امام کا اسم گرامی نعمان بن ثابت تھا۔ عراق کے دارالحکومت کوفہ میں ان کی پیدائش معتبر روایات کے مطابق 80 ھ ( 699ء) میں ہوئی ۔ عبدالملک بن مروان اس وقت اموی خلیفہ تھا اور حجاج بن یوسف عراق کا گورنر۔ انھوں نے اپنی زندگی کے باون سال بنی امیہ کے عہد میں اور اٹھارہ سال بنی عباس کے عہد میں گزارے ۔ حجاج بن یوسف کی موت کے وقت وہ پندرہ سال کے تھے ۔عمر بن عبدالعزیز ؒ کے زمانے میں وہ جوان تھے ۔ یزید بن المہلب ، خالد بن عبداللہ القسری اور نصر بن سیار کی ولایت عراق کے طوفانی عہد ان کی آنکھوں کے سامنے گزرے ۔ ابن ہبیرہ آخری اموی گورنر کے ظلم وستم کا وہ خود نشانہ بنے ۔ پھر ان کے سامنے ہی عباسی دعوت اٹھی ۔ ان کا مرکز ان کا اپنا شہر کوفہ تھا، اور بغداد کی تعمیر سے پہلے تک کوفے ہی کو عملا نوخیز دولت عباسیہ کے مرکز کی حیثیت حاصل رہی ۔ خلیفہ المنصور کے عہد میں150ھ( 767ء) میں انھوں نے وفات پائی ۔ ان کا خاندان ابتداءَ کابل میں آباد تھا۔ ان کے دادا، جن کا نام بعض نے زُوطی اور بعض نے زُوطیٰ لکھا ہے ، جنگ کے بعد گرفتار ہوکر کوفہ آئے اور مسلمان ہوکر یہیں بنی تمیم اللہ کی وِ لاء ( patronage) میں ر ہ پڑے ۔ ان کاپیشہ تجارت تھا ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ان کی ملاقات تھی اور اس حد تک تعلقات تھے کہ وہ کبھی کبھی ان کی خدمت میں ہدیے بھیجتے رہتے تھے [1]۔ ان کے بیٹے ( امام ابوحنیفہ ؒ کے والد) بھی کوفے میں تجارت کرتے تھے ۔ امام کی اپنی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ کوفے میں ا ن کی روٹیون کی دکان ( bakery ) تھی ۔ [2] امام کی تعلیم کے متعلق ان کا اپنا بیان یہ ہے کہ ابتداءَ انھوں نے قراءت ، حدیث ، نحو ، ادب ، شعر ، کلام وغیرہ تمام علوم کا مطالعہ کیا تھا جو اس زمامے میں متداول تھے[3] ۔ اس کے بعد انھوں نے علم کلام میں اختصاص پیدا کیا اور ایک مدت اس میں مشغول رہ کر اس مرتبے تک ترقی کر گئے کہ اس فن میں ان کی طرف نگاہیں اٹھنے لگیں ۔ اس نے مشہور شاگرد زفر بن الہذیل کی روایت ہے کہ امام نے ان سے کہا "” "”پہلے میں علم کلام میں دلچسپی رکھتا تھا ، او راس حد کو پہنچ گیا تھا کہ میری طرف اشارہ کیے جاتے تھے”” [4]۔ اور ایک روایت میں امام خود فرماتے ہیں ۔ "”میں ایک ایسا شخص تھا جسے علم کلام کی بحثوں میں مہارت حاصل تھی ۔ زمانہ ایسا گزرا کہ میں انھی بحثوں میں مشغول رہتا تھا ۔ اور چونکہ اختلافات کا اکھاڑہ زیادہ تربصرے میں تھا اس لیے میں تقریبا بیس مرتبہ وہاں گیا اور کبھی کبھی سال چھ مہینے بھی وہاں رہ کر خوارج کے مختلف گروہوں اباضیہ ، صفریہ وغیرہ سے اور حشویہ کے مختلف طبقوں سے مناظرے کرتا رہا ۔ "”[5] اس سے یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ امام نے اس وقت کے فلسفہ ومنطق اور اختلافاتِ مذاہب کے متعلق بھی ضرور کافی واقفیت بہم پہنچائی ہوگی ۔ کیونکہ اس کےبغیر علم ِ کلام میں آدمی دخل نہیں دے سکتا ۔ بعد میں انھوں نے قانون میں منطقی استدلال اور عقل کے استعمال کا جو کمال دکھایا اور بڑے بڑے پیچیدہ مسائل کو حل کرنے میں جو شہرت حاصل کی وہ اسی ابتدائی ذہنی تربیت کا نتیجہ تھی ۔ "” کافی مدت یک اس میں مشغول رہنے کے بعد کلامی جھگڑوں اور مجادلوں سے اس کا دل بیزار ہوگیا اور انھوں نے فقہ ( اسلامی قانون ) کی طرف توجہ کی ۔ یہاں طبعا ان کی دلچسپی اہل الحدیث کے مدرسہ فکر سے نہ ہوسکتی تھی ۔ عراق کے اصحاب الرائے کا مرکز اس وقت کوفہ تھا ۔ اسی سے وہ وابستہ ہوگئے۔اس مدرسہ فکر کی ابتدا حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ( متوفی 32ھ۔652ء) سے ہوئی تھی ۔ ان کے بعد ان کے شاگرد شریح (م 78ھ۔697ء) علقمہ (م 32ھ۔671ء) اور مسروق (م 63ھ۔672ء) اس مدرسہ کے نامور ائمہ ہوئے جن کا شہرہ اس وقت تمام دنیائے اسلام میں تھا ۔ پھر ابراہیم نخعی ( م 95ھ۔714ء) اور ان کے بعد حماد تک اس کی امامت پہنچی ۔ انھی حماد کی شاگردی ابوحنیفہ ؒ نے اختیار کی اور ان کی وفات تک پورے اٹھارہ سال ا ن کی صحبت میں رہے ۔ مگر انھوں نے صرف اسی علم پر اکتفاء نہ کیا جو کوفہ میں ان کے اساتذہ کے پاس تھا ، بلکہ بار بار حج کے موقع پر حجاز جاکر وہ فقہ اور حدیث کے دوسرے اکابر اہل علم سے استفادہ کرتے رہے ۔ 120ھ میں ان کے استاذ حمادکا انتقال ہوا تواس مدرسہ فکر کے لوگوں نے بالاتفاق امام ابوحنیفہ ؒ کو ان کا جانشین بنایا اور اس مسند پر تیس سال تک درس وتدریس اور افتاء کا وہ لافانی کام انھوں نے انجام دیا جو آج مذہب حنفی کی بنیاد ہے ۔ اس تیس سال کی مدت میں انھوں نے بقول ِبعض ساٹھ ہزار اور بقول بعض ترییاسی ہزار قانونی مسائل کے جوابات دیے جو ان کی زندگی ہی میں الگ الگ عنوانات کے تحت مرتب کردیے گئے ۔ [6]سات آٹھ سو کی تعداد میں ایسے شاگرد تیار کیے جو دنیائے اسلام کے مختلف علاقوں میں پہنچ کر درس وافتاء کے مسند نشین اور عوام کی عقیدتوں کے مرکز بن گئے ۔ ان کے شاگردوں میں سے پچاس کے قریب ایسے آدمی نکلے جو ان کے بعد سلطنت عباسیہ کے قاضی مقرر ہوئے ۔ ان کا مذہب اسلامی دنیا کے بہت حصے کا قانون بن گیا ۔ وہی عباسی ، سلجوقی ، عثمانی اور مغل سلطنتوں کا قانون تھا اور آج چین سے لے کر ٹرکی تک کے کروڑوں مسلمان اسی کی پیروی کرتے ہیں ۔ معاش کے لیے امام نے اپنا آبائی پیشہ تجارت اختیار کیا ۔ کوفہ میں وہ خز ( ایک خاص قسم کے کپڑے ) کی تجارت کرتے تھے ۔ رفتہ رفتہ انھوں نےاس پیشے میں بھی غیر معمولی ترقی کی ۔ ان کا اپنا ایک بڑا کارخانہ تھا جس میں خز تیار کیا جاتا تھا[7] ۔ ان کی تجارتی کوٹھی صرف کوفے ہی میں کپڑا فروخت نہیں کرتی تھی بلکہ اس کامال دور دراز علاقوں میں بھی جاتا تھا ۔ پھر ان کی دیانت پر عام اعتماد جب بڑھا تو یہ کوٹھی عملا ایک بینک بھی بن گئی جس میں لوگ کروڑوں روپیہ امانت رکھواتے تھے ۔ ان کی وفات کے وقت پانچ کروڑ درہم کی امانتیں اس کوٹھی میں جمع تھیں[8]۔مالی وتجارتی معاملات کے متعلق اس وسیع تجربے نے ان کے اندر قانون کے بہت سے شعبوں میں وہ بصیرت پیدا کردی تھی جو صرف علمی حیثیت سے قانون جاننے والوں کو نصیب نہیں ہوتی ۔ فقہ اسلامی کی تدوین میں اس تجربے نے ان کو بڑی مدد دی ۔ اس کے علاوہ دنیوی معاملات میں ان کی فراست ومہارت کا اندازہ اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ جب 145ھ (762ء) میں المنصور نے بغداد کی تعمیر کاآغاز کیا تو ابو حنیفہ ؒ ہی کو اس کی نگرانی پر مقرر کیا اور چارسال تک وہ اس کام کے نگران ِ اعلی ٰ رہے ۔ [9] وہ اپنی شخصی زندگی میں انتہائی پرہیزگار اور دیانت دار آدمی تھے ۔ ایک مرتبہ انھوں نے اپنے ایک شریک کو مال بیجنے کے لیے باہر بھیجا ۔اس مال میں ایک حصہ عیب دار تھا ۔ امام نے شریک کو ہدایت کی کہ جس کے ہاتھ فروخت کرے اسے عیب سے آگاہ کر دے ۔ مگر وہ اس بات کو بھول گیا اور سارا مال عیب ظاہر کیے بغیر فروخت کر آیا ۔ امام نے اس پورے مال کی وصول شدہ قیمت ( جو 35 ہزار درہم تھی ) خیرات کردی ۔ [10]مورخیں نے متعدد واقعات ایسے بھی نقل کیے ہیں کہ ناتجربہ کار لوگ اگر اپنا مال فروخت کرنے کے لیے ان کی دکان پر آتے اور مال کی قیمت کم بتاتے تو امام خود ان سے کہتے تھے کہ تمہار ا مال زیادہ قیمتی ہے ، اور ان کو صحیح قیمت اداکرتے تھے ۔ [11] ان کے ہم عصر ان کی پرہیز گاری کی تعریف میں غیر معمولی طورپر رطب اللسان ہیں۔ مشہور امام حدیث عبداللہ بن مبارک ؒ کا قول ہے :”” میں نے ابوحنیفہؒ سے زیادہ پرہیز گار آدمی نہیں دیکھا ۔ اس شخص کے متعلق کیا کہاجائے گا جس کے سامنے دنیا اور اس کی دولت پیش کی گئی اور اس نے ٹھکرا دیا، کوڑوں سے اس کو پیٹا گیا اور وہ ثابت قدم رہا ، اور وہ مناصب جن کے پیچھے لوگ دوڑتے پھرتے ہیں کبھی قبول نہ کیے ۔ "” [12] قاضی ابن شبرمہ کہتے ہیں :”” دنیا ان کےپیچھے لگی مگر وہ اس سے بھاگے ، اورہم سے وہ بھاگی مگر ہم اس کے پیچھے لگے ۔ "” حسن بن زیاد کہتے ہیں :”” خدا کی قسم ! ابوحنیفہ ؒ نے کبھی کسی امیر کا عطیہ یا ہدیہ قبول نہیں کیا ۔[13] "” ہارون الرشید نے ایک دفعہ امام ابویوسف ؒ سے ابوحنیفہ ؒ کی صفت پوچھی ۔ انھوں نے کہا: "” بخدا! وہ اللہ کی حرام کردہ چیزوں سے سخت پرہیز کرنے والے ، اہل دنیا سے مجتنب اور اکثر خاموش رہنےوالے آدمی تھے ۔ ہمیشہ غور وفکر میں لگے رہتے اور فضول باتیں کبھی نہ کرتے ۔ اگر کوئی مسئلہ ان سے پوچھا جاتا اور ان کے پاس اس کے متعلق کوئی علم ہوتا تو جواب دے دیتے ۔ امیر المومنین ! میں تو بس یہ جانتا ہوں کہ وہ اپنے نفس اور دین کو برائیوں سے بچاتے تھے اور لوگوں سے بے نیاز ہوکر اپنے آپ سے مشغول رہتے تھے ۔ وہ کبھی کسی کا ذکر برائی کے ساتھ نہ کرتے تھے ۔ "”[14] وہ ایک نہایت فیاض آدمی تھے ۔ خصوصا اہل علم پر اور طلبہ پر اپنا مال بڑی دریا دلی سے خرچ کرتے تھے ۔ انھوں نے اپنے تجارتی منافع کا ایک خاص حصہ ا س مقصد کے لیے الگ کر رکھا تھا جس سے سال بھر تک علماء اور طلبہ کو باقاعدہ مالی اعانتیں دیتے رہتے اور آخر میں جو کچھ بچتا وہ انھی میں تقسیم کردیتے ۔ وہ ان کو مال دیتے وقت کہا کرتے :”” آپ لوگ اسے اپنی ضروریات پر خرچ کریں اور اللہ کے سوا کسی کے شکرگزار نہ ہوں ۔ میں نے آپ کو اپنے پاس سے کچھ نہیں دیا ہے ، یہ اللہ کا فضل ہے جو آپ ہی لوگوں کے لیے اس نے مجھ کو بخشا ہے ۔””[15] ان کے شاگردوں میں ایک کثیر تعداد ایسی تھی جن کے مصارف کی کفالت وہ خود کرتے تھے ، اور امام ابو یوسف ؒ کے تو گھر کا پورا خرچ ہی انھوں نے اپنے ذمے لے رکھا تھا، کیونکہ ان کے والدین غریب تھے اور وہ اپنے لڑکے کی تعلیم چھڑا کر اسے کسی معاشی کام میں لگانا چاہتے تھے ۔ "”[16] اس سیرت اور شخصیت کا تھا وہ شخص جس نے دوسری صدی ہجری کے نصف اول میں قریب قریب ان تمام اہم مسائل سے تعرض کیا جو خلافت راشدہ کے بعد پیش آنے والے حالات میں پیدا ہوئے تھے ۔