(میرے پاس چند طویل سوالنامے آئے ہوئے ہیں جن میں بعض اصحاب کے اعتراضات کا ذکر کرکے ان کا جواب مانگا گیا ہے میرے لیے ان معترضین کا حریف بننا تو مشکل ہے۔ لیکن جب ذاتی بغض و عناد کی بنا پر شرعی مسائل میں کھینچ تان کی جانے لگے تو اس کی اصلاح ناگزیر محسوس ہوتی ہے تاکہ عوام الناس اور متوسط تعلیم یافتہ لوگ ان مسائل کو سمجھنے میں غلطی نہ کر جائیں۔ اس لیے میں ان سوال ناموں میں سے اصل بنیادی نکات بطور خلاصہ نکال کر صرف ان کا جواب دے رہا ہوں۔
ذیل میں صرف ان سوالات کا جواب دیا جا رہا ہے جو غیبت کے مسئلے سے متعلق ہیں۔
سوال- (۱) غیبت کی صحیح تعریف کیا ہے؟
(۲) غیبت کی یہ تعریف کہاں تک صحیح ہے:
’’آدمی کسی کے پیٹھ پیچھے اس کی کسی واقعی برائی کا، اس کی تحقیر و تذلیل کی نیت سے چرچا کرے اور ساتھ ہی اس بات کا خواہش مند ہو کہ جس کی وہ برائی بیان کر رہا ہے اس کو اس کے اصل فعل کی خبر نہ ہو۔‘‘
واضح رہے کہ یہ تعریف اس دعوے کے ساتھ پیش کی گئی ہے کہ ’’حدیث میں حضور سے غیبت کی جو تعریف منقول ہے اس میں غایت درجہ ایجاز ہے جس کے سبب سے ایک آدمی کو غیبت کے حدود معین کرنے میں غلط فہمیاں پیش آ سکتی ہیں‘‘ اور یہ کہ حضور کی بیان کردہ تعریف ’’غیبت کی جامع و مانع منطقی تعریف‘‘ نہیں ہے۔
(۳) غیبت کی وہ کیا صورتیں ہیں جن کو شریعت میں جائز قرار دیا گیا ہے اور کیوں؟ ان کا جواز آیا اس بنیاد پر ہے کہ وہ سرے سے غیبت ہی نہیں ہیں، یا اس بنیاد پر کہ ضرورۃً ایک ناجائز چیز جائز کی گئی ہے؟
(۴) کیا یہ صحیح ہے کہ محدّثین نے رواۃ کی جرح و تعدیل کا کام قرآن مجید کی اس آیت کے تحت کیا ہے:
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ جَاءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَيَّنُوْٓا
(۵) محدّثین خود اپنے اس کام کے متعلق کیا کہتے ہیں؟
غیبت کی تعریف جو صاحب شریعت نے بیان فرمائی
پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ غیبت کی صحیح تعریف وہی ہے جو خود صاحب شریعتؐ نے بیان فرمائی ہے۔ مسلم، ابودائود اور ترمذی میں حضرت ابوہریرہؓ سے وہ ان الفاظ میں منقول ہے:
ذِکْرَکَ اَخَاکَ بِمَا یَکْرَہُ، قِیْلَ اَفَرَأَیْتَ اِنْ کَانَ فِیْ اَخِیْ مَا اَقُوْلُ، قَالَ اِنْ کَانَ فِیْہِ مَا تَقُوْلُ فَقَدِ اِغْتَبْتَہٗ وَاِنْ لَّمْ یَکُنْ فِیْہِ مَاتَقُوْلُ فَقَدْ بَھَتَّہٗ۔
غیبت یہ ہے کہ تو اپنے بھائی کا ذکر ایسے طریقے سے کرے جو اس کو برا محسوس ہو۔ عرض کیا گیا کہ حضورؐ کا کیا خیال ہے اگر میرے بھائی میں واقعی وہ برائی موجود ہو؟ فرمایا اگر اس میں وہ برائی ہو جس کا تو ذکر کر رہا ہے تو تو نے اس کی غیبت کی اور اگر اس میں وہ برائی موجود نہیں ہے جس کا تو نے ذکر کیا ہے تو تو نے اس پر بہتان لگایا۔
اسی مضمون کی ایک روایت امام مالک نے مؤطّاء میں مطلَّبِ بن عبداللہ سے نقل کی ہے۔
اَنَّ رَجُلاً سَئَلَ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، مَا الْغِیْبَۃُ فَقَالَ اَنْ تَذْکُرَ مِنَ الْمَرْئِ مَا یَکْرَہُ اَنْ یَّسْمَعَ قَالَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ وَاِنْ کَانَ حَقًّا، قَالَ اِذَا قُلْتَ بَاطِلاً فَذَالِکَ الْبُہْتَانُ۔
ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا غیبت کیا چیز ہے۔ فرمایا یہ کہ تو کسی چیز کا ذکر اس طرح کرے کہ اگر وہ سنے تو اسے برا معلوم۱؎ ہو؟ اس نے عرض کیا یا رسول اللہ اگرچہ وہ بات حق ہو؟ فرمایا اگر تو باطل کہے تو یہی بہتان ہے۔
