Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

دعوت اسلامی اور اس کا طریق کار
اجتماعات کا مقصد:
دعوت اسلامی کے تین نکات :
بندگی رب کا حقیقی مفہوم:
منافقت کی حقیقت
تناقض کی حقیقت:
امامت میں انقلاب کیسے آتا ہے؟
مخالفت اور اس کے اسباب :
ہمارا طریقِ کار
علماء اور مشائخ کی آڑ :
زہد کا طعنہ:
رفقاء جماعت سے خطاب :

دعوت اسلامی اور اس کا طریق کار

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

مخالفت اور اس کے اسباب :

یہ ہے ہماری دعوت کا خلاصہ۔اب آپ تعجب کریں گے اگر میں آپ کو بتائوں کہ اس دعوت کی مزاحمت اور مخالفت سب سے پہلے جس گروہ کی طرف سے ہوئی ہے وہ مسلمانوں کا گروہ ہے۔اس وقت تک غیر مسلموں کی طرف سے ہمارے خلاف نہ کوئی آواز اٹھی ہے اور نہ عملاً کوئی مزاحمت و مخالفت ہوئی ہے یہ ہم نہیں کہہ سکتے کہ کب تک یہ صورت حال رہے گی،مگر بہر حال یہ واقعہ اپنی جگہ نہایت درد ناک اور افسوسناک ہے کہ اس دعوت کو سن کر ناک بھوں چڑھانے والے،اسے اپنے لیے خطرہ سمجھنے والے اور اس کی مزاحمت میں سب سے آگے بڑھ کر سعی کرنے والے غیر مسلم نہیں بلکہ مسلمان ہیں شاید ایسی ہی کچھ صورت حال ہوگی جس میں اہل کتاب سے فرمایاگیاتھا۔
وَلَا تَكُوْنُوْٓا اَوَّلَ كَافِرٍؚ بِہٖ۝۰۠ البقرہ 41:2
سب سے پہلے انکار کرنے والے نہ بنو۔
ہمیں ہندوئوں سکھوں اور انگریزوں تک سے تبادلۂ خیال کا موقع ملا ہے۔مگر بہت کم ایسا اتفاق ہوا کہ ان لوگوں میں سے کسی نے ہمارے لٹریچرکو پڑھ کر یا ہمارے مدعا کو تفصیل کے ساتھ ہماری زبان سے سن کر یہ کہا ہو کہ: ’’ یہ حق نہیں ہے۔‘‘یا یہ کہ اگر تم اس چیز کو قائم کرنے کی کوشش کرو گے تو ہم ایڑی سے چوٹی تک کا زور تمہاری مزاحمت میں لگا دیں گے۔متعدد غیرمسلم ہم کو ایسے بھی ملے ہیں جنہوں نے بے اختیار ہو کر کہا کہ کاش یہی اسلام ہندوستان میں پیش کیا گیا ہوتا اسی کو قائم کرنے کے لئے باہر سے آنے والے اور اندر سے قبول کرنے والے مسلمانوں نے کوشش کی ہوتی تو آج ہندوستان کا نقشہ یہ نہ ہوتا اس ملک کی تاریخ کچھ اور ہی ہوتی۔بعض غیر مسلموں نے ہم سے یہاں تک کہا کہ اگر فی الواقع ایسی ایک سوسائٹی موجود ہو جو پوری دیانت کے ساتھ ان ہی اصولوں پر چلے اور جس کا مرنا اور جینا سب اسی ایک مقصد کے لیے ہو تو ہمیں اس کے اندر شامل ہونے میں کوئی تامل نہ ہوگا۔لیکن اس کے برعکس ہماری مخالفت میں سر گرم اور ہمارے متعلق بد گمانیاں پھیلانے اور ہم پر ہر طرح کے الزام لگانے والے اگر کسی گروہ میں سب سے پہلے اٹھے تو وہ مسلمانوں کا گروہ ہے اور ان میں بھی سب سے زیادہ یہ شرف مذہبی طبقے کے حضرات کو حاصل ہوا ہے۔