Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

عرضِ ناشر
مقدمہ
مسئلہ جبر و قدر کی حقیقت
اختیار و اضطرار کا ابتدائی اثر
مسئلہ جبر و قدر کا نقطۂ آغاز
مابعد الطبیعی نقطۂ نظر
فلسفے کی ناکامی
طبیعی نقطۂ نظر
سائنس کی ناکامی
اخلاقی نقطۂ نظر
اخلاقیات کی ناکامی
دینیاتی نقطۂ نظر
صحیح اسلامی مسلک
متکلمین اسلام کے مذاہب
مذہب قدر
قرآن مجید سے قدریہ کا استدلال
مذہب جبر
قرآنِ مجید سے جبریہ کا استدلال
متکلمین کی ناکامی
تحقیق مسئلہ
امور ماورائے طبیعت کے بیان سے قرآن کا اصل مقصد
مسئلہ قضا و قدر کے بیان کا منشا
عقیدۂ تقدیر کا فائدہ عملی زندگی میں!
تناقض کی تحقیق
حقیقت کی پردہ کشائی
مخلوقات میں انسان کی امتیازی حیثیت
ہدایت و ضلالت
عدل اور جزا و سزا
جبرو قدر

مسئلہ جبرو قدر

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

فلسفے کی ناکامی

لیکن اس بحث میں قدریت کی بہ نسبت جبریت کا پلڑا جھک جانے کے معنی یہ نہیں ہیں کہ فلسفے نے اس گتھی کو سلجھا لیا اور مسئلہ جبر کے حق میں طے ہو گیا بلکہ اس سے صرف یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انسان جب زیادہ گہری نگاہ سے ملکوت ارض و سمٰوٰت کو دیکھتا ہے اور اس مطالعے کی مدد سے اس زبردست نظام کے چلانے والے کی صفات کا تصور کرتا ہے تو اکثر و بیشتر اس کے دل و دماغ پر ایسی دہشت طاری ہو جاتی ہے کہ اس کی نگاہ میں خود اپنی ہستی کی کوئی منزلت باقی نہیں رہتی، اور اس کی مدہوش عقل اس سے کہتی ہے کہ جس کی قدرت اس لامحدود کائنات کو اپنی گرفت میں لیے ہوئے ہے، جس کا ارادہ اتنی عظیم الشان سلطنت پر فرماں روائی کر رہا ہے، جس کا علم اس نظام وجود کے چھوٹے اور بڑے سب کل پرزوں اور ان کی حرکات و سکنات پر ازل سے لے کر ابد تک حاوی ہے، اس کے سامنے تو بالکل عاجز ہے، بے بس ہے، درماندہ ہے، تیری قدرت، تیرا علم، تیرا ارادہ کوئی چیز نہیں۔
اس سے بڑھ کر اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ فلسفے نے قضا و قدر کے مسئلے کو سمجھ لیا ہے تو وہ سخت غلط فہمی میں مبتلا ہے۔ قضا و قدر کا سوال حقیقت میں یہ سوال ہے کہ خداوند عالم کی سلطنت کا دستورِ اساسی کیا ہے؟ خدا کے علم اور اس کی معلومات، خدا کی قدرت اور اس کے مقدورات، خدا کے ارادے اور اس کے مرادات کے درمیان کس قسم کا علاقہ ہے؟ خدا کا حکم کیا معنی رکھتا ہے؟ کس طرح وہ اس کی مخلوقات میں نافذ ہوتا ہے؟ مخلوقات کے مختلف مراتب میں اس کے احکام کی تنفیذ کن ضوابط کے تحت ہوتی ہے؟ اور موجودات عالم کی بے شمار انواع میں سے ہر نوع کس حیثیت سے اس کی تابع فرمان ہے؟ اب اگر کوئی شخص یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اس نے ان سوالات کو حل کر لیا ہے تو دوسرے الفاظ میں اس کا دعویٰ یہ ہے کہ اس نے خدا اور اس کی پوری خدائی کو ناپ ڈالا ہے۔ یہ ان تمام باتوں سے زیادہ شنیع بات ہے جن کا الزام قدریہ اور جبریہ ایک دوسرے پر عائد کرتے ہیں اور اگر ان کا دعویٰ یہ نہیں ہے تو محض قیاس و استدلال کے بل بوتے پر وہ علم و یقین کے ایسے مرتبے تک کیوں کر پہنچ سکتے ہیں، جہاں قطعیت کے ساتھ جبر یا قدر کا حکم لگانا اُن کے لیے ممکن ہو؟

٭…٭…٭…٭…٭

شیئر کریں