Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

پیش لفظ: جدید اڈیشن
عرضِ ناشر
دیباچہ: طبع ہفتم
دیباچہ: طبع اول
مقدمہ
تحریک ضبط ولادت کا مقصد اور پس منظر
تحریک کی اِبتدا
ابتدائی تحریک کی ناکامی اور اس کا سبب
جدید تحریک
ترقی کے اسباب
1۔ صنعتی انقلاب
2۔ عورتوں کا معاشی استقلال
3۔ جدید تہذیب وتمدن
نتائج
(1) طبقات کا عدم توازن
(2) زنا اور امراضِ خبیثہ کی کثرت
(3) طلاق کی کثرت
(۴) شرحِ پیدائش کی کمی
ردِّ عمل
اُصولِ اسلام
نقصانات
1۔ جسم ونفس کا نقصان
2۔ معاشرتی نقصان
3۔ اخلاقی نقصان
4۔ نسلی وقومی نقصانات
5۔ معاشی نقصان
حامیانِ ضبط ِولادت کے دلائل اور اُن کا جواب : وسائل ِ معاش کی قلت کا خطرہ
دنیا کے معاشی وسائل اورآبادی
پاکستان کے معاشی وسائل اور آبادی
موت کا بدل
معاشی حیلہ
چند اور دلیلیں
اُصولِ اسلام سے کلی منافات
احادیث سے غلط استدلال
ضمیمہ (1) : اسلام اور خاندانی منصوبہ بندی
ضمیمہ (2) : تحریکِ ضبطِ ولادت کا علمی جائزہ (پروفیسر خورشید احمد)

اسلام اور ضبطِ ولادت

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

ضمیمہ (2) : تحریکِ ضبطِ ولادت کا علمی جائزہ (پروفیسر خورشید احمد)

آج مشرقی ممالک میں اور خصوصیت سے عالمِ اسلام میں ضبط ِولادت کی تحریک کو بڑی تیزی کے ساتھ فروغ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ مذہبی اور عقلی دونوں حیثیتوں سے اس پر زور وشور کے ساتھ بحث ہو رہی ہے اور فکر ونظر کے مختلف پہلو سامنے آ رہے ہیں۔ بحث کے مختلف پہلوئوں سے کسی کو اتفاق ہو یا اختلاف، لیکن یہ حقیقت تو ناقابلِ انکار ہے کہ بحث ومباحثہ کے ذریعہ تلاشِ حق کا راستہ آسان ہو جاتا ہے اور دلائل کے ٹکرائو سے صحیح بات تک پہنچنے کے غالب مواقع پیدا ہو جاتے ہیں۔ علمی مباحث کی سب سے بڑی افادیت ہی یہ ہے کہ وہ تلاش وجستجو کی راہوں کو منور کرکے فکرِانسانی کے ارتقا کا سامان فراہم کرتے ہیں۔ سچا انسان وہ ہے جو اندھی تقلید کی پٹی ہوئی ڈگر اختیار کرنے کے بجائے خدا کی دی ہوئی صلاحیتوں سے کام لے کر ایمانداری اور اخلاص کے ساتھ اپنا راستہ نکالتا ہے، دلیل کی زبان سے بات کرتا ہے اور تجربہ سے سبق سیکھتا ہے۔
بدقسمتی سے عالمِ اسلام میں ایک طبقہ ایسا پیدا ہو گیا ہے جس نے اپنی ذہنی اورفکری آزادی کو مغرب کی غلامی کے آستانہ پر قربان کر دیا ہے۔ جو اجتہاد کے بجائے یورپ کی اندھی تقلید اور نقالی کی روش اختیار کرتا ہے اور اپنے دماغ سے سوچنے کے بجائے مغرب کے روز مرہ پر آنکھیں بند کرکے عامل ہونا چاہتا ہے۔ تعصب، کورانہ تقلید اور اندھی نقالی محض اہل مذہب ہی کے ایک مخصوص طبقے میں نہیں پائے جاتے، یہ اوصاف جدید تعلیم وتہذیب پر فخر کرنے والے اصحاب میں بھی موجود ہیں اورمقدم الذکر گروہ سے کہیں زیادہ ہیں۔ یہ لوگ اجتہاد کا نام تو بڑے زور سے لیتے ہیں۔ مگر اس سے ان کا مقصود صرف یہ ہوتا ہے کہ اسلام کو کسی طرح مغرب کے سانچے میں ڈھالا جائے۔ حقیقی اجتہاد جس چیز کا نام ہے اس کی انھیں ہوا بھی نہیں لگی۔ یہ اپنے ذہن سے سوچنے کے بجائے مغرب کے ذہن سے سوچتے ہیں۔ مغرب کی زبان سے بولتے ہیں اور مغرب کے نقشِ قدم پر بے سوچے سمجھے رواں دواں ہیں۔ مغرب سے ہمیں کوئی عناد نہیں ہے۔ وہاں اچھی چیزیں بھی ہیں اور بری بھی۔ اپنی آنکھیں کھول کر دیکھنا چاہیے اور اپنے ذہنوں سے کام لیتے ہوئے مجتہدانہ بصیرت کے ساتھ اپنا راستہ خود نکالنا چاہیے۔ نقالی اور کورانہ تقلید کی روش ایک قوم کی ذہنی موت اور تمدنی ارتداد پر منتج ہوتی ہے۔
اقبال مرحوم اپنی ساری عمر اس ذہنیت کی مخالفت کرتے رہے۔ انھیں اس عنصر سے یہی گلہ تھا کہ ؎
تقلید پہ یورپ کی رضا مند ہوا تو
مجھ کو تو گلہ تجھ سے ہے، یورپ سے نہیں
وہ افسوس کے ساتھ کہتے ہیں:
کر سکتے تھے جو اپنے زمانے کی امامت
وہ کہنہ دماغ اپنے زمانے کے ہیں پیرو!
اور ان کی دعوت اپنی قوم کے لیے یہ تھی:
دیکھے تو زمانے کو اگر اپنی نظر سے
افلاک منور ہوں ترے نور سحر سے
خورشید کرے کسبِ ضیا تیرے شرر سے
ظاہر تری تقدیر ہو سیمائے قمر سے
دریا متلاطمِ ہوں تری موجِ گہر سے
شرمندہ ہو فطرت ترے اعجازِ ہنر سے
اغیار کے افکار و تخیل کی گدائی!