پھر لطف یہ ہے کہ آج تک کسی کویہ کہنے کی جرأت نہیں ہوئی کہ جس چیز کی دعوت تم لوگ دیتے ہو وہ باطل ہے۔شاید اس دعوت پر سامنے سے حملہ ممکن ہی نہیں ہے اس لیے مجبوراًکبھی عقب سے اور کبھی دائیں پہلو سے اور کبھی بائیں جانب سے چھاپے مارنے کی کوشش کی جاتی ہے۔کبھی کہا جاتا ہے کہ بات تو حق ہے مگر اس کی طرف دعوت دینے والا ایسا اور ایسا ہے کبھی کہا جاتا ہے کہ اس کے حق ہونے میں تو کلام نہیں مگر اس زمانے میں یہ چلنے والی چیز نہیں ہے۔کبھی کہا جاتاہے کہ حق تویہی ہے مگر اس کا عَلم بلند کرنے کے لیے صحابہ کرام جیسے لوگ درکار ہیں اور وہ بھلا اب کہاں آ سکتے ہیں۔کبھی کہا جاتا ہے کہ اس کے صداقت ہونے میں کوئی شبہ نہیں مگر مسلمان اپنی موجودہ سیاسی ومعاشی پوزیشن میں اس دعوت کو اپنی واحد دعوت کیسے بنا سکتے ہیں،ایسا کریں تو ان کی دنیا تباہ ہو جائے اور تمام سیاسی اور معاشی زندگی پر غیر مسلم قابض ہو کر ان کے لیے سانس لینے تک کی جگہ نہ چھوڑیں پھر جب اس مسلمان قوم میں سے کوئی اللہ کا بندہ ایسا نکل آتا ہے جو ہماری اس دعوت کو قبول کر کے اپنی زندگی کو واقعی نفاق وتنا قض سے پاک کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اپنی پوری زندگی کو بندگی رب میں دے ڈالنے کا تہیہ کر لیتا ہے تو سب سے پہلے اس کی مخالفت کرنے کے لیے اس کے اپنے بھائی بند،اس کے ماں باپ،اعزاء اور اقرباء برادری کے لوگ اوردوست آشناء کھڑے ہو جاتے ہیں۔اچھے اچھے متقی اور دیندار آدمی بھی جن کی پیشانیوں پر نمازیں پڑھتے پڑھتے گِٹّے پڑ چکے ہیں اور جن کی زبانیں مذہبیت کی باتوں سے ہر وقت تر رہتی ہیں اس بات کو گوارا کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے کہ ان کا بیٹا یا بھائی یا کوئی عزیز جس کا دنیوی مفاد انہیں کسی درجہ میںبھی محبوب ہو اپنے آپ کو اس خطرہ میں ڈالے۔
یہ بات کہ اس دعوت کی مخالفت سب سے پہلے مسلمانوں نے کی اور ان کے اہل دنیا نے نہیں بلکہ اہل دین نے کی،ایک بہت بڑی بیماری کا پتہ دیتی ہے جو مدتوں سے پرورش پا رہی تھی مگر ظاہر فریب کے پردوں کے پیچھے چھپی ہوئی تھی۔ آج اگر ہم محض علمی رنگ میں اس دعوت کو پیش کرتے اور یہ نہ کہتے کہ آئو اس چیز کو عمل میں لانے اور بالفعل قائم کرنے کی کوشش کریں تو آپ دیکھتے کہ مخالفت کے بجائے ان مزے دار علمی باتوں پر ہر طرف سے تحسین و آفرین ہی کی صدائیں بلند ہوتیں۔بھلا کوئی مسلمان ایسا بھی ہو سکتا ہے جو یہ کہہ سکے کہ بندگی خدا کے سوا اور کسی کی ہونی چاہیے، یا یہ کہ زمامِ کا ر مسلمانوں کے ہاتھ میں نہیں بلکہ کفار ہی کے ہاتھ میں رہنی چائیے۔