اس کے بعد پیراگراف ۲۵ میں فاضل جج وہ وجوہ بیان کرتے ہیں جن کی بِنا پر ان کے نزدیک احادیث ناقابل اعتماد بھی ہیں، اور بجائے خود حجت وسند بھی نہیں ہیں۔ اس سلسلے میں ان کی بحث کے نکات حسب ذیل ہیں:
۱۔ تمام فقہائے اِسلام اس بات کو بالاتفاق مانتے ہیں کہ جیسے جیسے زمانہ گزرتا گیا‘جعلی حدیثوں کا ایک جم غفیر اِسلامی قوانین کا ایک جائز ومُسَلَّم ماخذ بنتا چلا گیا۔ جھوٹی حدیثیں خودمحمد رسول اللّٰہﷺ کے زمانے میں ظاہر ہونی شروع ہو گئی تھیں۔ جھوٹی اور غلط حدیثیں اتنی بڑھ گئی تھیں کہ حضرت عمرؓ نے اپنی خلافت میں روایت حدیث پر پابندیاں لگا دیں بلکہ اسے منع تک کر دیا۔ امام بخاری نے ۶ لاکھ حدیثوں میں سے صرف ۹ ہزار کو صحیح احادیث کی حیثیت سے منتخب کیا۔‘‘
۲۔ میں نہیں سمجھتا کہ کوئی شخص اس بات سے انکار کرے گا کہ جس طرح قرآن کو محفوظ کیا گیا اس طرح کی کوئی کوشش رسول اللّٰہﷺ کے اپنے عہد میں احادیث کو محفوظ کرنے کے لیے نہیں کی گئی۔ اس کے برعکس جو شہادت موجود ہے وہ یہ ہے کہ محمد رسول اللّٰہﷺ نے سختی کے ساتھ احادیث کو محفوظ کرنے سے منع کر دیا تھا۔ اگر مسلم کی روایات صحیح ہیں تو محمد رسول اللّٰہﷺ نے پوری قطعیت کے ساتھ لوگوں کو اس بات سے منع کر دیا تھا کہ وہ ان کے اقوال اور افعال کو لکھ لیں۔ انھوں نے حکم دیا تھا کہ جس کسی نے ان کی احادیث کو محفوظ کر رکھا ہو، وہ انھیں فورًا ضائع کر دے۔لَا تَکْتُبُوْا عَنِّیْ وَ مَنْ کَتَبَ عَنِّیْ غَیْرَ الْقُرْاٰنِ فَلْیَمْحُہ‘ وَحَدِّ ثُوْا وَلاَ حَرَجَ۔({ FR 7027 })اسی حدیث یا ایسی ہی ایک حدیث کا ترجمہ مولانا محمد علی({ FR 7028 }) نے اپنی کتاب دین اِسلام کے ایڈیشن ۱۹۳۶ء میں ص ۶۲ پر ان الفاظ میں دیا ہے:
روایت ہے کہ ابوہریرہؓ نے کہا: رسول خداﷺ ہمارے پاس آئے اس حال میں کہ ہم حدیث لکھ رہے تھے۔ انھوں نے پوچھا تم لوگ کیا لکھ رہے ہو۔ ہم نے کہا: حدیث جو ہم آپﷺ سے سنتے ہیں۔ انھوں نے فرمایا:یہ کیا! اللّٰہ کی کتاب کے سوا ایک اور کتاب۔
۳۔ اس امر کی بھی کوئی شہادت موجود نہیں ہے کہ محمد رسول اللّٰہﷺ کے فورًا بعد جو چار خلیفہ ہوئے ان کے زمانے میں احادیث محفوظ یا مرتب کی گئی ہوں۔ اس امر واقعہ کا کیا مطلب لیا جانا چاہیے؟ یہ ایک ایسا معاملہ ہے جو گہری تحقیقات کا طالب ہے۔ کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ محمد رسول اللّٰہﷺ اور ان کے بعد آنے والے چاروں خلفا نے احادیث کو محفوظ کرنے کی کوشش اس لیے نہیں کی کہ یہ احادیث عام انطباق کے لیے نہ تھیں؟
