Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

مرض اور اس کا علاج

مرض اور اس کا علاج

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

مرض اور اس کا علاج

اسلام محض ایک عقیدہ نہیں ہے‘ نہ وہ محض چند ’’مذہبی‘‘ اعمال اوررسموں کا مجموعہ ہے‘ بلکہ وہ انسان کی پوری زندگی کے لیے ایک مفصل اسکیم ہے۔ اس میں عقائد‘ عبادات اورعملی زندگی کے اصول و قواعد الگ الگ چیزیں نہیں ہیں بلکہ سب مل کر ایک ناقابل تقسیم مجموعہ بناتے ہیں‘ جس کے اجزا کا باہمی ربط بالکل ویسا ہی ہے جیسا کہ ایک زندہ جسم کے اعضا میں ہوتا ہے۔
آپ کسی زندہ آدمی کے ہاتھ اور پائوں کاٹ دیں‘ آنکھیں اور کان اور زبان جدا کر دیں‘ معدہ اور جگر نکال دیں‘ پھیپھڑے اور گردے الگ کر دیں‘ دماغ بھی پورا یا کچھ کم و بیش کاسۂ سر(۲) سے خارج کر دیں اور بس ایک دل اُس کے سینے میں رہنے دیں۔ کیا یہ باقی ماندہ حصۂ جسم زندہ رہ سکے گا؟ اور اگر زندہ بھی رہے تو کیا وہ کسی کام کا ہوگا؟
ایسا ہی حال اسلام کا بھی ہے۔ عقائد اس کا قلب ہیں۔ وہ طریق فکر (attitude of mind)، نظریہ حیات (view of life)، مقصد زندگی اور معیار قدر (standard of values)جوان عقائد سے پیدا ہوتا ہے اس کا دماغ ہے‘ عبادات اس کے جوارح(۳) اور قوائم (۴)ہیں جن کے بل پر وہ کھڑا ہوتا ہے اور کام کرتا ہے۔ معیشت‘ معاشرت‘ سیاست اور نظم اجتماعی کے تمام وہ اصول جو زندگی کے لیے اسلام نے پیش کیے ہیں وہ اس کے لیے معدے اور جگر اور دوسرے اعضائے رئیسہ(۵) کا حکم رکھتے ہیں۔ اس کو صحیح و سالم آنکھوں اور بے عیب کانوں کی ضرورت ہے تاکہ وہ زمانے کے احوال و ظروف کی ٹھیک ٹھیک رپورٹیں دماغ تک پہنچائیں اور دماغ ان کے متعلق صحیح حکم لگائے۔ اس کو اپنے قابو کی زبان درکار ہے تاکہ وہ اپنی خودی کا کما حقہ اظہار کرسکے۔ اس کو پاک صاف فضا کی حاجت ہے جس میں وہ سانس لے سکے۔ اس کو طیب و طاہر غذا مطلوب ہے جو اس کے معدے سے مناسبت رکھتی ہو اور اچھا خون بنا سکے۔
اس پورے نظام میں اگرچہ قلب (یعنی عقیدہ)بہت اہمیت رکھتا ہے‘ مگر اس کی اہمیت اسی لیے تو ہے کہ وہ تمام اعضا و جوارح کو زندگی کی طاقت بخشتا ہے۔ جب اکثر و بیش تر اعضا کٹ جائیں، جسم سے خارج کر دیے جائیں یا خراب ہو جائیں تو اکیلا قلب تھوڑے بہت بچے کھچے خستہ و بیمار اعضا کے ساتھ کیسے زندہ رہ سکتا ہے؟ اور اگر زندہ بھی ہے تو اس زندگی کی کیا وقعت(زیر نظر مضمون کو پڑھتے ہوئے یہ بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ یہ ۱۳۵۶ھ (۱۹۳۷ء) کو لکھا گیا تھا، تب زمانۂ نبوت کو ساڑھے ۱۳سوبرس گزر چکے تھے۔ سیّد مودودیؒ نے اس مضمون میں زمانۂ نبوت یا خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کرتے ہوئے ساڑھے ۱۳ سو برس کے الفاظ متعدد بار لکھے ہیں۔ (ادارہ)
(۲) سر کی کھوپڑی (۳)اعضا (۴)پائے بنیادیں (۵)دل جگر، دماغ) ہوسکتی ہے؟
اب آپ غور فرمائیں کہ اس وقت آپ اپنی اسی ہندستان کی دنیا میں اسلام کو کس حال میں دیکھ رہے ہیں۔ قوانین اسلامی قریب قریب معطل ہیں‘ اخلاق میں‘ معاشرت میں‘ معیشت میں اور زندگی کے سارے معاملات میں اصول اسلامی کا نفاذ ۵ فی صدی سے زیادہ نہیں ہے۔ غیر اسلامی ماحول‘ غیر اسلامی تربیت‘ اور غیر اسلامی تعلیم نے دماغ کو کہیں بالکل اور کہیں کچھ کم و بیش غیر مسلم بنادیا ہے۔ آنکھیں دیکھتی ہیں مگر زاویہ نظر بدل گیا ہے‘ کان سنتے ہیں مگر ان کے پردے متغیر(۲) ہو چکے ہیں‘ زبان بولتی ہے مگر اس کی گویائی میں فرق آگیا ہے۔ پھیپھڑوں کو صاف ہوا میسر نہیں کہ ایک زہریلی فضا چاروں طرف محیط ہے۔ معدے کو پاک غذا نہیں ملتی کہ رزق کے خزانے مسموم ہو چکے ہیں۔ عبادات جو اس جسم کے جوارح اور قوائم ہیں قریب قریب ۶۰فی صدی تو مفلوج(۳) ہیں اور ۴۰ فی صدی جو باقی ہیں وہ بھی کوئی اثر نہیں دکھا رہے ہیں کیونکہ دوسرے اعضائے رئیسہ سے ان کا تعلق باقی نہیں رہا، اسی لیے فالج کا مادہ ان میں پھیلتا جارہا ہے۔ ایسی حالت میں کیا آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ پورا اسلام ہے جو آپ کے سامنے ہے؟ کتنے ہی اعضا کٹ گئے‘ کتنے مفلوج ہوگئے‘ کتنے موجود ہیں مگر بیمار ہیں اور ٹھیک کام ہی نہیں کر رہے ہیں۔ ان کے ساتھ ایک قلب باقی ہے‘ اور وہ بیمار ہو رہا ہے کیونکہ جس طرح وہ ان اعضا کو زندگی کی طاقت بخشتا تھا اسی طرح خود بھی تو ان سے طاقت حاصل کرتا تھا۔ جب دماغ اور پھیپھڑوں اور معدہ و جگر سب کا فعل خراب ہوگیا تو قلب کیسے صحیح و سالم رہ سکتا ہے؟ یہ محض اس زبردست قلب کی غیر معمولی طاقت ہے کہ نہ صرف خود زندہ ہے بلکہ بچے کھچے اعضا کو بھی کسی نہ کسی طرح چلائے جارہا ہے، مگر کیا اس میں یہ طاقت ہے کہ ہندستان کی زندگی میں اپنا کوئی اثر قائم کرسکے؟ بلکہ خاکم بدہن(قدر و قیمت (۲)بدل (۳)فالج زدہ، بے حس) میں تو یہ پوچھوں گا کہ اس نوبت پر کیا یہ ان حوادث(۲) کے مقابلے میں جن کا سیلاب روز افزوں تیزی کے ساتھ آرہا ہے اپنے بقیہ اعضا کو مزید قطع و برید(۳) سے اور خود اپنے آپ کو موت سے بچا سکتا ہے؟