کیا تجھ کو نہیں اپنی خودی تک بھی رسائی؟
ضبط ِولادت کے مسئلہ پر بھی بدقسمتی سے عالمِ اسلامی میں اس مقلدانہ اور مغرب زدہ ذہنیت کے ساتھ غور کیا جا رہا ہے۔ ضرورت ہے کہ ہم مغرب کے رنگین شیشوں سے اپنی دنیا کو دیکھنے کے بجائے اسے اس کے حقیقی رنگ میں دیکھیں اور آزاد خیالی اور وسعتِ نظر کا ثبوت دیں۔ دلیل کے لیے ہمارا دل ہمیشہ کھلا ہو اور محض تعصب اور نقالی کے آگے ہم کسی قیمت پر بھی سپر نہ ڈالیں۔ اس لیے کہ ’’وہ جو نہ دلیل کو سنتا ہے اور نہ دلیل سے بات کرنا چاہتا ہے، متعصب اور کٹ حجتی ہے، اور جو دلیل کا مقابلہ کرنے کی ہمت نہیں رکھتا دراصل غلام ہے، اور جودلیل دینے کی صلاحیت ہی سے محروم ہے وہ غبی اور احمق ہے۔‘‘
ہماری خواہش ہے کہ مسلمان اس مسئلہ پر غلام ذہنیت کے بجائے آزادانہ طور پر غور کریں۔ ہماری موجودہ پیشکش اسی سلسلہ کی ایک کوشش ہے۔
(1) کیا ضبط ِ ولادت کی بنیاد معاشی ہے؟
تحدیدِ نسل کے مؤید آج کل اپنے استدلال کی بنیاد معاشی امور پر رکھتے ہیں اور آبادی کی کثرت سے پیدا ہونے والی معاشی دِقَّتوں کے مقابلے کے لیے ضبط ِولادت کی پالیسی تجویز کرتے ہیں۔ لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی جدید دنیا میں اس تحریک کا فروغ معاشی اسباب ہی سے ہوا ہے؟ تاریخ کے مطالعہ سے تو معلوم ہوتا ہے کہ اسبابِ معیشت اور تحدیدِ نسل میں قطعاً کوئی تعلق نہیں رہا۔
مالتھس (Malthus) نے آبادی کے مسئلہ کے معاشی پہلو کو ضرور پیش کیا تھا اور آبادی کے اضافہ کو روکنے کا مشورہ بھی اس نے ضرور دیا تھا (واضح رہے کہ ضبط ِ ولادت کا مالتھس شدید مخالف تھا۔ وہ توتحدیدِ نسل کے لیے تجرد اور ازدواجی زندگی میں اخلاقی ضبط اختیار کرنے پر زور دیتا) مگر اس کی زندگی میں اور اس کے بعد جو معاشی اور صنعتی انقلاب مغربی دنیا میں رونما ہوا اس نے حالات کو یکسر بدل دیا اور اس کی وجہ سے زندگی کا وہ رخ سامنے آیا جو مالتھس کی نگاہ سے اوجھل تھا۔ یعنی افزائش پیداوار کے لامحدود امکانات!
1798ء میں مالتھس نے وسائل کی قلت کا شوشہ اٹھایا تھا لیکن انیسویں صدی کی معاشی ترقیات کی روشنی میں اس کے بیان کیے ہوئے تمام خطرات پادرِ ہوا ثابت ہوئے۔
1898ء میں پور سے سو سال بعد سرولیم کروکس، صدر برٹش ایسوسی ایشن نے پھر خطرے کی گھنٹی بجائی اور کہا کہ 1931ء تک پیداوار کی کمی خطرناک ترین صورت اختیار کر لے گی اور انسانیت وسیع پیمانے پر قحط اور موت سے دو چار ہو گی لیکن 1931ء میں دنیا قلت پیداوار کے بجائے کثرتِ پیداوار (over production) کے مسائل سے دوچار تھی۔ آبادی اور وسائلِ معاش کے متعلق آج تک جو بھی پیشین گوئیاں کی گئی ہیں ان کے بارے میں ایک ہی بات یقین سے کہی جا سکتی ہے…اور وہ یہ کہ یہ ہمیشہ غلط ہی ثابت ہوئی ہیں۔
پروفیسر جیڈ اور رسٹ (Charles Gide & Charles Rist) تو یہاں تک کہتے ہیں کہ:
’’بلاشبہ تاریخ اس (یعنی مالتھس) کے پیش کردہ اندیشوں کی توثیق کرنے سے انکاری ہے۔ دنیا کے کسی ایک ملک میں بھی ایسے حالات پیش نہیں آئے جن کی بنا پر اسے کثرتِ آبادی (Over Population) میں مبتلا سمجھا جا سکے۔ بلکہ کچھ حالتوں میں تو…مثلاً جیسے فرانس میں… آبادی کا اضافہ بہت ہی سست رفتار سے ہوا ہے۔ دوسرے ممالک میں اضافہ قابل ذکر ہے لیکن کہیں بھی یہ دولت کے اضافہ سے زیادہ تیز رفتار نہیں ہے۔‘‘{ FR 7275 }
ایرک رول (Erich Roll) بھی یہی کہتا ہے:
’’معاشی ترقی کے حقائق نے مالتھس کے نظریہ کی اچھی طرح تردید وتکذیب کر دی ہے۔‘‘{ FR 7276 }
تاریخ کا بے لاگ مطالعہ اس تاقابلِ انکار حقیقت کو واضح کرتا ہے کہ کسی بھی مغربی ملک میں ضبطِ ولادت کی پالیسی کو اس لیے اختیار نہیں کیا گیا کہ اس ملک میں معاشی وسائل کی قلت تھی اور ملکی پیداوار آبادی کی روز افزوں ضرورتوں کے لیے ناکافی تھی۔ اس تحریک کی ترویج کا زمانہ (انیسویں صدی کے نصف آخر سے بیسویں صدی کے اولین تیس سال تک) یورپ اور امریکہ کی معاشی ترقی اور اقتصادی خوشحالی کا زمانہ ہے۔ جو حضرات اس تحریک کو معاشی اسباب کی پیداوار سمجھتے ہیں وہ معاشی تاریخ سے اپنی ناواقفیت کا ثبوت فراہم کرتے ہیں۔ مثلاً مندرجہ ذیل اعداد وشمار اس افسانے کے طلسم کو اچھی طرح چاک کر دیتے ہیں کہ اس تحریک کی بنیاد معاشی ہے:
ملک
زمانہ
فی کس قومی پیداوار میں اضافہ
انگلستان
1860ء تا1938ء
