Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

عرض ناشر
تقریب
مسئلہ قتل مرتد شرعی حیثیت سے
حکم قتل مرتد کا ثبوت قرآن سے
حکم قتل مرتد کا ثبوت حدیث سے
خلافت راشدہ کے نظائر
مرتدوں کے خلاف خلیفۂ اوّل کا جہاد
ائمۂ مجتہدین کا اتفاق
دَارالاسلام میں تبلیغ کفر کا مسئلہ
مسئلہ کی تحقیق
اسلامی حکومت کا بنیادی مقصد
دارالاسلام میں ذمیوں اور مستامنوں کی حیثیت
دور نبوت اور خلافت راشدہ کا طرز عمل
قتل ِ مرتد پر عقلی بحث
معترضین کے دلائل
ایک بنیادی غلط فہمی
اعتراضات کا جواب
مجرد مذہب اور مذہبی ریاست کا بنیادی فرق
ریاست کا قانونی حق
انگلستان کی مثال
امریکا کی مثال
ریاست کا فطری حق
کافر اور مُرتد کے ساتھ مختلف معاملہ کیوں ہے؟
جوابی کارروائی کا خطرہ
پیدائشی مسلمانوں کا مسئلہ
تبلیغ کفر کے باب میں اسلامی رویے کی معقولیت

