یہ قطع تعلق صرف تحریر و تقریر ہی تک محدود نہیں ہے بلکہ پاکستان کے لاکھوں آدمی اس بات کے شاہد ہیں کہ قادیانی عملاً بھی مسلمانوں سے کٹ کر ایک الگ اُمت بن چکے ہیں۔ نہ وہ ان کے ساتھ نماز کے شریک ، نہ جنازے کے، نہ شادی بیاہ کے ۔ اب اس کے بعد آخر کون سی معقول وجہ رہ جاتی ہے کہ ان کو اور مسلمانوں کو زبردستی ایک اُمت میں باندھ رکھاہے ؟ جو علیحدگی نظریے اور عمل میں فی الواقع رونما ہوچکی ہے اور پچاس برس سے قائم ہے ، آخر اب اسے آئینی طور پر کیوں نہ تسلیم کرلیا جائے؟
حقیقت یہ ہے کہ قادیانی تحریک نے ختم نبوت کی ان حکمتوں اور مصلحتوں کو اب تجربے سے ثابت کردیا ہے جنہیں پہلے محض نظری حیثیت سے سمجھنا لوگوں کے لیے مشکل تھا۔ پہلے ایک شخص یہ سوال کرسکتاتھاکہ آخر کیوں محمد عربیﷺ کی نبوت کے بعد دنیا سے ہمیشہ کے لیے انبیا کی بعثت کا سلسلہ منقطع کردیا گیا۔ لیکن اب اس قادیانی تجربے نے عملاً یہ ثابت کردیا کہ اُمت مسلمہ کی وحدت اور استحکام کے لیے ایک نبی کی متابعت پر تمام کلمہ گویان توحید کو مجتمع کردینا، اللہ تعالیٰ کی کتنی بڑی رحمت ہے اور نئی نئی نبوتوں کے دعوے کس طرح ایک اُمت کو پھاڑ کر اس کے اندر مزید اُمتیں بنانے اور اس کے اجزا کو پارہ پار ہ کردینے کے موجب ہوتے ہیں۔ اب اگر یہ تجربہ ہماری آنکھیں کھول دے اور اس نئی اُمت کو مسلمانوں سے کاٹ کر الگ کردیں تو پھر کسی کو نبوت کا دعویٰ لے کر اٹھنے اور اُمت مسلمہ کے اندر پھر سے قطع و برید کا سلسلہ شروع کرنے کی ہمت نہ ہوگی۔ ورنہ ہمارے اس قطع و برید برداشت کرلینے کے معنی یہ ہوں گے کہ ہم ایسے ہی دوسرے بہت سے حوصلہ مندوں کی ہمت افزائی کررہے ہیں ۔ ہمارا آج کا تحمل کل دوسروں کے لیے نظیر بن جائے گا اور معاملہ ایک قطع و برید پر ختم نہ ہوگا بلکہ آئے دن ہمارے معاشرے کو نئی نئی پراگندگیوں کے خطرے سے دوچار ہوناپڑے گا۔
یہ ہے وہ اصل دلیل جس کی بنا پر ہم قادیانیوں کو مسلمانوں سے الگ ایک اقلیت قراردینے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اس دلیل کاکوئی معقول جواب کسی کے پاس نہیں ہے مگر سامنے سے مقابلہ کرنے کے بجائے چند دوسرے سوالات چھیڑ ے جاتے ہیں جو براہ راست نفس معاملہ سے متعلق نہیںہیں۔ مثلاً کہاجاتاہے کہ مسلمانوں میں اس سے پہلے بھی مختلف گروہ ایک دوسرے کی تکفیر کرتے رہے ہیں اور آج بھی کررہے ہیں اگر اسی طرح ایک ایک کی تکفیر پر دوسرے کو اُمت سے کاٹ دینے کا سلسلہ شروع کردیا جائے تو سرے سے کوئی اُمت مسلمہ باقی ہی نہ رہے گی۔
یہ بھی کہاجاتاہے کہ مسلمانوں میں قادیانیوں کے علاوہ چند اور گروہ بھی ایسے موجود ہیں جو نہ صرف بنیادی عقائد میں سواد اعظم سے گہرا اختلاف رکھتے ہیں ۔ بلکہ عملاً انھوںنے اپنی اجتماعی شیرازہ بندی مسلمانوں سے الگ کر رکھی ہے اور قادیانیوں کی طرح وہ بھی سارے مذہبی و معاشرتی تعلقات مسلمانوں سے منقطع کیے ہوئے ہیں۔ پھر کیا ان سب کو بھی اُمت سے کاٹ پھینکا جائے گا؟ یا یہ معاملہ کسی خاص ضد کی وجہ سے صرف قادیانیوں کے ساتھ کیاجارہاہے ؟آخر قادیانیوں کا وہ خاص قصور کیاہے جس کی بنا پر اس طرح کے دوسرے گروہوں کو چھوڑ کر خصوصیت کے ساتھ ان ہی کو الگ کرنے کے لیے اتنا اصرار کیاجاتاہے۔
یہ بھی کہاجاتاہے کہ علیحدگی کا مطالبہ تو اقلیت کیا کرتی ہے مگر یہ عجیب ماجرا ہے کہ آج اکثریت کی طرف سے اقلیت کو الگ کرنے کا مطالبہ کیاجارہاہے حالانکہ اقلیت اس کے ساتھ رہنے پر مُصر ہے۔
بعض لوگوں کے ذہن پر یہ خیال بھی مسلط ہے کہ قادیانی حضرات ابتدا سے عیسائیوں، آریہ سماجیوں اور دوسرے حملہ آوروں کے مقابلے میں اسلام کی مدافعت کرتے رہے ہیں اور دنیا بھر میں وہ اسلام کی تبلیغ کرتے ہیں۔ ان کے ساتھ یہ سلوک زیبا نہیں ہے اور آخر میں اب یہ بات بھی بڑے معتبر ذرائع سے سننے میں آئی ہے کہ قادیانیوں کے خلاف یہ قدم اٹھاناہمارے ذمہ داران حکومت کے نزدیک پاکستان کے لیے سیاسی حیثیت سے بہت نقصان دہ ہے کیونکہ ان کی رائے میں قادیانی وزیرخارجہ کا ذاتی اثر انگلستان اور امریکہ میں بہت زیادہ ہے اور ہم کو ان ملکوں سے جو کچھ بھی مل سکتا ہے، ان ہی کے توسط سے مل سکتاہے۔