+231%
امریکہ
1869ء تا1938ء
+381%
فرانس
1850ء تا1938ء
+135%
سویڈن
1861ء تا1938ء
+661%
یہ اضافہ آبادی کے اضافہ کے ساتھ اور اس کے باوجود ہوا ہے۔ اسی طرح اگرآبادی کے اضافہ کو لینے کے بعد ان ممالک کی سالانہ رفتار ترقی دیکھی جائے تو وہ یہ تھی:{ FR 8161 }
ملک
رفتار پیداوار میں سالانہ اضافہ
انگلستان
+2.9%
امریکہ
+4.8%
سویڈن
+8.5%
فرانس
+1.5%
اس سے معلوم ہوا کہ ضبط ِولادت پر یورپ میں اس زمانہ میں عمل ہوا جبکہ وہاں کا معیار زندگی بلند تھا اور اس میں اضافہ ہو رہا تھا اور ملکی پیداوار ہر سال تیزی کے ساتھ بڑھ رہی تھی۔ دوسرے الفاظ میں اس زمانے میں کوئی معاشی خطرہ موجود نہ تھا اور اس تحریک کی کوئی حقیقی معاشی بنیاد نہیں پائی جاتی تھی۔ خود آج بھی دنیا کی صورت حال یہی ہے۔1948ء سے اب تک اوسطاً غذائی پیداوار میں7.2 فیصدی سالانہ کا اضافہ ہو رہا ہے جو آبادی کے اضافہ کی رفتار سے دوگنا ہے۔ نیز اس زمانہ میں صنعتی پیداوار میں تقریباً پانچ فیصدی سالانہ کا اضافہ ہوا ہے۔ یہ اضافہ آبادی سے تین گنے سے بھی زیادہ ہے۔{ FR 7279 }
اگر اس تحریک کی کوئی معاشی بنیاد نہ تھی تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس کے فروغ کی اصل وجہ کیا تھی؟ ہمارے خیال میں اصل وجہ معاشرتی اور تمدنی تھی۔ مغرب میں عورت اور مرد کی مساوات اور آزادانہ اختلاط کی بنیاد پر جو معاشرت قائم ہوئی تھی اس کا فطری اور منطقی تقاضا یہ تھا کہ ضبط ِولادت کو فروغ دیا جائے تاکہ انسان حظِ نفس کی روش اختیار کرنے کے باوجود ان ذمہ داریوں سے بچ سکے جو فطرت نے مقرر کی ہیں۔ اقبال نے اسی نکتہ کی طرف اشارہ کیا ہے جب وہ کہتا ہے:
کیا یہی ہے معاشرت کا کمال؟
مرد بے کار و زن تہی آغوش!
مغرب کی تاریخ میں ضبط ولادت کا مسئلہ سر تاسر معاشرتی اور تمدنی حیثیت رکھتا ہے اور معیشت سے اگر اس کا کچھ تعلق ہے تو ’’بنائو‘‘ کی نہیں ’’بگاڑ‘‘ ہی کی سمت میں ہے۔ اس لیے کہ عورت کی ’’تہی آغوشی‘‘ اور مرد کی ’’بیکاری‘‘ (un-employment) کا بڑا قریبی تعلق ہے جسے لارڈ کینس، پروفیسر ہینسن اور پروفیسر کول جیسے محققین نے جدید معاشی مباحث میں واضح کیا ہے۔
(2) ضبطِ ولادت اور عالمی سیاست
جیسا کہ ہم نے اوپر بیان کیا ہے ضبطِ ولادت کی نہ کوئی معاشی بنیاد پہلے تھی اور نہ آج ہے۔ مغرب میں اس کا فروغ معاشرتی اور تمدنی وجوہ سے ہوا اور آج مغرب جن مقاصد کے لیے اس کی ترویج کر رہا ہے وہ اصلاً سیاسی ہیں۔
تاریخ کا ہر طالب علم اس امر سے واقف ہے کہ کثرتِ آبادی کی سیاسی اہمیت بڑی بنیادی ہے۔ ہر تہذیب اور ہر عالمی قوت نے اپنے تعمیری اور تشکیلی دور میں آبادی بڑھانے کی کوشش کی ہے۔ مشہور مؤرخ وِل ڈورانٹ (Will Durant) اسے تہذیبی ترقی کا ایک اہم سبب قرار دیتا ہے۔ آرنلڈ ٹائن بی (Amold Toynbee) بھی کثرتِ آبادی کو ان اساسی چیلنجوں (challengers) میں سے ایک قرار دیتا ہے جن کے جواب میں ایک تہذیب کا نشووارتقاء بروئے کار آتا ہے۔ تاریخ کی ان تمام اقوام نے جنھوں نے کوئی عظیم کارنامہ انجام دیا ہے، ہمیشہ تکثیر آبادی کی روش اختیار کی ہے۔ اس کے برعکس زوال پذیر تہذیبوں میں آبادی کی قلت کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے۔ آبادی کی قلت بالآخر سیاسی اور اجتماعی قوت کے اضمحلال پر منتج ہوتی ہے اور وہ قوم جو اس حالت میں گرفتار ہو جائے آہستہ آہستہ گمنامی کے غار میں جا گرتی ہے۔ تہذیب کے جتنے بھی قدیم مراکز ہیں ان سب کی تاریخ اس حقیقت پر گواہی دیتی ہے۔
جدید یورپ کی سیاسی اور معاشی عظمت کا راز بھی آبادی کے اضافہ میں مضمر ہے۔ پروفیسر اور گانسکی (Albrano F.K.Organski) کے الفاظ ہیں:
’’آبادی میں عظیم اضافہ …ایسا اضافہ جو بے ضبط وبے لگام تھا… یورپ کی آبادی کے اس دھماکہ خیز اور غیر معمولی اضافے (Population Explosion) کی وجہ سے ملک میں نئی صنعتی معیشت کو چلانے کے لیے کارندے مل جانے کے لیے مہاجر (emmigrants) اور ایسے سپاہی اور کار فرما ملے جو دور دراز کے علاقوں میں پھیلی ہوئی اس سلطنت کی سربراہی کر سکیں جس کے دائرہ میں دنیا کے کل رقبہ کا نصف اور کل آبادی کا ایک تہائی تھا۔‘‘{ FR 7280 }
پروفیسر اورگانسکی کا خیال ہے کہ دنیا کے تمام ہی ممالک میں سب سے اچھی حالت اس ملک کی رہی ہے جس میں آبادی زیادہ ہو اور اس دور میں رہی ہے جب آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہو۔