میں پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اب تک جن چیزوں کی ہم نے دعوتِ دی ہے ان میں سے کوئی ایک چیز بھی ایسی نہیں ہے جسے ہم دعوت عمل کے بغیر صرف علمی حیثیت سے پیش کرتے تو مسلمانوں میں سے کوئی گروہ بلکہ کوئی فرد اس کے خلاف زبان کھولنے پر آمادہ ہوتا۔ لیکن جس چیز نے لوگوں کو مخالفت پر آمادہ کیا وہ صرف یہ ہے کہ ہم ان باتوں کو فقط علمی رنگ میں ہی نہیں پیش کرتے بلکہ ہمار مطالبہ یہ ہے کہ آئو جس چیز کو ازروئے حق جانتے ہو اسے عملاً پہلے اپنی زندگی میں اور پھر اپنے گردوپیش دنیا کی زندگی میں قائم وجاری کرنے کی کوشش کرو۔یہ بعینہٖ وہی صورت حال ہے جو اس سے پہلے نبی کریم ﷺ کے ظہور کے وقت پیش آچکی ہے۔جو لوگ عرب جاہلیت کے لٹریچر پر نگاہ رکھتے ہیں۔ان سے یہ بات مخفی نہیں ہے کہ نبی کریم ﷺنے جس توحید کی دعوت دی تھی اور جن اصول اخلاق کو آپ پیش فرماتے تھے وہ عرب میں بالکل کوئی نئی چیز نہ تھے۔اسی قسم کے مواحدانہ خیالات زمانہ جاہلیت کے متعدد شعراء اور خطیب پیش کر چکے تھے اور اسی طرح اسلامی اخلاقیات میں سے بھی پیشتر وہ تھے جن کو اہل عرب کے حکما اور خطباء اور شعراء بیان کرتے رہے تھے۔مگر فرق جو کچھ تھا وہ یہ کہ نبی ﷺنے ایک طرف تو باطل کی آمیزشوں سے الگ کر کے خالص حق کو ایک مکمل ومرتب نظام زندگی کی شکل میں لوگوں کے سامنے پیش کیا اور دوسری طرف آپ نے یہ بھی چاہا کہ جس توحید کو ہم حق کہتے ہیں اس کے مخالف عناصر کو ہم اپنی زندگی سے خارج کر دیں اور سارے نظام زندگی کو توحید کی بنیاد پر تعمیر کریں نیز جن اصول و اخلاق کو ہم معیار تسلیم کرتے ہیں ہماری پوری زندگی کا نظام بھی انہی اصولوں پر عملاً قائم ہو۔یہی سبب تھا کہ جن باتوں کے کہنے پر زمانہ جاہلیت کے کسی خطیب کسی شاعر اور کسی حکیم کی مخالفت نہیں کی گئی بلکہ الٹا انہیں سراہا گیا۔ان ہی باتوں کو جب نبی ﷺ نے پیش کیا تو ہرطرف سے مخالفتوں کا طوفان اٹھ کھڑا ہوا کیونکہ لوگ اس بات کے لیے تیار نہیں تھے، کہ شرک پر جو نظام زندگی قائم تھا اسے بالکل ادھیڑ کر از سرِ نو توحید کی بنیادوں پر قائم کیا جائے اور اس طرح ان تمام تعصبات اور آبائی رسموں کا، امتیازات اور حقوق،،اور مناصب کا اور اعزازات و کرامات اور معاشی مفادات کا یکلخت خاتمہ ہو جائے جو صدہا برس سے عہد جاہلیت میں زندگی کی بنیادبنے ہوئے تھے اور جن سے بعض طبقوں اور خاندانوں کی اغراض وابستہ تھیں۔اسی طرح لوگ اس بات کے لیے بھی تیار نہیں تھے، کہ اخلاق فاسدہ کے رواج سے جو آسائشیں اور لذیتں اور منفعتیں اور آزادیاں ان کو حاصل ہیں ان سے دست بردار ہو جائیں اور اخلاق صالح کی بندشوں میں اپنے آپ کو خود کسوالیں۔