سوال:کیا مسلمان کو بحیثیت مسلمان ہونے کے اسمبلی کی ممبری جائز ہے ‘ یا نہیں؟ اگر نہیں‘ تو کیوں؟ یہاں مسلمانوں کی دو بڑی جماعتوں کے نمائندے اسمبلی کی رکنیت کے لیے کھڑے ہورہے ہیں‘ اور ان کی طرف سے ووٹ حاصل کرنے کے لیے مجھ پر دبائو پڑ رہا ہے‘ حتیٰ کہ علماء تک کا مطالبہ یہی ہے۔ اگر چہ مجملاً جانتا ہوں کہ انسانی حاکمیت کے نظریئے پر قائم ہونے والی اسمبلی اور اس کی رکنیت دونوں شریعت کی نگاہ میں ناجائز ہیں‘ مگر تاوقتیکہ معقول وجوہ پیش نہ کر سکوں‘ ووٹ کے مطالبہ سے چھٹکارا پانا دشوار ہے۔
جواب: اسمبلی کے متعلق یہ سمجھ لیجیے کہ موجودہ زمانہ میں جتنے جمہوری نظام بنے ہیں(جن کی ایک شاخ ہندستان کی موجودہ اسمبلیاں بھی ہیں) وہ اس مفروضے پر مبنی ہیں‘ کہ باشندگانِ ملک اپنے معاملات کے متعلق خود تمدّن‘ سیاست‘ معیشت‘ اخلاق اور معاشرت کے اصول وضع کرنے اور ان کے مطابق تفصیلی قوانین وضوابط بنانے کا حق رکھتے ہیں‘ اور اس قانون سازی کے لیے رائے عام سے بالا تر کسی سند کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ نظریہ اسلام کے نظریہ سے بالکل برعکس ہے۔ اسلام میں توحید کے عقیدے کا لازمی جُزو یہ ہے‘ کہ لوگوں کا اور تمام دنیا کا مالک اور فرماں روا اﷲ تعالٰے ہے‘ ہدایت اور حکم دنیا اس کا کام ہے‘ اور لوگوں کا کام یہ ہے‘ کہ اس کی ہدایت اور اس کے حکم سے اپنے لیے قانونِ زندگی اخذ کریں‘ نیز اگر اپنی آزادی رائے استعمال کریں بھی تو ان حدود کے اندر کریں جن حدود میں خود اﷲ تعا لیٰ نے ان کو آزادی دی ہے‘ اس نظرئیے کی رُو سے قانون کا ماخذ اور تمام معاملات زندگی میں مرجع اﷲ کی کتاب اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی سنّت قرار پاتی ہے‘ اور اس نظریہ سے ہٹ کر اوّل الذکر جمہوری نظرئیے کو قبول کرنا‘ گویا عقیدہ توحید سے منحرف ہوجانا ہے۔ اسی لیے ہم کہتے ہیں‘ کہ جو اسمبلیاں یا پارلیمنٹیں موجودہ زمانہ کے جمہوری اصول پر بنی ہیں‘ ان کی رکنیت حرام ہے‘ کیونکہ ووٹ دینے کے معنی ہی یہ ہیں‘ کہ ہم اپنی رائے سے کسی ایسے شخص کو منتخب کرتے ہیں‘ جس کا کام موجودہ دستور کے تحت وہ قانون سازی کرنا ہے‘ جو عقیدہ توحید کے سراسر منافی ہے۔ اگر علمائے کرام میں سے کوئی صاحب اس چیز کو حلال اور جائز سمجھتے ہیں‘ تو ان سے اس کی دلیل دریافت کیجیے۔{ FR 2546 }
اس قسم کے معاملات میں یہ کوئی دلیل نہیں ہے‘ کہ چونکہ یہ نظام مسلّط ہوچکا ہے‘ اور زندگی کے سارے معاملات اس سے متعلق ہیں اس لیے اگر ہم انتخابات میں حصّہ نہ لیں‘ اور نظامِ حکومت میں شریک ہونے کی کوشش نہ کریں‘ تو ہمیں فلاں اور فلاں نقصانات پہنچ جائیں گے‘ ایسے دلائل سے کسی ایسی چیز کو جو اصولاً حرام ہو‘ حلال ثابت نہیں کیا جا سکتا ورنہ شریعت کی کوئی حرام چیز ایسی نہ رہ جائے گی‘ جس کو مصلحتوں اور ضرورتوں کی بنا پر حلال نہ ٹھیرا لیا جائے۔۔ اضطرار کی بنا پر حرام چیزیں استعمال کرنے کی اجازت شریعت میں پائی تو جاتی ہے‘ لیکن اس کے معنی یہ نہیں ہیں‘ کہ آپ خود اپنی غفلتوں سے اپنے فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی کر کے اضطرار کی حالتیں پیدا کریں‘ پھر اس اضطرار کو دلیل بنا کر تمام محرمات کو اپنے لیے حلال کرتے جائیں‘ اور اضطرار کی حالت کو ختم کرنے کے لیے کوئی کوشش نہ کریں۔ جو نظام اس وقت مسلمانوں پر مسلّط ہوا ہے‘ جس کے تسلّط کو وہ اپنے لیے دلیل اضطرار بنا رہے ہیں وہ آخر ان کی اپنی ہی غفلتوں کا تو نتیجہ ہے۔ پھر اب بجائے اس کے کہ اپنا سرمایہ قوّت وعمل اس نظام کے بدلنے اور خالص اسلامی نظام قائم کرنے کی سعی میں صرف کریں وہ اس اضطرار کو حجت بنا کر اسی نظام کے اندر حصّہ دار بننے اور پھلنے پھولنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
(ترجمان القرآن۔محرم ۶۵ھ۔ دسمبر ۱۹۴۵ء)
خ خ خ