علما کے نزدیک غیبت کا شرعی مفہوم
اس ارشادِ نبوی کے اتباع میں اکابر اہلِ علم غیبت کا شرعی مفہوم یہی بتاتے ہیں کہ وہ آدمی کی غیرموجودگی میں اس کا ذکر برائی کے ساتھ کرنا ہے۔
امام غزالی کہتے ہیں: حد الغیبۃ ان تذکر اخاک بما یکرہہٗ لو بلغہ۔غیبت کی تعریف یہ ہے کہ تم اپنے بھائی کا ذکر اس طرح کرو کہ اگر اسے بات پہنچ جائے تو اس کو ناگوار ہو۔
ابن الاثیر نے حدیث کی مشہور لغت نہایہ میں اس کی تعریف یہ کی ہے:- ان تذکر الانسان فی غیبۃ بسوء وان کان فیہ ۔ کہ تم کسی شخص کا ذکر اس کے پیٹھ پیچھے برائی کے ساتھ کرو۔ اگرچہ وہ برائی اس میں ہو۔
امام نووِی اس کی تعریف یوں بیان کرتے ہیں کہ: ذکر المرء بما یکرھہ … سواء ذکرتہ باللفظ اور بالاشارۃ و الرمز۔ آدمی کا ذکر اس طرح کرنا کہ وہ اسے ناگوار ہو، خواہ یہ ذکر صراحتاً کیا جائے یا رمز و اشارے میں۔
راغب اصفہانی کہتے ہیں: ہی ان یذکر الانسان عیب غیرہ من غیر محوج الی ذکر ذالک۔ غیبت یہ ہے کہ آدمی کسی شخص کا عیب بیان کرے بغیر اس کے کہ اس ذکر کی کوئی حاجت ہو۔
بدر الدین عینی شارح بخاری کہتے ہیں: الغیبۃ ان یتکلم خلف انسان بما یغمہ لو سمعہ و کان صدقًا اما اذا کان کذبا فیسمی بہتانا۔ غیبت یہ ہے کہ آدمی دوسرے شخص کے پیٹھ پیچھے اس کے متعلق ایسی بات کہے جسے اگر وہ سنے تو اسے رنج پہنچے اور بات وہ سچی ہو۔ ورنہ اگر بات جھوٹی بھی ہو تو اس کا نام بہتان ہے۔
ابن التین کہتے ہیں: الغیبۃ ذکر المرء بما یکرھہ بظہر الغیب۔غیبت سے مراد ہے آدمی کے پیٹھ پیچھے اس کا ذکر اس طرح کرنا کہ اسے ناگوار ہو۔
کرمانی کی بیان کردہ تعریف یہ ہے: الغیبۃ ان تتکلم خلف الانسان بما یکرھہ لو سمعہ ولو کان صدقًا۔غیبت یہ ہے کہ تم آدمی کے پیٹھ پیچھے اس کے متعلق ایسی بات کہو جسے اگر وہ سن لے تو اسے برا محسوس ہو۔ اگرچہ بات وہ سچی ہو۔
ابن حجر غیبت اور نمیمہ (چغلی) کے متعلق کہتے ہیں: الغیبۃ توجد فی بعض صور النمیمۃ وھو ان یذکرہ فی غیبۃ بما فیہ مما یسوئُ ہ قاصدًا بذٰلک الافساد۔ غیبت چغلی کی بھی بعض صورتوں میں موجود ہوتی ہے اور وہ یہ ہے کہ آدمی کسی کا واقعی عیب اس کی پیٹھ پیچھے بیان کرتا ہے جو اس کے لیے موجب ِرنج ہوتا ہے اور اس بیان سے اس کی غرض فساد ڈلوانا ہوتی ہے۔
ان ائمۂ لغت و حدیث و فقہ میں سے کسی نے بھی یہ جسارت نہیں کی ہے کہ ایک امر شرعی کی جو تعریف صاحب شریعت نے خود بیان کر دی تھی اس کو ناقص ٹھہرا کر جواب میں اپنی ایک تعریف پیش کرتا۔ درحقیقت شارع سے بڑھ کر کسی کو بھی یہ حق نہیں پہنچتا کہ شریعت کی کسی اصطلاح کا مفہوم بیان کرے اور جبکہ شارع نے ایک واضح سوال کا بالکل واضح الفاظ میں جواب دے دیا ہے تو ایک مسلمان کی حیثیت سے ہمیں یہی ماننا چاہیے کہ اس کا حقیقی مفہوم وہی ہے۔ مسلمان تو درکنار، ایک غیر مسلم بھی، اگر وہ کوئی معقول آدمی ہے، یہ کہنے کی جرأت نہیں کر سکتا کہ شریعت کی ایک اصطلاح کا صحیح مفہوم وہ نہیں ہے جو صاحب شریعت نے بیان کیا ہے بلکہ وہ ہے جو میں بیان کرتا ہوں۔ یہ ایسی ہی غیر معقول بات ہے جیسے ایک مجلس قانون ساز اپنے وضع کردہ قانون کی کسی اصطلاح کا مفہوم خود متعیّن کر دے اور کوئی صاحب اپنی قانون دانی کے زعم میں فرمائیں کہ قانون مذکور میں اس چیز کی اصل تعریف وہ نہیں ہے جو لیجسلیچر نے بیان کی ہے بلکہ یہ ہے جو میں عرض کرتا ہوں۔
معترضین کی بیان کردہ تعریف غیبت کی خامیاں
دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ غیبت کی جو تعریف آپ نے نقل کی ہے وہ نہ جامع ہے نہ مانع۔ اس میں بعض ایسی غیبتیں داخل ہو جاتی ہیں جو بالا تفاق مباح ہیں اور بعض ایسی غیبتیں اس سے خارج ہو جاتی ہیں جو بالا تفاق حرام ہیں۔ مثال کے طور پر دیکھیے۔ ایک شخص کسی کے ہاں نکاح کا پیغام دیتا ہے۔ آپ کو معلوم ہے کہ یہ ایک بدخو، بدکردار آدمی ہے۔ آپ لڑکی کے باپ سے جا کر کہتے ہیں کہ یہ شخص ایسا اور ایسا ہے۔ آپ کی نیت یہ ہوتی ہے کہ وہ اس شخص کو برا آدمی جان کر اپنی دامادی کے قابل نہ سمجھے۔ اور ساتھ ہی آپ لڑکی کے باپ سے بتا کید یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ دیکھنا، اس شخص کو خبر نہ ہو کہ میں نے اس کے حالات آپ کو بتائے ہیں۔ یہ چیز اگرچہ بربنائے ضرورت شریعت میں مباح کی گئی ہے لیکن یہ پوری طرح ’’غیبت محرّمہ فی الشرع‘‘ کی اس تعریف میں آ جاتی ہے جو آپ نے نقل فرمائی ہے۔ کیونکہ اس میں تحقیر کا ارادہ اور اخفا دونوں موجود ہیں۔ دوسری طرف ایک ایسا شخص ہے جو محض لذتِ کلام اور لطیفہ گوئی کی خاطر اپنے یار دوستوں میں بیٹھ کر بعض لوگوں کے عیوب بیان کرتا ہے۔ اس کی نیت ان کی تحقیر کی نہیں ہوتی (چاہے وہ لوگ حقیقت میں سننے والوں کی نگاہ سے گر ہی کیوں نہ جائیں) اور اسے اس بات کی بھی پروا نہیں ہوتی کہ ان لوگوں کو اس کی یہ باتیں پہنچ جائیں۔ یہ چیز شریعت میں بلاشبہ حرام ہے لیکن یہ غیبت حرام کی اس تعریف سے خارج رہتی ہے، کیونکہ اس میں نہ تحقیر کی نیت موجود ہے نہ اخفا کی خواہش و کوشش۔
یہی نہیں، جس چیز کو خود شارع نے بصراحت غیبت ِحرام قرار دیا ہے، وہ بھی اس تعریف کے حدود سے خارج ہو جاتی ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ ماعِز بن مالک اسلمی کو زنا کے جرم میں جب رجم کر دیا گیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے راہ چلتے دو صاحبوں کو ایک دوسرے سے باتیں کرتے سنا۔ ان میں سے ایک صاحب کہہ رہے تھے کہ اس شخص کو دیکھو، اللہ نے اس کا پردہ ڈھانک دیا تھا مگر اس کے نفس نے اس کا پیچھا اس وقت تک نہ چھوڑا جب تک یہ کتے کی موت نہ مار دیا گیا۔ کچھ دور آگے جا کر راستے میں ایک گدھے کی لاش سڑتی ہوئی نظر آئی۔ حضورؐ رک گئے اور ان دونوں اصحاب کو بلا کر فرمایا اتریئے اور اس گدھے کی لاش تناول فرمایئے۔ انہوں نے عرض کیا، یا رسول اللہ اسے کون کھائے گا؟ فرمایا فَمَا نَلْتُمَا مِنْ عِرْضِ اَخِیْکُمَا اٰنِفًا اَشَدُّ مِنْ اَکْلٍ مِنْہ ابھی ابھی آپ لوگ اپنے بھائی کی عزت پر جو حرف زنی کر رہے تھے وہ اس گدھے کی لاش کھانے سے بہت زیادہ بری تھی۔ (ابو دائود۔ کتاب الحدود، باب رجم ماعز) اس واقعہ میں صاحب شریعت علیہ السّلام نے خود حرمت کی صراحت فرمائی ہے، حالانکہ اس میں سے غیبت محرّمہ کی وہ دونوں شرطیں غائب ہیں جو مذکورہ بالا تعریف میں بیان ہوئی ہیں۔ دونوں صاحبوں کی جو گفتگو روایت میں منقول ہوئی ہے اس کے الفاظ سے صاف ظاہر ہے کہ ان کی نیت حضرت ماعز کی تحقیر و تذلیل کی نہ تھی بلکہ وہ اس بات پر اظہارِ افسوس کرنا چاہتے تھے کہ جب اللہ تعالیٰ نے ان کے جرم پر پردہ ڈال دیا تھا تو انھوں نے کیوں بار بار اصرار کرکے اقرارِ جرم کیا اور رجم کی ہولناک سزا میں جان دی۔ رہی اخفا کی خواہش و کوشش تو اس کا یہاں سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ جس شخص کا ذکر کیا جا رہا تھا وہ دنیا سے رخصت ہو چکا تھا۔
حرام و ممنوع اشیا کے جائز ہونے کا ضابطہ
