نشریاتی محکمے ، خبررساں ایجنسیاں ،نیم سرکاری اخبارات اور سیاسی لیڈر ملک کی ایک اہم حزب اختلاف کی تمام خبروں کا بلیک آئوٹ کرنے اور جماعت اسلامی کا نام تک نہ لینے کے بارے میں خواہ کتنی ہی متفقہ و منظم پالیسی کیوں نہ اختیار کریں لیکن ایک تنظیم اور تحریک اپنے وجود کو منوانے اور ملک کے باشندوں پر اثر انداز ہونے کے لیے کسی سرکاری اجازت اور حکومتی اعتراف پر انحصار نہیں کرتی ۔ جماعت اسلامی کا وجود و بقا اور اثر و ترقی بھی اس بات کی محتاج نہیں ہے کہ جب تک سرکاری طور پر تسلیم نہ کی جائے، اس کی طاقت اور وسعت محض خیالی اور ہوائی سمجھی جائے۔ دنیا میں حقائق سے منہ موڑ نے یا ان کا اعتراف نہ کرنے سے ان کی حقیقت بہرحال نہیں بدلی جاسکتی ۔
پھر جماعت اسلامی کے مخالفین کے لیے یہ بھی کسی طرح ممکن نہیں ہے کہ وہ جبر و تشدد ، مکر وفریب اور ظلم و زیادتی سے جماعت کے کارکنوں کو خوف زدہ ، مجبور یا پست ہمت کرنا تو درکنار خاموش ہی کرسکیں۔یہ جماعت اللہ کی توفیق سے ہر قسم کی چال بازیوں اور سازشوں کا اب تک مقابلہ کرتی رہی ہے اور آئندہ بھی ان شاء اللہ کرتی رہے گی۔ لیکن پاکستان کے ہر بہی خواہ کو یہ سوچنا پڑے گا کہ ملک کی سیاسیات میں دھوکہ دہی ،دھاندلی ، بے انصافی اور دہشت انگیزی کی یہ روش آخری کن نتائج پر منتج ہوگی۔