اسی کا نتیجہ ہے کہ یَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ اَفْوَاجًا النصر110:2 کے برعکس اب خود مسلمانوں کے گروہ میں اسلام سے بغاوت اور انحراف کی وبا پھیل رہی ہے۔ سارے ہندستان میں اور اس کے اطراف و اکناف(۴) میں کہیں بھی نظام اسلامی اپنی پوری مشینری کے ساتھ کام کرتا ہوا نظر نہیں آتا کہ لوگ اس کے جمال و کمال کو دیکھیں اور درخت کو اس کے پھلوں سے پہچانیں۔ وہ جس چیز کو دیکھتے ہیں وہ یہی اعضا بریدہ اسلام ہے اور سمجھتے ہیں کہ بس اسلام یہی ہے۔ اس کو دیکھ کر بعض تو علانیہ کہہ رہے ہیں کہ ہم مسلمان نہیں ہیں‘ بہت سے ایسے ہیں کہ مسلمان ہونے سے بس انکار نہیں کرتے باقی تمام باتیں ایسی کرتے ہیں کہ ان میں اور منکرین اسلام میں کوئی فرق نہیں پایا جاتا۔ بہت سوں کے دل پھر گئے ہیں‘ مگر چونکہ ابھی صریح بغاوت برپا نہیں ہوئی ہے اس لیے وہ منافقت کے ساتھ مسلمانوں میں شامل ہیں اور بغاوت کے جراثیم پھیلا رہے ہیں تاکہ جب عام بلوا(۵) شروع ہو جائے تب خود بھی اپنا جھنڈا لے کر کھڑے ہوں۔ کچھ لوگ صاف نہیں کہتے مگر دبی زبان سے کہہ رہے ہیں کہ نئی قومیت اور نئی تہذیب میں جذب ہونے کے لیے تیار ہو جائو‘ کیونکہ یہ تن مردہ جسے تم لیے بیٹھے ہو‘ نہ خود تمھیں کوئی فائدہ پہنچاتا ہے اور نہ ان فوائد ہی سے متمتع(۶) ہونے دیتا ہے جو دوسروں میں جذب ہونے سے حاصل ہوسکتے ہیں۔ بعض حضرات کے نزدیک اب مسئلے کا صحیح حل یہ ہے کہ اسلام کا باضابطہ مثلہ کر دیا جائے۔ وہ کہتے ہیں کہ صرف مذہبی حرکت و عمل کی حد تک مسلمان رہنا چاہیے‘ باقی زندگی کا سارا پروگرام وہی اختیار کرلینا چاہیے جو غیرمسلموں نے سکھایا ہے اور جس کو غیر مسلم اختیار کر رہے ہیں۔ معلوم نہیں کہ یہ لوگ خود دھوکے میں ہیں یا دھوکہ دینا چاہتے ہیں۔ بہرحال یہ حقیقت ہے جس کو یہ لوگ بھول گئے ہیں یا بھلا رہے ہیں کہ تمام معاملات زندگی میں غیر اسلامی نظریات اختیار کرنے اور غیر اسلامی اصول پر عامل ہوجانے کے بعد مذہبی عقائد اور مذہی حرکت و عمل قطعاً بے زور ہو جاتے ہیں۔ نہ ان پر زیادہ مدت تک ایمان باقی رہ سکتا ہے اور نہ عمل جاری رہ سکتا ہے اس لیے کہ یہ عقائد اور یہ عبادات تووہ بنیادیں ہیں جن کو اس لیے قائم کیاگیا ہے کہ زندگی کی پوری عمارت ان پر تعمیر ہو۔ جب یہ عمارت دوسری بنیادوں پر تعمیر ہوگئی تو ان آثار قدیمہ سے بے فائدہ و بے ضرورت دل چسپی کب تک باقی رہ سکے گی؟ نئے نظام زندگی میں جو بچہ پرورش پا کر جوان ہوگا وہ پوچھے گا کہ چند لا حاصل عقیدتوں اور چند بے نتیجہ رسموں کا یہ قلادہ کیوں میرے گلے میں ڈال رکھا ہے؟ میں کیوں اس قرآن کو پڑھوں اور کیوں اس پر ایمان رکھوں جس کے سارے احکام اب بے کار ہو چکے ہیں؟ ساڑھے تیرہ سو برس پہلے جو انسان گزر چکا ہے آج اس کو میں کس لیے خدا کا رسول مانوں؟ جب اس زندگی میں وہ میری رہنمائی ہی نہیں کرتا تو محض اس کی رسالت تسلیم کرلینے سے فائدہ کیا اور نہ تسلیم کرنے سے نقصان کیا؟ یہ نظام حیات جس میں عمل کر رہا ہوں اس میں نماز پڑھنے اور نہ پڑھنے‘ روزہ رکھنے اور نہ رکھنے سے کیا فرق واقع ہو جاتا ہے؟ کیا رابطہ ہے ان اعمال اور اس زندگی کے درمیان؟ یہ بے جوڑ پیوند میری زندگی میں آخر کیوں لگا رہے؟
یہ منطقی نتیجہ ہے دین اور دنیا کی علیحدگی کا اور جب یہ علیحدگی اصولاً اور عملاً مکمل ہو جائے گی تو یہ نتیجہ رونما ہو کر رہے گا۔ جس طرح نظام جسمانی سے الگ ہو جانے کے بعد قلب بے کار ہو جاتا ہے اسی طرح زندگی سے بے تعلق ہو جانے کے بعد عقائد اور عبادات کی بھی کوئی اہمیت باقی نہیں رہتی۔ عقائد اور عبادات اسلامی زندگی کو قوت حیات دیتے ہیں اور اسلامی زندگی عقائد اور عبادات کو طاقت بہم پہنچاتی ہے۔ جیسا کہ اوپر عرض کر چکا ہوں ان دونوں میں ایک زندہ نظام جسمانی کے اعضا کا تعلق ہے جسے منقطع کر دینے کا لازمی نتیجہ دونوں کی موت ہے۔ غیر اسلامی زندگی میں اسلامی عقائد اور عبادات کا پیوند بالکل ایسا ہی ہوگا جیسے گوریلے کے جسم میں انسانی دماغ اور انسانی دست و پا۔