تیسرے سوال کا جواب دینے سے پہلے میں ضروری سمجھتا ہوں کہ ایک بات اچھی طرح آپ کے ذہن نشین ہو جائے۔ شریعت میں جو چیزیں حرام و ممنوع کی گئی ہیں وہ اگر کسی حالت میں جائز ہوتی ہیں تو اس بنا پر نہیں کہ ان کی حقیقت میں کوئی تغیّر ہو جاتا ہے بلکہ اس بنا پر کہ ایک عظیم تر مصلحت و ضرورت ان کے جواز کا تقاضا کرتی ہے۔ وہ مصلحت و ضرورت داعی نہ ہوتی تو وہ حرام ہی رہتیں۔ جب تک اور جس حد تک اس مصلحت و ضرورت کا تقاضا رہتا ہے اس وقت تک اور اسی حد تک وہ جائز ہوتی اور جائز رہتی ہیں۔ اس کے مرتفع ہوتے ہی ان اشیا کی حرمت اپنی جگہ واپس آ جاتی ہے۔ مثال کے طور پر مُردار، خون، سور، شراب اور ما اُھِلَّ لِغیر اللہ بہٖ کو اللہ نے حرام کیا ہے۔ انسانی جان بچانے کے لیے اگر ان میں سے کسی کو عارضی طور پر مباح کیا جاتا ہے تو اس بنا پر نہیں کہ اس وقت مردار مردار نہیں رہتا، یا خون غیر خون ہو جاتا ہے، یا سؤر بکرا ہو جاتا ہے۔ اس اباحت کی وجہ صرف یہ ہوتی ہے کہ انسانی جان کی ہلاکت ان حرام چیزوں کے استعمال سے زیادہ بڑی برائی ہے۔ اس برائی سے بچنے کے لیے جس وقت جس حد تک ان کا استعمال ناگزیر ہو جاتا ہے اسی وقت اور اسی حد تک ان کو کھا لینا مباح کر دیا جاتا ہے۔ مگر ان کی حرمت برابر یہ تقاضا کرتی رہتی ہے کہ حد ضرورت سے ذرّہ برابر تجاوز نہ کیا جائے۔
اس اصولی حقیقت کو نگاہ میں رکھ کر اب آپ تیسرے مسئلے پر غور کیجیے۔ صاحبِ شریعت کی بیان کردہ تعریف کی رو سے کسی شخص کی غیرموجودگی میں اس کا ذکر برائی کے ساتھ کرنا بجائے خود ایک برا کام ہے اور شرعاً ایک گناہ۔ بدی اگر کسی وقت جائز یا نیکی یا کارِ ثواب ہو سکتی ہے تو صرف اس بنا پر کہ ایک حقیقی ضرورت اس کے لیے داعی ہو۔ ایسی ضرورت جسے پورا نہ کرنے سے غیبت کی قباحت سے بڑی قباحت لازم آتی ہو۔ ایسی حالت میں اس کے جواز کی وجہ یہ نہیں ہے کہ وہ سرے سے غیبت ہی نہیں ہے۔ یا وہ اصلاً حرام نہیں ہے بلکہ اس کی وجہ صرف عملی زندگی کی وہ ضروریات ہیں جو شریعت کی نگاہ میں عظیم تر قدر رکھتی ہیں۔ ان ضروریات میں سے کوئی ضرورت داعی نہ ہو تو پیٹھ پیچھے بدگوئی کوئی بھلا کام نہیں ہے کہ شریعت اسے بلاضرورت مباحِ مطلق بنا کر رکھے۔
غیبت سے استثنا کی بنیاد
غیبت کی حرمت سے جو چیزیں مستثنیٰ ہیں ان کی اوّلین بنیاد صاحب شریعت کا یہ اصولی ارشاد ہے:
عَنْ سَعِیْدِ بْنِ زَیْدٍ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ اِنَّ مِنْ اَرْبَی الرِّبَا اَلْاِسْتِطَالَۃُ فِیْ عِرْضِ الْمُسْلِمِ بِغَیْرِ حَقٍّ۔ (ابو دائود، کتاب الادب)
سعید بن زید نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا کہ بدترین زیادتی مسلمان کی عزت پر حرف زنی کرنا ہے بغیر حق کے۔
یہ ’’بغیر حق کے‘‘ کی قید اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ بربنائے حق ایسا کرنا جائز ہے۔ پھر اس حق کی تشریح حضورؐ کی سنّت کے بعض نظائر اس طرح کرتے ہیں۔
ایک اعرابی آ کر حضورؐ کے پیچھے نماز میں شریک ہوا اور نماز ختم ہوتے ہی یہ کہتا ہوا چل دیا کہ خدایا مجھ پر رحم کر اور محمدؐ پر، اور ہم دونوں کے سوا کسی کو اس رحمت میں شریک نہ کر۔ حضورؐ نے صحابہ سے فرمایا: اَتَقُوْلُوْنَ ہُوَ اَضَلُّ اَمْ بَعِیْرَہٗ اَلَمْ تَسْمَعُوْا اِلٰی مَا قَالَ تم لوگ کیا کہتے ہو، یہ شخص زیادہ نادان ہے یا اس کا اونٹ؟ تم نے سنا نہیں یہ کیا کہہ رہا تھا۔ (ابودائود)