پروفیسر کولن کلارک کہتا ہے کہ:
’’اہل برطانیہ نے بلند ہمتی کے ساتھ مالتھس کی باتوں کو سننے سے انکار کر دیا۔ اگر وہ مالتھس کے آگے جھک جاتے تو آج برطانیہ بس اٹھارویں صدی کی طرز کی ایک چھوٹی سی زرعی قوم ہوتا۔ امریکہ اور برطانوی دولت مشترکہ کے نشووارتقاء کا توکوئی سوال ہی نہ تھا۔ پیمانہ کبیر کی صنعت کے فطری معاشی تقاضے وسیع طلب، بڑی منڈی اور نقل وحرکت کا ایک مؤثر نظام ہیں جو ایک عظیم اور بڑھتی ہوئی آبادی ہی کی صورت میں قابلِ حصول ہیں۔‘‘{ FR 7281 }
آبادی کی یہ اہمیت بڑے مؤثر سیاسی اور معاشی پہلو رکھتی ہے اور ان میں سے چند کی طرف اشارہ ضروری ہے۔
اس وقت دنیا میں آبادی کی تقسیم کچھ اس طرح ہے ایشیااور عالم اسلام آبادی کے سب سے بڑے مراکز ہیں۔ ان حصوں کے مقابلے میں مغربی ممالک کی آبادی کم ہے اور آبادی کے رجحانات صاف بتا رہے ہیں کہ مستقبل میں ان کے تناسب میں مزید کمی واقع ہوئی۔ گزشتہ پانچ سو سال سے مغرب کی سیاسی قیادت وبالادستی کی بنیاد وہ سائنس اور میکانکی برتری تھی جو اسے مشرقی ممالک پر حاصل تھی اور جس کی وجہ سے اس نے آبادی کی کمی کے باوجود اپنی سیاسی نگرانی قائم کر لی بلکہ استعمار کے اولین دور نے اس غلط فہمی کو جنم دیا کہ کم آبادی کے باوجود مغرب مستقلاً اپنا تسلط قائم رکھ سکتا ہے لیکن نئے حالات اور نئے حقائق نے اس غلط فہمی کے طلسم کو چاک کر دیا ہے۔
مغربی اقوام کی آبادی کے مسلسل کم ہونے سے ان کی سیاسی طاقت میں بھی انحطاط آنا شروع ہوا اور پہلی جنگ کے بعد یہ احساس عام ہو گیا کہ تحدیدِ نسل کا مسلک سیاسی اور اجتماعی حیثیت سے بڑا مہنگا پڑ رہا ہے۔ فرانس نے اپنی عالمی پوزیشن آہستہ آہستہ کھو دی اور مارشل پیتاں نے دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پر کھلم کھلا اس امر کا اعتراف کیا کہ فرانس کے زوال کا ایک بنیادی بڑا سبب بچوں کی کمی (too few children) اور آبادی کی قلت ہے۔ انگلستان اور دوسرے ممالک پر بھی اس کے اثرات پڑنے شروع ہوئے اور ان نتائج کو دیکھ کر سویڈن، جرمنی، فرانس، انگلستان اور اٹلی، ان تمام ہی ممالک نے اپنی پالیسی پر نظر ثانی شروع کی۔ اب حالت یہ ہے کہ ان تمام ممالک میں آبادی کو کم کرنے کے بجائے آبادی بڑھانے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن ہر ممکن کوشش کے باوجود مغرب یہ توقع نہیں رکھتا کہ وہ اپنی آبادی کو اتنا بڑھا سکے گا کہ وہ اپنے سیاسی وقار کو قائم رکھ سکے اور عالمی سیادت کا تاج بدستور پہنے رہے۔ اسے صاف نظر آ رہا ہے کہ آبادی کو بڑھا کر بھی وہ مستقبل میں مشرق اور عالمِ اسلام کا مقابلہ نہ کر سکے گا۔
پھر وہ فنی، سائنسی اور تکنیکی معلومات بھی جو آج تک مشرق پر مغرب کی بالادستی کو قائم رکھے ہوئے تھیں اور جن سے مشرقی ممالک کو بڑی کوشش سے محروم رکھا گیا تھا آج ان ممالک میں تیزی کے ساتھ پھیلنے لگی ہیں اور چونکہ ان ممالک کی آبادی بھی مغربی اقوام کے مقابلہ میں بدرجہا زیادہ ہے اس لیے نئے مشینی آلات سے آراستہ ہونے کے بعد ان اقوام کے محکوم رہنے کا کوئی امکان نہیں رہتا بلکہ فطری قوانین کی وجہ سے اس انقلاب کا لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ مغرب کی سیاسی قیادت کے دن گنتی کے رہ جائیں گے اور نئی عالمی قیادت ان مقامات سے ابھرے گی جہاں آبادی بھی زیادہ ہے اور جوفنی، تکنیکی اور حربی مہارت بھی رکھتے ہیں۔ ان حالات میں مغرب اپنی سیادت کو قائم رکھنے کے لیے جو کھیل کھیل رہا ہے وہ بڑا خطرناک ہے۔ یعنی مشرقی ممالک میں تحدیدِ نسل اور ضبط ِولادت کے ذریعہ آبادی کو کم کرنے کی کوشش، اور فنی معلومات کی ترویج میں رخنہ اندازی۔ ہم یہ بات کسی تعصب کی بنا پر نہیں کہہ رہے ہیں بلکہ ہم خود مغربی ذرائع ہی سے اسے ثابت کر سکتے ہیں۔ آبادی کے مسئلہ پر بیسیوں کتابیں ایسی موجود ہیں جن میں مشرق کے اس نئے خطرہ کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہے اور اس کا علاج یہ بتایا گیا ہے کہ ان ممالک میں ضبط ِولادت کو رواج دیا جائے۔ یہ سارا لٹریچر موجود ہے اور مغربی ذہن اور مغربی حکومتوں کو متاثر کر رہا ہے اور استعماری طاقتوں کا عملی مسلک بھی اس کی توثیق کر رہا ہے۔ اپنے دعوے کی تائید میں ہم چند شہادتیں پیش کرتے ہیں۔ فرینک نو ٹینسٹین مشہور امریکی رسالہ فارن افیئرس (Foreign Affairs) میں ( Politics & Power in Post-war Europe) کے عنوان سے لکھتا ہے:
’’اب اس کا کوئی امکان نہیں کہ شمالی، مغربی یا وسطی یورپ کی کوئی قوم دنیا کو پھر چیلنج کر سکے۔ جرمنی دوسری یورپی اقوام کی طرح اس دور سے گزر چکا ہے جب وہ دنیا کی غالب طاقت بن سکے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اب فنی اور تکنیکی تہذیب ان ممالک میں بھی پہنچ رہی ہے جن کی آبادی بڑی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔‘‘{ FR 7282 }
دراصل یورپ کی سیاسی قیادت کو بیسویں صدی کے دوسرے نصف میں ایشیا اور عالم اسلام کی بڑھتی ہوئی آبادیوں سے شدید سیاسی خطرہ ہے۔ امریکی رسالہ ٹائم(Time) اپنی 11 جنوری 1960ء کی اشاعت میں لکھتا ہے:
’’کثرت آبادی (over population) امریکہ اور یورپی اقوام کی تمام بوکھلاہٹ اور ان کے سارے وعظ ونصیحت دراصل بڑی حد تک نتیجہ ہیں ان سیاسی نتائج واثرات کے احساس کا جو نئے حالات اور ایشیاء، افریقہ اور لاطینی امریکہ کی آبادی کے بڑھنے اور غالب اکثریت حاصل کر لینے کی بنا پر متوقع ہیں۔‘‘ { FR 7283 }
آرنلڈ گرین (Arnold H Green) لکھتا ہے کہ:
’’گذشتہ پچاس سال میں دنیا کی آبادی دوگنی ہو گئی ہے جس کی وجہ سے تمام دنیا کے معاشی اور عسکری توازن (Balance of Economic and Military Power) پرایک شدید بار (strain) پڑ رہا ہے۔‘‘{ FR 7284 }
آرتھر میک کارمک (Arther McCormack) بڑے کھلے الفاظ میں اس بات کا اظہار کرتا ہے کہ:
’’ترقی یافتہ ممالک کے لوگوں کے لیے اس بات میں ایک فطری پسندیدگی ہے کہ کم ترقی یافتہ ممالک میں انسانوں کی تعداد کم ہو جائے اور یہ اس لیے ہے کہ وہ ان کی بڑھتی ہوئی تعداد میں اپنے اعلیٰ معیار زندگی اور پھر خود اپنی سیاسی سلامتی (Security) کے لیے مستقل خطرہ دیکھتے ہیں۔‘‘{ FR 7285 }
میک کارمک مغرب کی اس روش پر شدید نکتہ چینی کرتا ہے اور صاف صاف کہتا ہے کہ اہل مشرق جلد اس ناپاک کھیل کو دیکھ لیں گے اور پھر وہ مغرب کو کبھی معاف نہیں کریں گے اس لیے کہ یہ:
’’ایک نئے قسم کا سامراج ہے جس کا مقصد غیر ترقی یافتہ اقوام کو پست تر کرنا ہے… خصوصیت سے سیاہ فام نسلوں کو…تاکہ سفید فام نسلوں کی بالادستی قائم رہے۔‘‘{ FR 7286 }
ہم مغربی مفکرین کی ایسی بے شمار تحریرات پیش کر سکتے ہیں، مگر آنکھیں کھولنے کے لیے یہی چند شہادتیں کافی ہیں۔ اس پوری بحث سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ مستقبل میں غالب قوت ان ممالک کو حاصل ہو گی جن کی آبادی زیادہ ہے اور جو نئی تکنیک سے بھی آراستہ ہیں۔ اب اس کا تو کوئی امکان نہیں کہ نئی تکنیک سے ان ممالک کو محروم رکھا جائے۔ اس لیے مغربی سیادت وقیادت کو قائم رکھنے والی صرف ایک ہی چیز ہو سکتی ہے اور وہ ہے ان ممالک میں ضبطِ ولات اور تحدیدِ نسل۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی ممالک خود تو آبادی بڑھانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں، مگر مشرقی ممالک میں یہی اقوام پراپیگنڈے کی بہترین قوتوں کو استعمال کرکے ضبطِ ولادت کا پرچار کر رہی ہیں۔{ FR 7287 } اور بہت سے سادہ لوح مسلمان ہیں جو خود پیش قدمی کرکے اس جال میں پھنس رہے ہیں۔
مکر کی چالوں سے بازی لے گیا سرمایہ دار
انتہائے سادگی سے کھا گیا مزدور مات
لیکن اب بلی تھیلے سے باہر آ چکی ہے! اگر اب بھی ہم نے دھوکا کھایا تو نتائج کی ذمہ داری خود ہم پر ہو گی اور ہمارے وہی ’’ہمدرد‘‘ جو آج پوری شفقت کے ساتھ ہمیں خاندانی منصوبہ بندی کا درس دے رہے ہیں کل ہماری کمزوری سے فائدہ اٹھا کر ہم پر اپنا کامل تسلط قائم کرنے کی کوشش کریں گے۔ اس خطرے کو علامہ اقبالؒ نے بہت پہلے محسوس کر لیا تھا اور ملتِ اسلامیہ کو تنبیہہ کی تھی کہ اس سے ہوشیار رہے۔ ان کے یہ الفاظ آج بھی ہمیں دعوتِ فکر وعمل دے رہے ہیں:
’’عام طور پر اب ہندوستان میں جو کچھ ہو رہا ہے یا ہونے والا ہے وہ یورپ کے پروپیگنڈے کے اثرات ہیں۔ اس قسم کے لٹریچر کا ایک سیلاب ہے جو ہمارے ملک میں بہہ نکلا ہے۔ بعض دوسرے وسائل بھی ان کی تشویش وترویج کے لیے اختیار کیے جا رہے ہیں۔ حالانکہ ان کے اپنے ممالک میں آبادی کو گھٹانے کے بجائے بڑھانے کی تدبیریں کی جا رہی ہیں۔ اس تحریک کی ایک بڑی غرض میرے نزدیک یہ ہے کہ یورپ کی اپنی آبادی اس کے اپنے پیدا کردہ حالات کی بنا پر، جو اس کے اختیار واقتدار سے باہر ہیں، بہت کم ہو رہی ہے اور اس کے مقابلے میں مشرق کی آبادی روز بروز بڑھ رہی ہے اور اس چیز کو یورپ اپنی سیاسی ہستی کے لیے خطرہ عظیم سمجھتا ہے۔‘‘{ FR 7288 }
