اسلام کے ابتدائی دور کی ایک اور خصوصیت یہ تھی کہ اس زمانے میں ٹھیک ٹھیک اسلام کے اصول اور اس کی روح کے مطابق قبائلی ، نسلی ، اور وطنی عصبیتوں سے بالاتر ہوکر تمام لوگوں کے درمیان یکساں سلوک کیا گیا ۔ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد عرب کی قبائلی عصبیتیں ایک طوفان کی طرح اٹھ کھڑی ہوئی تھیں۔مدعیان نبوت کے ظہور اور ارتداد کی تحریک میں یہی عامل سب سے زیادہ موثر تھا ۔ مسیلمہ کے ایک پیرو کا قول تھاکہ "” میں جانتا ہوں کہ مسیلہم جھوٹا ہے مگر بنی ربیعہ کا چھوٹا مضر کے سچے سے اچھا ہے ۔[37]”” ایک دوسرے مدعی نبوت طلیحہ کی حمایت میں بنی عطفان کے ایک سردار نے کہا تھا کہ "” خداکی قسم ! اپنے حلیف قبیلوں کے ایک نبی کی پیروی کرنا قریش کے نبی کی پیروی سےمجھ کو زیادہ محبوب ہے ۔”” [38]خود مدینہ میں جب حضرت ابوبکر کے ہاتھ پر بیعت ہوئی تو حضر ت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے قبائلی عصبیت ہی کی بنا پر ان کی خلافت تسلیم کرنے سے اجتناب کیا تھا ۔اسی طرح حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ کو بھی عصبیت ہی کی بنا پر ان کی خلافت ناگوار ہوئی تھی اور انھوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے جاکر کہا کہ "” قریش کے سب سے چھوٹے قبیلے کا آدمی کیسے خلیفہ بن گیا ، تم اٹھنے کے لیے تیار ہو تو میں وادی کو سواروں اور پیادوں سے بھردوں ۔”” مگر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یہ جواب دے کر ان کا منہ بند کردیا کہ "” تمہاری یہ بات اسلام اور اہل اسلام کی دشمنی پر دلالت کرتی ہے ۔ میں ہر گز نہیں چاہتا کہ تم کوئی سوار اور پیادے لاؤ ۔مسلمان سب ایک دوسرے کے خیر خواہ اور آپس میں محبت کرنے والے ہوتے ہیں خواہ ان کے دیار اور اجسام ایک دوسرے سے کتنے ہی دور ہوں، البتہ منافقین ایک دوسرے کی کاٹ کرنے والے ہوتے ہیں۔ہم ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اس منصب کا اہل سمجھتے ہیں ۔اگروہ اہل نہ ہوتے تو ہم لوگ کبھی بھی انھیں اس منصب پر مامور نہ ہونے دیتے ۔””[39] اس ماحول میں جب ابوبکر رضی اللہ عنہ اور ان کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بے لاگ اور غیر متعصبانہ طریقے سے نہ صرف تمام عرب قبائل بلکہ غیر عرب نو مسلموں کے ساتھ بھی منصفانہ برتاو کیا ، اور خود اپنے خاندان اور قبیلے کے ساتھ امتیازی سلوک کرنے سے قطعی مجتنب رہے ، تو ساری عصبیتیں دب گئیں اور مسلمانوں میں وہ بین الاقوامی روح ابھر آئی جس کا اسلام تقاضا کرتا تھا ۔حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنے زمانہ خلافت میں اپنے قبیلے کے کسی شخص کو حکومت کا کوئی عہدہ نہ دیا ۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے پورے دور حکومت میں اپنے قبیلے کے صرف ایک صاحب کو جن کا نام نعمان بن عدی تھا ،بصرے کے قریب میسان نامی ایک چھوٹے سے علاقے کا تحصیل دار مقرر کیا اور اس عہدے سے بھی ان کو تھوڑی مدت بعد معزول کردیا [40]۔اس لحاظ سے ان دونوں خلفاء کا طرز عمل درحقیقت مثالی تھا ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اپنے آخری زمانے میں اس بات کا خطرہ محسوس ہواکہ کہیں ان کے بعد عرب کی قبائلی عصبیتیں ( جو اسلامی تحریک کے زبردست انقلابی اثر کے باوجود ابھی بالکل ختم نہیں ہوگئی تھیں) پھر نہ جاگ اٹھیں اور ان کے نتیجے میں اسلام کے اندر فتنے برپا ہوں۔چنانچہ ایک مرتبہ اپنے امکانی جانشینوں کے متعلق کہا :”” اگر میں ان کو اپناجانشین تجویز کروں تو وہ بنی ابی معیط ( بنی امیہ) کو لوگوں کی گردنوں پر مسلط کردیں گے اور وہ لوگوں میں اللہ کی نافرمانیاں کریں گے ۔خدا کی قسم ! اگر میں نے ایسا کیا تو عثمان رضی اللہ عنہ یہی کریں گے ، اور اگر عثمان نے یہ کیا تو وہ لوگ ضرور معصیتوں کاارتکاب کریں گے اور عوام شورش برپا کرکے عثمان کو قتل کردیں گے ۔[41]اسی چیز کاخیال ان کو اپنی وفات کے وقت بھی تھا ۔چنانچہ آخری وقت میں انھو ں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور حضرت سعد بن ابی وقاص کو بلا کر ہر ایک سے کہا کہ "” اگر میرے بعد تم خلیفہ ہو تو اپنے قبیلے کے لوگوں کو عوام کی گردنوں پر سوار نہ کردینا ۔””[42]مزید برےآں چھ آدمیوں کی انتخابی شوری کے لیے انھوں نے جو ہدایات چھوڑیں ان میں دوسری باتوں کے ساتھ ایک بات یہ بھی شامل تھی کہ منتخب خلیفہ اس امر کا پابند رہے کہ وہ اپنے قبیلے کے ساتھ کوئی امتیازی برتاؤنہ کرے گا ۔[43]مگر بدقسمتی سے خلیفہ ثالث حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اس معاملے میں معیار مطلوب کو قائم نہ رکھ سکے ۔ان کے عہد میں بنی امیہ کو کثرت سے بڑے بڑے عہدے اور بیت المال سے عطیے دیے گیے اور دوسرے قبیلے اسے تلخی کے ساتھ محسوس کرنے لگے[44] ۔ان کے نزدیک یہ صلہ رحمی کا تقاضا تھا ، چنانچہ وہ کہتے تھے کہ "” عمر رضی اللہ عنہ خدا کی خاطر اپنے اقربا کو محروم کرتے تھے اور میں خدا کی خاطر اپنے اقربا کو دیتا ہوں ۔[45]”” ایک موقع پر انھوں نے فرمایا :”” ابوبکر وعمر رضی اللہ عنمھا بیت المال کے معاملے میں ا س بات کو پسند کرتے تھے کہ خود خستہ حال رہیں اور اپنے اقرباکو بھی اسی حالت میں رکھیں۔مگر میں اس میں صلہ رحمی کرنا پسند کرتا ہوں ۔[46]”” اس کا نتیجہ آخر کار وہی ہوا جس کا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اندیشہ تھا ۔ ان کے خلاف شورش برپا ہوئی اور صرف یہی نہیں کہ وہ خود شہید ہوئے بلکہ قبائلیت کی دبی ہوئی چنگاریاں پھر سلگ اٹھیں جن کا شعلہ خلافت راشدہ کے نظام ہی کو پھونک کررہا ۔