Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

جہادِ فی سبیل اللہ
جہاد کے متعلق غلط فہمی کے اسباب:
جِہاد کی حقیقت:
’’فی سبیل اﷲ‘‘ کی لازمی قید:
اسلام کی دعوتِ انقلاب:
اسلامی دعوتِ انقلاب کی خصوصیت:
جِہاد کی ضرورت اور اس کی غایت:
عالمگیر انقلاب:
جارحانہ اور مدافعانہ کی تقسیم غیر متعلق ہے:
ذمیوں کی حیثیت:
سامراجیت (IMPERIALISM) کا شبہ:

جہاد فی سبیل اللہ

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

’’فی سبیل اﷲ‘‘ کی لازمی قید:

لیکن اسلام کا جہاد نِرا ’’جہاد‘‘ نہیں ہے۔۔۔ ’’جہاد فی سبیل اللہ‘‘ ہے۔ ’’فی سبیل اللہ‘‘ کی قید اس کے ساتھ ایک لازمی قید ہے۔ یہ لفظ بھی اسلام کی اسی مخصوص اصطلاحی زبان سے تعلق رکھتا ہے جس طرف ابھی میں اشارہ کرچکا ہوں۔ اس کا لفظی ترجمہ ہے ’’راہِ خدا میں‘‘ اس ترجمے سے لوگ غلط فہمی میں پڑگئے اور یہ سمجھ بیٹھے کہ زبردستی لوگوں کو اسلام کے مذہبی عقائد کا پیرو بنانا‘ جہاد فی سبیل اللہ ہے۔۔۔ کیونکہ لوگوں کے تنگ دماغوں میں ’’راہِ خدا‘‘ کا کوئی مفہوم اس کے سوا نہیں سما سکتا۔ مگر اسلام کی زبان میں اس کا مفہوم بہت وسیع ہے۔ ہر وہ کام جو اجتماعی فلاح بہبود کے لیے کیا جائے اور جس کے کرنے والے کا مقصد اس سے خود کوئی دنیوی فائدہ اٹھانا نہ ہو‘ بلکہ محض خدا کی خوشنودی حاصل کرنا ہو۔۔۔ اسلام ایسے کام کو ’’فی سبیل اللہ‘‘ قرار دیتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر آپ خیرات دیتے ہیں اس نیت سے کہ اسی دنیا میں مادی یا اخلاقی طور پر اس خیرات کا کوئی فائدہ آپ کی طرف پلٹ کر آئے‘ تو یہ ’’فی سبیل اللہ‘‘ نہیں ہے۔۔۔ اور اگر خیرات سے آپ کی نیت یہ ہے کہ ایک غریب انسان کی مدد کرکے آپ خدا کی خوشنودی حاصل کریں‘ تو یہ ’’فی سبیل اللہ‘‘ ہے۔ پس یہ اصطلاح مخصوص ہے ایسے کاموں کے لیے جو کامل خلوص کے ساتھ‘ ہر قسم کی نفسانی اغراض سے پاک ہوکر‘ اس نظریے پر کیے جائیں کہ انسان کا دوسرے انسانوں کی فلاح کے لیے کام کرنا خدا کی خوشنودی کا موجب ہے اور انسان کی زندگی کا نصب العین مالکِ کائنات کی خوشنودی حاصل کرنے کے سوا کچھ نہیں۔

’’جہاد‘‘ کے لیے بھی ’’فی سبیل اللہ‘‘ کی قید اسی غرض کے لیے لگائی گئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص یا گروہ جب نظامِ زندگی میں انقلاب برپا کرنے اور اسلامی نظریے کے مطابق نیا نظام مرتب کرنے کے لیے اٹھے‘ تو اس قیام اور اس سربازی و جاں نثاری میں اس کی اپنی کوئی نفسانی غرض نہ ہو۔ اس کا یہ مقصد ہرگز نہ ہوکہ قیصر کو ہٹا کر‘ وہ خود قیصر بن جائے۔ اپنی ذات کے لیے مال و دولت‘ یا شہرت و ناموری‘ یا عزت و جاہ حاصل کرنے کا شائبہ تک اس کی جدوجہد کے مقاصد میں شامل نہ ہو۔ اس کی تمام قربانیوں اور ساری محنتوں کا مدعا صرف یہ ہو کہ بندگانِ خدا کے درمیان ایک عادلانہ نظامِ زندگی قائم کیا جائے۔ اس کے معاوضہ میں اسے خدا کی خوشنودی کے سوا کچھ بھی مطلوب نہ ہو۔

اَلَّذِیْنَ آمَنُوْا یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سِبِیْلِ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ الطَّاغُوْتِ۔۔۔ (النساء:۷۶)

