اسلام کیا ہے‘ اس کی دعوت کیا ہے اور اس کے مخاطب کون ہیں؟ ماننے والوں سے اس کے مطالبات کیا ہیں؟ اس کو برپا کرنے کی کیا شرائط ہیں؟ اس کی راہ میں کامیابی اور ناکامی کا مفہوم کیا ہے؟ اس دعوت کو برپا کرنے کے لیے خواتین کی کیا ذمہ داریاں ہیں؟ ان اہم موضوعات پر اس کتاب میں سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ اس موضوع پر اب تک جتنی کتابیں لکھی گئی ہیں ان میں یہ ایک ممتاز مقام رکھتی ہیں۔ غیرت دینی اور ایمانی حرارت کو انگیخت کرنے اور جذبات اسلامی کو بیدار کرنے کے لیے یہ کتاب اپنا جواب نہیں رکھتی۔ ہمت و عزیمت اور علم و حکمت کا ایک اتھاہ خزانہ ہے جو اس میں سمود دیا گیا ہے۔ تربیت و اصلاح کے لیے ایک ایسا مجموعہ ہے جس سے کبھی بے نیاز نہیں ہوا جاسکتا۔
اس کتاب کا پہلا اڈیشن 1946 ء میں پیش کیا گیا تھا اس لیے جا بجا اس میں قبل تقسیم کے حالات و واقعات کی طرف اشارے ہیں اور ان پر تبصرہ ہے۔ لیکن اس کا بیشتر حصہ ایسے مضامین پر مشتمل ہے جو زمان و مکان کی قید سے بالا ہیں اور جن کی تازگی ہمیشہ برقرار رہے گی۔ اس کتاب کی اس علمی اور تاریخی اہمیت اور افادیت کے پیش نظر ہم اس کا جدید ایڈیشن آفسٹ کی حسین طباعت پر نہایت آب و تاب کے ساتھ پیش کر رہے ہیں۔
ہمیں امید ہے کہ ہماری اس تازہ پیشکش کا اس میں گرمجوشی سے خیر مقدم کیا جائے گا جیسا کہ ہماری دوسری مطبوعات کے لیے کیا گیا ہے۔
/4 اپریل 1964 ء
’’میں نے دین کو حال یا ماضی کے اشخاص سے سمجھنے کے بجائے ہمیشہ قرآن اور سنت ہی سے سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ اس لیے میں کبھی یہ معلوم کرنے کے لیے کہ خدا کا دین مجھ سے اور ہر مومن سے کیا چاہتا ہے‘ یہ دیکھنے کی کوشش نہیں کرتا کہ فلاں بزرگ کیا کہتے ہیں اور کیا کرتے ہیں بلکہ صرف یہ دیکھنے کی کوشش کرتا ہوں کہ قرآن کیا کہتا ہے اور رسولؐ نے کیا کیا‘‘
’’ہم دراصل ایک ایسا گروہ تیار کرنا چاہتے ہیں جو ایک طرف زہد و تقویٰ میں اصطلاحی زاہدوں اور متقیوں سے بڑھ کر ہو اور دوسری طرف دنیا کے انتظام کو چلانے کی قابلیت و صلاحیت بھی عام دنیاداروں سے زیادہ اور بہتر رکھتا ہو۔ صالحین کی ایسی جماعت منظم کی جائے جو خدا ترس بھی ہو‘ راست باز اوردیانتدار بھی ہو‘ خدا کے پسندیدہ اخلاق و اوصاف سے آراستہ بھی ہو اور اس کے ساتھ دنیا کے معاملات کو دنیا داروں سے زیادہ اچھی طرح سمجھ سکے‘‘