یہ ہے اس مسئلہ کی اصل حقیقت اور اس تحریک کا اصل سیاسی پس منظر۔ جب تک ہم اس تحریک کا اس کے اصل پس منظر میں مطالعہ نہیں کریں گے ہم نہ اس کی حقیقت کو سمجھ سکیں گے اور نہ کوئی صحیح لائحہ عمل ہی تیار کرسکیں گے۔
(3) مسئلہ آبادی اور دفاع
آبادی کی دفاعی اہمیت کے متعلق ہم مختصر اشارات کر چکے ہیں۔ پروفیسر اور گانسکی نے بڑی سچی بات کہی ہے کہ ’’طاقت زیادہ اسی بلاک کے پاس ہو گی جس کے پاس افراد زیادہ ہوں۔‘‘ جن لوگوں کی نگاہ حربی ترقیات پر ہے وہ اس امر سے واقف ہیں کہ ایٹمی ہتھیاروں کے بعد کثرتِ افواج اور کثرتِ آبادی کی دفاعی اہمیت پہلے سے بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جنگ میں آلات کے مقابلے میں انسان کی اہمیت کم ہو رہی ہے اور انسانی قوت غیر موثر بنتی جا رہی ہے۔ لیکن اب اس خیال کی صحت پر کم ہی لوگ اعتماد کرتے ہیں۔ آخر کوریا کی جنگ میں چین نے محض عددی کثرت ہی کی وجہ سے امریکہ کے بہترین ہتھیاروں کو بے اثر کر دیا تھا۔ خود امریکہ کی نئی فوجی تنظیم میں بری فوج اور گوریلا فوج کو از سر نو فروغ دیا جا رہا ہے۔ اس لیے آبادی کے مسئلہ پر دفاعی نقطۂ نظر سے بھی غور بے محل نہ ہو گا۔
خالص دفاعی نقطۂ نظر سے پاکستان کی حیثیت بتیس دانتوں کے درمیان ایک زبان کی سی ہے۔ ہمارے ملک کے ایک طرف ہندوستان ہے۔ جس کی آبادی ہم سے پانچ گنا زیادہ ہے اور جس سے ہمارے تعلقات مختلف وجوہ کی بناء پر بڑی نازک حالت میں ہیں۔ دوسری طرف روس ہے جو عالمی اشتراکیت کے فروغ کے لیے اپنی سیاسی اور فوجی قوت برابر استعمال کر رہا ہے، نیز جس کی آبادی ہم سے تین گنا زیادہ ہے۔ تیسری طرف چین ہے جو ایشیا میں برابر اپنے دائرے کو وسیع کر رہا ہے اور جس کی آبادی ہم سے آٹھ گنا زیادہ ہے۔ ان تینوں کی نگاہیں ہمارے اوپر لگی ہوئی ہیں اور جس نظر سے یہ ہمیں دیکھ رہے ہیں اسے اچھی نظر نہیں کہا جا سکتا۔ ایسے حالات میں ہمارے دفاع کا حقیقی تقاضا کیا ہے؟ آیا یہ کہ ہم آبادی کو کم کرکے اپنی قوت کو اور بھی مضمحل کر لیں یا یہ کہ ہر ممکن ذریعے سے اپنے کو اتنا قوی اور موثر بنا لیں کہ دوسرا ہماری طرف بری نگاہ ڈالنے کی ہمت بھی نہ کر سکے؟
اسی طرح اگر پورے عالمِ اسلام کے نقطۂ نظر سے غور کیا جائے تو یہ حقیقت ناقابلِ انکار ہے کہ ہمیں تین بڑے خطرے درپیش ہیں۔ اولاً ابھی ہماری جنگ مغربی استعمار سے ختم نہیں ہوئی ہے، یہ لڑائی صرف ایک نئے دور (phase) میں داخل ہو گئی ہے۔ سوئیز اور بزرٹا کے واقعات اس بات کی یاددہانی کراتے ہیں کہ اس دنیا میں کمزور کے لیے کوئی مقام نہیں اور عالمِ اسلام کے اہم مقامات ابھی پوری طرح محفوظ نہیں ہیں۔ اگر ہم اپنا سربلند رکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی سیاسی اور حربی قوت کو بہت بلند معیار پر رکھنا ہو گا۔
ثانیاً ہمارا بہت بڑا مسئلہ اسرائیلی استعمار ہے۔ اسرائیل اپنی آبادی کی کثرتِ اولاد اور انتقال آبادی کے ذریعہ برابر بڑھانے کی پالیسی پر عامل ہے۔ پوری دنیا کا یہودی سرمایہ اس کی پشت پر ہے اور فوجی اور عسکری حیثیت سے وہ ہر دم اپنی طاقت کو بڑھا رہا ہے۔ اس کے مقابلے کے لیے بھی پورے عالمِ اسلام کے مسلمانوں کو ہر وقت تیار رہنا چاہیے۔
ثالثاً، اشتراکی استعمار ہے جو متعدد مقامات پر عالمِ اسلام سے ٹکر لینے کی تیاری کر رہا ہے۔ ایران، پاکستان، عراق اور ترکی کی سرحدوں پر خصوصیت سے اس کا دبائو بہت زیادہ ہے اور اگر اس طرف سے ذرا بھی آنکھیں بند کی گئیں تو خدانخواستہ ہمیں وہ نقصان اٹھانا پڑے گا جس کی تلافی ممکن نہ رہے گی۔
ان حالات میں ہمارے لیے آبادی کی دفاعی اہمیت بہت بڑھ جاتی ہے اور عالم اسلام کو محض مغرب کی اندھی نقالی میں کوئی ایسی روش اختیار نہ کرنی چاہیے جو اس کے لیے ملی خودکشی کے مترادف ہو۔
