جہاں تک عورتوں کی تعلیم کا تعلق ہے یہ اسی قدر ضروری ہے جتنی مردوں کی تعلیم۔ کوئی قوم اپنی عورتوں کو جاہل اور پسماندہ رکھ کر دنیا میں آگے نہیں بڑھ سکتی۔ اس لیے ہمیں عورتوں کی تعلیم کے لیے بھی اسی طرح بہتر سے بہتر انتظام کرنا ہے جیسا کہ مردوں کی تعلیم کے لیے۔ یہاں تک کہ ہمیں ان کی فوجی تربیّت کا بھی بندوبست کرنا ہے کیونکہ ہمارا سابقہ ایسی ظالم قوموں سے ہے جنہیں انسانیّت کی کسی حد کو بھی پھاندنے میں تامّل نہیں ہے۔ کل اگر خدانخواستہ کوئی جنگ پیش آ جائے تو نہ معلوم کیا کیا بربریّت ان سے صادر ہو۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی عورتوں کو مدافعت کے لیے بھی تیار کریں۔ لیکن ہم اوّل وآخر مسلمان ہیں اور کچھ کرنا ہے… ان اخلاقی قیود اور تہذیبی حدود کے اندر رہتے ہوئے کرنا ہے جن پر ہم ایمان رکھتے ہیں اور جن کی علمبرداری پر ہم مامور ہیں۔
ہمیں اس بات کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ ہماری تہذیب مغربی تہذیب سے بنیادی طور پر مختلف ہے۔ دونوں میں ایک نمایاں فرق یہ ہے کہ مغربی تہذیب عورت کو اس وقت تک کوئی عزت اور کسی قسم کے حقوق نہیں دیتی جب تک کہ وہ ایک مصنوعی مرد بن کر مردوں کی ذمہ داریاں بھی اٹھانے کے لیے تیار نہ ہو جائے۔ مگر ہماری تہذیب عورت کو ساری عزتیں اورتمام حقوق اسے عورت رکھ کر ہی دیتی ہے اور تمدن کی انہی ذمّہ داریوں کا بار اس پر ڈالتی ہے جو فطرت نے اس کے سپرد کی ہیں۔ اس لیے ہمارے ہاں عورتوں کی تعلیم کا انتظام ان کے فطری وظائف وضروریات کے مطابق اور مردوں سے بالکل الگ ہونا چاہیے۔ یہاں اوپر سے لے کر نیچے تک کسی سطح پر بھی مخلوط تعلیم کا کوئی سوال نہیں پیدا ہوتا۔
جہاں تک عورتوں کی تعلیم کے سلسلے میں عملی تدابیر واصلاحات کا تعلق ہے جو اصلاحات اوپر پرائمری سے اختصاصی درجوں تک بیان کی گئی ہیں، وہ عورتوں کی تعلیم میں بھی اسی طرح سے شامل ہونی چاہئیں جیسی کہ مردوں کی تعلیم میں۔ اس کے علاوہ عورتوں کی تعلیم میں اس بات کو بھی خاص طور پر ملحوظ رکھنا چاہیے کہ ان کی اصل اور فطری ذمہ داری زراعتی فارم اورکارخانے اور دفاتر چلانے کے بجائے گھر چلانے اور انسان سازی کی ہے۔ ہمارے نظام تعلیم کو ان کے اندر ایک ایسی مسلمان قوم وجود میں لانے کی قابلیّت پیدا کرنی چاہیے جو دنیا کے سامنے اس فطری نظامِ زندگی کا عملی مظاہرہ کر سکے جو خود خالقِ کائنات نے بنی نوعِ انسان کے لیے مقرر فرمایا ہے۔