پھر دوسرے گروہوں کے کوئی ایسے سیاسی رجحانات نہیں ہیں جو ہمارے لیے کسی حیثیت سے خطرناک ہوں اور ہمیں مجبور کرتے ہوںکہ ہم فوراً ان کے مسئلے کو حل کرنے کی فکر کریں ۔ لیکن قادیانیوں کے اندر بعض ایسے خطرناک سیاسی رجحانات پائے جاتے ہیں، جن سے کسی طرح آنکھیں بند نہیں کی جاسکتیں ۔
ان کو ابتدا سے یہ احساس رہاہے کہ ایک نئی نبوت کادعویٰ لے کر جو شخص یا گروہ اٹھے اس کاکسی آزاد وباختیار مسلم سوسائٹی کے اندر پنپنا مشکل ہے۔ وہ مسلم قوم کے مزاج سے واقف ہیں کہ وہ طبعاً ایسے دعووں سے متنفر ہے جو ماننے اور نہ ماننے والوں کے درمیان کفر واسلام کی تفریق کرکے نظام دین کو اور اسلامی معاشرے کے نظام کو درہم برہم کرتے ہوں۔ وہ مسلمانوں کی تاریخ سے واقف ہیں کہ صحابہ کرام ؓ کے دور سے لے کر آج تک اس طرح کے مدعیوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتارہاہے۔ انہیں خوب معلوم ہے کہ جہاں حکومت مسلمانوں کے اپنے ہاتھ میں ہو وہاں نئی نئی نبوتوں کے چراغ نہ کبھی جلنے دئیے گئے ہیں اور نہ آئندہ کبھی اُمید کی جاسکتی ہے کہ جلنے دئیے جائیں گے۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیںکہ صرف ایک غیر مسلم حکومت ہی میں آدمی کو یہ آزادی مل سکتی ہے کہ حکومت کو اپنی وفاداری و خدمت گزاری کا پورا اطمینان دلانے کے بعد مذہب کے دائرے میں جو دعویٰ چاہے کرے اور مسلمانوں کے دین ، ایمان اور معاشرے میں جیسے فتنے چاہے اٹھاتا رہے۔ اس لیے وہ ہمیشہ اسلام کی حکومت پر کفر کی حکومت کو ترجیح دیتے ہیں۔ اگرچہ ان کی شکار گاہ مسلمان قوم ہی ہے ، کیونکہ وہ اسلام کے نام پر اپیل کرتے ہیں اور قرآن و حدیث کے اسلحہ سے کام لیتے ہیں۔ لیکن ان کامفاد یہ مطالبہ کرتاہے کہ مسلمان قوم ایک کافر اقتدار کے پنجے میں بے بس ہو کر ان کی شکار گاہ بنی رہے اور یہ اس کافر اقتدار کے پکے وفادار بن کر اس کا شکار کرتے رہیں۔ ایک آزاد خود مختار مسلمان قوم ان کے لیے بڑی سنگلاخ زمین ہے جسے وہ دل سے پسند نہیں کرتے اور نہ ہی کرسکتے ہیں۔
اس کے ثبوت میں مرزا غلام احمد صاحب اور ان کی جماعت کے بکثرت بیانات میں سے صرف چند کا نقل کردیناہی کافی ہے :
’’بلکہ اس گورنمنٹ کے ہم پر اس قدر احسان ہیں کہ اگر ہم یہاں سے نکل جائیں تو ہمارا مکہ میں گزارا ہوسکتاہے اور نہ قسطنطنیہ میں تو پھر کس طرح ہوسکتاہے کہ ہم اس کے برخلاف کوئی خیال اپنے دل میں رکھیں۔ ‘‘ (ملفوظات احمدیہ، جلد اول،ص ۱۴۶)
’’میں اپنے کام کو نہ مکہ میں اچھی طرح چلا سکتاہوں، نہ مدینہ میں، نہ روم میں، نہ شام میں، نہ ایران میں، نہ کابل میں مگر اس گورنمنٹ میں جس کے اقبال کے لیے دعاکرتا ہوں۔‘‘ (تبلیغ رسالت مرزا غلام احمد صاحب، جلد ششم، ص ۹۹)