۴۔ مسلمانوں کی بڑی اکثریت نے قرآن کو حفظ کر لیا۔ وہ جس وقت وحی آتی تھی، اس کے فورًا بعد کتابت کا جو سامان بھی میسر آتا تھا اس پر لکھ لیا جاتا تھا اور اس غرض کے لیے رسول کریمﷺ نے متعدد تعلیم یافتہ اصحاب کی خدمات حاصل کر رکھی تھیں لیکن جہاں تک احادیث کا تعلق ہے، وہ نہ یاد کی گئیں، نہ محفوظ کی گئیں۔ وہ ان لوگوں کے ذہنوں میں چھپی پڑی ہیں جو اتفاقاً کبھی دوسروں کے سامنے ان کا ذکر کرنے کے بعد مر گئے۔ یہاں تک کہ رسولﷺ کی وفات کے چند سو برس بعد ان کو جمع اور مرتب کیا گیا۔
۵۔ یہ اعتراف کیا جاتا ہے کہ بعد میں پہلی مرتبہ رسول اللّٰہﷺ کے تقریباً ایک سو سال بعد احادیث کو جمع کیا گیا، مگر ان کا ریکارڈ اب قابل حصول نہیں ہے۔ اس کے بعد ان کو حسب ذیل اصحاب نے جمع کیا: امام بخاری (متوفی ۲۵۶ھ)، امام مسلم (متوفی ۲۶۱ھ)، ابودائود (متوفی ۲۷۵ھ)، جامع ترمذی({ FR 7029 }) (متوفی ۲۷۹ھ)، سنن النسائی (متوفی ۳۰۳ھ)، سنن ابن ماجہ({ FR 7030 }) (متوفی ۲۸۳ھ)، سنن الدریبی({ FR 7031 }) (متوفی ۱۸۱ھ)، بیہقی (پیدائش ۳۸۴) اور امام احمد (پیدائش ۱۶۴ھ)۔ فاضل جج نے اس کے بعد شیعہ محدثین کا ذکر کیا ہے جسے ہم اس لیے چھوڑ دیتے ہیں کہ اس کے متعلق کچھ کہنا شیعہ علما کا کام ہے۔
۶۔ بہت کم احادیث ہیں جن میں یہ جامعین حدیث متفق ہوں۔ کیا یہ چیز احادیث کو انتہائی مشکوک نہیں بنا دیتی کہ ان پر اعتماد کیا جا سکے؟
۷۔ جن لوگوں کو تحقیقات کا کام سپرد کیا گیا ہو، وہ ضرور اس بات پر نگاہ رکھیں گے کہ ہزار در ہزار جعلی حدیثیں پھیلائی گئی ہیں تاکہ اِسلام اور محمد رسول اللّٰہﷺ کو بدنام کیا جائے۔
۸۔ انھیں اس بات کو بھی نگاہ میں رکھنا ہو گا کہ عربوں کا حافظہ خواہ کتنا ہی قوی ہو، کیا صرف حافظے سے نقل کی ہوئی باتیں قابل اعتماد سمجھی جا سکتی ہیں؟ آخر آج کے عربوں کا حافظہ بھی تو ویسا ہی ہے، جیسا ۱۳ سو برس پہلے ان کا حافظہ رہا ہو گا۔ آج کل عربوں کا حافظہ جیسا کچھ ہے، وہ ہمیں یہ رائے قائم کرنے کے لیے ایک اہم سراغ کا کام دے سکتا ہے کہ جو روایات ہم تک پہنچی ہیں کیا ان کے صحیح اور حقیقی ہونے پر اعتماد کیا جا سکتا ہے؟
۹۔ ’’عربوں کے مبالغے نے، اور جن راویوں کے ذریعے سے یہ روایات ہم تک پہنچی ہیں، ان کے اپنے معتقدات اور تعصبات نے بھی ضرور بڑی حد تک نقلِ روایت کو مسخ کیا ہو گا۔ جب الفاظ ایک ذہن سے دوسرے ذہن تک پہنچتے ہیں۔ وہ ذہن خواہ عرب کا ہو یا کسی اور کا، بہرحال ان الفاظ میں ایسے تغیرات ہو جاتے ہیں جو ہر ذہن کی اپنی ساخت کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ ہر ذہن ان کو اپنے طرز پر موڑتا توڑتا ہے اور جب کہ الفاظ بہت سے ذہنوں سے گزر کر آئے ہوں تو ایک شخص تصور کر سکتا ہے کہ ان میں کتنا بڑا تغیر ہو جائے گا۔