حضورؐ حضرت عائشہؓ کے ہاں تھے کہ ایک شخص نے آ کر ملاقات کی اجازت طلب کی۔ حضورؐ نے فرمایا: یہ اپنے قبیلے کا بہت برا آدمی ہے۔ پھر آپؐ باہر تشریف لے گئے اور اس سے بڑی نرمی کے ساتھ بات کی۔ گھر میں جب واپس تشریف لائے تو حضرت عائشہؓ نے عرض کیا آپ نے تو اس سے بڑی نرمی کے ساتھ بات کی حالانکہ جاتے وقت آپ نے اس کے متعلق وہ کچھ کہا تھا۔ فرمایا: اِنَّ شَرَّ النَّاسِ مَنْزِلَۃً عِنْدَ اللّٰہِ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ مَنْ وَدَّعَہٗ اَوْ تَرَکَہُ النَّاسُ اِتِّقَآئَ فُحْشِہخدا کے نزدیک قیامت کے روز بدترین مقام اس شخص کا ہو گا جس کی بدزبانی سے ڈر کر لوگ اس سے ملنا جلنا چھوڑ دیں۔ (بخاری و مسلم)
فاطمہ بنت قیس کی روایت ہے کہ حضرت معاویہؓ اور ابوالجہمؓ نے ان کو نکاح کا پیغام دیا۔ انھوں نے حضورؐ سے رائے پوچھی۔ فرمایا اَمَّا مَعَاوِیَۃُ فَصَعْلُوْکٌ لَا مَالَ لَہٗ وَاَمَّا اَبُوالْجُہْمِ فَضَرَّابٌ لِلنِّسَآئ معاویہ مفلس ہیں اور ابوالجہم بیویوں کو بہت مارا کرتے ہیں۔
(بخاری و مسلم)
ابو سفیان کی بیوی ہند نے آ کر حضورؐ سے عرض کیا کہ ابوسفیان بخیل آدمی ہیں مجھے اور میری اولاد کو اتنا نہیں دیتے جو ضروریات کے لیے کافی ہو۔(بخاری و مسلم)
غیبت ِمباحہ کی صورتیں
اس طرح کی نظیروں سے فقہا و محدّثین نے یہ قاعدہ اخذ کیا ہے کہ جس ’’حق‘‘ کی بنا پر آدمی کی برائی کرنا جائز ہے اس سے مراد وہ حقیقی ضروریات ہیں جن کے لیے ایسا کرنے کے سوا چارہ نہ ہو۔ پھر اس قاعدے کی بنا پر وہ تعیُّن کے ساتھ چند صورتیں بیان کرتے ہیں کہ ان میں غیبت کی جا سکتی ہے یا کرنی چاہیے۔ علاّمہ ابن حجر اپنی شرح بخاری میں ان صورتوں کو یوں بیان فرماتے ہیں:
علما کہتے ہیں کہ غیبت ہر اس غرض کے لیے مباح ہے جو شرعاً صحیح ہو جب کہ اس غرض کے حصول کا راستہ صرف یہی ہو۔ مثلاً ظلم کے خلاف استغاثہ، کسی برائی کو دور کرنے کے لیے مدد طلب کرنا، کسی شرعی مسئلے میں استفتا‘ حصولِ انصاف کے لیے عدالت سے رجوع‘ کسی کے شر سے لوگوں کو خبردار کرنا اور اسی میں حدیث کے راویوں کی پردہ دری اور گواہوں پر جرح بھی آ جاتی ہے، کسی حاکم عام کو اس کے کسی ماتحت افسر کی بری سیرت سے آگاہ کرنا، نکاح اور معاملات میں مشورہ طلب کرنے والے کو صحیح حال بتانا، کسی متعلم فقہ کو کسی مبتدع اور فاسق کے پاس آتے جاتے دیکھ کر اس کی بری سیرت سے خبردار کرنا، اس کے علاوہ جن لوگوں کی غیبت جائز ہے وہ، وہ لوگ ہیں جو علانیہ فسق، ظلم اور بدعات کا ارتکاب کرتے ہوں۔ ( فتح الباری جلد ۱۰ ص ۳۶۲)
امام نووی نے شرحِ مسلم اور ریاض الصالحین میں اس مضمون کو اور زیادہ کھول کر بیان کیا ہے۔
غیبت کسی ایسی غرض کے لیے مباح ہے جو شرعاً صحیح ہو اور جس کا پور اہونا اس غیبت کے بغیر ممکن نہ ہو۔ اس نوعیت کی چھ اغراض ہیں جو علما نے بیان کی ہیں۔ ان میں سے اکثر پر اجماع ہے اور ان کے دلائل مشہور احادیث سے ماخوذ ہیں:
(۱) ظلم پر فریاد، مظلوم کے لیے جائز ہے کہ سلطان قاضی ، یا جو بھی ظالم سے اس کو انصاف دلوانے کی قدرت رکھتا ہو اس کے پاس فریاد لے کر جائے اور کہے کہ فلاں شخص نے مجھ پر یہ زیادتی کی ہے۔
(۲) کسی برائی کو دور کرنے یا کسی عاصی کو راہِ راست پر لانے کے لیے کسی ایسے شخص سے مدد طلب کرنا جس سے امید ہو کہ وہ اسے روک سکتا ہے۔ اس غرض کے لیے آدمی اس سے کہہ سکتا ہے کہ فلاں شخص ایسا اور ایسا کرتا ہے اسے روکیے۔ اس سے مقصود ازالۂ منکر ہونا چاہیے، ورنہ یہی فعل حرام ہے۔
