سوال
’’پردہ‘‘پڑھنے سے کافی تشفی ہوئی۔ لیکن اکثر مسائل ایسے ہیں جن کے بارے میں اُلجھائو رفع نہیں ہوتا۔ ایک ایسا شخص جسے اس کے موجودہ حالات اور معاشی وسائل نکاح کرنے کی اجازت نہ دیں وہ آج کل کے زمانے میں کیوں کر اپنی زندگی پاک بازی سے بسر کرے؟ میں نے اس کا جواب جس کسی سے بات کی،نفی میں پایا۔ ایک طرف موجودہ ماحول کی زہرناکیاں اور دوسری طرف چشم وگوش کی بھی حفاظت کا مطالبہ، ناممکن العمل معلوم ہوتا ہے۔ کہاں آنکھیں میچیے اور کہاں کانوں میں انگلیاں دیجیے؟ اور پھر یہ کہ برے خیالات کی آمد کو کیوں کر روکیے؟ اوّل تو ہم اپنے خیالات کی آمد ورفت پر کوئی اختیار نہیں رکھتے اور اگر اس کی کوشش بھی کی جائے تو ایک ذہنی خلفشار کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا جو اور خراب کُن ہے۔سیلف کنٹرول(self control) جن سازگار حالات میں قابل عمل ہو صرف انھی حالات میں کارگر اور مفید ہوسکتا ہے۔ لیکن ایسے ماحول میں جہاں ہر طرف برانگیختگی کے فوج در فوج سامان ہوں ،اپنے آپ سے لڑنا اپنی شخصیت کے لیے ہلاکت کو دعوت دینا ہے۔ایک صاحب جو میڈیکل سائنس میں اس سال ڈاکٹریٹ کی سند لے رہے ہیں ، کہتے ہیں کہ اس صورت میں نکاح جو حاصل نہیں ہے،اس کے علاوہ نیچرل طریق پر تسکین خاطر حاصل کرنا ہی صرف اس ذہنی انتشار اور تذلیل نفس سے نجات دے سکتا ہے۔ نفسیات کے ماہرین بھی یہی نظریہ رکھتے ہیں ۔ کیا آپ بتائیں گے کہ بحالت مجبوری مذکورہ بالا راے پر عمل پیرا ہوجانا کس حد تک گناہ ہے، اور اگر یہ سراسرگناہ ہے تو پھر ان حالات میں صحیح راستہ کیا ہوگا جو معقول اور قابل عمل ہو؟ اُمید ہے کہ آپ ان مسائل پر روشنی ڈالتے ہوئے نفسیات انسانی کے حقائق کی پوری رعایت فرمائیں گے۔
جواب
آپ کا یہ سوال ان اہم مسائل میں سے ہے جن کی بنا پر ہم موجودہ ناپاک ماحول کے خلاف اجتماعی جدوجہدکی ضرورت پر برسوں سے زور دے رہے ہیں ۔بلاشبہہ آ ج کل کے ماحول نے افراد کے لیے پاک باز رہنے کو سخت مشکل بنادیا ہے۔لیکن اس کا حل یہ نہیں ہے کہ اس ماحول کی خرابی کو حیلہ بنا کر افراد اپنے لیے اخلاقی بے قیدی کے جواز کی راہ نکالنے لگیں ۔بلکہ اس کا صحیح حل یہ ہے کہ اس ماحول کی ناپاکی کا جتنا زیادہ شدید احساس آپ کے اندر پیدا ہو،اسی قدر زیادہ شدت کے ساتھ آپ اسے بدلنے کی جدوجہد میں حصہ لیں ۔رہیں وہ مشکلات جو اس جدوجہد کے دوران میں ایک نوجوان کو اس ناپاک ماحول کے اندرپیش آتی ہیں ،تو ان کاعلاج یہ ہے کہ جن ہیجان خیز چیزوں سے آپ بچ سکتے ہیں ،ان سے بچیے،مثلاً سینما،فحش تصویریں ، مخلو ط سوسائٹی، بے پردہ عورتوں کو دانستہ گھورنا یا ان کی صحبت میں بیٹھنا۔اس کے بعد جو اضطراری محرکات باقی رہ جاتے ہیں ، وہ اتنے زیادہ اشتعال انگیز نہیں رہتے کہ آپ ان کی وجہ سے بندش تقویٰ کو توڑنے پر مجبور ہوجائیں ۔ آپ کے ڈاکٹر دوست اور جن ماہرین نفسیات کا آپ ذکر کررہے ہیں ،دراصل اس بات سے ناواقف ہیں کہ زنا انسانی تمدن واخلاق کے لیے کس قدر شدید مفسدومخرب چیز ہے۔اگر وہ اس چیز کی برائیوں سے واقف ہوں تو کسی انسان کو یہ مشورہ نہ دیں کہ وہ محض اپنے نفس کی تسکین کے لیے سوسائٹی کے خلاف اتنے سخت جرم کا ارتکاب کر گزرے۔ کیا یہ لوگ کسی شخص کو یہ مشورہ دینے کی جرأت کریں گے کہ جب کسی کے خلاف اس کا جذبہ انتقام ناقابل برداشت ہوجائے تو وہ اسے قتل کردے؟ اور جب کسی چیز کے حاصل کرنے کی خواہش اسے بہت ستائے تو وہ چوری کرڈالے؟اگر ایسے مشورے دینا وہ ناجائز سمجھتے ہیں تو جذبۂ شہوت کی تسکین کے لیے وہ زنا کا مشورہ دینے کی جرأت کیسے کرتے ہیں ۔ حالاں کہ زنا کسی طرح بھی قتل اور چوری سے کم جرم نہیں ہے۔ آپ اس جرم کی شدت کو سمجھنے کے لیے ایک مرتبہ پھر میری کتاب’’پردہ‘‘ کے وہ حصے پڑھیے جن میں میں نے زنا کے اجتماعی نقصانات پر بحث کی ہے۔ (ترجمان القرآن ، جنوری،فروری ۱۹۵۱ء)