اسی قاعدے کی فرع یہ تیسرا قاعدہ ہے جو اس ریاست کے مسلمات میں سے تھا کہ تمام مسلمانوں کے حقوق بلالحاظ رنگ ونسل وزبان ووطن بالکل برابر ہیں ۔کسی فرد ،گروہ ،طبقے یا نسل وقوم کو اس ریاست کے حدود میں نہ امتیازی حقوق حاصل ہوسکتے ہیں اور نہ کسی کی حیثیت کسی دوسرے کے مقابلے میں فروتر قرار پاسکتی ہے ۔قرآن مجید میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے : إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ ﴿الحجرات:١٠﴾ مومن تو ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثَىٰ وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا ۚ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ ﴿١٣﴾ لوگو، ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمہاری قومیں اور برادریاں بنا دیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو در حقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمہارے اندر سب سے زیادہ پرہیز گار ہے۔ نبی ﷺ کے حسب ذیل ارشادات اس قاعدے کی صراحت کرتے ہیں : ان اللہ لا ینظر الی صورکم واموالکم ولکن ینطر الی قلوبکم واعمالکم ۔[6] "”اللہ تمہاری صورتیں اور تمہارے مال نہیں دیکھتا بلکہ تمہارے دل اور تمہارے اعمال دیکھتا ہے ۔”” المسلمون اخوۃ لافضل لاحد علی احد الا بالتقوی ۔[7] "”مسلمان بھائی بھائی ہیں ،کسی کو کسی پر فضیلت نہیں مگر تقوی کی بنا پر ۔”” یا یھا الناس الا ان ربکم واحد ،لا فضل لعربی علی عجمی ،ولا لعجمی علی عربی ولا لا اسود علی احمر والا لاحمر علی اسود الا بالتقوی ۔[8] "”لوگوں سن لو ،تمہارا رب ایک ہے ۔عربی کو عجمی پر یا عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت نہیں ،نہ کالے کو گورے پر یا گورے کو کالے پر کوئی فضیلت ہے مگر تقوی کے لحاظ سے ۔”” من شھد ان الا الہ الا اللہ واستقبل قبلتنا وصلی صلوتنا واکل ذبیحتنا فھو المسلم لہ ما للمسلم وعلیہ ما علی المسلم ۔[9] جس نے شہادت کی کہ اللہ کے سوا کوئی خدا نہیں ،اورہمارے قبلے کی طرف رخ کیا ،اور ہماری طرح نماز پڑھی ،اور ہمارا ذبیحہ کھایا وہ مسلمان ہے ۔اس کے حقوق وہی ہیں جو مسلمان کے حقوق ہیں اور اس پر فرائض وہی ہیں جو مسلمان کے فرائض ہیں ۔”” المومنون تتکافاء دماؤھم وھم ید علی من سواھم ویسعی مذمتھم ادناھم ۔[10] "”مومنوں کے خون ایک دوسرے کے برابر ہیں ،وہ دوسروں کے مقابلے میں ایک ہیں،اور ان کا ایک ادنی بھی ان کی طرف سے ذمہ لے سکتا ہے ۔”” لیس علی المسلم جزیۃ [11] "”مسلمان پرجزیہ عائد نہیں کیا جاسکتا ۔””