سوال
کیا اسلامی حکومت خواتین کی بڑھتی ہوئی آزادی کو سختی سے روکے گی؟جیسے ان کی زیبائش اور نیم عریاں لباس زیب تن کرنے اور فیشن کا رجحان، اور جیسے آج کل نوجوان لڑکیاں نہایت تنگ ودل فریب سینٹ سے معطر لباس اور غازہ وسرخی سے مزین اپنے ہر خدوخال اور نشیب و فراز کی نمائش برسر عام کرتی ہیں اور آج کل نوجوان لڑکے بھی ہالی وڈ کی فلموں سے متاثر ہوکر ٹیڈی بوائز بن رہے ہیں ۔تو کیا حکومت قانون(legislation) کے ذریعے سے ہر مسلم وغیر مسلم لڑکے اور لڑکی کے آزادانہ رجحان کو روکے گی؟ خلاف ورزی پر سزا دے گی؟والدین وسرپرستوں کو جرمانہ کیا جاسکے گا؟ تو اس طرح کیا ان کی شہری آزادی پر ضرب نہ لگے گی؟
جواب
اسلام معاشرے کی اصلاح وتربیت کا سارا کا م محض ڈنڈے سے نہیں لیتا، تعلیم، نشرواشاعت او رراے عام کا دبائو اس کے ذرائع اصلاح میں خاص اہمیت رکھتے ہیں ۔ ان تمام ذرائع کے استعمال کے بعد اگر کوئی خرابی باقی رہ جائے تو اسلام قانونی وسائل اور انتظامی تدابیر استعما ل کرنے میں بھی تأمل نہیں کرتا۔عورتوں کی عریانی اور بے حیائی فی الواقع ایک بہت بڑی بیماری ہے جسے کوئی سچی اسلامی حکومت برداشت نہیں کرسکتی۔یہ بیماری اگر دوسری تدابیر اصلاح سے درست نہ ہو یا اس کا وجود باقی رہ جائے تو یقیناً اس کو ازروے قانون روکنا پڑے گا۔ اس کا نام اگر شہری آزادی پر ضرب لگانا ہے تو جواریوں کو پکڑنا اور جیب کتروں کو سزائیں دینا بھی شہری آزادی پر ضرب لگانے کے مترادف ہے۔ اجتماعی زندگی لازماً افراد پر کچھ پابندیاں عائد کرتی ہے۔افراد کو اس کے لیے آزاد نہیں چھوڑا جاسکتا کہ وہ اپنے ذاتی رجحانات اور دوسروں سے سیکھی ہوئی برائیوں سے اپنے معاشرے کو خراب کریں ۔ (ترجمان القرآن، جنوری ۱۹۶۲ء)