اب تیسرے سوال کو لیجیے ۔ یعنی یہ کہ علیحدگی کا مطالبہ تو اقلیتیں کیا کرتی ہیں ۔ یہاں یہ کیسی الٹی بات ہو رہی ہے کہ اکثریت اس کا مطالبہ لے کر اٹھی ہے۔
یہ سوال جو لوگ چھیڑتے ہیں کیا براہ کرم ان میں سے کوئی صاحب کسی سیاسی انجیل کی ایسی کوئی آیت پیش کرسکتے ہیں ، جس میں یہ قانون کلی بیان کیاگیاہو کہ علیحدگی کامطالبہ کرنا صرف اقلیت ہی کے لیے جائز ہے ،اکثریت ایسے کسی مطالبے کو پیش کرنے کی حق دار نہیں ہے ؟ ہمیں بتایا جائے کہ یہ اصول کہاں لکھا ہے اور کس نے اسے مقرر کیاہے؟
حقیقت یہ ہے کہ مطالبات ہمیشہ ضرورت کی بنا پر پیدا ہوتے ہیں اور وہی ان کو پیش کرتاہے جسے ان کی ضرورت ہوتی ہے۔ دیکھنا یہ چاہیے کہ ایک مطالبہ جس ضرورت کی بنا پر کیاجارہاہے وہ بجائے خود معقول ہے یا نہیں ، یہاں اختلاط کانقصان اکثریت کو پہنچ رہاہے نہ کہ اقلیت کو۔ اس لیے اکثریت یہ مطالبہ کرنے پر مجبور ہوئی ہے کہ اس اقلیت کو آئینی طور پر الگ کردیا جائے جو ایک طرف عملاً الگ ہو کر علیحدگی کا پورا فائدہ اٹھا رہی ہے۔ اور دوسری طرف اکثریت کا جز بن کر اختلاط کے فوائد بھی سمیٹتی چلی جاتی ہے ۔ ایک طرف وہ مسلمانوں سے مذہبی و معاشرتی تعلقات منقطع کرکے اپنی الگ جتھہ بندی کرتی ہے اور منظم طریقے سے ان کے خلاف ہر میدان میں کشمکش کرتی ہے تو دوسری طرف مسلمانوں میں مسلمان بن کر گھستی ہے ، اپنی تبلیغ سے اپنی تعداد بڑھاتی ہے ، مسلم معاشرے میں تفریق کا فتنہ برپا کرتی ہے اور سرکاری ملازمتوں میں مسلمان ہونے کی حیثیت سے اپنے متناسب حصے کی بہ نسبت بدرجہا زیادہ حصہ حاصل کرلیتی ہے ۔ اس صورت حال کا سراسر نقصان اکثریت کو پہنچ رہاہے اور بالکل ناجائز فائدہ اقلیت حاصل کررہی ہے۔ پھر آخر کون سی معقول وجہ ہے کہ ایسے حالات میں اگر اقلیت علیحدگی کا مطالبہ نہیںکرتی تو اسے زبردستی اکثریت کے سینے پر مونگ دلنے کے لیے بٹھائے رکھا جائے اور اکثریت کے مطالبہ علیحدگی کو رد کردیا جائے ؟ علیحدگی کے اسباب اکثریت نے نہیں بلکہ خود اقلیت نے پیدا کیے ۔ عملاً اپنا الگ معاشرہ اس نے خود بنایا۔ اکثریت سے مذہبی و معاشرتی روابط اس نے خود توڑے۔ اس روش کا فطری تقاضا یہ تھاکہ وہ خود اس علیحدگی کو تسلیم کرلیتی جو اس نے فی الواقع اختیار کی ہے۔ اسے اگر تسلیم کرنے سے وہ گریز کرتی ہے تو یہ اس سے پوچھیے کہ کیوں گریز کرتی ہے اور خدا نے آپ کو دیکھنے والی آنکھیں دی ہیں تو خود دیکھیے کہ اپنے ہی عمل کے لازمی نتائج قبول کرنے سے اسے کیوں گریز ہے۔ اس کی نیت اگر دغا اور فریب سے کام چلانے کی ہے تو آپ کی عقل کہاں چلی گئی ہے کہ آپ خود اس قوم کو اس کی دغا بازی کا شکار بنانے پر تلے ہوئے ہیں؟