یہ معاملہ صرف نبی ﷺہی کے ساتھ پیش نہیں آیا بلکہ حضور ﷺ سے پہلے جتنے نبی گزرے ہیں ان کی مخالفت بھی زیادہ تر اسی بات پر ہوئی ہے۔اگر انبیاء صرف علمی اور ادبی حیثیت سے توحید اور آخرت اور اخلاق فاضلہ کا ذکر کرتے تو ان کے زمانے کی سوسائٹیاں اسی طرح ان کو برداشت کرتیں بلکہ سر آنکھوں بٹھاتیں جس طرح انہوں نے مختلف قسم کے شاعروں اور فلسفیوں اور ادیبوں کو سر آنکھوں پربٹھایا۔لیکن ہر نبی کا مطالبہ ان باتوں کے ساتھ یہ بھی تھا کہ اتَّقُوا اللہَ وَاَطِيْعُوْنِo الشعراء 150:26 (اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو) اورلَا تُطِيْعُوْٓا اَمْرَ الْمُسْرِفِيْنَo الشعراء151:26 حد سے گزرنے والوں کی اطاعت نہ کرو، اور اِتَّبِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَيْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِہٖٓ اَوْلِيَاۗءَ۝۰ۭالاعراف3:7 (جو ہدایت تمہاری طرف تمہارے رب کی طرف سے نازل ہوئی ہے اس کی پیروی کرو اور اپنے رب کے سوادوسرے سرپر ستو ں کی پیروی نہ کرو)اور پھرانبیاء نے اس پر بھی اکتفانہ کیا بلکہ ایک مستقل تحریک اسی مقصد کو پورا کرنے کے لیے جاری کی اور اپنے پیروئوں کے حبتھے منظم کر کے عملاًنظام تہذیب وتمدن واخلاق کو اپنے نصب العین کے مطابق بدل ڈالنے کی جدوجہد شروع کردی۔ بس یہی وہ نقطہ تھا جہاں سے ان لوگوں کی مخالفت کا آغازہوا جن کے مفاد نظا م جاہلیت سے کلی یا جزئی طور پر وابستہ تھے۔اور آج ہم مشاہدہ کر رہے ہیں کہ ٹھیک یہی نقطہ ہے جہاں سے ہماری مخالفت کی ابتداء ہوئی ہے۔مسلمانوں نے ایک طویل مدت سے اپنی زندگی کی عمارت ان بہت سی مصالحتوں پر قائم رکھی ہے جو نظام جاہلیت کے اور ان کے درمیان طے ہو چکے ہیں۔یہ مصالحتیں صرف دنیا دارانہ ہی نہیں ہیںبلکہ انہوں نے اچھی خاصی مذہبی نوعیت بھی اختیار کرلی ہے۔بڑے بڑے مقدس لوگ جن کے تقدس کی قسمیں کھائی جا سکتی ہیں۔ان مصالحتوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔نظامِ باطل کی وابستگی کے ساتھ تقویٰ اورعبادت کے چند مظاہر اس قدر کافی قرار دئیے جاچکے ہیں کہ بکثرت لوگ انہی محدودپرہیز گاریوں اور عبادت گذاریوں پر اپنی نجات کی طرف سے مطمئن بیٹھے ہوئے ہیں۔