(۳) استفتا- مثلاً کوئی مفتی سے کہے کہ فلاں شخص نے میرے ساتھ یہ زیادتی کی ہے، یا میرا باپ یا بھائی یا شوہر ایسا اور ایسا ہے، میرے لیے خلاص کی کیا راہ ہے۔ اگرچہ اس معاملے میں بہتر یہ ہے کہ شخص کا تعیّن کیے بغیر پوچھا جائے کہ ایسے شخص کے بارے میں کیا فتویٰ ہے جو یہ اور یہ کرتا ہو۔ لیکن تعیّن شخص کے ساتھ بھی سوال کیا جا سکتا ہے جس طرح ابوسفیان کے متعلق ہند نے سوال کیا تھا۔
(۴) مسلمانوں کو شر سے خبردار کرنا۔ اس کی کئی صورتیں ہیں مثلاً مجروح راویوں پر، گواہوں پر اور مصنّفین پر جرح، یہ بالا جماع جائز ہے بلکہ شریعت کو تحریف سے بچانے کی خاطر واجب ہے۔ اسی قبیل سے یہ بات ہے کہ کوئی شخص کسی سے شادی بیاہ کا رشتہ یا شرکت کا معاملہ کر رہا ہو یا کسی کے پاس امانت رکھوانا چاہتا ہو یا کسی کے پڑوس میں مکان لینا چاہتا ہو اور کسی سے اس کے متعلق مشورہ کرے۔ اس صورت میں مشاور کے لئے واجب ہے کہ خیر خواہی کی بنا پر اس شخص کا جو عیب اسے معلوم ہو وہ اسے بتا دے۔ اسی قبیل سے یہ ہے کہ تم کسی متعلم فقہ کو دیکھو کہ وہ کسی فاسق یا مبتدع کے پاس علم حاصل کرنے کے لیے جا رہا ہے اور تم کو اندیشہ ہو کہ وہ اس کے لیے نقصان دہ ہو گا تو تمھارے لیے لازم ہے کہ نصیحت کے ارادے سے اس کو خبردار کر دو۔ اسی طرح اگر کوئی حاکم نااہل یا فاسق ہو تو تم اس کے حاکم اعلیٰ سے اس کی حالت بیان کر سکتے ہو تاکہ وہ اس سے دھوکا نہ کھائے اور اپنا انتظام درست کرے۔
(۵) کوئی شخص علانیہ فسق اور بدعت کا مرتکب ہو، شراب نوشی کرے یا لوگوں کے مال ناروا طریقوں سے وصول کرے یا باطل کاموں پر کمربستہ ہو تو جائز ہے کہ علانیہ اس کی برائی کی جائے۔
(۶) کوئی شخص لنگڑے ، یا ٹھنگنے یا نابینا یا ایسے ہی دوسرے القاب سے معروف ہو تو یہ القاب اس کے لیے بغرض تعریف استعمال کرنے جائز ہیں نہ بغرض تنقیص۔ اور اگر اس کا ذکر اس کے بغیر ممکن ہو جس سے لوگ جان سکیں کہ تم کس کا ذکر کرنا چاہتے ہو تو پھر ان القاب سے اجتناب بہتر ہے۔۱؎
ا ن دونوں بزرگوں کے بیانات سے دو باتیں ظاہر ہیں۔ ایک یہ کہ غیبت کی جن صورتوں کو جائز یا واجب کہا گیا ہے ان کے جواز یا وجوب کی وجہ یہ نہیں ہے کہ وہ سرے سے غیبت ہی نہیں ہیں بلکہ اس کی وجہ صحیح شرعی اغراض اور ضروریات ہیں جن کی خاطر ایک فی الاصل حرام چیز تا بحد ضرورت جائز یا واجب قرار دی گئی ہے۔ دوسرے یہ کہ سنّت سے جو نظائر ثابت ہیں علمائے اسلام نے اس حرام چیز کے جواز کو انھی کی حد تک محدود نہیں رکھا ہے بلکہ ان سے چند اصول عامہ اخذ کرکے متعدّد ایسی عملی ضرورتوں کے لیے اس کے جواز اور وجوب کا فتویٰ دیا ہے جن کی نظیر سنّت میں نہیں ہے۔
محدّثین کی جرح و تعدیل کی بنیاد
اب چوتھے سوال کو لیجیے۔ جس آیت کے متعلق کہا جاتا ہے کہ محدّثین نے جرح و تعدیل کا سارا کام اسی کی بنیاد پر کیا ہے، اس کے الفاظ یہ ہیں۔
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ جَاۗءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَيَّنُوْٓا اَنْ تُصِيْبُوْا قَوْمًۢا بِجَــہَالَۃٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰي مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِيْنَo الحجرات49:6
اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، اگر کوئی فاسق تمھارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو تحقیق کر لو (کہ خبر صحیح ہے یا نہیں) کہیں ایسا نہ ہو کہ ناواقفیت کی بنا پر تم کسی گروہ کو گزند پہنچا دو اور پھر اپنے کیے پر پچھتائو۔
