قضا(judiciary) کی انتظامیہ سے آزادی کا اصول بھی اسلامی ریاست کے بنیادی اصولوں میں سے تھا ۔ خلافت راشدہ میں قاضیوں کاتقرر اگرچہ خلفاء ہی کرتے تھے ، مگر جب کوئی شخص قاضی مقرر ہوجاتا تھا تو ا س پر خدا کے خوف اور اس کے اپنے علم وضمیر کے سوا کسی کا دباؤ نہ رہتا تھا۔کوئی بڑے سے بڑا شخص بھی عدالت کے کام میں دخل دینے کی جرات نہ کرسکتا تھا ۔ حتی کہ قاضی خود خلیفہ کے خلاف فیصلہ دے سکتے تھے اور دیتے تھے ۔ مگر جب ملوکیت آئی تو بالآخر یہ اصول بھی ٹوٹنا شروع گیا ۔ جن معاملات سے ان بادشاہ قسم کے خلفاء کو سیاسی اسباب یا ذاتی مفاد کی بناپر دلچسپی ہوتی تھی ان میں انصاف کرنے کے لیے عدالتیں آزاد نہ رہیں ۔حتی کہ شاہزادوں ، گورنروں ، قائدین اور شاہی محلات کے متوسلین تک کے خلاف مقدمات میں عدل کرنا مشکل ہوگیا ۔ یہ ایک بڑا سبب تھا اس بات کا کہ اس زمانے میں صالح علماء بالعموم قضا کا منصب قبول کرنے سے انکار کردیتے تھے ، اور جو عالم ان حکمرانوں کی طرف سے عدالت کی کرسی پر بیٹھنے پر راضی ہوجاتا تھا ، اسے شک کی نگاہ سے دیکھنے لگتے تھے ۔ عدلیہ پر انتظامیہ کی دست درازی یہاں تک بڑھی کہ گورنروں کو قاضیوں کے عزل ونصب کا اختیار دے دیا گیا[15] ۔ حالانکہ خلفائے راشدین کے زمانے میں یہ اختیارات خلیفہ کے سوا کسی کو حاصل نہ تھے ۔