بہت سے ارباب فضل اور مقامات عالیہ ایسے موجود ہیں جن کی بزرگی اور روحانیت، اور جن کے اونچے مراتب، نظام جاہلیت اور فسق وفجور اور بد اعتقادیوں اور ضلالتوں کی مذمت کر لینا اور عہد صحابہ کے نقشے بڑی طلاقت لسانی کے ساتھ اپنے وعظوں اور اپنی تحریروں میں کھینچ دینا اسلام کا حق ادا کرنے کے لیے بالکل کافی ہو چکا ہے اور اس کے بعد ان حضرات کے لیے بالکل حلال ہے کہ خود اپنے آپ کو اور اپنی اولاد کو اپنے متعلقین اور اپنے پیروئوں کو اسی نظام باطل کی خدمت میں لگا دیں جس کے لائے ہوئے سیلاب ضلالت وگمراہی اور طوفان فسق وفجور کی یہ دن رات مذمت کرتے رہتے ہیں۔ان حالات میں جب ہم دین حق اور اس کے مطالبات اور مقتضیات کو محض علمی حیثیت ہی سے پیش کرنے پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ یہ دعوت بھی دیتے ہیں کہ غلط نظام کے ساتھ وہ تمام مصالحتیں ختم کردو جو تم نے کر رکھی ہیں اور کامل یکسوئی ویکرنگی کے ساتھ حق کی پیروی اختیار کرو اور پھر اس باطل کی جگہ ا س حق کو قائم کرنے کے لیے جان ومال اور وقت ومحنت کی قربانی دو جس پر تم ایمان لائے ہو۔تو ظاہر ہے کہ یہ قصور ایسا نہیں ہے جسے معاف کیا جاسکے۔اگر سیدھی طرح یہ تسلیم کرلیا جائے کہ واقعی دین کے مطالبات اور مقتضیات یہی ہیں اور حقیقت میں حنیفیت اسی کو کہتے ہیں۔اور اصل بات یہی ہے کہ نظامِ باطل کے ساتھ مومن کا تعلق مصالحت کا نہیں بلکہ نزاع وکشمکش کا ہونا چاہیے،تو پھر دوصورتوں سے ایک صورت کا اختیار کرنا ناگزیر ہو جاتا ہے،یا تو اپنے مفاد کی قربانی گوارا کرکے ا س جدوجہد میں حصہ لیا جائے۔اور ظاہر ہے کہ یہ بہت جان گسل بات ہے،یاپھر اعتراف کرلیا جائے کہ حق تو یہی ہے مگر ہم اپنی کمزوری کی وجہ سے اس کا ساتھ نہیں دے سکتے۔ لیکن یہ اعتراف بھی مشکل ہے کیونکہ ایسا کرنے سے صرف یہی نہیں کہ نجات کی وہ گارنٹی خطرہ میں پڑ جاتی ہے ۔جس کے اطمینان پر اب تک زندگی بسر کی جارہی تھی بلکہ اس طرح وہ مقام تقدس بھی خطرہ میں پڑ جاتا ہے جو مذہبی و روحانی حیثیت سے ان حضرات کو حاصل رہا ہے اور یہ چیز بھی بہر حال ٹھنڈے پیٹوں گوارا نہیں کی جا سکتی۔ اس لیے ایک بڑے گروہ نے مجبوراً یہ تیسری راہ اختیار کی ہے کہ صاف صاف ہماری اس دعوت کو باطل تو نہ کہا جائے کیونکہ باطل کہنے کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے۔ لیکن صاف صاف اس کے حق ہونے کا بھی اعتراف نہ کیا جائے۔ اور اگر کہیں اس کی حقانیت کا اقرار کرنا پڑہی جائے تو پھر اصول کو چھوڑ کر کسی شخص یا اشخاص کو بد گمانیوں اور الزامات کا ہدف بنایا جائے تاکہ خود اپنے ہی مانے ہوئے حق کا ساتھ نہ دینے کے لیے وجہ جواز پیدا ہو جائے … کاش یہ حضرات کبھی اس بات پر غور فرماتے کہ جو حجتیں آج بندوں کا منہ بند کرنے کے لیے وہ پیش کرتے ہیں کل قیامت کے روز کیا وہ خدا کا منہ بھی بند کر دیں گی؟

شیئر کریں