اب مَیں اختصار کے ساتھ آپ کو بتائوں گا کہ اسلام میں جس چیز کا نام عدل ہے وُہ کیا ہے۔ اسلام میں اس امر کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ کوئی شخص، یا انسانوں کا کوئی گروہ انسانی زندگی میں عدل کا کوئی فلسفہ اور اس کے قیام کا کوئی طریقہ بیٹھ کر خود گھڑ لے اور اسے بالجبر لوگوں پر مسلط کر دے اور کسی بولنے والی زبان کو حرکت نہ کرنے دے۔ یہ مقام ابوبکر صدیقؓ اور عمر فاروقؓ کو تو کیا، خود محمد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو بھی حاصل نہ تھا۔ اسلام میں کسی ڈکٹیٹر کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ صرف خدا ہی کا یہ مقام ہے کہ انسان اس کے حکم کے آگے بے چون وچرا سر جھکا دیں۔ محمد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم خود بھی اس کے حکم کے تابع تھے اور ان کے حکم کی اطاعت صرف اس لیے فرض تھی کہ وُہ خدا کی طرف سے حکم دیتے تھے نہ کہ معاذ اللّٰہ اپنے نفس سے گھڑ کر کوئی فلسفہ لے آئے تھے۔ رسول اور خلفائے رسول کے نظامِ حکومت میں صرف شریعتِ الٰہیہ تنقید سے بالا تر تھی۔ اس کے بعد ہر شخص کو ہر وقت ہر معاملے میں زبان کھولنے کا پورا حق حاصل تھا۔