’’یہ تو سوچو کہ اگر تم اس گورنمنٹ کے سائے سے باہرنکل جائو تو پھر تمہارا ٹھکانہ کہاں ہے؟ ایسی سلطنت کا بھلا نام تو لو جو تمہیں اپنی پناہ میں لے لے گی۔ ہر ایک اسلامی سلطنت تمہارے قتل کرنے کے لیے دانت پیس رہی ہے ۔ کیونکہ ان کی نگاہ میں تم کافر اور مرتد ٹھہر چکے ہو۔ تم اس خدا داد نعمت کی قدر کرو اور تم یقیناً سمجھ لو کہ خدا تعالیٰ نے سلطنت انگریز تمہاری بھلائی کے لیے اس ملک میں قائم کی ہے اور اگر اس سلطنت پر کوئی آفت آئے تو وہ آفت تمہیں بھی نابود کردے گی …ذرا کسی اور سلطنت کے زیر سایہ رہ کر دیکھ لو کہ تم سے کیا سلوک کیاجاتاہے ۔ سنو انگریزی سلطنت تمہارے لیے ایک رحمت ہے۔ تمہارے لیے ایک برکت ہے اور خداکی طرف سے تمہاری وہ سپرہے پس تم دل و جان سے اس سپر کی قدر کرو اور ہمارے مخالف جو مسلمان ہیں، ہزار ہا درجہ ان سے انگریز بہتر ہیں کیونکہ وہ ہمیں واجب القتل نہیں سمجھتے ۔ وہ تمہیں بے عزت نہیں کرنا چاہتے ۔ ‘‘
(اپنی جماعت کے لیے ضروری نصیحت از مرزا غلا م احمد صاحب مندرجہ تبلیغ رسالت ، جلد دہم، ص ۱۲۳)
’’ایرانی گورنمنٹ نے جو سلوک مرزا علی محمد باب، بانی فرقہ بابیہ اور اس کے بے کس مریدوں کے ساتھ مذہبی اختلاف کی وجہ سے کیا اور جو ستم اس فرقے پر توڑے گئے، وہ ان دانش مند لوگوں پر مخفی نہیں ہیں جو قوموں کی تاریخ پڑھنے کے عادی ہیں ۔ اور پھر سلطنت ترکی نے جو ایک یورپ کی سلطنت کہلاتی ہے ، جو برتائو بہاء اللہ بانی فرقہ بابیہ بہائیہ اور اس کے جلا وطن شدہ پیروئوں سے ۱۸۶۳ء سے لے کر ۱۸۹۲ء تک پہلے قسطنطنیہ پھر ایڈربا نوپل اور بعد ازاں مکہ کے جیل خانے میں کیا، وہ بھی دنیا کے اہم واقعات پر اطلاع رکھنے والوں پر پوشیدہ نہیں ہے۔ دنیامیں تین ہی بڑی سلطنتیں کہلاتی ہیں۔ اور تینوں نے جو تنگ دلی اور تعصب کانمونہ اس شائستگی کے زمانے میں دکھایا وہ احمدی قوم کو یقین دلائے بغیر نہیں رہ سکتا کہ احمدیوں کی آزادی تاج برطانیہ کے ساتھ وابستہ ہے …لہٰذا تمام سچے احمدی جو حضرت مرزا کو مامور من اللہ اور ایک مقدس انسان تصور کرتے ہیں بدوں کسی خوشامد اور چاپلوسی کے دل سے یقین کرتے ہیں کہ برٹش گورنمنٹ ان کے لیے فضل ایزدی اور سایہ رحمت ہے اور اس کی ہستی کو وہ اپنی ہستی خیال کرتے ہیں۔‘‘ (الفضل ،۱۳ستمبر۱۹۱۴ئ)
یہ عبارات اپنی زبان سے خودکہہ رہی ہیں کہ کفار کی غلامی جو مسلمانوں کے لیے سب سے بڑی مصیبت ہے ، مدعیان نبوت اور ان کے پیروئوں کے لیے وہی عین رحمت اور فضل ایزدی ہے کیونکہ اسی کے زیرسایہ ان لوگوں کو اسلام میں نئی نئی نبوتوں کے فتنے اٹھانے اور مسلم معاشرے کی قطع و برید کرنے کی آزادی حاصل ہوسکتی ہے اور اس کے برعکس مسلمانوں کی اپنی آزاد حکومت ، جو مسلمانوں کے لیے ایک رحمت ہے ،ان لوگوں کے لیے وہی ایک آفت ہے کیونکہ بااختیار مسلمان بہرحال اپنے ہی دین کی تخریب اور اپنے ہی معاشرے کی قطع وبرید کو بخوشی برداشت نہیںکرسکتے۔