مرزاصاحب نے خودیہ اصول بھی بصراحت بیان کیاہے کہ ایک نبی ایک امت وجودمیںلاتاہے اورپھرانھوںنے خودہی اپنی جماعت کوامت کہابھی ہے۔اس کے ثبوت میںچندعبارات درج ذیل ہیں۔
۱۔’’جوشخص نبوت کادعویٰ کرے گااس دعوے میںضروری ہے کہ وہ خداتعالیٰ کی ہستی کااقرارکرے اورنیزیہ بھی کہے کہ خداتعالیٰ کی طرف سے میرے پروحی نازل ہوتی ہے اورنیزخلق اللہ کووہ کلام بھی سنادے جواس پرخداتعالیٰ کی طرف سے نازل ہواہے اورایک امت بنادے جواس کونبی سمجھتی ہواوراس کی کتاب کوکتاب اللہ جانتی ہو۔‘‘
(آئینہ کمالات اسلام ‘مرزاغلام احمدصاحب‘ص۳۴۴)
۲۔’’یہ بھی توسمجھو کہ شریعت کیاچیزہے جس نے اپنی وحی کے ذریعہ سے چندامرونہی بیان کیے اوراپنی امت کے لیے ایک قانون مقررکیاوہی صاحب شریعت ہوگیا…… میری وحی میںامربھی ہے اورنہی بھی۔‘‘ ( اربعین نمبر۴‘مرزاغلام احمدصاحب‘ص۷/۸۳)
۳۔’’پہلامسیح صرف مسیح تھا‘اس لیے اُس کی امت گمراہ ہوگئی اورموسوی سلسلے کاخاتمہ ہوگیا۔اگرمیںبھی صرف مسیح ہوتاتوایساہی ہوتا۔لیکن میںمہدی اورمحمدؐ کابروزبھی ہوںاس لیے میری امت کے دوحصے ہوںگے۔ایک وہ جومسیحیت کارنگ اختیارکریںگے اوریہ تباہ ہو جائیںگے اوردوسرے وہ جومہددیت کارنگ اختیارکریںگے۔‘‘
(ارشاد‘مرزاغلام احمدصاحب‘مندرجہ الفضل،۲۶جنوری۱۹۱۶ء)
}({ FN 6479 }) واضح رہے کہ دمشق کے لفظ پرمرزاصاحب سے پہلے کسی صاحب علم کوحیرانی نہیںپیش آئی۔علم حدیث کے جتنے شارحین ہیںان میںسے کسی کے کلام میںبھی حیرانی کاکوئی اثرنہیںپایاجاتا۔البتہ مرزاصاحب کوضروریہ حیرانی لاحق رہی ہوگی کہ حدیث میںایک مشہورومعروف مقام کی تصریح ہونے کے باوجودوہ کس طرح مسیح موعودبنیں}ـ