دوسرا قاعدہ جس پر اس ریاست کی بنا رکھی گئی تھی ،یہ تھا کہ قرآن وسنت کا دیا ہوا قانون سب کے لئے یکساں ہے ،اور اس کو مملکت کے ادنٰی ترین آدمی سے لے کر مملکت کے سربراہ تک سب پر یکساں نافذ ہوناچاہیے ۔کسی کے لئے بھی اس میں امتیازی سلوک کی کوئی کنجائش نہیں ہے ۔قرآن مجید میں اللہ اپنے نبی ﷺ کو یہ اعلان کرنے کی ہدایت فرماتا ہے کہ : وَأُمِرْتُ لِأَعْدِلَ بَيْنَكُمُ ۖ ﴿الشوری:١٥﴾ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تمہارے درمیان انصاف کروں۔”” یعنی میں بے لاگ انصاف پسندی اختیار کرنے پر مامور ہوں ۔میرا یہ کام نہیں ہے کہ کسی کے حق میں اور کسی کے خلاف تعصب برتوں ،میرا سب انسانوں سے یکساں تعلق ہے ،اور وہ ہے عدل وانصاف کا تعلق ۔حق جس کے ساتھ ہو میں اس کا ساتھی ہوں اور حق جس کے خلاف ہو میں اس کا مخالف ہوں ،میرے دین میں کسی کے لئے بھی کوئی امتیاز نہیں ہے ۔اپنے اور غیر ،بڑے اور چھوٹے ،شریف اور کمین کے لئے الگ الگ حقوق نہیں ہیں ،جو کچھ حق ہے وہ سب کے لئے حق ہے ۔جو گناہ ہے وہ سب کے لئے گناہ ہے ۔جو حرام ہے وہ سب کے لئے حرام ہے ۔جو حلال ہے وہ سب کے لئے حلال ہے ۔اور جو فرض ہے وہ سب کے لئے فرض ہے ۔میری اپنی ذات بھی اس قانون ِ خداوندی کی اس ہمہ گیری سے مستثنی نہیں ہے ۔نبی ﷺ خود اس قاعدے کو یوں بیان فرماتے ہیں : انما ھلک من کان قبلکم انھم کانوا یقیمون الحد علی الوضیع ویترکون الشریف والذی نفس محمد بیدہ لو ان فاطمۃ (بنت محمد) فعلت ذالک لقطعت یدھا ۔[4] "”تم سے پہلے جو امتیں گزری ہیں وہ اسی لئے تو تباہ ہوئیں کہ وہ لوگ کم تردرجے کے مجرموں کو قانون کے مطاطق سزا دیتے تھے اور اونچے درجے والوں کو چھوڑ دیتے تھے ۔قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمدﷺ کی جان ہے ،اگر محمد ﷺ کی اپنی بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنھا بھی چوری کرتی تو میں ضرور اس کا ہاتھ کاٹ دیتا ۔”” حضرت عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: رایت رسول اللہ ﷺ یقید من نفسہ۔[5] "”میں نے خود رسول اللہ ﷺ کو اپنی ذات سے بدلہ دیتے دیکھا ہے ۔””