امام ابو حنیفہ ؒ پہلے شخص ہیں جنھوں نے "” الفقہ الاکبر [17]”” لکھ کر ان مذہبی فرقوں کے مقابلے میں عقیدہ اہل السنت والجماعت کو ثبت کیا ۔ اس میں ہمارے موضوع سے متعلق جن سوالات سے امام نے بحث کی ہے ان میں پہلا سوال خلفائے راشدین کی پوزیشن کا ہے ۔ مذہبی فرقوں نے یہ بحث اٹھادی تھی کہ آیا ان میں سے بعض کی خلافت صحیح تھی یا نہیں ، اور ان میں سے کون کس پر افضل تھا، بلکہ ان میں سے کوئی مسلمان بھی رہا یا نہیں ۔ ان سوالات کی حیثیت محض چند سابق شخصیتوں کے متعلق ایک تاریخی را ئے نہیں تھی ، بلکہ دراصل ان سے یہ بنیادی سوال پیدا ہوتا تھا کہ جس طرح یہ خلفاء مسلمانوں کے امام بنائے گئے ، آیا اس کو اسلامی ریاست کے سربراہ کی تقرری کا آئینی طریقہ مانا جائے گا یا نہیں ۔ نیز اگر ان میں سے کسی کی خلافت کو بھی مشکوک سمجھ لیا جائے تو ا س سے یہ سوال پید اہوجاتا ہے کہ اس کے زمانے کے اجماعی فیصلے قانون اسلامی کا جز مانے جائیں گے یا نہیں ، اور اس خلیفہ کے اپنے فیصلے قانونی نظائر کی حیثیت رکھیں گے یا نہیں ۔ اس کے علاوہ ان کی خلافت کی صحت وعدم صحت اور ان کے ایمان وعدم ایمان ، حتی کہ ان میں سے بعض پر بعض کی فضیلت کا سوال بھی آپ سے آپ اس سوال پر منتہی ہوتا تھا کہ بعد کے مسلمان آیا اس ابتدائی اسلامی معاشرے پر اعتماد رکھتے ہیں اور اس کے اجتماعی فیصلوں کو تسلیم کرتے ہیں یا نہیں جو پیغمبر اسلام ﷺ کی براہ ِ راست تربیت ورہنمائی میں بنا تھا اور جس کے توسط ہی سے بعد کی نسلوں کو قرآن او رسنت پیغمبر ﷺ اور اسلامی احکام کی ساری معلومات پہنچی ہیں ۔ دوسرا سوال جماعت صحابہ رضی اللہ عنھم کی پوزیشن کا ہے جس کے سوادِ اعظم کو ایک گروہ اس بنا پر ظالم وگمراہ بلکہ کافر تک کہتا تھا کہ انھوں نے پہلے تین خلفاء کو امام بنایا ، اور جس کے افراد کی ایک بڑی تعداد کو خوارج اور معتزلہ کافر وفاسق ٹھیراتے تھے ۔ یہ سوال بھی بعد کے زمانے میں محض ایک تاریخی سوال کی حیثیت نہ رکھتا تھا ، بلکہ اس سے خود بخود یہ مسئلہ پیدا ہوجاتا تھا کہ بنی ﷺ سے جو احکام ان لوگوں کے واسطے سے منقول ہوئے ہیں وہ آیا اسلامی قانون کے مآخذ قرار پائیں گے یا نہیں ۔ تیسرا اہم اور بنیادی سوال ایمان کی تعریف ، ایمان وکفر کے اصولی فرق ، اور گناہ کے اثرات ونتائج کا تھا جس پر خوارج ، معتزلہ اور مرجیہ کے درمیان سخت بحثیں اٹھی ہوئی تھیں ۔ یہ سوال بھی محض دینیاتی نہ تھا بلکہ مسلم سوسائٹی کی ترکیب سے اس کا گہرا تعلق تھا ، کیونکہ اس کے متعلق جو فیصلہ بھی کیا جائے اس کا اثر مسلمانوں کے اجتماعی حقوق اور ان کے قانونی تعلقات پر لازما پڑتا ہے ۔ نیز ایک اسلامی ریاست میں اس سے یہ مسئلہ بھی پیدا ہوجاتا ہے کہ گناہ گار حاکموں کی حکومت میں جمعہ جماعت جیسے مذہبی کام اور عدالتوں کے قیام اور جنگ وجہاد جیسے سیاسی کام صحیح طور پر کیے جا سکیں گے یا نہیں ۔ امام ابو حنیفہ ؒ نے ان مسائل کے متعلق اہل السنت کو جو مسلک ثبت کیا ہے وہ حسب ذیل ہے :