اب ہم اوپر کے سوالات میں سے ایک ایک کو لے کر سلسلہ وار ان کاجواب دیتے ہیں۔ بلاشبہ مسلمانوں میں یہ ایک بیماری پائی جاتی ہے کہ ان کے مختلف گروہ ایک دوسرے کی تکفیر کرتے رہے ہیں اور اب بھی بعض گروہوں کا یہ شغل نامبارک جاری ہے۔لیکن اس کو حجت بناکرقادیانی گروہ کو امت مسلمہ میں شامل رکھناکئی وجوہ سے غلط ہے۔
اولاً، اس شغل تکفیر کی بعض غلط اور بری مثالوں کو پیش کرکے یہ کلی حکم نہیں لگایاجاسکتاکہ تکفیر ہمیشہ غلط ہی ہوتی ہے اور سرے سے کسی بات پر کسی کی تکفیر ہونی ہی نہ چاہیے۔ فروعات کے ذراذرا سے اختلافات پر تکفیرکردینااگر ایک غلط حرکت ہے تو اسی طرح دین کی بنیادی حقیقتوں سے کھلے کھلے انحراف پر تکفیر نہ کرنا بھی سخت غلطی ہے۔ جو لوگ بعض علمائ کی بے جا تکفیر بازی سے یہ نتیجہ نکالنا چاہتے ہیں کہ ہر قسم کی تکفیر سرے سے ہی بے جا ہے، ان سے ہم پوچھتے ہیں کہ کیا ہر شخص ہر حال میں مسلمان ہی رہتاہے خواہ وہ خدائی کا دعویٰ کربیٹھے یا نبوت کامدعی ہو یا اسلام کے بنیادی عقائد سے صریحاً منحرف ہو جائے؟
ثانیاً ، مسلمانوں کے جن گروہوں کی باہمی تکفیر بازی کو آج حجت بنایا جارہاہے ان کے سر برآوردہ علمائ ابھی ابھی کراچی میں سب کے سامنے جمع ہوئے تھے اور انھوںنے بالاتفاق اسلامی حکومت کے اصول مرتب کیے تھے۔ ظاہر ہے کہ انھوںنے ایک دوسرے کو مسلمان سمجھتے ہوئے ہی یہ کام کیا۔ اس سے بڑھ کر اس بات کاثبوت اور کیاہوسکتاہے کہ ایک دوسرے کے بعض عقائد کو کافرانہ عقائد کہنے اور سمجھنے کے باوجود وہ ایک دوسرے کو خارج از دائرہ اسلام نہ کہتے ہیں اور نہ سمجھتے ہیں ، لہٰذایہ اندیشہ بالکل فرضی ہے کہ قادیانیوں کو الگ کرنے کے بعد مختلف گروہوں کواُمت سے کاٹ پھینکنے کاایک سلسلہ چل پڑے گا۔
ثالثاً ، قادیانیوں کی تکفیر کا معاملہ دوسرے گروہوں کی باہمی تکفیر بازی سے بالکل مختلف نوعیت رکھتاہے،قادیانی ایک نئی نبوت لے کر اٹھے ہیں جو لازماًان تمام لوگوںکو ایک اُمت بناتی ہے جو اس نبوت پر ایمان لے آئیں اور ان تمام لوگوں کو کافر بنادیتی ہے جو اس پر ایمان نہ لائیں۔ اس بنا پر قادیانی تمام مسلمانوں کی تکفیرپر متفق ہیں اور تمام مسلمان ان کی تکفیرپر متفق ۔ظاہر ہے کہ یہ ایک بہت بڑا بنیادی اختلاف ہے جس کو مسلمانوں کے باہمی فروعی اختلافات پر قیاس نہیں کیاجاسکتا۔