(۱۵)اس سلسلے میںخصوصیت کے ساتھ جن باتوںنے لوگوںکے درمیان عام ناراضگی پیداکی وہ یہ تھیں:
اول یہ کہ حکومت نے اس پوری مدت میںکبھی زبان کھول کرلوگوںکویہ نہیںبتایاکہ اگروہ ان مطالبات کوقبول نہیںکرتی ہے توآخراس کے وجوہ کیاہیں؟ایک طرف سے مسلسل ایک مطالبہ ہواورعوام جذباتی حیثیت سے اس پرمشتعل ہی نہ ہوںبلکہ دلائل کی بنا پرمطمئن بھی ہوںکہ ان کامطالبہ معقول ہے۔دوسری طرف حکومت کوئی وجہ بتائے بغیراس کوبس یوںہی ٹھکرادے اورعوام کودلائل سے یہ سمجھانے کی کوشش نہ کرے کہ ان کے مطالبات کیوںقابل قبول نہیںہیں۔ا س کالازمی نتیجہ یہی ہوسکتاہے کہ عوام اس روش کوحکومت کی ہٹ دھرمی اورہیکڑی سمجھیںاوران کے اندراس کے خلاف غصہ پیداہوجائے۔یہ ڈھنگ ڈکٹیٹر شپ میںتوچل سکتے ہیںمگرایک جمہوری نظام میںخوداپنے بنائے ہوئے حکمرانوںکی طرف سے یہ سلوک برداشت کرناعوام کے لیے ممکن نہیں۔
دوم یہ کہ حکومت نے ڈائریکٹ ایکشن کاعلان ہوجانے کے بعدجب زبان کھولی تو ایسے غلط طریقے سے کھولی جولوگوںکومطمئن کرنے کے بجائے الٹااوراشتعال دلانے والا تھا۔ڈائریکٹ ایکشن کی تحریک کے لیڈروںکوگرفتارکرتے ہوئے جوسرکاری کمیونکے شائع کیاگیااوراس کے بعدمارشل لائ کے اجرائ کے وقت جودوسراکمیونکے کراچی سے شائع ہوا، ان دونوںمیںمخالف احمدیت تحریک کومسلمانوںکی وحدت ملّی میں تفرقہ ڈالنے والی تحریک قرار دیا گیا تھا۔ یہ بات مسلمانوں کے لیے اشتعال انگیزبھی تھی اور بجائے خودنامعقول بھی۔اشتعال انگیزاس لیے کہ اس میںگویاسرکاری طور پر احمدیوںکے ملت اسلامیہ میںشامل ہونے کااعلان کردیاگیاتھاحالانکہ مسلمانوں نے کبھی ان کواپنی ملت کاجزو نہیں مانتاہے اور تمام اسلامی فرقوں کے علمائ بالاتفاق ان کو خارج از ملت قرار دے چکے ہیں۔ نامعقول اس لیے کہ حکومت جس چیز کا الزام مخالف احمدیت تحریک کو دے رہی تھی درحقیقت وہ حکومت پر عائد ہوتاتھا اور اس کو یہ احساس تک نہ تھا کہ اس معاملہ میں وہ فی الواقع کیا پوزیشن لے رہی ہے۔ مخالف احمدیت تحریک تو اٹھی ہی اس بنیاد پر تھی کہ ملت اسلامیہ کی وحدت کو ان لوگوں کے ہاتھوں پارہ پارہ ہونے سے بچایاجائے، جو مرزا غلام احمد صاحب کی نبوت کو نہ ماننے پر تمام کلمہ گو مسلمانوں کو کافر قرار دیتے ہیں اور ان کی نماز جنازہ پڑھنے تک کو ناجائز کہتے ہیں اور انہیں بیٹی دینا ویسا ہی حرام سمجھتے ہیں جیسا یہودی یا عیسائی کو بیٹی دینا حرام ہے۔ اس کے برعکس حکومت کی اپنی پوزیشن یہ تھی کہ وہ ملت اسلامیہ کے اندر ایسے تفرقہ انگیز گروہ کو زبردستی شامل رکھنے پر مصر تھی تاکہ وہ مسلم معاشرہ میں مسلسل داخلی انتشار برپا کرتا رہے اور ہر روز ایک نئے خاندان اور ایک نئے گھر میں عقائد اور معاشرت کی پھوٹ ڈال دے مگر جس گناہ کی مجرم حکومت خود تھی اس کاالزام اس نے الٹا ان لوگوں پر ڈالا جو دراصل اس گناہ سے بازآجانے کا اس سے مطالبہ کررہے تھے ۔ اس صریح غیر معمولی بات کو شائع کرتے وقت حکومت نے ذرا نہ سوچاکہ آخر سارا ملک بیوقوفوں سے تو آباد نہیں ہے۔ عام لوگ اس طرح کی باتیں سرکاری اعلانات میں پڑھ کر اپنے حکمرانوں کے متعلق کیا رائے قائم کریں گے۔
