اس کے بعد پیرا گراف ص ۲۶۱ تک فاضل جج نے اِسلامی قانون کے متعلق اپنے کچھ تصورات بیان فرمائے ہیں جو علی الترتیب حسب ذیل ہیں:
۱۔ اِسلام کی رو سے جو قانون ایک مسلمان پر اس کی زندگی کے ہر شعبے میں حکم ران ہونا چاہیے، خواہ وہ اس کی زندگی کا مذہبی شعبہ ہو یا سیاسی، یا معاشرتی یا معاشی، وہ صرف خدا کا قانون ہے۔
۲۔ قرآن نے جو حدود مقرر کر دیے ہیں ان کے اندر مسلمانوں کو سوچنے اورعمل کرنے کی پوری آزادی ہے۔
۳۔ چوں کہ قانون انسانی آزادی پر پابندی عائد کرنے والی طاقت ہے اس لیے خدا نے قانون سازی کے اختیارات پوری طرح اپنے ہاتھ میں لے لیے ہیں۔ اِسلام میں کسی شخص کو اس طرح کام کرنے کا اختیار نہیں ہے کہ گویا وہ دوسروں سے بالاتر ہے۔
۴۔ رسول اللّٰہ ﷺ اور خلفائے راشدین کا طرز عمل یہ تھا کہ جو کچھ وہ کرتے تھے مسلمانوں کے مشورے سے کرتے تھے۔ اِسلام کا عقیدہ عین اپنے مزاج کے اعتبار سے ایک انسان کی دوسرے انسانوں پر برتری کی نفی کرتا ہے، وہ اجتماعی فکر اور اجتماعی عمل کی راہ دکھاتا ہے۔
۵۔ اس دُنیا میں چوں کہ انسانی حالات اور مسائل بدلتے رہتے ہیں، اس لیے اس بدلتی ہوئی دُنیا کے اندر مستقل، ناقابل تغیر وتبدل احکام وقوانین نہیں چل سکتے۔ خود قرآن بھی اس عام قاعدے سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ اسی وجہ سے قرآن نے مختلف معاملات میں چند وسیع اور عام قاعدے انسانی ہدایت کے لیے دے دئیے ہیں۔
۶۔ قرآن سادہ اور آسان زبان میں ہے جسے ہر شخص سمجھ سکتا ہے۔ اس کا پڑھنا اور سمجھنا ایک دو آدمیوں کا مخصوص حق نہیں ہے۔ تمام مسلمان اگر چاہیں تو اسے سمجھ سکتے ہیں اور اس کے مطابق عمل کر سکتے ہیں۔ یہ حق تمام مسلمانوں کو دیا گیا ہے اور کوئی اسے ان سے سلب نہیں کر سکتا، خواہ وہ کیسا ہی عالی مرتبہ اور کیسا ہی فاضل کیوں نہ ہو۔
۷۔ قرآن کوپڑھنے اور سمجھنے میں یہ بات خود متضمن ہے کہ آدمی اس کی تعبیر کرے اور اس کی تعبیر کرنے میں یہ بات بھی شامل ہے کہ آدمی اس کو وقت کے حالات پر اور دُنیا کی بدلتی ہوئی ضروریات پر منطبق کرے۔
۸۔ امام ابوحنیفہؒ، امام شافعیؒ، امام مالکؒ اور قدیم زمانے کے دوسرے مفسرین نے قرآن کی جو تعبیریں کی تھیں وہ آج کے زمانے میں جوں کی توں نہیں مانی جا سکتیں۔ سوسائٹی کے بدلتے ہوئے حالات پر قرآن کے عام اصولوں کو منطبق کرنے کے لیے ان کی دانش مندانہ تعبیر کرنی ہو گی، اور ایسے طریقے سے تعبیر کرنی ہو گی کہ لوگ اپنی تقدیر اور اپنے خیالات اور اخلاقی تصورات کی تشکیل اس کے مطابق کر سکیں اور اپنے ملک اور زمانے کے لیے موزوں ترین طریقے پر کام کر سکیں۔ دوسرے انسانوں کی طرح مسلمان بھی عقل اور ذہانت رکھتے ہیں اور یہ طاقت استعمال کرنے ہی کے لیے دی گئی ہے۔ تمام مسلمانوں کو قرآن پڑھنا اور اس کی تعبیر کرنا ہو گا۔