اس آیت کا مفادیہ ہے کہ ’’جب کوئی فاسق آدمی خبر لائے تو اس پر کوئی کارروائی کرنے سے پہلے اس خبر کی تحقیق کرو کہ وہ صحیح ہے یا نہیں۔‘‘ حالانکہ محدّثین نے جرح و تعدیل کا جو کام کیا ہے وہ یہ ہے کہ ’’جب کوئی شخص تمھارے پاس کوئی خبر لائے تو خود اس شخص کی سیرت و کردار کا جائزہ لو اور اگر وہ بدکردار ہو تو نہ صرف اس کی خبر کو ردّ کردو بلکہ عام لوگوں میں اشتہار دے دو کہ یہ شخص بدکردار ہے۔ اس کی لائی ہوئی خبر نہ ماننا۔‘‘
ان دونوں باتوں کو آمنے سامنے رکھ کر دیکھیے، کیا آپ کی عقل یہی کہتی ہے کہ یہ مؤخر الذکر بات اس پہلی بات کے ٹھیک مطابق ہے اور اس کا کوئی حصّہ اس سے متجاوز نہیں ہے؟
دراصل یہ استدلال کرتے وقت اس بات کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی گئی کہ راویوں کی جرح و تعدیل میں محدّثین کے کام کی نوعیت کیا تھی۔ اس کام کا ایک حصّہ یہ تھا کہ جو لوگ جھوٹے، یا بدعقیدہ یا کسی حیثیت سے ساقط الاعتبار ہوں ان کی لائی ہوئی خبر تسلیم نہ کی جائے۔ دوسرا حصّہ یہ تھا کہ عام لوگوں اور خصوصیت کے ساتھ متعلمین حدیث کو ایسے راویوں سے خبردار کیا جائے اور کتابوں میں ان کے عیوب ثبت کر دیئے جائیں تاکہ آیندہ نسلیں بھی ان سے خبردار رہیں۔ مذکورہ بالا آیت اور دوسری متعدد نصوص صرف پہلے حصّے کی حد تک دلیل فراہم کرتی ہیں۔ چنانچہ امام مسلم نے مقدمۂ صحیح مسلم میں اسی حصّے کے حق میں ان سے استدلال کیا ہے۔ رہا دوسرا حصّہ تو خاص اس کے حق میں کوئی نص نہیں ہے، بلکہ اس کو غیبت مانتے ہوئے اس کے جواز اور وجوب کے حق میں تمام محدّثین نے یہی استدلال کیا ہے کہ اگر یہ کام نہ کیا جائے تو جھوٹے اور مبتدع اور ضعیف راویوں کی غلط روایات سے مسلمانوں کے دین کو نہیں بچایا جا سکتا۔ اس معاملے میں امام نَووی اور ابنِ حجر کے بیانات آپ ابھی ابھی اوپر دیکھ چکے ہیں۔ مزید تفصیل آگے آتی ہے۔
اس بارے میں محدّثین کی اپنی تصریحات
پانچویں سوال کا جواب یہ ہے کہ محدّثین میں سے کسی نے بھی اپنے کام کے دوسرے حصّے کے متعلق نہ تو یہ کہا ہے کہ یہ غیبت نہیں ہے اور نہ یہ دلیل پیش کی ہے کہ ہمارے اس کام کا حکم فلاں آیت یا فلاں حدیث میں دیا گیا ہے۔ بلکہ وہ کہتے ہیں کہ دین کو تحریف سے بچانے اور عام مسلمانوں کو ناقابلِ اعتبار راویوں کے شر سے محفوظ کرنے کے لیے اس غیبت کا ارتکاب جائز بلکہ واجب ہے۔ جس زمانے میں جرح و تعدیل کا کام شروع ہوا ہے اس وقت بڑے زوروشور سے یہ سوال اٹھا تھا کہ یہ غیبت ہے جو زندہ اور مرے ہوئے لوگوں کی کی جا رہی ہے۔ اس پر ائمہ جرح و تعدیل نے اپنی پوزیشن صاف کرنے کے لیے خود جو کچھ کہا تھا وہ ملاحظہ فرما لیجیے۔
محمد بن بندار کہتے ہیں۔ میں نے امام احمد بن حنبل سے کہا مجھے یہ بیان کرتے ہوئے بڑا ڈر لگتا ہے کہ فلاں راوی ضعیف ہے اور فلاں کذّاب ہے۔ امام نے کہا:
اذا سکت انت و سکت انا فمتی یعرف الجاہل الصحیح من السقیم؟
اگر تم بھی چپ رہو اور میں بھی چپ رہوں تو ناواقف آدمی کیسے صحیح اور غلط احادیث میں تمیز کرے؟
عبداللہ بن احمد بن حنبل کہتے ہیں کہ میرے والد احادیث اور رجال پر کلام کرتے ہوئے فرما رہے تھے فلاں ضعیف ہے اور فلاں ثقہ۔ ابوتراب بخشی نے کہا یا شیخ، علما کی غیبت تو نہ کرو۔ اس پر میرے والد نے کہا میں خیر خواہی کر رہا ہوں، غیبت نہیں کر رہا ہوں۔
عبداللہ بن مبارک نے ایک راوی کے متعلق کہا وہ جھوٹی حدیثیں بیان کرتا ہے۔ ایک صوفی نے اعتراض کیا یہ آپ غیبت کر رہے ہیں۔ ابن مبارک نے جواب دیا:
اسکت، اذا لم نبین کیف یعرف الحق من الباطل ۔