یہ نہ سمجھ لیجیے کہ اسلام کی موجودہ حالت کا یہ اثر صرف نئے تعلیم یافتہ طبقے کے ایک مختصر گروہ پر ہی مترتب ہو رہا ہے۔ نہیں آج جو لوگ سچے دل سے مسلمان ہیں‘ جن کے دلوں میں اس کی محبت اور عزت موجود ہے‘ خواہ نئے گروہ کے لوگ ہوں یا پرانے گروہ کے‘ ان سب پر کم و بیش ان حالات کا اثر پڑ رہا ہے۔ اسلامی نظام زندگی کا درہم برہم ہو جانا ایک عام مصیبت ہے جس کے طبیعی نتائج سے کوئی مسلمان بھی محفوظ نہیں ہے اور نہ محفوظ رہ سکتا ہے۔ اپنی اپنی استعداد کے مطابق ہم سب کو اس میں سے حصہ مل رہا ہے، اور ہمارے علما و مشائخ بھی اس میں اتنے ہی حصہ دار ہیں جتنے مدرسوں اورکالجوں سے نکلے ہوئے لوگ،لیکن سب سے زیادہ خطرے میں ہمارے وہ عوام ہیں جو کروڑوں کی تعداد میں ۱۶ لاکھ مربع میل کے وسیع رقبے پر پھیلے ہوئے ہیں، اُن کے پاس صرف اسلام کا نام باقی ہے جس سے ان کو غیر معمولی محبت ہے۔ نہ علمی حیثیت سے یہ غریب اس چیز سے واقف ہیں جس پر یہ اس طرح جان دے رہے ہیں اور نہ عملی حیثیت سے کوئی ایسا نظام زندگی موجود ہے جو انھیں غیر اسلامی اثرات سے محفوظ رکھ سکے۔ ان کی جہالت سے فائدہ اٹھا کر ہر گمراہ کرنے والا، ان کے عقائد اور ان کی زندگی کو اسلام کی صراط مستقیم سے ہٹا سکتا ہے۔ بس انھیں یہ اطمینان دلا دینا کافی ہے کہ یہ ضلالت جو ان کے سامنے پیش کی جارہی ہے یہی عین ہدایت ہے یا کم از کم اسلام کے مخالف نہیں ہے۔ اس کے بعد آپ جس راستے پر چاہیں انھیں بھٹکالے جاسکتے ہیں‘ خواہ وہ قادیانیت کا راستہ ہویا اشتراکیت کا‘ یا فسطائیت کا۔ ان کے روز افزوں افلاس اور ان کی ہولناک معاشی خستہ حالی نے جو مسائل پیدا کر دیے ہیں ان کو موجودہ بے نظمی کی حالت میں اصول اسلام کے مطابق حل کرنے کی کوئی کوشش نہیں ہو رہی ہے۔
مسلمانوں میں کوئی منظم جماعت ایسی موجود نہیں جو اشتراکیت کے مقابلے میں اسلام کے معاشی و تمدنی اصولوں کو لے کر اٹھے اور ان مسائل کو حل کرکے دکھادے جو عام لوگوں کے لیے فی الواقع بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ کروڑوں مفلس و فاقہ کش مسلمانوں کی یہ بھیڑ اشتراکی مبلغین کے لیے نہایت سہل الحصول(میرے منہ میں خاک (۲)حادثات (۳)کانٹ چھانٹ (۴)طرفیں ، سمتیں
(۵) ہنگامہ، دنگا فساد، بغاوت بدانتظامی (۶)فائدہ اٹھانا) شکار بن گئی ہے۔ بورژوا طبقے کے جن لوگوں میں حوصلہ مندی اور اقتدار کی حرص ذرا اعتدال سے بڑھی ہوئی ہوتی ہے وہ ہمیشہ سیاسی طاقت حاصل کرنے کے لیے نئی نئی تدبیریں تلاش کرتے رہتے ہیں۔ اب روسی انقلاب نے اس طبقے کے ایک گروہ کو ایک اور تدبیر سکھا دی ہے اور وہ یہ ہے کہ کسان اور مزدور کے حامی بن کر غریب عوام کو اپنے ہاتھ میں لیں۔ ان کے اندر خود غرضی‘ حرص اور حسد کی آگ بھڑکائیں‘ ان کے جائز حقوق سے بڑھ کر انھیں دولت میں حصہ دلوانے کا لالچ دلائیں‘ خوش حال طبقوں کی جائز دولت تک چھین کر ان میں تقسیم کر دینے کا وعدہ کریں‘ اور اس طرح ملک کے سواد اعظم کو اپنی مٹھی میں لے کر وہ اقتدار حاصل کریں جو سرمایہ داری نظام کے بادشاہوں‘ ڈکٹیڑوں اور کروڑ پتیوں کو حاصل ہے۔ یہ لوگ غیر مسلم عوام سے بڑھ کر مسلم عوام سے توقعات رکھتے ہیں کیونکہ معاشی حیثیت سے مسلمان زیادہ خستہ حال ہیں۔ یہ ان کے دلوں پر قبضہ کرنے کے لیے پیٹ کی طرف سے راستہ پیدا کر رہے ہیں جو بھوکے آدمی کے جسم کا سب سے زیادہ نازک حصہ ہوتا ہے۔ یہ ان سے کہتے ہیں کہ آئو ہم وہ طریقہ بتائیں جس سے امیری اور غریبی مرتی ہے اور آسودہ حالی آتی ہے۔ پھر جب بے چارہ بھوکا مسلمان دو روٹیوںکی امید پر ان کی طرف دوڑتا ہے تو یہ اسے خدا پرستی کے بجائے شکم پرستی کے مذہب کی تلقین کرتے ہیں اور یہ جذبہ اس کے دل میں پیدا کرتے ہیں کہ دین اور ایمان کوئی چیز نہیں‘ اصل چیز روٹی ہے‘وہ جس طریقے سے ملے وہی دین ہے اور اسی میں نجات ہے۔
’’غریبوں مفلسوں اور غلاموں کا کوئی مذہب اور کوئی تمدن نہیں۔ اس کا سب سے بڑا مذہب روٹی کا ایک ٹکڑا ہے۔ اس کا سب سے بڑا تمدن ایک پھٹا پرانا کُرتا ہے۔ اس کا سب سے بڑا ایمان اس موجودہ افلاس اور نکبت(آسانی سے حاصل ہو جانے والا) سے چھٹکارا پالینا ہے۔ وہی روٹی اورکپڑا جس کے لیے وہ چوری تک کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ آج افلاس اور غلامی کی دنیا میں اس کا کوئی مذہب نہیں۔‘‘
یہ ابتدائی سبق ہے مذہب اشتراکیت کا اور جس آن یہ سبق بے چارے جاہل و مفلس مسلمانوں کو دیا جاتا ہے اسی آن انھیں اس امر کا اطمینان بھی دلایا جاتا ہے کہ ہم تمھارے مذہب کو ہاتھ نہیں لگاتے۔
’’مذہب اورعقائد کو ان باتوں سے کیا خطرہ؟ کیا تعلق؟ مذہب تو ہمیشہ اگر اس میں اخلاقی اور روحانی طاقت رہی ہے‘ زندہ، تابندہ اور پائندہ ہی رہا ہے۔‘‘
یہ دونوں فقرے جو یہاں نقل کیے گئے ہیں ایک مسلمان صاحب کے مضمون سے ماخوذ ہیں جو ایک کثیر الاشاعت مسلم اخبارکے کالموں میں شائع ہوا ہے۔