۹۔ قرآن کو سمجھنے اور اس کے مدعا کو پانے کی سخت کوشش ہی کا نام اجتہاد ہے۔ قرآن سب مسلمانوں سے، نہ کہ ان کے کسی خاص طبقے سے یہ توقع کرتا ہے کہ وہ اس کا علم حاصل کریں، اسے اچھی طرح سمجھیں اور اس کی تعبیر کریں۔
۱۰۔ اگر ہر شخص انفرادی طور پر بطور خود قرآن کی تعبیر کرے تو بے شمار مختلف تعبیرات وجود میں آ جائیں گی جن سے سخت بدنظمی کی حالت پیدا ہو جائے گی۔ اسی طرح جن معاملات میںقرآن ساکت ہے، اگر ان کے بارے میں ہر شخص کو ایک قاعدہ بنا لینے اور ایک طرز عمل طے کر لینے کا اختیار ہو تو ایک پراگندہ اور غیر مربوط سوسائٹی پیدا ہو جائے گی۔ اس لیے لوگوں کی زیادہ سے زیادہ بڑی تعداد کی رائے کو نافذ ہونا چاہیے۔
۱۱۔ ایک آدمی یا چند آدمی فطرتًاعقل اور قوت میں ناقص ہوتے ہیں۔ کوئی شخص خواہ کتنا ہی طاقتور اور ذہین ہو، اس کے کامل ہونے کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ لاکھوں کروڑوں آدمی، جو اجتماعی زندگی ایک نظم کے ساتھ بسر کر رہے ہیں، اپنی اجتماعی ہیئت میں افراد کی بہ نسبت زیادہ عقل اور طاقت رکھتے ہیں۔ قرآن کی رو سے بھی کتاب اللّٰہ کی تعبیر اور حالات پر اس کے عام اصولوں کا انطباق ایک آدمی یا چند آدمیوں پر نہیں چھوڑا جا سکتا، بلکہ یہ کام مسلمانوں کے باہمی مشورے سے ہونا چاہیے۔
۱۲۔ قانون سے مراد وہ ضابطہ ہے جس کے متعلق لوگوں کی اکثریت یہ خیال کرتی ہو کہ لوگوں کے معاملات اس کے مطابق چلنے چاہییں۔ کئی کروڑ باشندوں کے ایک ملک میں باشندوں کی اکثریت کو قرآن کی ان آیات کی، جن کے اندر دو یا زائد تعبیروں کی گنجائش ہو، ایک ایسی تعبیر کرنی چاہیے جو ان کے حالات کے لیے موزوں ترین ہو اور اسی طرح انھیں قرآن کے عام اصولوں کو حالات موجودہ پر منطبق کرنا چاہیے تاکہ فکر وعمل میں یکسانی ووحدت پیدا ہو سکے۔ اسی طرح یہ اکثریت کا کام ہے کہ ان مسائل ومعاملات میں، جن پر قرآن ساکت ہے، کوئی قانون بنائے۔
۱۳۔ قدیم زمانے میں تو شاید یہ درست تھا کہ اجتہاد کو چند فقہا تک محدود کر دیا جائے کیوں کہ لوگوں میں آزادانہ اور عمومیت کے ساتھ علم نہیں پھیلایا جاتا تھا۔ لیکن موجودہ زمانے میں یہ فریضہ باشندوں کے نمایندوں کو انجام دینا چاہیے کیوں کہ قرآن کا پڑھنا اور سمجھنا اور اس کے عام اصولوں کو حالات پر منطبق کرنا ایک یا دو اشخاص کا مخصوص استحقاق نہیں ہے، بلکہ تمام مسلمانوں کا فرض اور حق ہے اور یہ کام ان لوگوں کو انجام دینا چاہیے جنھیں عام مسلمانوں نے اس مقصد کے لیے منتخب کیا ہو۔