خاموش رہو اگر ہم یہ باتیں نہ کھولیں تو حق اور باطل میں تمیز کیسے ہو۔
یحییٰ بن سعید القَطَّان سے کہا گیا آپ کو ڈر نہیں لگتا کہ جن لوگوں کے عیوب آپ بیان کر رہے ہیں وہ قیامت کے روز آپ کا دامن پکڑیں گے۔ انھوں نے جواب دیا ان کا دامن پکڑنا میرے لیے اس سے ہلکی بات ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم وہاں میرا دامن پکڑیں اور فرمائیں تو نے وہ حدیث میری طرف کیوں منسوب ہونے دی جسے تو جانتا تھا کہ وہ جھوٹی ہے۔
شُعبہ بن الحجاج سے کہا گیا کہ تم نے کچھ لوگوں پر جرح کرکے ان کو رسوا کر دیا ہے، اچھا ہوتا کہ تم اس سے باز رہتے۔ انھوں نے کہا مجھے آج کی رات مہلت دو تاکہ میں اپنے اور اپنے خالق کے درمیان اس پر غور کروں کہ آیا یہ کام چھوڑ دینا میرے لیے جائز ہے۔ دوسرے روز وہ نکلے اور کہا:
قد نظرت بینی و بین خالقی فلا یسعنی دون ان ابین امورہم للناس وللاسلام۔
میں نے اپنے اور اپنے خالق کے درمیان اس پر غور کیا۔ میرے لیے اس کے سوا چارہ نہیں کہ لوگوں کی بھلائی کے لیے اور اسلام کی خاطر ان راویوں کے حالات کھول دوں۔
عبدالرحمان بن مہدی کہتے ہیں میں اور شعبہ راستے سے گزر رہے تھے کہ دیکھا ایک شخص حدیث بیان کر رہا ہے۔ شعبہ نے کہا:
کذب واللّٰہ، لولا انہ لا یحل لی ان اسکت عنہ لسکتُّ۔
خدا کی قسم یہ جھوٹ کہہ رہا ہے۔ میرے لئے اس پر خاموش رہنا حلال نہیں ہے، ورنہ میں خاموش رہتا۔
انھی شعبہ کے متعدد شاگرد کہتے ہیں کہ وہ راویوں پر جرح کو ’’راہِ خدا میں غیبت‘‘ یا ’’خدا کی خاطر غیبت‘‘ کہتے تھے۔ سفیان بن عُیَنْیَہ کا بیان ہے کہ شعبہ کہا کرتے تھے تعالوا حتّٰی نغتاب فی اللّٰہ عزوجل۔آئو ذرا اللہ عزوجل کی خاطر کچھ غیبت کر لیں۔ ابوزید انصاری کہتے ہیں ایک روز ہم شعبہ کے پاس حاضر ہوئے تو وہ بولے:
آج حدیث بیان کرنے کا دن نہیں ہے، آج غیبت کا دن ہے آئو ذرا جھوٹوں کی غیبت کریں۔ ۱؎
امام مسلم نے اپنی صحیح کے مقدمے میں جرح و تعدیل کے اس کام کی حمایت کرتے ہوئے لکھا ہے:
اہلِ علم نے جس بنا پر راویانِ حدیث اور ناقلین اخبار کے عیوب کھولنے کی ذمہ داری اپنے اوپر لی اور پوچھنے والوں کو اس فعل کے جواز کا فتویٰ دیا وہ یہ تھی کہ اس کے نہ کرنے میں بڑا خطرہ تھا کیونکہ دین کے معاملے میں جتنی خبریں بھی تھیں وہ کسی چیز کو حلال اور کسی کو حرام کرتی تھیں، کسی چیز کا حکم دیتی اور کسی کو منع کرتی تھیں، کسی چیز کی ترغیب دلاتی اور کسی سے ڈراتی تھیں۔ اب اگر کسی خبر کا راوی معدن صدق و امانت نہ ہو، پھر کوئی شخص جو اس آدمی کو جانتا ہو، اس کی روایت تو نقل کر دے مگر اس کا عیب ان لوگوں کو نہ بتائے جو اسے نہیں جانتے تو وہ اپنی اس خاموشی میں گناہ گار اور عامۂ مسلمین کو دھوکا دینے والا ہو گا۔ اس صورت میں اس امر کا سخت اندیشہ ہے کہ ان خبروں کو سننے والا کوئی شخص ان پر عمل کر بیٹھے درآنحالیکہ ان میں سے بعض یا اکثر جھوٹی اور بے اصل خبریں ہوں۔
یہ ہے اس جلیل القدر محدّث کا استدلال راویوں کے معائب کی پردہ دری کے حق میں اور اس کی شرح میں امام نووی جو کچھ لکھتے ہیں وہ یہ ہے:
جان لو کہ راویوں پر جرح کرنا بالا تفاق جائز ہے بلکہ واجب ہے کیونکہ شریعت مکرمہ کو بچانے کے لیے ضرورت اس کا تقاضا کرتی ہے۔ اور یہ کام غیبت محرّمہ نہیں ہے بلکہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کی خیر خواہی کے قبیل سے ہے۔ اور فضلائے ائمہ اور ان کے اخیار اور وہ لوگ جو ان میں سے بڑے پرہیز گار تھے یہ کام کرتے رہے ہیں۔۱؎
(ترجمان القرآن۔ جون ۱۹۵۹ء)
٭…٭…٭…٭…٭