متکلمین اسلام کے ان دونوں گروہوں کی تقریریں دیکھنے سے صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ مسئلہ ’’جبروقدر‘‘ کو حل کرنے میں دونوں کو ناکامی ہوئی ہے مگر اس ناکامی کی وجہ یہ نہیں ہے کہ انھوں نے قرآن سے ہدایت حاصل کرنی چاہی تھی اور قرآن نے اُن کی ہدایت نہیں کی، بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے قرآن سے استفتا کرنے کے بجائے فلسفیانہ طریق پر فکر کی اور دو مقابل پہلوئوں میں سے ایک پہلو اختیار کر لیا۔ پھر اپنے اعتقاد کی تائید میں دلائل ڈھونڈنے کے لیے قرآنِ مجید پر نگاہ ڈالی، جو بات اپنے موافق مطلب نظر آئیں ان کو تاویل کے خراد پر چڑھا دیا۔ دونوں فریقوں کی جانب سے جو آیات پیش کی گئی ہیں ان کو آپ نے اوپر دیکھ لیا۔ بعض آیات صریح قدر کا حکم لگاتی ہیں جن سے جبر کا پہلو نکالنا ممکن نہیں ہے مگر جبریہ پھر بھی ان کی تاویل کرتے ہیں اور ایسے معنی پہناتے ہیں جن کو عقل سلیم کسی طرح قبول نہیں کرتی۔ یہی حال قدریہ کا ہے۔ وہ جبر کا صریح حکم لگانے والی آیات کو قدر کے مطلب پر ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس میں ان کو یہ بھی خیال نہیں رہتا کہ آیت کے الفاظ کیا کہہ رہے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہر گروہ کی بحثوں سے صرف وہی شخص مطمئن ہو سکتا ہے جو پہلے سے اپنا عقیدہ قائم کر چکا ہو اور قرآنِ مجید سے صرف اس کی تائید چاہتا ہو۔ رہا وہ شخص جس نے خود پہلے سے کوئی رائے قائم نہ کی ہو اور جس کی خواہش یہ ہو کہ قرآنِ حکیم کے مطالعے سے کسی نتیجے تک پہنچے تو وہ جبریہ اور قدریہ کی بحثوں کو پڑھ کر ہرگز مطمئن نہیں ہو سکتا بلکہ کچھ عجب نہیں کہ وہ خود قرآنِ مجید ہی کی طرف سے بدعقیدہ ہو جائے۔ اس لیے جس طرح دونوں فریقوں نے آیاتِ قرآنی کو لے کر ایک دوسرے سے ٹکرایا ہے اور ان سے دو بالکل متضاد عقیدوں پر استدلال کیا ہے اس کو دیکھ کر ایک ناواقف آدمی اس بدگمانی سے محفوظ نہیں رہ سکتا کہ خود قرآنِ مجید ہی کے بیانات میں معاذ اللہ تناقض و تعارض ہے۔
٭…٭…٭…٭…٭