لیکن امام ابوحنیفہؒ کا سب سے بڑا کارنامہ جس نے انھیں اسلامی تاریخ میں لازوال عظمت عطا کی ، یہ تھا کہ انھوں نے اس عظیم خلاف کو اپنے بل بوتے پر بھر دیا جو خلافت راشدہ کے بعد شوری کا سدباب ہوجانے سے اسلام کے قانونی نظام میں واقع ہوچکا تھا ۔ ہم اس کے اثرات ونتائج کی طرف پہلے اشارہ کرچکے ہیں ۔ ایک صدی کے قریب اس حالت پر گزر جانے سے جو نقصان رونما ہو رہا تھا اسے ہر صاحب فکر آدمی محسوس کررہاتھا ۔ ایک طرف مسلم ریاست کے حدود سندھ سے اسپین تک پھیل چکے تھے ۔ بیسوں قومیں اپنے الگ الگ تمدن ، رسم ورواج اور حالات کے ساتھ اس میں شامل ہوچکی تھیں۔اندرون ملک مالیات کے مسائل ، تجارت اور زراعت اورصنعت وحرفت کے مسائل ، شادی بیاہ کے مسائل ، دستوری اور دیوانی اورفوج داری قوانین وضوابط کے مسائل روز بروز سامنے آرہے تھے۔بیرون ملک دنیا بھر کی قوموں سے اس عظیم ترین سلطنت کے تعلقات تھے اور ان میں جنگ ، صلح ، سفارتی روابط، تجارتی لین دین ، بحری وبری مسافرت ، کسٹم وغیرہ کے مسائل پیدا ہورہے تھے ۔ اور مسلمان چونکہ اپناا یک مستقل نظریہ ، اصول حیات اور بنیادی قانون رکھتے تھے ، اس لیے ناگزیر تھا کہ وہ اپنے ہی نظام قانون کے تحت ان بے شمار نت نئے مسائل کو حل کریں۔ غرض ایک طرف وقت کا زبردست چیلنج تھا جس سے اسلام کو سابقہ درپیش تھا ، اور دوسری طرف حالت یہ تھی کہ ملوکیت کے دور میں کوئی ایسا مسلم آئینی ادارہ باقی نہ رہا تھا جس میں مسلمانوں کے معتمد علیہ اہل علم اور فقیہ اور مدبرین بیٹھ کر ان مسائل کو سوچتے اور شریعت کے اصولوں کے مطابق ان کا ایک مستند حل پیش کرتے جو سلطنت کی عدالتوں اور اس کے سرکاری محکموں کے لیے قانون قرار پاتا اور پوری مملکت میں یکسانی کے ساتھ اس پر عمل کیا جاتا۔ اس نقصان کو خلفاء ، گورنر ، حکام اور قاضی سب محسوس کر رہے تھے ، کیونکہ انفرادی اجتہاد اور معلومات کے بل پر روز مرہ پیش آنے والے مسائل کو بروقت حل کرلینا ہر مفتی ، حاکم ، جج اور ناظم محکمہ کے بس کا کام نہ تھا ، اور اگر فردا فردا انھیں حل کیا بھی جاتا تواس سے بے شمار متضاد فیصلوں کا ایک جنگل پیدا ہورہا تھا ۔مگردشواری یہ تھی کہ ایسا ایک ادارہ حکومت ہی قائم کر سکتی تھی ، اور حکومت ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں تھی جو خود جانتے تھے کہ مسلمانوں میں ان کا کوئی اخلاقی وقار واعتماد نہیں ہے ۔ ان کے لیے فقہاء کا سامنا کرنا تو درکنار ، ان کو برداشت کرنا بھی مشکل تھا ۔ ان کے تحت بننے والے قوانین کسی حالت میں بھی مسلمانوں کے نزدیک اسلامی نظام قانون کا جز نہ بن سکتے تھے ۔