مرتد کی سزا

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

مرتدوں کے خلاف خلیفۂ اوّل کا جہاد

مگر ان سب نظیروں سے بڑھ کر وزنی نظیر اہل رِدّہ کے خلاف حضرت ابوبکرؓ صدیق کا جہاد ہے۔ اس میں صحابہ کرام کی پوری جماعت شریک تھی۔ اس سے اگر ابتدا میں کسی نے اختلاف کیا بھی تھا تو بعد میں وہ اختلاف اتفاق سے بدل گیا تھا۔ لہٰذا یہ معاملہ اس بات کا صریح ثبوت ہے کہ جن لوگوں نے براہِ راست نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دین کی تعلیم و تربیت پائی تھی ان سب کا متفقہ فیصلہ یہ تھا کہ جو گروہ اسلام سے پھر جائے اس کے خلاف اسلامی حکومت کو جنگ کرنی چاہیے۔
(۱) جہاد جن لوگوں کے خلاف کیا گیا تھا وہ سارے کے سارے مانعین زکوٰۃ ہی نہیں تھے بلکہ ان میں مختلف قسم کے مرتدین شامل تھے۔ کچھ لوگ ان مدعیان نبوت پر ایمان لے آئے تھے جنھوں نے عرب کے مختلف گوشوں میں اپنی نبوت کا اعلان کیا تھا۔ کچھ کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا یقین نہ رہا تھا اور وہ کہتے تھے کہ لوکان محمد نبیًا ما مات (اگر محمد نبی ہوتے تو مرتے نہیں)۔ کچھ لوگ تمام ضروریات دین کے قائل تھے اور زکوٰۃ بھی ادا کرنے کے لیے تیار تھے، مگر ان کا کہنا یہ تھا کہ ہم اپنی زکوٰۃ بطور خود جمع اور خرچ کریں گے، ابوبکر کے عاملوں کو نہیں دیں گے۔ کچھ اور لوگ کہتے تھے:
اطعنا رسول اللہ اذ کان بیننا
فواعجبا ما بال ملک ابی بکر
’’ہم نے خدا کے رسول کی پیروی کرلی جبکہ وہ ہمارے درمیان تھا، مگر مقام حیرت ہے کہ یہ ابوبکر کی حکومت ہم پر کیوں مسلط ہوئی۔‘‘
گویا انھیں اعتراض اس بات پر تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلافت کا نظام قائم ہو اور سب مسلمانوں کو اُسی طرح اس مرکز سے وابستہ رہنے پر مجبور کیا جائے جس طرح وہ رسول اللہ کی شخصیت سے وابستہ تھے۔
(۲) ان سب مختلف قسم کے لوگوں کے لیے صحابہ نے باغی کے بجائے ’’مرتد‘‘ کا لفظ اور اس ہنگامے کے لیے بغاوت کے بجائے ’’ارتداد‘‘ کا لفظ استعمال کیا، جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی نگاہ میں وہ اصل جرم جس کے یہ لوگ مرتکب ہوئے تھے، ارتداد تھا نہ کہ بغاوت۔ جنوب عرب میں جن لوگوں نے لقیط بن مالک الازدی کی نبوت تسلیم کرلی تھی اُن کے خلاف حضرت ابوبکر نے عکرمہ بن ابی جہل کو جہاد کے لیے روانہ کرتے وقت یہ ہدایت کی تھی کہ ومن لقیتہ من المرتدۃ بین عمان الی حضرموت و الیمن فنکل بہ (عمان سے حضر موت اور یمن تک جہاں مرتدوں کو پائو کچل ڈالو)۔
(۳) جن لوگوں نے زکوٰۃ ادا کرنے سے انکار کیا تھا ان کے معاملے میں جب یہ شبہ ظاہر کیا گیا کہ ایسے لوگوں کے خلاف جنگ کرنا جائز بھی ہے یا نہیں تو حضرت ابوبکرؓ نے جواب دیا تھا: واللّٰہ لاقاتلن من فرق بین الصلوۃ و الزکوٰۃ (خدا کی قسم جو نماز اور زکوٰۃ میں فرق کرے گا میں اس سے جنگ کروں گا)۔اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ خلیفہ اوّل کی نگاہ میں ان کا اصل جرم ٹیکس نہ دینا نہیں تھا بلکہ دین اسلام کے دو ارکان میں سے ایک کو ماننا اور دوسرے کو نہ ماننا تھا۔ اور آخر کار جس بنا پر صحابہ کرام نے ان مانعین زکوٰۃ سے جنگ کرنے کے معاملے میں خلیفہ سے اتفاق کیا وہ یہی تھی کہ خلیفہ برحق کے دلائل سے انھیں اس امر کا پورا اطمینان ہوگیا کہ نماز اور زکوٰۃ میں تفریق کرنے کی وجہ سے یہ لوگ دائرۂ دین سے باہر نکل چکے ہیں۔
(۴) ان سب سے بڑھ کر فیصلہ کن چیز سیدنا ابوبکر صدیق ؓ کا وہ فرمان عام (Proclamation)ہے جو آپ نے عرب کے مختلف گوشوں میں مرتدین کے خلاف جہاد کے لیے گیارہ فوجیں روانہ کرتے وقت ہر فوج کے کمانڈر کو لکھ کر دیا تھا۔ حافظ ابن کثیر نے اپنی کتاب البدایہ و النہایہ (جلد۶ ص ۳۱۶) میں یہ پورا فرمان نقل کیا ہے، اس کے حسب ذیل فقرے خاص طور پر قابل غور ہیں:
’’تم میں سے جن لوگوں نے شیطان کی پیروی قبول کی ہے اور جو اللہ سے بے خوف ہو کر اسلام سے کفر کی طرف پھر گئے ہیں ان کی اس حرکت کا حال مجھے معلوم ہوا، اب میں نے فلاں شخص کو مہاجرین اور انصار اور نیک نہاد تابعین کی ایک فوج کے ساتھ تمھاری طرف بھیجا ہے اور اسے ہدایت کر دی ہے کہ ایمان کے سوا کسی سے کچھ قبول نہ کرے، اور اللہ عزوجل کی طرف دعوت دیے بغیر کسی کو قتل نہ کرے۔ پس جو کوئی اُس کی دعوت الی اللہ کو قبول کرے گا اور اقرار کرنے کے بعد اپنا عمل درست رکھے گا اس کے اقرار کو وہ قبول کرلے گا اور اسے راہِ راست پر چلنے میں مدد دے گا۔ اور جو انکار کرے گا اس سے وہ لڑے گا یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف رجوع کرے۔ اس کو حکم دے دیا گیا ہے کہ انکار کرنے والوں میں سے جس پر وہ قابو پائے اسے جیتا نہ چھوڑے۔ ان کی بستیوں کو جلادے، ان کو نیست و نابود کردے، ان کی عورتوں اور بچوں کو غلام بنا لے اور اسلام کے سوا کسی سے کچھ قبول نہ کرے۔ پس جو اس کی بات مان لے گا وہ اپنا ہی بھلا کرے گا اورجو نہ مانے گا وہ اللہ کو عاجز نہ کرسکے گا۔ میں نے اپنے فرستادہ امیر کو یہ بھی ہدایت کر دی ہے کہ میری اس تجویز کو تمھارے ہر مجمع میں سنا دے اور یہ کہ اسلام قبول کرنے کی علامت اذان ہے۔ جہاں سے اذان کی آواز آئے اس بستی سے تعرض نہ کرو اور جہاں سے یہ آواز نہ آئے وہاں کے لوگوں سے پوچھو کہ وہ کیوں اذان نہیں دیتے۔ اگر وہ انکار کریں تو ان پر ٹوٹ پڑو اور اگر اقرار کریں تو ان کے ساتھ وہی سلوک کرو جس کے وہ مستحق ہیں۔‘‘

شیئر کریں