"خلافت راشدہ کا زوال جن حالات میں اورجن اسباب سے ہوا ان کے نتائج میں سے ایک اہم نتیجہ یہ بھی تھا کہ امت مسلمہ کے اندر مذہبی اختلافات رونما ہوگئے ۔ پھر ان اختلافات کو جس چیز نے جمنے اور مستقل فرقوں کی بنیاد بننے کا موقع دیا وہ بھی اس کے سوا کچھ نہ تھی کہ نظام خلافت اپنی اصل شکل پر قائم نہ رہا تھا، کیونکہ ملوکیت کے نظام میں سرے سے کوئی ایسا بااختیار اور معتمد علیہ ادارہ موجود نہ تھا جو اختلافات کے پیدا ہوجانے کی صورت میں ان کو بروقت صحیح طریقے سے حل کردیتا۔ ابتدااس فتنے کی بھی بظاہر کچھ بہت زیادہ خطرناک نہ تھی ۔ صرف ایک شورش تھی جو بعض سیاسی اور انتظامی شکایات کی بنا پر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف ان کے آخری دور میں اٹھ کھڑی ہوئی تھی ۔ اس کی پشت پر نہ کوئی نظریہ اور فلسفہ تھا ، نہ کوئی مذہبی عقیدہ ۔ مگر جب اس کے نتیجے میں آں جناب کی شہادت واقع ہوگئی ، اورحضرت علی رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں نزاعات کے طوفان نے ایک زبردست خانہ جنگی کی صورت اختیار کرلی ، اور جنگ جمل ، جنگ صفین ، قضیہ تحکیم اورجنگ نہروان کے واقعا ت پے درپے پیش آتے چلے گئے ، تو ذہنوں میں یہ سوالات ابھرنے اور جگہ جگہ موضوع بحث بننے لگے کہ ان لڑائیوں میں حق پر کون ہے اور کیوں ہے ؟ باطل پر کون ہے اور ان کے برسرِباطل ہونے کے وجوہ کیا ہیں ؟ کسی کے نزدیک اگر فریقین باطل پر یا حق پر ہیں تو وہ کس بنا پر یہ رائے رکھتا ہے ؟ اور کوئی اگر فریقین کے معاملے میں سکوت یا غیر جانب داری اختیار کرتا ہے تواس کے پاس اپنی اس روش کے لیے دلیل کیا ہے ؟ ان سوالات کے نتیجے میں چند قطعی اور واضح نظرت پیدا ہوئے جو اپنی اصل کے لحاظ سے خالص سیاسی تھے ، مگر بعد میں ہر نظریے کے حامی گروہ کو بتدریج اپنا موقف مضبوط کرنے کے لیے کچھ نہ کچھ دینیاتی بنیادیں فراہم کرنی پڑیں اور اسس طرح یہ سیاسی فرقے رفتہ رفتہ مذہبی فرقوں میں تبدیل ہوتے چلے گئے ۔ پھر گشت وخون اختلافات کے آغاز میں ہوا اور اس کے بعد بنی امیہ وبنی عباس کے دور میں مسلسل ہوتا رہا ، اس کی وجہ سے یہ اختلافات محض عقیدہ وخیال کے اختلافات نہ رہے بلکہ ان میں وہ شدت اور حدت پیدا ہوتی چلی گئی جس نے مسلمانوں کی وحدت ملی کو سخت خطرے میں مبتلا کردیا ۔ اختلافی بحثیں گھر گھر چل پڑیں ۔ ہر بحث میں نئے نئے سیاسی ، دینیاتی اور فلسفیانہ مسائل نکلتے رہے ۔ ہر نئے مسئلے کے اٹھنے پر فرقے اور فرقوں کے اندر مزید چھوٹے چھوٹے فرقے بننے لگے ۔ اور ان فرقوں کے اندر باہمی تعصبات ہی ی پیدا نہیں ہوئے بلکہ جھگڑوں اور فسادات تک نوبت پہنچ گئی ۔ کوفہ ، عراق کا صدر مقام اس طوفان کا سب سے بڑا مرکز تھا ، کیونکہ عراق ہی کے علاقے میں جمل ، صفین اور نہروان کے معرکے ہوئے ، یہیں حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا دل دہلا دینے والا واقعہ پیش آیا ، یہیں تمام بڑے بڑے فرقوں کی پیدائش ہوئی ، اور اسی جگہ بنی امیہ اور پھر بنی عباس نے اپنی مخالف کو دبانے کے لیے سب سے زیادہ تشدد استعمال کیا ۔ تفرقہ واختلاف کے اس دور میں جو کثیر التعداد فرقے پیدا ہوئے ان سب کی جڑ دراصل چار فرقے تھے: شیعہ ، خوارج ، مرجیہ اور معتزلہ ۔ ہم اختصار کے ساتھ ان میں سے ہر ایک کے نظریات کا خلاصہ بیان کریں گے ۔