ہم سے کہا جاتا ہے کہ اگر تمھیں یہی کام کرنا تھا تو ضرور کرتے، مگر تم نے ایک الگ جماعت، مستقل نام کے ساتھ کیوں بنائی؟ اس سے تو اُمّت میں انتشار پیدا ہوتا ہے۔ فی الواقع یہ ایک عجیب اعتراض ہے۔ میں حیران ہوں کہ جب دینی، یا خلافِ دین سیاست کے لیے، غیر اسلامی تعلیم کے لیے ، مذہبی دھڑے بندیوں کے لیے اور خالص دنیوی اغراض کے لیے، مغرب کے جمہوری یا فاشسٹی طریقوں پر، مسلمانوں کی انجمنیں اور جماعتیں، مستقل ناموں کے ساتھ بنتی ہیں تو انھیں ٹھنڈے دل سے برداشت کیا جاتا ہے ۔ لیکن اگر دین کے اصل کام کے لیے خالص دینی اصولوں پر کوئی جماعت بنتی ہے تو یکایک، اُمّت میں انتشار کا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے اور صرف یہی ایک جماعت سازی قابلِ برداشت نہیں ہوتی۔ اس سے شبہ ہوتا ہے کہ معترضین کو اصل میں چڑ، جماعت سازی سے نہیں، بلکہ اس بات سے ہے کہ کوئی جماعت، دین کے اصل کام کے لیے بنے۔ تاہم، مَیں ان سے عرض کروں گا کہ جماعت سازی کا قصور ہم نے مجبورًا کیا ہے نہ کہ شوقیہ۔ سب کو معلوم ہے کہ اس جماعت کی تشکیل سے پہلے مَیں برسوں اکیلا پکارتا رہا ہوں کہ مسلمانو! یہ تم کن راہوں میں اپنی قوتیں اور کوششیں صَرف کر رہے ہو۔ تمھارے کرنے کا اصل کام تو یہ ہے ، اس پر اپنی تمام مساعی مرکوز کرو۔ یہ دعوت، اگر سب مسلمان قبول کر لیتے تو کہنا ہی کیا تھا۔ مسلمانوں میں ایک جماعت بننے کے بجائے، مسلمانوں کی ایک جماعت بنتی اور کم از کم ہندستان کی حد تک وہ ’’الجماعت‘‘ ہوتی، جس کی موجودگی میں کوئی دُوسری جماعت بنانا شرعاً حرام ہوتا۔ یہ بھی نہیں تو مسلمانوں کی مختلف جماعتوں میں سے، کوئی ایک ہی اسے مان لیتی، تب بھی ہم راضی تھے ، اسی میں بخوشی شامل ہو جاتے، مگر جب پکار پکار کر ہم تھک گئے اور کسی نے سن کر جواب نہ دیا، تب ہم نے مجبورًا یہ فیصلہ کیا کہ وہ سب لوگ جو اِس کام کو حق اور فرض سمجھ چکے ہیں خود ہی مجتمع ہوں اور اس کے لیے اجتماعی سعی کریں۔
سوال یہ ہے کہ اگر یہ نہیں تو ہمیں اور کیا کرنا چاہیے تھا؟ تمھیں اگر اس کام کے فرض ہونے سے انکار ہے تو دلیلِ انکار ارشاد ہو۔ اگر انکار نہیں، تو بتائو کیا واقعی تمھاری یہ مختلف انجمنیں اور جماعتیں یہی فرض انجام دے رہی ہیں؟ اگر یہ بھی نہیں، تو کیا اب تمھارے ہاں نوبت یہ آ گئی کہ جو فرض کو پہچانے اور اسے ادا کرنے کے لیے اُٹھے، وہی اُلٹا قصور وار قرار پائے۔