(الف)یہ سوال باربارکیاگیاہے کہ یہ مطالبات مذہبی ہیں یاسیاسی ؟اوراکثراس کا جواب صرف یہ دے دیاگیاہے کہ یہ مذہبی مطالبات ہیں۔حالانکہ درحقیقت نہ یہ سوال صحیح ہے اورنہ اس کایہ جواب۔اس میں شک نہیں کہ جس نزاع کوحل کرنے کے لیے یہ مطالبات پیش کیے گئے ہیں،اس کی ابتدا ایک مذہبی اختلاف سے ہوئی ہے لیکن پچھلے پچاس سال کے تدریجی ارتقا سے اب وہ محض ایک مذہبی نزاع نہیںرہی ہے بلکہ ایک معاشرتی،معاشی اور سیاسی نزاع بھی بن گئی ہے کوئی مسئلہ اپنی اصل کے اعتبارسے خواہ مذہبی ہویااخلاقی، جب وہ عملاًمعاشرے میںپیچیدگیاںاورخرابیاںپیداکرنے لگتاہے تواس کولامحالہ دستور یا قانون یاانتظامی تدابیرکے ذریعے سے حل کرناپڑتاہے۔ایسے مواقع پریہ بحث پیدا نہیں کی جاتی کہ مسئلہ تومذہبی یااخلاقی ہے‘اس کوسیاسی وسائل سے کیوںحل کیا جا رہا ہے۔ یہاں مسلمانوںاورقادیانیوںکی مذہبی نزاع نے جوصورت اختیارکرلی ہے وہ یہ ہے کہ مسلم معاشرے کے اندرایک جداگانہ مستقل اورمنظم جتھابن گیاہے جوعقیدے میں مسلمانوں سے بنیادی اختلاف رکھتاہے،معاشرت میںان سے مقاطعہ کرتاہے،معاشی میدان میںان کے خلاف منظم طورپربرسرپیکارہے، ہمیشہ ان کے ان مفادات کے خلاف کام کرتا رہا ہے۔ ان سب باتوںکے باوجودوہ مسلمانوںمیںشامل ہو کراپنی تبلیغ کے ذریعہ سے اپنی تعدادبڑھارہاہے اورمسلم معاشرے کے داخلی انتشارمیںروزبروزاضافہ کیے چلا جاتا ہے۔ اس پرمزیدوہ خطرات ہیںجوسرکاری ملازمتوںمیںاس گروہ کی انتہائی غیرمتناسب کثرت سے اوراس کے ان سیاسی منصوبوںسے جوبلوچستان کو بنیاد(base)بنا کر سارے پاکستان پرقبضہ کرنے کے لیے اس کی جانب سے، بارہاظاہرکیے گئے ہیں‘ مسلمانوں میں شدت کے ساتھ اضطراب پیداکررہے ہیں۔اس طرح کے ایک مسئلے کوآخر محض ایک مذہبی مسئلہ کیسے کہاجاسکتاہے اوراسے حل کرنے کے لیے دستوری‘قانونی اور سیاسی تدابیراستعمال کرنے کے سواآخراورکیاچارہ کارہے؟متحدہ ہندوستان میں ہندو مسلم نزاع بھی اصلاًایک مذہبی نزاع ہی تھی‘مگرجداگانہ انتخاب سے لے کرتقسیم ملک تک اس کوحل کرنے کے لیے جتنے مطالبے بھی کیے گئے وہ سب سیاسی نوعیت کے مطالبے تھے۔