گزشتہ ۲۰ سال کے اندر روسی اشتراکیت کے جو اثرات مسلمانانِ روس کی نوخیز نسلوں پر مترتب ہوئے ہیں وہ جاننے والوں سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ یہی مستقبل مسلمانانِ ہند کے سامنے بھی دھمکیاں دیتا ہوا آرہا ہے۔ پیٹ کی آگ متاع ایمان کو خاکستر کر دینے کے لیے بڑھ رہی ہے۔ ابھی تک سرچشمہ(افلاس، بدحالی) اتنا چھوٹا ہے کہ اسے ایک سلائی سے بند کیاجاسکتا ہے، لیکن اگر غفلت کے چند سال یوں ہی گزار دیے گئے تو یہ اتنا بڑا سیلاب بن جائے گا کہ اس کے مقابلے میں ہاتھیوں کے پائوں اکھڑ جائیں گے۔
ان حالات میں محض عیسائی مشنریوں کے ڈھنگ پر اسلام کی تبلیغ کر دینا لاحاصل ہے۔ عقائد کی اصلاح کے لیے ایک رسالہ نہیں ہزاروں رسالے، اگر لاکھوں کی تعداد میں بھی شائع کر دیے جائیں تو یہ حالات روبراہ نہیں آسکتے۔ محض زبان اور قلم سے اسلام کی خوبیوں کو بیان کردینے سے کیا فائدہ؟ ضرورت تو اس کی ہے کہ ان خوبیوں کو واقعات کی دنیا میں سامنے لایا جائے۔ محض یہ کہہ دینے سے کہ اس اسلام کے اصولوں میں زندگی کے مسائل کا حل موجود ہے‘ سارے مسائل خود بخود حل نہیں ہو جائیں گے۔ اسلام میں بالقوۃ(۲) جو کچھ موجود ہے اس کو بالفعل بنانے کی ضرورت ہے۔ یہ دنیا کشمکش اور جدوجہد کی دنیا ہے‘ اس کی رفتار محض باتوں سے نہیں بدلی جاسکتی۔ اس کو بدلنے کے لیے انقلاب انگیز جہاد کی ضرورت ہے۔ اگر اشتراکی اپنے غلط اصولوں کو لے کر نصف صدی کے اندر دنیا کے ایک بڑے حصے میں اپنا اثر و اقتدار قائم کر سکتے ہیں۔ اگر فاشست اپنے غیر معتدل طریقوں کو لے کر دنیا پر اپنی دھاک بٹھا سکتے ہیں۔ اگر گاندھی کی اھنساایک غیر فطری چیز ہونے کے باوجود محض جدوجہد کے بل پر فروغ پا سکتی ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ مسلمان جن کے پاس حق اور عدل کے غیر فانی اصول ہیں‘ ایک مرتبہ پھر دنیا میں اپنا سکہ نہ جما سکیں، مگر یہ سکہ نرے وعظ و تلقین سے نہیں جم سکتا۔ اس کے لیے سعی و عمل کی ضرورت ہے اور انھی طریقوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے جن سے سنت اللہ کے مطابق دنیا میں سکہ جما کرتا ہے۔
’انقلاب انگیز جدوجہد‘ ایک مبہم لفظ ہے۔ اس کی عملی صورتیں بہت سی ہیں اور بہت سی ہوسکتی ہیں۔ جس قسم کا انقلاب برپا کرنا مقصود ہو اُس کے لیے وہی صورت اختیار کرنی پڑے گی جو اس انقلاب کی فطرت سے مناسبت رکھتی ہو۔
ہم جو انقلاب چاہتے ہیں اس کے لیے ہمیں کوئی نئی صورت تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ انقلاب اس سے پہلے برپا ہو چکا ہے۔ جس پاک انسان(صلی اللہ علیہ وسلم) نے پہلی مرتبہ یہ انقلاب برپا کیا تھا وہی اس کی فطرت کو خوب جانتا تھا‘ اور اسی کے اختیارکیے ہوئے طریقے کی پیروی کرکے آج بھی یہ انقلاب برپا کیا جاسکتا ہے۔ اس پاک ہستی کی سیرت ایک لحاظ سے معجزہ ہے‘ مگر دوسرے لحاظ سے اسوہ بھی ہے۔ وہ اخلاق‘ وہ تقویٰ ‘ وہ حکمت‘ وہ عدالت‘ وہ طاقت وَر شخصیت، وہ انسانیت کبریٰ کی عظیم الشان خصوصیات اب کوئی انسان کہاں سے لاسکتا ہے؟ اس لیے اب کوئی انسان اتنا کمال درجے کا انقلاب بھی کہاں برپا کرسکتا ہے؟ اس لحاظ سے وہ معجزہ ہے اور قیامت تک کے لیے معجزہ ہے،لیکن اس انسان اکبر نے جو نمونہ چھوڑا ہے اس کا طبعی خاصہ وہی انقلاب انگیزی ہے، جس کی نظیر ساڑھے تیرہ سو برس پہلے دنیا کے سامنے آچکی ہے۔ اس نمونے کی جتنی زیادہ پیروی کی جائے گی اور جس قدر زیادہ اس سے مماثلت پیدا کی جائے گی‘ اسی قدر زیادہ انقلاب انگیز نتائج بھی ظاہر ہوں گے اور وہ اس پہلے انقلاب سے اتنے ہی زیادہ اقرب(ابتدا، چشمے کا منہ (۲)قوت جو وجود میں آنے کے قابل ہو) ہوں گے جو اصل نمونے کی طاقت سے برپا ہوا تھا۔ اس لحاظ سے وہ اسوہ ہے، اور قیامت تک کے لیے اسوہ ہے۔ بیسویں صدی ہو یا چالیسویں صدی‘ ہندستان ہو‘ یا امریکہ یا روس جہاں اور جس وقت چاہیں آپ اسی نوعیت کا انقلاب برپا کرسکتے ہیں بشرطیکہ اسی اسوہ حسنہ کو سامنے رکھ کر کام کریں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طریقے سے ساڑھے تیرہ سو برس پہلے کی دنیا میں انقلاب برپا کیا تھا اس کی تفصیلات یہاں بیان کرنے کا موقع نہیں۔ یہاں صرف اس امرکی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ ادارہ دارالاسلام (قریب (۲)یہ ادارہ ۱۹۳۸ئ میں قائم کیا گیا تھا۔ پھر اگست ۱۹۴۱ئ میں جب جماعت اسلامی قائم ہوئی یہ ادارہ اس میں ضم کر دیا گیا۔ (۳)گہرے)کا تخیل اسی اسوہ پاک کے غائر(۳) مطالعے سے پیدا ہوا ہے۔