’’جن لوگوں نے ایمان کا راستہ اختیار کیا ہے‘ وہ اﷲ کی راہ میں لڑتے ہیں اور جنہوں نے کفر کا راستہ اختیار کیا ہے‘ وہ طاغوت کی راہ میں لڑتے ہیں‘‘۔

’’طاغوت‘‘ کا مصدر ’’طغیان‘‘ ہے جس کے معنی ’’حد سے گزرجانے‘‘ کے ہیں۔ دریا جب اپنی حد سے گزرجاتا ہے تو آپ کہتے ہیں طغیانی آگئی ہے۔ اسی طرح جب آدمی اپنی جائز حد سے گزرکر اس غرض کے لیے اپنی طاقت استعمال کرتا ہے کہ انسانوں کا خدا بن جائے یا اپنے مناسب حصہ سے زائد فوائد حاصل کرے‘ تو یہ طاغوت کی راہ میں لڑنا ہے۔۔۔ اور اس کے مقابلہ میں راہِ خدا کی جنگ وہ ہے‘ جس کا مقصد صرف یہ ہو کہ خدا کا قانونِ عدل دنیا میں قائم ہو‘ لڑنے والا خود بھی اس کی پابندی کرے اور دوسروں سے بھی اس کی پابندی کرائے۔ چنانچہ قرآن کہتا ہے:

تِلْکَ الدَّارُ الْاٰخِرَۃُ نَجْعَلُھَا لِلَّذِیْنَ لاَیُرِیْدُوْنَ عُلُوًا فِیْ الْاَرْضِ وَلَافَسَادًاط وَالْعَاقِبَۃُ لَّلْمُتَّقِیْنَ (القصص:۸۳)

’’آخرت میں عزت کا مقام تو ہم نے صرف ان لوگوں کے لیے رکھا ہے جو زمین میں اپنی بڑائی قائم کرنا اور فساد کرنا نہیں چاہتے۔ عاقبت کی کامیابی صرف خدا ترس لوگوں کے لیے ہے‘‘۔

حدیث میں آیا ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا۔۔۔ ’’راہِ خدا کی جنگ سے کیا مراد ہے؟ ایک شخص مال کے لیے جنگ کرتا ہے‘ دوسرا شخص بہادری کی شہرت حاصل کرنے کے لیے جنگ کرتا ہے‘ تیسرے شخص کو کسی سے عداوت ہوتی ہے یا قومی حمیت کا جوش ہوتا ہے‘ اس لیے جنگ کرتا ہے۔ ان میں سے کس کی جنگ فی سبیل اللہ ہے‘‘؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا۔۔۔ ’’کسی کی بھی نہیں۔ فی سبیل اللہ تو صرف اس شخص کی جنگ ہے‘ جو خدا کا بول بالا کرنے کے سوا کوئی مقصد نہیں رکھتا‘‘۔ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ ’’اگر کسی شخص نے جنگ کی اور اس کے دل میں اونٹ باندھنے کی ایک رسی حاصل کرنے کی بھی نیت ہوئی تو اس کا اجر ضائع ہوگیا‘‘۔ اللہ صرف اس عمل کو قبول کرتا ہے جو محض اس کی خوشنودی کے لیے ہو اور کوئی شخصی یا جماعتی غرض پیشِ نظر نہ ہو۔ پس جہاد کے لیے ’’فی سبیل اﷲ‘‘ کی قید اسلامی نقطۂ نظر سے خاص اہمیت رکھتی ہے۔ مجرد جہاد تو دنیا میں سب ہی جان دار کرتے ہیں۔ ہر ایک اپنے مقصد کی تحصیل کے لیے اپنا پورا زور صرف کررہا ہے‘ لیکن ’’مسلمان‘‘ جس انقلابی جماعت کا نام ہے اس کے انقلابی نظریات میں سے ایک اہم ترین نظریہ‘ بلکہ بنیادی نظریہ یہ ہے کہ اپنی جان و مال کھپاؤ‘ دنیا کی ساری سرکش طاقتوں سے لڑو‘ اپنے جسم و روح کی ساری طاقتیں خرچ کردو۔۔۔ نہ اس لیے کہ دوسرے سرکشوں کو ہٹا کر تم ان کی جگہ لے لو۔۔۔ بلکہ صرف اس لیے کہ دنیا سے سرکشی و طُغیان مٹ جائے اور خدا کا قانون دنیا میں نافذ ہو۔

جہاد کے اس مفہوم اور فی سبیل اللہ کی اس معنویت کو مختصراً بیان کردینے کے بعد‘ میں اس دعوتِ انقلاب کی تھوڑی سی تشریح کرنا چاہتا ہوں جو اسلام لے کر آیا ہے‘ تاکہ آسانی کے ساتھ یہ سمجھا جاسکے کہ اس دعوت کے لیے جہاد کی حاجت کیا ہے؟ اور اس کی غایت (Objective) کیا ہے؟

شیئر کریں