سوم یہ کہ حکومت نے اپنے مذکورہ بالا اعلانات میں اس تحریک کو بالکل احراریوں کی ایک تحریک قرار دیا اور اس کاذکر اس انداز سے کیا گویا کہ قادیانیوں کو مسلمانوں سے الگ کرنے کامطالبہ مسلمانوں کاکوئی عام قومی مطالبہ نہیں ہے بلکہ محض چند مٹھی بھر احراریوں کامطالبہ ہے۔ یہ بات بھی ایسی تھی جس نے عوام میں سخت ناراضی پیدا کی ۔ اس میں شک نہیں کہ اس تحریک کا آغاز کرنے والے احراری تھے مگر واقعہ یہ ہے کہ درحقیقت یہ مسلمانوں کی عام قومی تحریک بن گئی تھی اور وہ لاکھوں آدمی اس کے ہمدرد اور حامی تھے جو اس سے پہلے احرار کے مخالف اور تحریک پاکستان کے ہمدرد و حامی رہ چکے تھے ۔ پبلک نے حکومت کی اس غلط بیانی کو اس رنگ میں لیا کہ جس طرح کبھی انگریزی حکومت ہندوستانیوں کے مطالبہ آزادی کو محض چند کانگریسیوں کامطالبہ قرار دے کر عوام کو کچلنے کی کوشش کرتی تھی اور جس طرح کبھی ہندولیڈر مطالبہ پاکستان کو چند لیگیوں کامطالبہ قرار دے کر مسلمانوں کے ایک قومی مطالبہ کو نظر انداز کیا کرتے تھے ۔ وہی چال بازی اب ان کی اپنی قومی حکومت ان کے ساتھ رہی ہے اور اس طریقے سے ان کے ایک قومی مطالبہ کو محض چند احراریوں کا مطالبہ کہہ کر دبا دینا چاہتی ہے۔
چہارم یہ کہ حکومت نے اپنے اعلانات میں اس تحریک کو کچل دینے کاارادہ جس لہجے اور جن الفاظ میں بیان کیا اس سے صرف یہی ظاہر نہیں ہوتا تھاکہ وہ ڈائریکٹ ایکشن کو طاقت سے کچلنے کاارادہ رکھتی ہے بلکہ یہ بھی مترشح ہوتاتھا کہ اس کو سرے سے قادیانیوں کی مسلمانوں سے علیحدگی کا مطالبہ ہی گوارا نہیں ہے اور یہ کہ ڈائریکٹ ایکشن کے ساتھ اس مطالبہ کو بھی کچل دیناچاہتی ہے۔ عوام نے اس کامطلب یہ لیا کہ حکومت اب سرے سے مطالبہ کرنے کا حق ہی عوام سے چھین لینا چاہتی ہے نیز اس سے مسلمانوں میں یہ بھی عام خیال پیداہوگیاکہ حکومت ان کے مقابلے میں قادیانیوں کی حمایت پر اُتر آئی ہے۔
یہ اسباب تھے جنھوںنے فوری طور پر ڈائریکٹ ایکشن کی آگ پر تیل چھڑکنے کی خدمت انجام دی ۔ میرا خیال یہ ہے کہ اگر حکومت نے عوام کو اپنا نقطۂ نظر سمجھانے کی کچھ بھی کوشش کی ہوتی اور سرکاری اعلانات کسی دوسرے معقول اور ٹھنڈے انداز میں مرتب کیے گئے ہوتے تو عوام کے اندر اتنا اشتعال ہرگز پیدا نہ ہوتا۔ یہی نہیں بلکہ میری تو یہ رائے ہے کہ اگر حکومت نے ڈائریکٹ ایکشن شروع کرنے والے لیڈروں کو گرفتار کرنے کے بجائے یا ان کے ساتھ قادیانی مسئلہ کا فیصلہ کرنے کے لیے تمام گروہوں کی ایک رائونڈ ٹیبل کانفرنس بلانے کااعلان کردیا ہوتا تو سرے سے یہ ہنگامہ برپا ہی نہ ہوتا۔