ان وجوہ سے پاکستان کی تمام دینی جماعتوں نے بالاتفاق مطالبہ کیاہے کہ اس سرطان کے پھوڑے کو مسلم معاشرے کے جسم سے فوراً کا ٹ پھینکا جائے اور سرظفر اللہ خان کو وزارت کے منصب سے ہٹا دیا جائے جن کی بدولت ملک کے اندر بھی اور باہر کے مسلم ممالک میں بھی اس سرطان کی جڑیں پھیل رہی ہیں اور قادیانیوں کو پاکستان کے کلیدی مناصب سے ہٹانے اور ملازمتوں میں ان کی آبادی کے تناسب سے ان کا حصہ مقرر کرنے کی جلدی سے جلدی فکر کی جائے۔
مگر حکومت پاکستان کو اس سے انکار ہے ، پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کو اس سے انکار ہے ، حکومت کے ذمہ دار عہدہ داروں کو اس سے انکار ہے اور عجیب بات یہ ہے کہ ہمارے ملک کی تعلیم یافتہ آبادی کاایک بڑا حصہ بھی اس غلط فہمی میں مبتلا ہے کہ یہ محض مسلمانوں کی باہمی فرقہ وارانہ لڑائیوں کا ایک شاخسانہ ہے ۔ سوال یہ ہے کہ جس کو بھی اس تجویز سے اختلاف ہے اس کے پاس آخر دلیل کیاہے ؟ ہم نے اپنے دلائل پوری وضاحت کے ساتھ پیش کردیے ہیں ۔ اب اگر کسی کے پاس جو اب میں کوئی دلیل ہے تو وہ سامنے لائے ورنہ بلادلیل ایک بات پر اڑ جانا، جس کا الزام کبھی ’’ملا ‘‘ کو دیا جاتاتھا اب اس کے مرتکب وہ لوگ ہوں گے جو ’’ملا‘‘ نہ ہونے پر فخر کرتے ہیں اور وہ یقین رکھیں کہ رائے عام اور دلیل کی متفقہ طاقت ان کوآخر کار نیچا دکھا کررہے گی۔
اس میں شک نہیں کہ اس مطالبے کے لیے عوام جس طریقے سے مظاہرے کررہے ہیں وہ شائستہ نہیںہے اور ملک کے تعلیم یافتہ اور سنجیدہ لوگ کسی طرح اس کو پسند نہیں کرسکتے ، مگر اپنی قوم کے عوام کو یہ تربیت دینے کی ذمہ داری کس پر ہے ؟ ابھی چند ہی سال پہلے اسی پنجاب میں ملک سر خضر حیات ٹوانہ کی وزارت کو توڑنے کے لیے مسلم لیگ نے جو ایجی ٹیشن کیاتھا وہ اس تازہ ایجی ٹیشن سے اپنی کون سی خصوصیات میں کچھ گھٹ کر تھا ؟ یہ تو موجودہ قائدین ملت کااپنا لگایاہوا، باغ ہے جس کی بہار دیکھ کر وہ آج گھبرا اٹھے ہیں۔ اب اس مظاہرہ ناشائستگی کا الزام ’’ملا‘‘ کو دیا جارہاہے ، مگر ہمیں بتایا جائے کہ خضر حیات خان کے خلاف جس شائستگی کے مظاہرے ہوئے تھے وہ کس ’’ملا‘‘ نے کرائے تھے ؟ اینٹی ملا حضرات کا تو اب یہ منہ نہیں ہے کہ شائستگی و ناشائستگی کا سوال چھیڑیں ۔ انہیں دیکھنا یہ چاہیے کہ مطالبہ معقول ہے یا نہیں؟ اور اس کی پشت پر رائے عام کی طاقت ہے یا نہیں؟ اگر یہ دونوں ثابت ہیں تو پھر جمہوری نظام میں کسی منطق سے ان کو رد نہیں کیاجاسکتا۔