ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰى۝۰ۭ وَاِلَى اللہِ عَاقِبَۃُ الْاُمُوْرِo وَمَنْ كَفَرَ فَلَا يَحْزُنْكَ كُفْرُہٗ۝۰ۭ اِلَيْنَا مَرْجِعُہُمْ فَنُنَبِّئُہُمْ بِمَا عَمِلُوْا ۭ (لقمان 31:23-21)
یعنی جب ان سے کہا گیا کہ اس حکم کی پیروی کرو جو خدا نے بھیجا ہے تو انھوں نے کہا کہ نہیں ہم تو اس بات کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے، چاہے شیطان ان کو عذاب جہنم ہی کی طرف کیوں نہ بلا رہا ہو۔ جو کوئی اپنے آپ کو بالکل خدا کے سپرد کر دے اور نیکوکار ہو اس نے تو مضبوط رسی تھام لی، اور آخر کار تمام معاملات خدا کے ہاتھ میں ہیں، اور جس نے اس سے انکار کیا تو اے نبیؐ! تم کو اس کے انکار سے رنجید ہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ وہ سب ہماری طرف واپس آنے والے ہیں، پھر ہم انھیں ان کے اعمال کا نتیجہ دکھا دیں گے۔
یہ گمراہی کے آنے کادوسرا راستہ تھا۔
۳۔غیر اللہ کی اطاعت
تیسرا راستہ قرآن نے یہ بتایا ہے کہ انسان جب خدا کے حکم کو چھوڑ کر دوسرے لوگوں کے حکم ماننے لگتا ہے اور یہ خیال کرتا ہے کہ فلاں شخص بڑا آدمی ہے، اس کی بات پکی ہو گی، یا فلاں شخص کے ہاتھ میں میری روٹی ہے اس لیے اس کی بات ماننی چاہیے، یا فلاں شخص بڑا صاحبِ اقتدار ہے اس لیے اس کی فرماں برداری کرنی چاہیے، یا فلاں صاحب اپنی بددعا سے مجھے تباہ کر دیں گے، یا اپنے ساتھ جنت میں لے جائیں گے، اس لیے جو وہ کہیں وہی صحیح ہے، یا فلاں قوم بڑی ترقی کر رہی ہے، اس کے طریقے اختیار کرنے چاہییں، تو ایسے شخص پر خدا کی ہدایت کا راستہ بند ہو جاتا ہے:
وَاِنْ تُطِعْ اَكْثَرَ مَنْ فِي الْاَرْضِ يُضِلُّوْكَ عَنْ سَبِيْلِ اللہِ۝۰ۭ (الانعام 6:116)
اگر تو نے ان بہت سے لوگوں کی اطاعت کی جو زمین میں رہتے ہیں تو وہ تجھ کو خدا کے راستے سے بھٹکا دیں گے۔
یعنی آدمی سیدھے راستے پر اس وقت ہو سکتا ہے جب اس کا ایک خدا ہو۔ سیکڑوں ہزاروں خدا جس نے بنا لیے ہوں اور جو کبھی اِس خدا کے کہے پر اور کبھی اُس خدا کے کہے پر چلتا ہو، وہ راستہ کہاں پا سکتا ہے۔
اب آپ کو معلوم ہو گیا ہو گا کہ گمراہی کے تین بڑے بڑے سبب ہیں:
ایک: نفس کی بندگی،
دوسرے: باپ دادا اور خاندان اور قبیلے کے رواجوں کی بندگی،
تیسرے: عام طور پر دنیا کے لوگوں کی بندگی، جس میں دولت مند لوگ، اور حکامِ وقت اور بناوٹی پیشوا، اور گمراہ قومیں سب ہی شامل ہیں۔
یہ تین بڑے بڑے بت ہیں جو خدائی کے دعوے دار بنے ہوئے ہیں۔ جو شخص مسلمان بننا چاہتا ہو اس کو سب سے پہلے ان تینوں بتوں کو توڑنا چاہیے۔ پھر وہ حقیقت میں مسلمان ہو جائے گا، ورنہ جس نے یہ تینوں بت اپنے دل میں بٹھا رکھے ہوں اس کا بندۂ خدا ہونا مشکل ہے۔ وہ دن میں پچاس وقت کی نمازیں پڑھ کر اور دکھاوے کے روزے رکھ کراور مسلمانوں کی سی شکل بنا کر انسانوں کو دھوکا دے سکتا ہے۔ خود اپنے نفس کو بھی دھوکا دے سکتا ہے کہ میں پکا مسلمان ہوں، مگر خدا کو دھوکا نہیں دے سکتا۔
پنجابی مسلمانوں کی حالت
بھائیو! آج میں نے آپ کے سامنے جن تین بتوں کا ذکر کیا ہے اُن کی بندگی اصلی شرک ہے۔ آپ نے پتھر کے بت توڑ دیے، اینٹ اور چونے سے بنے ہوئے بت خانے ڈھا دیے، مگر سینوں میں جو بت خانے بنے ہوئے ہیں ان کی طرف کم توجہ کی۔ سب سے زیادہ ضروری، بلکہ مسلمان ہونے کے لیے اوّلین شرط ان بتوں کو توڑنا ہے۔ اگرچہ میرا خطاب تمام مسلمانوں سے ہے، اور مجھے یقین ہے کہ ساری دنیا اور تمام ہندستان میں مسلمان جس قدر نقصان اٹھا رہے ہیں وہ انھی تین بتوں کی پوجا کا نتیجہ ہے، مگر چونکہ اس وقت میرے سامنے میرے پنجابی بھائی ہیں، اس لیے خاص طور پر ان سے کہتا ہوں کہ آپ کی تباہی اور آپ کی ذلت اور مصیبت کی جڑ یہ تین چیزیں ہیں جو آپ نے ابھی مجھ سے سنی ہیں۔ آپ اس پنجاب کی سرزمین میں ڈیڑھ کروڑ سے زیادہ ہیں۔ اس صوبے کی آبادی میں آدھے سے زیادہ آپ ہیں اورآدھے سے کم میں دوسری قومیں ہیں، مگر اتنی بڑی قوم ہونے کے باوجود یہاں آپ کا کوئی وزن نہیں۔{ FR 1600 } بعض نہایت قلیل التعداد قوموں کا وزن آپ سے بڑھ کر ہے۔ اس کی وجہ پر بھی آپ نے کبھی غور کیا؟ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ نفس کی بندگی، خاندانی رواجوں کی بندگی اور خدا کے سوا دوسرے انسانوں کی بندگی نے آپ کی طاقت کو اندر سے کھوکھلا کر دیا ہے۔
ذات پات کا فرق
آپ میں راجپوت ہیں، گکھڑ ہیں، مغل ہیں، جاٹ ہیں اور بہت سی قومیں ہیں۔ اسلام نے ان سب قوموں کو ایک قوم، ایک دوسرے کا بھائی، ایک پختہ دیوار بننے کے لیے کہا تھا جس کی اینٹ سے اینٹ جڑی ہوئی ہو، مگر آپ اب بھی وہی پرانے ہندوانہ خیالات لیے ہوئے بیٹھے ہیں۔ جس طرح ہندوئوں میں الگ الگ گوتیں{ FR 1601 } ہیں، اسی طرح آپ میں بھی اب تک قبیلے قبیلے الگ ہیں۔ آپس میں مسلمانوں کی طرح شادی بیاہ نہیں۔ ایک دوسرے سے برادری اور بھائی چارہ نہیں۔ زبان سے آپ ایک دوسرے کو مسلمان بھائی کہتے ہیں مگر حقیقت میں آپ کے درمیان وہی سب امتیازات ہیں جو اسلام سے پہلے تھے۔ ان امتیازات نے آپ کو ایک مضبوط دیوار نہیں بننے دیا۔ آپ کی ایک ایک اینٹ الگ ہے۔ آپ نہ مل کر اٹھ سکتے ہیں اور نہ مل کر کسی مصیبت کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ اگر اسلام کی تعلیمات کے مطابق آپ سے کہا جائے کہ توڑو ان امتیازات کو، اور آپس میں پھر ایک ہو جائو، تو آپ کیا کہیں گے؟ بس وہی ایک بات، یعنی ہمارے باپ دادا سے جو رواج چلے آ رہے ہیں ان کو ہم نہیں توڑ سکتے۔ اس کا جواب خدا کی طرف سے کیا ملتاہے؟ بس یہی کہ تم نہ توڑو ان رواجوں کو، نہ چھوڑو ہندوانہ رسموں کی تقلید کو، ہم بھی تم کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیں گے اور تمھاری کثرتِ تعداد کے باوجود تم کو ذلیل وخوار کرکے دکھائیں گے۔
وراثت میں حق تلفی
اللہ نے آپ کو حکم دیا تھا کہ تمھاری وراثت میں لڑکے اورلڑکیاں سب شریک ہیں۔ آپ اس کا جواب کیا دیتے ہیں؟ یہ کہ ہمارے باپ دادا کے قانون میں لڑکے اور لڑکیاں شریک نہیں ہیں، اور یہ کہ ہم خدا کے قانون کے بجائے باپ دادا کا قانون مانتے ہیں۔ خدارا مجھے بتائیے! کیا اسلام اسی کا نام ہے؟ آپ سے کہا جاتا ہے کہ اس خاندانی قانون کو توڑیے۔ آپ میں سے ہر شخص کہتا ہے کہ جب سب توڑیں گے تو میں بھی توڑ دوں گا، ورنہ اگر دوسروں نے لڑکی کو حصہ نہ دیا اور میں نے دے دیا تو میرے گھر کی دولت تو دوسروں کے پاس چلی جائے گی، مگر دوسرے کے گھر کی دولت میرے گھر میں نہ آئے گی۔ غور کیجیے کہ اس جواب کے کیا معنی ہیں؟ کیا خدا کے قانون کی اطاعت اسی شرط سے کی جائے گی کہ دوسرے اطاعت کریں تو آپ بھی کریں گے؟ کل آپ کہیں گے کہ دوسرے زنا کریں گے تو میں بھی کروںگا، دوسرے چوری کریں گے تو میں بھی کروں گا۔ غرض دوسرے جب تک سب گناہ نہ چھوڑیں گے، میں بھی اس وقت تک سب گناہ کرتا رہوں گا۔ بات یہ ہے کہ اس معاملے میں تینوں بتوں کی پرستش ہو رہی ہے۔ نفس کی بندگی بھی ہے، باپ دادا کی بندگی بھی، اور مشرک قوموں کی بندگی بھی، اور تینوں کے ساتھ اسلام کا دعویٰ بھی ہے۔
یہ صرف دو مثالیں ہیں، ورنہ آنکھیں کھول کر دیکھا جائے تو بے شمار اسی قسم کے امراض آپ کے اندر پھیلے ہوئے نظر آئیں گے، اور ان سب میں آپ یہی دیکھیں گے کہ کہیں ایک بت کی پرستش ہے اور کہیں دو بتوں کی اور کہیں تینوں بتوں کی۔ جب یہ بت پوجے جا رہے ہوں اور ان کے ساتھ اسلام کا دعویٰ بھی ہو، تو آپ کیسے امید کر سکتے ہیں کہ آپ پر اُن رحمتوں کی بارش ہو گی جن کا وعدہ سچے مسلمانوں سے کیا گیا ہے؟
٭…٭…٭

شیئر کریں