آنحضرتﷺ جب مبعوث ہوئے تو روئے زمین پر ایک شخص بھی مسلم نہ تھا۔ آپؐ نے اپنی دعوت دنیا کے سامنے پیش کی اور آہستہ آہستہ متفرق طور پر ایک ایک دو دو چار چار آدمی مسلمان ہوتے چلے گئے۔ یہ لوگ اگرچہ پہاڑ سے زیادہ مضبوط ایمان رکھتے تھے‘اور ایسی فدویت ان کو اسلام کے ساتھ تھی کہ دنیا ان کی نظیر پیش کرنے سے عاجز ہے‘ مگر چونکہ متفرق تھے‘ کفارکے درمیان گھرے ہوئے تھے، بے بس اور کمزور تھے اس لیے اپنے ماحول سے لڑتے لڑتے ان کے بازو شل ہو جاتے تھے اور پھر بھی وہ ان حالات کو نہ بدل سکتے تھے جن کو بدلنے کے لیے وہ اور ان کے ہادی و مرشد (فِدَاہُ اُمِّیْ وَ اَبِیْ) کوشش فرما رہے تھے۔ ۱۳ سال تک حضورﷺ اسی طرح جدوجہد کرتے رہے اور اس مدت میں سرفروش اہل ایمان کی ایک مٹھی بھر جماعت آپؐ نے فراہم کرلی۔ اس کے بعد اللہ نے دوسری تدبیرکی طرف آپؐ کی ہدایت فرمائی اور وہ یہ تھی کہ ان سرفروشوں کو لے کر کفر کے ماحول سے نکل جائیں‘ ایک جگہ ان کو جمع کرکے اسلامی ماحول پیدا کر دیں‘ اسلام کا ایک گھر بنائیں جہاں اسلامی زندگی کا پورا پروگرام نافذ ہو‘ ایک مرکز بنائیں جہاں مسلمانوں میں اجتماعی طاقت پیدا ہو‘ ایک ایسا پاور ہائوس بنا دیں جس میں تمام برقی طاقت ایک جگہ جمع ہو جائے اور پھر ایک منضبط(منظم (۲)تبدیل) طریقے سے وہ پھیلنی شروع ہو۔ یہاں تک کہ زمین کا گوشہ گوشہ اس سے منور ہوجائے۔ مدینہ طیبہ کی جانب آپؐ کی ہجرت اسی غرض کے لیے تھی۔ تمام مسلمان جو عرب کے مختلف قبیلوں میں منتشر تھے‘ ان سب کو حکم دیا گیا کہ سمٹ کر اس مرکز پر جمع ہو جائیں۔ یہاں اسلام کو عمل کی صورت میں نافذ کرکے بتایا گیا۔ اس پاک ماحول میں پوری جماعت کو اسلامی زندگی کی ایسی تربیت دی گئی کہ اس جماعت کا ہر شخص ایک چلتا پھرتا اسلام بن گیا جسے دیکھ لینا ہی معلوم کرنے کے لیے کافی تھا کہ اسلام کیا ہے اور کس لیے آیا ہے۔ ان پر اللہ کا رنگ (صِبْغَۃَ اللہِ۝۰ۚ وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللہِ صِبْغَۃً)البقرہ 138:2 اتنا گہرا رنگ چڑھایا گیا کہ وہ جدھر جائیں دوسروں کا رنگ قبول کرنے کے بجائے اپنا رنگ دوسروں پر چڑھائیں۔ ان میں کیرکٹر کی اتنی طاقت پیداکی گئی کہ وہ کسی سے مغلوب نہ ہوں اور جو ان کے مقابلے میں آئے ان سے مغلوب ہو کر رہ جائے۔ ان کی رگ رگ میں اسلامی زندگی کا نصب العین اس طرح پیوست کر دیا گیا کہ زندگی کے ہر عمل میں وہ مقدم ہو اور باقی تمام دنیوی اغراض ثانوی درجے میں ہوں۔ ان کو تعلیم اور تربیت دونوں کے ذریعے سے اس قابل بنا دیا گیا کہ جہاں جائیں زندگی کے اسی پروگرام کو نافذ کرکے چھوڑیں جو قرآن و سنت نے انھیں دیا ہے اورہر قسم کے بگڑے ہوئے حالات کو منقلب(۲) کرکے اسی کے مطابق ڈھال لیں۔
یہ حیرت انگیز تنظیم تھی جس کا ایک ایک جز گہرے مطالعے اورغور و فکر کا مستحق ہے۔ اس تنظیم میں کام کو چار بڑے بڑے شعبوں میں تقسیم کیا گیا تھا:
۱۔ ایک گروہ ایسے لوگوں کا تیار کیا جائے جو دین میں تفقہ حاصل کریں اور جن میں یہ استعداد ہو کہ لوگوں کو دین اور اس کے احکام بہترین طریقے پر سمجھا سکیں:
فَلَوْ لَا نَفَرَ مِنْ کُلِّ فِرْقَۃٍ مِّنْھُمْ طَآئِفَۃٌ لِّیَتَفَقَّھُوْا فِی الدِّیْنِ وَ لِیُنْذِرُوْا قَوْمَھُمْ اِذَا رَجَعُوْٓا اِلَیْھِمْ التوبہ9:122
ایسا کیوں نہ ہوا کہ اُن کی آبادی کے ہر حصے میں سے کچھ لوگ نکل کر آتے اور دین کی سمجھ پیدا کرتے اور واپس جاکر اپنے علاقے کے باشندوں کو خبردار کرتے۔
۲۔ کچھ لوگ ایسے تیار کیے جائیں جن کی زندگیاں اسلام کے نظام عمل کو قائم کرنے اور پھیلانے کی سعی وجہد کے لیے وقف ہوں۔ جماعت کا فرض ہے کہ ان کو کسب معیشت سے بے نیاز کر دے لیکن خود انھیں اس کی پرواہ نہ ہو‘ چاہے معیشت کا کوئی انتظام ہو یا نہ ہو‘ بہرحال وہ اپنے دل کی لگن سے مجبور ہوں اور ہر قسم کی مصیبتیں برداشت کرکے اس کام میں لگے رہیں جو اُن کی زندگی کا واحد نصب العین ہے:
وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ آل عمران3:104
تم میں کچھ لوگ تو ایسے ضرور ہی رہنے چاہییں جو نیکی کی طرف بلائیں، بھلائی کا حکم دیں، اور برائیوں سے روکتے رہیں۔
۳۔ پوری جماعت میں یہ جذبہ پیدا کیا جائے کہ ہر ہر شخص اعلائے کلمۃ اللہ کو اپنی زندگی کا اصل مقصد سمجھے۔ وہ اپنے دنیا کے کاروبار چلاتا رہے مگر ہر کام میں یہ مقصد اس کے سامنے ہو۔ تاجر اپنی تجارت میں‘ کسان اپنی زراعت میں‘ صَنَّاع(کاری گر (۲)مخالف، الٹ) اپنے پیشے کے کام میں اور ملازم اپنی ملازمت میں اس مقصد کو نہ بھولے۔ وہ ہمیشہ اس بات کو پیش نظر رکھے کہ یہ سب کام جینے کے لیے ہیں اور جینا اس کام کے لیے ہے۔ وہ زندگی کے جس دائرے میں بھی کام کرے‘ اپنے اقوال و افعال اور اپنے اخلاق اور معاملات میں اسلام کے اصول کی پابندی کرے اور جہاں دنیوی فوائد میں اور اصول اسلام میں نقیض(۲) واقع ہو جائے وہاں فوائد پر لات مار دے اور اصول کو ہاتھ سے دے کر اسلام کی عزت کو بٹہ نہ لگائے۔ پھر وہ جتنا مال اور جتنا وقت اپنی ذاتی ضروریات سے بچا سکتا ہو اس کو اسلام کی خدمت میں صَرف کر دے، اور ان لوگوں کا ہاتھ بٹائے جنھوں نے اپنی زندگیاں اس کام کے لیے وقف کی ہیں:
كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ۝۰ۭ آل عمران 110:3
اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔
۴۔ باہر کے لوگوں کو موقع دیا جائے کہ دار الاسلام میں آئیں اور ایسے ماحول میں رہ کر کلام اللہ کا مطالعہ کریں جہاں کی ساری زندگی اس کلام پاک کی عملی تفسیر ہو۔ کفر کے ماحول کی بہ نسبت اسلام کے ماحول میں وہ قرآن کو زیادہ بہتر طریقے سے سمجھیں گے اور زیادہ گہرا اثر لے کر واپس جائیں گے:
وَ اِنْ اَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ اسْتَجَارَکَ فَاَجِرْہُ حَتّٰی یَسْمَعَ کَلٰمَ اللّٰہِ ثُمَّ اَبْلِغْہُ مَاْمَنَہٗ التوبہ9:6
اور اگر مشرکین میں سے کوئی شخص پناہ مانگ کر تمھارے پاس آنا چاہے (تاکہ اللہ کا کلام سنے) تو اُسے پناہ دے دو، یہاں تک کہ وہ اللہ کا کلام سن لے پھر اُسے اُس کے مَاْمَن (ٹھکانے) تک پہنچا دو۔
اس طرح صرف آٹھ برس کی قلیل مدت میں دنیا کے اس سب سے بڑے ہادی و رہبر نے مدینہ کے پاور ہائوس میں اتنی زبردست طاقت بھر دی کہ دیکھتے دیکھتے اس نے سارے عرب کو منور کر دیا اور پھر عرب سے نکل کر اس کی روشنی روئے زمین پر پھیل گئی۔ حتیٰ کہ آج ساڑھے تیرہ سو برس گزر چکے ہیںمگر وہ پاور ہائوس اب بھی طاقت کے خزانوں سے بھرا ہوا ہے۔
خلافت راشدہ کے بعد جب نظام اسلامی میں بہت کچھ برہمی پیدا ہوگئی تو صوفیائے اسلام نے بھی اسی طریقے کی پیروی میں جگہ جگہ خانقاہیں قائم کی تھیں۔ آج خانقاہ کا مفہوم اس قدر گر گیا ہے کہ یہ لفظ سنتے ہی انسان کے ذہن میں ایک ایسی جگہ کا تصور آجاتا ہے جہاں ہوا اور روشنی کا گزر نہ ہو، اور صدیوں تک جنتری کا ورق نہ پلٹے، مگر اصل میں یہ خانقاہ بھی اسی نمونے کی ایک نقل تھی جسے سرکار رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں قائم کیا تھا۔ صوفیائے کرام جن لوگوں میں استعداد پاتے تھے ان کو بیرونی دنیا کے گندے ماحول سے نکال کر کچھ مدت تک خانقاہ میں رکھتے تھے اور وہاں اعلیٰ درجے کی تربیت دے کر انھیں اسی کام کے لیے تیار کرتے تھے جس کے لیے مرشد اعظمؐ اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کو تیار کیا کرتے تھے۔
اب جو لوگ اسلامی طرز کا انقلاب برپا کرنا چاہتے ہیں ان کو پھر اسی طریقے کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ اگر ہم ہندستان سے نکل کر کہیں آزاد فضا نہیں پاسکتے جہاں مدینہ طیبہ کی طرح دارالاسلام بنایا جاسکے تو کم از کم ہم کو اسی ملک میں ایسی تربیت گاہیں بنانی چاہییں جہاں خالص اسلامی ماحول پیدا کیا جائے۔ جہاں اخلاق اسلامی ہوں‘ معاشرت اسلامی ہو‘ عملی زندگی مسلمانوں کی سی ہو‘ گرد و پیش ہر طرف اسلام اپنی روح اور اپنی صورت کے ساتھ نمایاں ہو۔ جہاں کسی چیز کے صحیح ہونے کے لیے صرف یہ دلیل کافی ہو کہ خدا اوررسول نے اس کی اجازت دی ہے، یا اس کا حکم دیا ہے‘ اور کسی چیز کا غلط ہونا صرف اس دلیل سے تسلیم کیا جائے کہ خدا اور رسول نے اس سے منع کیا ہے، یا اسے ناپسند کیا ہے۔ جہاں یہ بغاوت اورسرکشی کا ماحول‘ یہ غیر اسلامی فضا نہ ہو جس نے ہر طرف سے ہمارا احاطہ کر رکھا ہے۔ جہاں ہم کو کم از کم اتنا اختیار تو ہو کہ بیرونی اثرات میں سے جن کو ہم روح اسلامی کے موافق پائیں صرف انھی کو داخل ہونے دیں اور جن کو منافی پائیں ان کو اپنی زندگی پر مسلط ہونے اور اپنے دل و جان میں نفوذ کرنے سے روک سکیں۔ جہاں ہم کو ایسی فضا میسر آسکے کہ مسلمان کی طرح سوچ سکیں‘ مسلمان کی سی نظر اپنے اندر پیدا کرسکیں‘ ان اسلامی صفات کو نشوونما دے سکیں جو اس دار الکفر کی مسموم آب و ہوا میں فنا ہوتی چلی جا رہی ہیں‘ ان گندگیوں اور آلائشوں سے اپنی زندگی کو پاک کر سکیں جو غیر اسلامی ماحول میں آنکھیں کھولنے اور نشوونما پانے کی وجہ سے ہمارے افکار اور اعمال میں گھس گئی ہیں‘ جن کا شعور تک بسا اوقات ہمیں نہیں ہوتا اور جن کو اگر ہم محسوس کر بھی لیتے ہیں تو ماحول کی طاقت اتنی جابر و قاہر ثابت ہوتی ہے کہ باوجود کوشش کرنے کے ہم اپنے آپ کو ان سے نہیں بچا سکتے۔ اس قسم کی تربیت گاہوں میں ایسے لوگوں کو جمع کیا جائے جو سچے دل سے اسلام کی خدمت کے لیے تیار ہو جائیں۔ وہاں کے کام کا نقشہ وہی ہو جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کام کا نقشہ تھا۔ اسی طرح کام کو شعبوں میں تقسیم کیا جائے‘ اور اسی طرح ہر شعبے میں آدمیت کو اسلامیت کے سانچے میں ڈھالنے کی تدبیر کی جائے:
٭ ایک شعبہ ایسا ہو کہ جس میں اعلیٰ درجے کی علمی استعداد کے لوگ شامل ہوں۔ ان میں سے جو لوگ علوم دینیہ میں دستگاہ رکھتے ہوں انھیں مغربی زبانوں سے اورعلوم جدیدہ سے روشناس کیا جائے‘ اور جن حضرات نے علوم جدیدہ کی تحصیل کی ہو انھیں عربی زبان اور اسلامی علوم کی تعلیم دی جائے۔ پھر یہ لوگ قرآن اور سنت کا گہرا مطالعہ کرکے دین میں تفقہ اور بصیرت حاصل کریں۔ اس کے بعد ان کے مختلف گروپ بنا دیے جائیں۔ ہر گروپ ایک ایک شعبہ علم کو لے کر اس میں اسلام کے اصول و نظریات کوجدید طرز پر مرتب کرے‘ زندگی کے جدید مسائل کو سمجھے اور اصول اسلام کے مطابق ان کا حل تلاش کرے‘ علوم کی بنیاد میں جو مغربی نقطۂ نظر پیوست ہو گیا ہے اس کو نکال کر اسلام کے نقطۂ نظر سے علوم کو از سر نو مدون کرے اور اپنی تحقیقات سے ایسا صالح لٹریچر پیدا کرے جو اسلام کی موافقت(مطابق) میں ایک ذہنی انقلاب برپا کرنے کی طاقت رکھتا ہو۔
۲۔ دوسرا شعبہ ایسا ہو جس میں خدمت اسلام کے لیے اچھے کارکن تیارکرنے کی کوشش کی جائے۔ پاکیزہ اخلاق‘ مضبوط سیرت‘ دھن کے پکے اور اپنے نصب العین کے لیے سب کچھ قربان کر دینے والے لوگ، جو ایک زبردست انقلابی پارٹی کی صورت میں منظم ہوں‘ جن کی زندگی سادہ ہو‘ جن میں جفا کشی ہو‘ جن میں پورا ضبط و نظم پایا جائے‘ اور جن کی عملی سیرت ٹھیٹھ مسلمان کی سی ہو۔ یہ پارٹی اسلام کے اصولوں پر ایک نئے اجتماعی نظام (social order)اور ایک نئی تہذیب (civilization)کی تعمیر کا پروگرام لے کر اٹھے اور عامہ خلائق کے سامنے اپنے پروگرام کو پیش کرکے، زیادہ سے زیادہ سیاسی طاقت فراہم کرے اور بالآخر حکومت کی مشین پر قابض ہو جائے تاکہ ظلم و جور کی حکومت کو عدل کی حکومت میں تبدیل کیا جاسکے۔
۳۔ تیسرے شعبے میں ایسے لوگ ہوں جو صرف تھوڑی مدت کے لیے تربیت گاہ میں رہ کر واپس جانا چاہتے ہوں۔ انھیں صحیح علم اور اخلاقی تربیت دے کر چھوڑ دیا جائے کہ جہاں چاہیں رہیں مگر مسلمان کی طرح رہیں۔ دوسروں سے متاثر ہونے کے بجائے ان پر اپنا اثر ڈالیں۔ اپنے اصولوں میں سخت ہوں۔ اپنے عقائد میں مضبوط ہوں‘ بے مقصد زندگی نہ بسر کریں۔ ایک نصب العین ہر حال میں ان کے سامنے ہو۔ پاک طریقوں سے روزی کمائیں اور ان لوگوں کو ہر ممکن طریقے سے مدد دینے کے لیے تیار رہیں جو شعبہ نمبر۲ کے تحت کام کر رہے ہوں۔ یہ ان کو مالی مدد بھی دیں‘ ان کے کاموں میں شریک بھی رہیں، اور جہاں رہیں وہاں کی فضا کو انقلابی پارٹی کی موافقت میں تیار بھی کرتے رہیں۔
۴۔ چوتھا شعبہ ایسے مسلمانوں اور غیر مسلموں کے لیے ہو جو محض عارضی طور پر تربیت گاہ میں آکر کچھ علمی استفادہ کرنا چاہیں، یا وہاں کی زندگی کا مطالعہ کرنے کے خواہش مند ہوں۔ ان لوگوں کو ہر قسم کی سہولتیں بہم پہنچائی جائیں تاکہ وہ اسلام اور اس کی تعلیم کا گہرا نقش لے کر واپس جائیں۔
یہ ایک سرسری سا خاکہ ہے اس نظام کا جو ہمارے نزدیک اسلامی انقلاب برپا کرنے کے لیے ایک ضروری مقدمے کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس نظام کی کامیابی کا انحصار تمام تر اس پر ہے کہ یہ اپنی روح اور اپنے جوہر میں مدینہ طیبہ کے اس مثالی نظام کے ساتھ زیادہ سے زیادہ مماثلت پیدا کرے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم کیا تھا۔
مدینہ طیبہ سے مماثلت پیدا کرنے کا مفہوم کہیں یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ ہم ظاہری اشکال میں مماثلت پیدا کرنا چاہتے ہیں اور دنیا اس وقت تمدن کے جس مرتبے پر ہے اس سے رجعت کرکے اس تمدنی مرتبے پر واپس جانے کے خواہش مند ہیں جو عرب میں ساڑھے تیرہ سو برس پہلے تھا۔ اتباع رسولؐ و اصحاب کا یہ مفہوم ہی سرے سے غلط ہے‘ اور اکثر دین دار لوگ غلطی سے اس کا یہی مفہوم لیتے ہیں۔ ان کے نزدیک سلف صالح کی پیروی اس کا نام ہے کہ جیسا لباس وہ پہنتے تھے ویسا ہی ہم پہنیں‘ جس قسم کے کھانے وہ کھاتے تھے اسی قسم کے کھانے ہم بھی کھائیں‘ جیسا طرز معاشرت ان کے گھروں میں تھا بعینہٖ وہی طرز معاشرت ہمارے گھروں میں بھی ہو۔ تمدن و حضارت(شہری زندگی (۲)مُتَحجَّر: پتھر جیسی) کی جو حالت ان کے عہد میں تھی اس کو ہم بالکل متحجر(۲) (foscilised)صورت میں قیامت تک باقی رکھنے کی کوشش کریں‘ اور ہمارے اس ماحول سے باہر کی دنیا میں جو تغیرات واقع ہو رہے ہیں ان سب سے آنکھیں بند کر کے ہم اپنے دماغ اور اپنی زندگی کے ارد گرد ایک حصار کھینچ لیں جس کی سرحدمیں وقت کی حرکت اور زمانے کے تغیر کو داخل ہونے کی اجازت نہ ہو۔ اتباع کا یہ تصور جو دور انحطاط کی کئی صدیوں سے دین دار مسلمانوں کے دماغوں پر مسلط رہا ہے درحقیقت روح اسلام کے بالکل منافی ہے۔ اسلام کی یہ تعلیم ہرگز نہیں ہے کہ ہم جیتے جاگتے آثار قدیمہ بن کر رہیں اور اپنی زندگی کو قدیم تمدن کا ایک تاریخی ڈراما بنائے رکھیں۔ وہ ہمیں رہبانیت اور قدامت پرستی نہیں سکھاتا۔ اس کا مقصد دنیا میں ایک ایسی قوم پیدا کرنا نہیں ہے جو تغیر و ارتقا کو روکنے کی کوشش کرتی رہے، بلکہ اس کے بالکل برعکس وہ ایک ایسی قوم بنانا چاہتا ہے‘ جو تغیر و ارتقا کو غلط راستوں سے پھیر کر صحیح راستے پر چلانے کی کوشش کرے۔ وہ ہم کو قالب نہیں دیتا بلکہ روح دیتا ہے‘ اور چاہتا ہے کہ زمان و مکان کے تغیرات سے زندگی کے جتنے بھی مختلف قالب قیامت تک پیدا ہوں ان سب میں یہی روح بھرتے چلے جائیں۔ مسلمان ہونے کی حیثیت سے دنیا میں ہمارا مشن یہی ہے۔ ہم کو ’خیرِامت‘ جو بنایا گیا ہے تو اس لیے نہیں کہ ہم ارتقا کے راستے میں آگے بڑھنے والوں کے پیچھے عقب لشکر (rear guard) کی حیثیت سے لگے رہیں‘ بلکہ ہمارا کام امامت و رہنمائی ہے۔ ہم مقدمۃ الجیش بننے کے لیے پیدا کیے گئے ہیں اور ہمارے خیرِ امت ہونے کا راز اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِمیں پوشیدہ ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے اصحاب کا اصلی اسوہ جس کی پیروی ہمیں کرنی چاہیے‘ یہ ہے کہ انھوں نے قوانینِ طبیعی کو قوانینِ شرعی کے تحت استعمال کرکے، زمین میں خدا کی خلافت کا پورا پورا حق ادا کر دیا۔ ان کے عہد میں جو تمدن تھا، انھوں نے اس کے قالب میں اسلامی تہذیب کی روح پھونکی۔ اس وقت جتنی طبیعی قوتوں پر انسان کو دسترس حاصل ہو چکی تھی ان سب کو انھوں نے اس تہذیب کا خادم بنایا‘ اور غلبہ و ترقی کے جس قدر وسائل تمدن نے فراہم کیے تھے ان سے کام لینے میں وہ کفار و مشرکین سے سبقت(آگے لے جانا، آگے بڑھنا) لے گئے تاکہ خدا سے بغاوت کرنے والوں کی تہذیب کے مقابلے میں خدا کی خلافت سنبھالنے والوں کی تہذیب کامیاب ہو۔ اسی چیز کی تعلیم خدا نے اپنی کتاب میں ان کو دی تھی کہ وَ اَعِدُّوْا لَھُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ الانفال8:60 اور تم لوگ، جہاں تک تمھارا بس چلے، زیادہ سے زیادہ طاقت…… مہیا رکھو۔
ان کو یہ سکھایا گیا تھا کہ خدا کی پیدا کی ہوئی قوتوں سے کام لینے کا حق کافر سے زیادہ مسلم کو پہنچتا ہے بلکہ اس کا اصلی حق دار مسلم ہی ہے۔ پس نبیؐ و اصحاب نبیؐ کا صحیح اتباع یہ ہے کہ تمدن کے ارتقا اور قوانین طبیعی کے اکتشافات سے اب جو وسائل پیدا ہوئے ہیں ان کو ہم اس طرح تہذیب اسلامی کا خادم بنانے کی کوشش کریں جس طرح صدر اوّل میں کی گئی تھی۔ نجاست اور گندگی جو کچھ ہے وہ ان وسائل میں نہیں ہے بلکہ اس کافرانہ تہذیب میں ہے جو ان وسائل سے فروغ پا رہی ہے۔ ریڈیو بجائے خود ناپاک نہیں ہے، ناپاک وہ تہذیب ہے جو ریڈیو کے ڈائریکٹر کو داروغۂ(محافظ، نگران، ملازموں کا سردار (۲)ناچنے گانے والے) ارباب نشاط(۲) یا ناشر کذب و افترا بناتی ہے۔ ہوائی جہاز ناپاک نہیں ہے‘ ناپاک وہ تہذیب ہے جو ہوا کے فرشتے سے خدائی قانون کے بجائے شیطانی اغوا کے تحت خدمت لیتی ہے۔ سینما ناپاک نہیں ہے، ناپاک دراصل وہ تہذیب ہے جو خدا کی پیدا کی ہوئی اس طاقت سے فحش اور بے حیائی کی اشاعت کاکام لیتی ہے۔ آج کل کی ناپاک تہذیب کو فروغ اسی لیے ہو رہا ہے کہ اس کو فروغ دینے کے لیے خدا کی بخشی ہوئی تمام ان طاقتوں سے کام لیا جارہا ہے جو اس وقت تک انسان پر منکشف ہوئی ہیں۔ اب اگر ہم اس فرض سے سبک دوش ہونا چاہتے ہیںجو الٰہی تہذیب کو فروغ دینے کے لیے ہم پر عائد ہوتا ہے تو ہمیں بھی انھی طاقتوں سے کام لینا چاہیے۔ یہ طاقتیں تو تلوار کی طرح ہیں کہ جو اس سے کام لے گا وہی کامیاب ہوگا‘ خواہ وہ ناپاک مقصد کے لیے کام لے یا پاک مقصد کے لیے۔ پاک مقصد والا اگر اپنے مقصد کی پاکی ہی کو لیے بیٹھا رہے اور تلوار استعمال نہ کرے تو یہ اس کا قصور ہے اور اس قصور کی سزا اسے بھگتنی پڑے گی کیونکہ اس عالم اسباب میں خدا کی جو سنت ہے اسے کسی کی خاطر نہیں بدلا جاسکتا۔
اس تصریح سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ یہ تحریک جسے میں پیش کر رہا ہوں، نہ تو کوئی ارتجاعی (reactionary) تحریک ہے اور نہ اس قسم کی ارتقائی تحریک ہے جس کے پیش نظر صرف مادی ارتقا ہو۔ میرے پیش نظر جو تربیت گاہ ہے اس کے لیے گرو کل کانگڑی‘ ستیہ گرہ آشرم‘ شانتی نکیتن اور دیال باغ میں کوئی نمونہ نہیں ہے‘ اور اسی طرح جس انقلابی پارٹی کا تصور میرے ذہن میں ہے اس کے لیے اٹلی کی فاشست اور جرمنی کی نیشنل سوشلسٹ پارٹی میں بھی کوئی نمونہ نہیں ہے۔ اس کے لیے اگر کوئی نمونہ ہے تو وہ صرف مدینۃ الرسول اور اس حزب اللہ میں ہے جسے نبی عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے مرتب کیا تھا۔

(ترجمان القرآن‘ شوال۱۳۵۶ھ۔ دسمبر ۱۹۳۷ء)

شیئر کریں