سوال : کیا غیر محرم اعزہ(مثلاً چچا زاد بھائی یا خالو جب خالہ زندہ ہوں) کے سامنے ہونا جائز ہے؟ اگر جائزہے تو کن مواقع کے لیے اور کن طریقوں کے ساتھ جائزہے؟
جواب: سامنے ہونے کے دو مطلب ہیں۔ایک مطلب تو یہ ہے کہ اس طرح کی آزادی اور بنائو سنگھار کے ساتھ سامنے ہونا، جیسے باپ بھائی وغیرہ کے سامنے ہوا جاتا ہے، اور بے تکلف بیٹھ کر بات چیت کرنا، ہنسنا بولنا،حتیٰ کہ تنہائی تک میں ساتھ رہنا۔یہ چیز کسی قسم کے غیر محرم مردوں کے ساتھ بھی جائز نہیں ہے،خواہ وہ اجنبی ہوں یا رشتہ دار۔ دوسر امطلب اس کا یہ ہے کہ عورت اپنی زینت کو چادرو غیرہ سے چھپا کر، نیز سر کو ڈھانک کر صرف چہر ہ اور ہاتھ کھولے ہوئے کسی کے سامنے آئے، اور وہ بھی اپنے آپ کو دکھانے کی غرض سے نہیں بلکہ ان ناگزیر ضرورتوں کو پورا کرنے کی غرض سے جو مشترک خاندانی معاشرت میں پیش آتی ہیں۔ مگر آزادی کے ساتھ بیٹھ کر خلاملانہ کرے۔ خلوت میں بھی اس کے ساتھ نہ رہے، اور صرف اس طرح سامنے ہو کہ مثلاًاس کے سامنے سے گزر جائے یا کوئی ضروری بات ہو تو پوچھ لے یا بتادے۔اس حد تک غیر محرم اعزہ کے سامنے ہونے کی شرعاًاجازت ہے یا کم ازکم ممانعت نہیں ہے۔بہرحال چچا زاد بھائیوں اور خالہ زاد بھائیوں کے ساتھ جوہنسی مذاق اور انتہائی بے تکلفی آج مسلمانوں کے گھروں میں رائج ہے اور جس طرح مسلمان لڑکیاں اس قسم کے عزیزوں کے سامنے بنی ٹھنی رہتی ہیں، شریعتِ اسلامیہ میں ان بے اعتدالیوں کے لیے کوئی وجہ جواز نہیں ہے۔ (ترجمان القرآن ، اگست 1946ء)
سوال: اگر کسی غیر محرم رشتہ دار کے ساتھ ایک ہی مکان میں مجبوراًرہنا ہو یا کوئی غیر محرم عزیز بطور مہمان آرہے ہوں تو ایسی حالت میں پردہ کس طرح کیا جاسکے گا؟اسی طرح کسی قریبی عزیز کے ہاں جانے پر اگر زنانے سے بلاوا آئے تو کیا صورت اختیارکی جائے؟
جواب: ایسے حالات میں اگر شریعت کی پابندی کا ارادہ دونوں طرف موجود ہو تو صحیح راہ عمل یہ ہے کہ جب کوئی غیر محرم عزیز گھر میں آئے تو شرعی قاعدے کے مطابق استیذان(طلب اجازت) کرے۔{ افسوس ہے کہ قرآن وسنت کے حکمِ استیذان کو آج مسلمانوں نے اپنی معاشرت سے بالکل ہی خارج کردیا ہے اور اجازت مانگے بغیر گھر میں گھس آنے کو بے تکلفی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔حالاں کہ شرعاً خود گھر کے مردوں حتیٰ کہ باپوں، بیٹوں اور بھائیوں کو بھی لازم ہے کہ جب وہ گھر میں داخل ہونے لگیں تو کم ازکم کھنکھار دیں یا کوئی ایسی آواز کردیں جس سے گھر کی عورتوں کو معلوم ہوجائے کہ کوئی مرد آرہا ہے۔
} پھر جب ایسی آواز آئے تو عورت کو چاہیے کہ کوئی چیز اوڑھ کر اپنی زینت کو چھپا لے اور ذرا اپنا رخ بدل لے یا پیٹھ موڑ لے۔ اگر بالکل ناگزیر ہو تو چہرہ اور ہاتھ غیر محرم عزیز کے سامنے ظاہر ہونے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ اسی طرح بضرورت سادگی کے ساتھ بات کرلینے میں بھی کوئی حرج نہیں۔البتہ خلا ملا اور بے تکلفی اور ہنسی مذاق بالکل ناجائز ہے۔
(ترجمان القرآن ، اگست1946ء)