ابن المقفع نے اپنے رسالۃ الصحابہ میں اس خلا کو بھرنے کے لیے المنصور کے سامنے یہ تجویز پیش کی کہ خلیفہ اہل علم کی ایک کونسل بنائے جس میں ہر نقظہ نظر کے علماء پیش آمدہ مسائل پر اپنا علم اور خیال پیش کریں ، پھر خلیفہ خود ہر مسئلے پر اپنا فیصلہ دے اوروہی قانون ہو ۔ لیکن منصور اپنی حقیقت سے اتنا بے خبر نہ تھا کہ یہ حماقت کرتا ۔ اس کے فیصلے ابوبکروعمر رضی اللہ عنھم کے فیصلے نہ بن سکتے تھے ۔ اس کے فیصلوں کی عمر خود اس کی اپنی عمر سے زیادہ نہ ہوسکتی تھی ۔ بلکہ اس کی زندگی میں بھی یہ توقع نہ تھی کہ پوری مملکت میں کوئی ایک مسلمان ہی ایسا مل جائے گا جو اس کے منظور کیے ہوئے قانون کی مخلصانہ پابندی کرے ۔ وہ ایک لادینی ( secular) قانون تو ہوسکتا تھا مگر اسلامی قانون کا یک حصہ ہر گز نہ ہوسکتا تھا ۔ اس صورت حال میں امام ابوحنیفہ ؒ کو یاک بالکل نرالا راستہ سوجھا اور وہ یہ تھا کہ وہ حکومت سے بے نیاز رہ کر خود ایک غیر سرکار ی مجلس وضع قانون( private legislature) قائم کریں ۔ یہ تجویز ایک انتہائی بدیع الفکر آدمی ہی سوچ سکتاتھا ، اور مزید برآں اس کی ہمت صرف وہی شخص کرسکتا تھاجو اپنی قابلیت پر ، اپنے کردار پر ، اور اپنے اخلاقی وقار پر اتنا اعتماد رکھتا ہو کہ وہ ایسا کوئی ادارہ قائم کرکے قوانین مدون کرےگا تو کسی سیاسی قوت نافذہ ( political sanction) کے بغیر اس کے مدون کردہ قوانین اپنی خوبی ، اپنی صحت ، اپنی مطابقت احوال ، اور اپنے مدون کرنے والوں کے اخلاقی اثر کے بل پر خود نافذ ہوں گے ، قوم خود ان کو قبول کرے گی اور سلطنتیں آپ سے آپ ان کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوں گی ۔ امام کوئی غیب داں نہ تھے کہ پیشگی ان نتائج کو دیکھ لیتے جو فی الوقع ان کے بعد نصف صدی کے اندر ہی برآمد ہوگئے ۔ مگر وہ اپنے آپ کو اور اپنے ساتھیوں کو جانتے تھے، مسلمانوں کے اجتماعی مزاج سے واقف تھے ، اور وقت کے حالات پر گہری نظر رکھتے تھے ۔ انھوں نے ایک کمال درجے کے دانا ودور اندیش انسان کی حیثیت سے بالکل صحیح اندازہ کرلیا کہ وہ اس خلا کو اپنی نجی حیثیت سے بھر سکتے ہیں اور ان کے بھرنے سے یہ خلا واقعی بھرجائےگا ۔ اس مجلس کے شرکاء امام کےاپنے شاگرد تھے جن کو سال ہا سال تک انھوں نے اپنے مدرسہ قانون میں باقاعدہ قانونی مسائل پر سوچنے ، علمی طرز پر تحقیقات کرنے اور دلائل سے نتائج مستنبط کرنے کی تربیت دی تھی ۔ ان میں سے قریب قریب ہر شخص امام کے علاوہ وقت کے دوسرے بڑے بڑے اساتذہ سے بھی قرآن ، حدیث ، فقہ اور دوسرے مددگار علوم ، مثلا لغت، نحو ، ادب اور تاریخ وسیر کی تعلیم حاصل کرچکا تھا ۔ مختلف شاگرد مختلف علوم کے اختصاصی ماہر سمجھے جاتے تھے ۔ مثلا کسی کو قیاس ورائے میں نمایاں مقام حاصل تھا ، کسی کے پاس احادیث اور صحابہ رضی اللہ عنہ کے فتاوٰی اور پچھلے خلفاء قضاۃ کے نظائر کی وسیع معلومات تھیں ، اور کوئی علم تفسیر ، یا قانون کے کسی شعبے ، یا لغت اور نحو یا مغازی کے علم میں اختصاص رکھتا تھا ۔ ایک دفعہ امام نے خود اپنی ایک گفتگو میں بتایا کہ یہ کس مرتبے کے لوگ تھے : "” یہ 36 آدمی ہیں جن میں سے 28 قاضی ہونے کے لائق ہیں ، 6 فتویٰ دینے کی اہلیت رکھتے ہیں اور دو اس درجے کے آدمی ہیں کہ قاضی اور مفتی تیار کرسکتے ہیں ۔ "”[34] اس مجلس کا طریق کار جو امام کے معتبر سوانح نگاروں نے لکھا ہے وہ ہم خود انھی کے الفاظ میں یہاں نقل کرتے ہیں ۔ الموفق بن احمد المکی ( م 568ھ۔1172ء) لکھتا ہے : "”ابو حنیفہؒ نے اپنا مذہب ان کے ( یعنی اپنے فاضل شاگردوں کے ) مشورے سے مرتب کیا ہے ۔ وہ اپنی حدوسع تک دین کی خاطر زیادہ سے زیادہ جان فشانی کرنے کا جو جذبہ رکھتے تھے اور خداورسول خدا ﷺ اور اہل ایمان کے لیےجو کمال درجے کا اخلاص ان کے دل میں تھا، اس کی وجہ سے انھوں نے شاگردوں کو چھوڑکر یہ کام محض اپنی انفرادی رائے سے کرڈالنا پسند نہ کیا ۔ وہ ایک ایک مسئلہ ان کے سامنے پیش کرتے تھے ، اور اس کے مختلف پہلو ان کے سامنے لاتے تھے ، جو کچھ ان کے پاس علم او رخیال ہوتا اسے سنتے اور اپنی رائے بھی بیان کرتے ۔ حتی کہ بعض اوقات ایک ایک مسئلے پر بحث کرتے ہوئے مہینہ مہینہ بھر او راس سے بھی زیادہ لگ جاتا تھا ۔ آخر جب ایک رائے قرار پاجاتی تواسے قاضی ابویوسف ؒ کتب اصول میں ثبت کرتے۔””[35] ابن البزار الکردری ( صاحب فتاوی ٰبزازیہ ۔م 827ھ۔1424ء) کا بیان ہے : "” ان کے شاگرد ایک مسئلے پر خوب دل کھول کر بحث کرتے او رہر فن کے نقطہ نظر سے گفتگو کرتے ۔ اس دوران امام خاموشی کے ساتھ ان کی تقریریں سنتے رہتے تھے ۔ پھر جب امام زیر بحث مسئلے پر اپنی تقریر شروع کرتے تومجلس میں ایسا سکوت ہوتا جیسے یہاں ان کے سوا کوئی اور نہیں بیٹھا ہے ۔””[36] عبداللہ بن مبارک ؒ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ اس مجلس میں تین دن تک مسلسل ایک مسئلے پر بحث ہوتی رہی ۔ تیسرے دن شام کے وقت میں نے جب اللہ اکبر کی آوازیں سنیں تو پتا چلا کہ اس بحث کا فیصلہ ہوگیا ۔ [37] امام کے ایک شاگرد ابو عبداللہ کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ اس مجلس میں امام ابوحنیفہ ؒ اپنی جو رائے ظاہر کرتے تھے انھیں بعد میں وہ پڑھوا کر سن لیا کرتے تھے ۔چنانچہ ان کے الفاظ یہ ہیں: "” میں امام کے اقوال ان کو پڑھ کر سناتا تھا ۔ ابویوسف ( مجلس کے فیصلے ثبت کرتے ہوئے ) ساتھ ساتھ اپنے اقوال بھی درج کردیا کرتے تھے ۔ اس لیے پڑھتے وقت میں کوشش کرتا تھا کہ ان اقوال کو چھوڑتا جاؤں اور صرف امام کے اپنے اقوال انھیں سناوں ۔ ایک روز میں چوک گیا اور دوسرا قول بھی میں نے پڑھ دیا۔ امام نے پوچھا : یہ دوسرا کس کا ہے ۔؟””[38] ا س کے ساتھ المکی کے بیان سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس مجلس کے جو فیصلے لکھے جاتے تھے ان کو الگ الگ عنوانات کے تحت کتابوں اور ابواب میں مرتب بھی امام ابوحنیفہ ؒ ہی کے زندگی میں کردیا گیا تھا: "” ابو حنیفہ ؒ پہلے شخص ہیں جنھوں نے اس شریعت کے علم کو مدون کیا ۔ ان سے پہلے کسی نے یہ کام نہیں کیا تھا . . . . . . . ابو حنیفہؒ نے اس کو کتابوں اور جدا جدا عنوانات کے تحت ابواب کی شکل میں مرتب کردیا تھا۔ "”[39] اس مجلس میں ، جیسا کہ ہم پہلے المکی ہی کے حوالے سے بتاچکے ہیں ، 83 ہزار قانونی مسائل طے کیے گئے تھے ۔ اس میں صرف وہی مسائل زیر بحث نہیں آتے تھے جو اس وقت عملا لوگوں کو یا ریاست کو پیش آچکے تھے ، بلکہ معاملات کی امکانی صورتیں فرض کرکے ان پر بحث کی جاتی اور ان کا حل تلاش کیا جاتا، تاکہ آئندہ اگر کبھی کوئی نئی صورت پیش آجائے جو اب تک نہ پیش آئی ہو تو قانون میں سے پہلے سے اس کا حل موجود ہو۔ یہ مسائل قریب قریب ہر شعبہ قانون سے متعلق تھے ۔ بین الاقوامی قانون [40]( جس کے لیے السیر کی اصطلاح مستعمل تھی ) دستوری قانون ، دیوانی وفوج داری قانون ، قانون شہادت ، ضابطہ عدالت ، معاشی زندگی کے ہر شعبے کے الگ قوانین ، نکاح وطلاق اور رواثت وغیرہ شخصی احوال کے قوانین ، اور عبادات کے احکام ، یہ سب عنوانات ہم کو ان کتابوں کی فہرستوں میں ملتے ہیں جو اس مجلس کے فراہم کردہ مواد سے امام ابو یوسفؒ نے اور پھر امام محمد بن حسن الشیبانی ؒ نے بعد میں مرتب کیں۔ اس باقاعدہ تدوین قانون ( codification ) کا اثر یہ ہوا کہ انفرادی طور پر کام کرنے والے مجتہدوں ، مفتیوں اور قاضیوں کا کام ساقط الاعتبار ہوتاچلا گیا ۔ قرآن وحدیث کے احکام اور سابقہ فیصلوں اورفتاویٰ کے نظائر کی چھان بین کرکے اہل علم کی ایک مجلس نے ابوحنیفہ ؒ جیسے نکتہ رس آدمی کی صدارت ورہنمائی میں شریعت کے جو احکام منقح صورت میں نکال کر کھ دیے تھے، اور پھر اصول شریعت کے تحت وسیع پیمانے پر اجتہاد کرکے زندگی کے ہر پہلو میں پیش آنے والے امکانی ضرورتوں کے لیے جو قابل عمل قوانین مرتب کردیے تھے ، ان کے بعد متفرق افراد کے مدو ن کیے ہوئے احکام مشکل ہی سے وقیع ہوسکتے تھے ۔ اس لیے جوں ہی یہ کام منظر عام پر آیا ، عوام اور حکام اور قضاۃ ، سب اس کی طرف رجوع کرنے پر مجبور ہوگئے ، کیونکہ یہ وقت کی مانگ تھی اور لوگ مدت سے اسی چیز کے حاجت مند تھے ۔ چنانچہ مشہور فقیہ یحییٰ بن آدم ( 203ھ/818ء) کہتے ہیں کہ ابوحنیفہ ؒ کے اقوال کے آگے دوسرے قضاۃ کے اقوال کا بازار سرد پڑگیا ، انھی کا علم مختلف علاقوں میں پھیل گیا ، اسی پر خلفاء اور ائمہ اور حکام فیصلے کرنے لگے اور معاملات کا چلن اسی پر ہوگیا [41]۔ خلیفہ مامون ( 198۔218ھ/813۔833ء) کے زمانے تک پہنچتے پہنچتے یہ حالت ہوگئی کہ ایک دفعہ وزیر اعظم فضل بن سہل کو ابوحنیفہ ؒ کے ایک مخالف فقیہ نے مشورہ دیا کہ حنفی فقہ کا استعمال بند کرنے کے احکام جاری کر دیے جائیں ۔ وزیر اعظم نے باخبر اور معاملہ فہم لوگوں کو بلا کر اس معاملے میں رائے لی ۔ انھوں نے بالاتفاق کہا:”” یہ بات نہیں چلے گی اور سارا ملک آپ لوگوں پر ٹوٹ پڑے گا ۔ جس شخص نے آپ کو یہ مشورہ دیا ہے وہ ناقص العقل ہے ۔”” وزیر نے کہا :میں خود بھی اس خیال سے متفق نہیں ہوں اور امیر المومنین بھی اس پر راضی نہ ہوں گے ۔ "”[42] اس طرح تاریخ کا یہ اہم واقعہ رونما ہوا کہ ایک شخص واحد کی قائم کی ہوئی نجی مجلس وضع قوانین کا مرتب کیا ہوا قانون محض اپنے اوصاف اور اپنے مرتب کرنے والوں کی اخلاقی ساکھ کے بل پر ملکوں اورسلطنتوں کا قانون بن کررہا۔ اس کے ساتھ دوسرا اہم نتیجہ اس کا یہ ہوا کہ اس نےمسلم مفکرین قانون کے لیے اسلامی قوانین کی تدوین کایک نیا راستہ کھول دیا ۔ بعد میں جتنے دوسرے بڑے بڑے فقہی نظام بنے وہ اپنے طرز اجتہاد اور نتائج اجتہاد میں چاہے اس سے مختلف ہوں ، مگر ان کے لیے نمونہ یہی تھا جسے سامنے رکھ کر ان کی تعمیر کی گئی ۔ [1] الکردی ، مناقب الامام الاعظم ، جلد: 1 صفحہ 65۔66 ۔ طبع اول 1321ھ دائرۃ المعارف ، حیدرآباد ۔ [2] المکی ، الموفق بن احمد ۔ مناقب الامام الاعظم ابی حنیفہ جلد: 1 صفحہ 162۔ طبع اول 1321ھ دائرۃ المعارف ، حیدرآباد ۔ [3] المکی جلد: 1 صفحہ 57۔58 [4] المکی جلد: 1 صفحہ 55۔59 [5] المکی جلد: 1 صفحہ 59 [6] المکی جلد: 1 صفحہ 96۔ جلد:2 صفحہ 132۔136 [7] الیافعی ، مرآۃ الجنان وعبرۃ الیقظان جلد: 1 صفحہ 310 ۔ طبع ا ول 1337ھ، دائرۃ المعارف ، حیدر آباد۔ [8] المکی جلد:1 صفحہ 220۔ [9] الطبری جلد: 6 صفحہ 238 ۔البدایہ والنہایہ جلد: 10 صفحہ 97 [10] الخطیب ، تاریخ بغداد ، جلد : 13 صفحہ 358 ۔ملا علی قاری ، ذیل الجواہر المضیئہ ، صفحہ 488 ۔ دائرۃ المعارف ، حیدر آباد طبع اول 1332ھ۔ [11] المکی جلد: 1 صفحہ 219۔220 [12] الذہبی ، مناقب الامام ابی حنیفہ ، وصاحبیہ ، صفحہ 115۔ دارالکتب العربی ، مصر 1366 ھ۔ [13] الذہبی صفحہ : 26 [14] الذہبی صفحہ : 9