اس آیت کے الفاظ پر بار بار غور کیجیے۔ اس میں کہیں کوئی اشارہ اور کنایہ تک آپ ایسا نہ پائیں گے جس سے یہ بات نکلتی ہو کہ قرآن کی نگاہ میں تعدد ازواج فی الاصل کوئی برائی ہے اور وہ اس کی حوصلہ شکنی کرنا چاہتا ہے۔ لیکن ہمارے نئے دور کے یہ مفسرین دعویٰ کرتے ہیں کہ قرآن کا اصل مقصد تو تعدُّد ازواج کے طریقے کو مٹانا تھا، مگر چونکہ یہ بہت زیادہ رواج پاچکا تھا اس لیے اس پر صرف پابندیاں عائد کرکے چھوڑ دیا گیا، تاکہ آئندہ کسی مناسب موقع پر لوگ خود اسے ممنوع قرار دے لیں۔ سوال یہ ہے کہ ان لوگوں کو قرآن کا یہ منشا آخر کس ذریعے سے معلوم ہوا ہے؟ اگر ان کی اپنی رائے یہ ہے کہ تعدّد ازدواج فی نفسہٖ ایک بُرائی ہے تو انہیں یہ اختیار تو ضرور حاصل ہے کہ چاہیں تو قرآن کے علی الرغم اس کی مذمت کریں اور اسے موقوف کر دینے کا مشورہ دیں۔ لیکن یہ حق انہیں نہیں پہنچتا کہ اپنی رائے کو خواہ مخواہ قرآن کی طرف منسوب کریں۔ قرآن تو صریح الفاظ میں ان کو جائز قرار دیتا ہے اور اشارتاً و کنایتاً بھی اس کی مذمت میں کوئی ایسا لفظ استعمال نہیں کرتا جس سے معلوم ہو کہ فی الواقع وہ اسے ایک بُرائی سمجھتا ہے اور اس کو روکنا چاہتا ہے۔