پھر خود مغربی اقوام کو بھی یہ سوچنا چاہیے کہ مشرقی فرنٹ پر عالم اسلام اس کے اور اشتراکیت کے درمیان حائل ہے۔ پورا اشتراکی بلاک آبادی کو بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ روس اور چین دونوں خصوصیت کے ساتھ تکثیر آبادی کی پالیسی پر عامل ہیں اور اس بات کا دعویٰ کرتے ہیں کہ اپنی موجودہ آبادی سے کئی گنی آبادی کو بھی وہ بخوبی پروان چڑھا سکتے ہیں۔ یہی نہیں ان کا دعویٰ تو یہ بھی ہے کہ دنیا کے سارے اشتراکی نظام کے ذریعہ آبادی کو کم کیے بغیر اپنی ضرورتیں پوری کر سکتے ہیں۔ تحدیدِ آبادی کی ضرورت صرف نظامِ سرمایہ داری میں ہے، اشتراکیت میں نہیں۔
اسی طرح اگر یورپ کے دفاعی نظام پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یورپ میں (روس سمیت) اشتراکی بلاک کی آبادی بتیس کروڑ چالیس لاکھ ہے اور غیر اشتراکی بلاک کی تیس کروڑ بیس لاکھ۔ اگر پوری دنیا کو لیا جائے تو اشتراکی بلاک کی آبادی تقریباً ایک ارب اور باقی دنیا کی تقریباً پونے دو ارب ہے (جس میں غیر جانب دار بھی شامل ہیں) یہ توازن بہت جلد بگڑ جائے گا اور مغربی ممالک کی دفاعی لائن بڑی کمزور ہو جائے گی۔ خود مغرب کو اس مسئلہ پر نفع عاجلہ کی روشنی میں غور نہیں کرنا چاہیے بلکہ دور اندیشی سے کام لے کر طویل المدت اثرات کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنی پوری پالیسی پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔
(4) چند معاشی حقائق
ضبط ِتولید کا مسئلہ اپنی اصل کے اعتبار سے معاشی نہیں ہے لیکن اس کے چند پہلو ایسے ضرور ہیں جن پر معاشی نقطۂ نظر سے غور کیا جا سکتا ہے۔
اس سلسلہ میں سب سے پہلی چیز تو یہ ہے کہ آبادی کی کثرت معاشی حیثیت سے بالعموم مفید ہوتی ہے۔ ہر وہ انسان جو دنیا میں آتا ہے وہ اپنے پاس صرف ایک پیٹ ہی نہیں رکھتا، دو ہاتھ، دو پائوں اور ایک دماغ بھی رکھتا ہے۔ پیٹ اگر احتیاجات پیش کرتا ہے تو یہ پانچوں مل کر انھیں پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور معاشی مفکرین کا ایک بڑا موثر گروہ اس رائے کا حامی ہے کہ غیر ترقی یافتہ ممالک میں ابتدائی معاشی انقلاب کے لیے بڑھتی ہوئی آبادی بڑی مفید ہے کیونکہ اس کے ذریعہ سے وافر محنت (labour) اور موثر طلب (Effective Demand) فراہم ہوتی ہے اور ایک ترقی یافتہ معیشت میں ترقی کو قائم رکھنے اور مانگ کو وسعت دینے کے لیے (تاکہ کساد بازاری رونما نہ ہو) آبادی میں مسلسل اضافہ بے حد ضروری ہے۔ لارڈ کینز (J.M.Keynes)، پروفیسر ہینس(A.L.Hansen)، ڈاکٹر کولن کلارک (Colin Clark)، پروفیسر جی۔ڈی۔ایچ کول (G.D.H.Cole) اور متعدد دوسرے مفکر یہی نقطۂ نظر پیش کرتے ہیں اور معاشی تاریخ ان کے نظریات کی تائید کرتی ہے۔
دوسری چیز یہ ہے کہ پوری دنیا کے وسائل موجودہ آبادی ہی نہیں بلکہ ہر ممکن التصور آبادی کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے کافی ہیں۔ وسائل ضرورت سے کہیں زیادہ ہیں اور بے کار پڑے ہیں۔ کولن کلارک اس رائے کا اظہار ٹھوس حقائق کی بنیاد پر کرتا ہے کہ موجودہ آبادی سے دس گنا زیادہ آبادی کو دنیا کے صرف معلوم وسائل کے صحیح استعمال سے مغربی یورپ کے اعلیٰ معیار زندگی پر برقرار رکھا جا سکتا ہے۔{ FR 7289 } پروفیسر جے۔ ڈی۔ برنال (J.D Bernal) بھی اپنی آزاد اور سائنٹیفک تحقیقات کے بعد یہی رائے ظاہر کرتا ہے۔{ FR 7290 }
تیسری بنیادی چیز یہ ہے کہ موجودہ آبادی کے جو اعداد وشمار پیش کیے جاتے ہیں وہ تو بڑی حد تک ضرور قابل اعتماد ہیں لیکن ماضی اور مستقبل کے رجحانات کے متعلق جو اندازے ان کی بنیاد پر قائم کیے جاتے ہیں ان پر گفتگو کی بڑی گنجائش ہے۔ ڈیمو گرافی (demography) کا علم ابھی بہت نیا ہے اور اس کی تحقیقات اس مقام پر نہیں پہنچی ہیں جہاں بھروسہ اور اعتماد کے ساتھ مستقبل کے متعلق کوئی اندازہ قائم کیا جا سکے۔ ہم بہت سے بہت مستقبل قریب کے متعلق کچھ کہہ سکتے ہیں لیکن صدیوں بعد کی آبادی کی کیفیت کے متعلق کوئی قابلِ اعتماد اندازہ قائم نہیں کر سکتے۔
ابھی تک ہمارے پاس وہ ذرائع معلومات نہیں ہیں جن کی بنیاد پر یقینی تخمینے پیش کیے جا سکیں۔ پھر آبادی کے رجحانات کے بہت سے اسباب ابھی تک نامعلوم ہیں۔ مثلاً ڈاکٹر آرنلڈ ٹائن بی (Dr. Arnold Toynbee) ہمیں بتاتا ہے کہ تیئس میں سے اِکیس تہذیبوں میں عروج پر پہنچ کر آپ سے آپ آبادی کے اضافہ کی رفتار میں کمی ہو جاتی ہے۔ اس کی توثیق آبادی کے فطری اضافے کی تاریخ سے بھی ہوتی ہے۔ مثلاً رے مونڈ پرل (Raymond Pearl) اپنے ایک مضمون میں لکھتا ہے کہ:
’’صنعتی ترقی، شہروں کے فروغ (urbansation) اور ان کے نتیجہ میں رونما ہونے والی آبادی کی گنجانی ایک ملک میں جتنی زیادہ ہو گی اتنی ہی اس ملک میں باروری(fertility) اور شرح اضافہ آبادی کم ہو گی…… چند واضح مستثنیات کو چھوڑ کر ایسا ہی ہوا ہے۔‘‘{ FR 7291 }
ڈاکٹر میڈ اور ایف۔ آر۔ایس اپنے1959ء کے ریتھ لیکچرز میں علم آبادی کے اندازوں کی مشکلات تفصیل سے بیان کرتے ہیں۔{ FR 7292 } اقوام متحدہ کی ایک سرکاری رپورٹ میں بھی اس بات کا اظہار کیا گیا ہے کہ یہ سمجھنا درست نہیں ہو گا کہ آئندہ صدی میں بھی اضافہ اسی رفتار سے ہو گا جس سے ماضی میں ہوا ہے۔ اس رپورٹ کی رو سے: ’’یہ بات بالکل احمقانہ ہو گی کہ ہم اس وقت اپنے اندازوں کو مستقبل بعید کی دور درازیوں تک لے جائیں۔‘‘{ FR 7293 }
اس رپورٹ کے مطابق معقول اندازے اس صدی کے اخیر تک کے لیے قائم کیے جا سکتے ہیں۔ اس سے زیادہ نہیں۔ لیکن کچھ دوسرے ماہرین کا خیال ہے کہ ہم زیادہ سے زیادہ آئندہ دس پندرہ سال تک کا اندازہ قائم کر سکتے ہیں۔ اس سے زیادہ کرنا احتیاط کے منافی ہے{ FR 7294 } اور ایک سوشیولوجسٹ پوری بحث کو اس طرح سمیٹتا ہے کہ:
’’آبادی کے متعلق تخمینوں اور پشین گوئیوں میں دلچسپی بڑی کم ہو گئی ہے اور اس کی وجہ اعتماد کی کمی ہے۔ تھوڑے عرصہ قبل تک غیر ماہرین آبادی (non-demographers) میں یہ خیال عام تھا کہ علم آبادی ایک ایسا علم ہے جس میں مستقبل کے واقعات کے بارے میں پشین گوئی غیر معمولی طور پر درست ہوتی ہے لیکن جوں جوں وقت گزرتا گیا، ناامیدی بڑھتی گئی اور اب بے اعتمادی عام ہے۔‘‘{ FR 7295 }
اس سے معلوم ہوا کہ معاشی حیثیت سے خود آبادی کے اندازے اور اس کے رجحانات پر بھی بڑی احتیاط سے غور ہونا چاہیے اور عام صحافیانہ انداز میں یہ کہہ دینا کہ 600 سال کے بعد دنیا میں کھڑے ہونے کی جگہ بھی باقی نہ رہے گی، بے حد قابل اعتراض ہے۔
چوتھی بات یہ ہے کہ معاشی نقطۂ نظر سے اگر آبادی کے مسئلہ پر غور کیا جائے تو اس کا بڑا قریبی تعلق معیشت کی تنظیمی ہیئت (Structure of the Economy) سے ہے۔ مغرب نے اپنے حالات کی مناسبت سے ایک خاص ہیئت بنائی جوپیمانہ کبیر اور سرمایہ کی مرکزیت پر مبنی تھی اور جس میں ساری کوشش محنت کے حصہ کو کم کرنے اور سرمائے کے حصہ کو بڑھانے پر صرف ہوئی۔ ایسی صنعت کو معاشیات کی اصطلاح میں کیپیٹل ان ٹینسو انڈسٹری (Capital Intensive Industry) کہتے ہیں۔ اس قسم کی معاشی ہیئت میں محنت کی ضرورت برابر کم ہوتی جاتی ہے اور آبادی کے بڑھنے سے بیروزگاری کا مسئلہ پیدا ہو جاتا ہے لیکن اگر معیشت کا ڈھانچہ کسی اور بنیاد پر تعمیر کیا جائے اور اسے کوئی دوسری ہیئت دی جائے تو آبادی کا مسئلہ اس میں پیدا نہ ہو گا۔ اس کی مثال جاپان میں ملتی ہے۔ جاپان نے اس بات کو محسوس کر لیا تھا کہ کیپیٹل ان ٹینسو (Capital Intensive) صنعتی ہیئت اس کے لیے موزوں نہیں ہے۔ وہاں سرمایہ کی کمی اور محنت کی فراوانی تھی۔ اس لیے اس نے چھوٹے پیمانے کی صنعت کو بے مرکزیت (de-centralisation) کے ساتھ فروغ دیا اور اس کی کارکردگی کو اعلیٰ ترین معیار پر پہنچانے کی کوشش کی۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ اس کی صنعت (Labour Intensive) ہو گئی اور اس میں آبادی کے غیر معمولی اضافے کے باوجود بے روزگاری یا کثرتِ آبادی کا مسئلہ پیدا نہ ہوا۔
جاپان کا رقبہ پاکستان کے رقبے کا تقریباً نصف ہے۔ پھر ملک کے پورے رقبے کا صرف 17 فیصد قابل استعمال ہے۔ باقی تمام آتش فشاں پہاڑوں کے سلسلہ کی وجہ سے بیکار ہے۔ اس طرح اس کا قابل استعمال رقبہ ہمارے رقبہ کا تقریباً بارہواں حصہ (1/12)ہے۔ لیکن اس ملک نے ہماری آبادی سے بڑی آبادی کو بڑے اچھے معیار پر قائم رکھا اور اپنی معاشی قوت کو وہ ایسے مقام پر لے گیا کہ اس کی مصنوعات نے برطانیہ اور امریکہ کی منڈیوں پر قبضہ کر لیا، حتیٰ کہ یورپ کی ساری ترقی یافتہ اقوام مل کر بھی معاشی میدان میں اس کا مقابلہ نہ کر سکیں۔ نہ صرف یہ بلکہ اس کی طاقت ایک ایسے مقام تک پہنچ گئی جہاں سے اس نے خود سیاسی میدان میں بھی ساری مغربی دنیا کو چیلنج کر دیا۔
اس سے معلوم ہوا کہ آبادی کے مسئلہ کا مطالعہ محض سطحی انداز سے نہیں ہونا چاہیے۔ اگر معیشت کی تنظیمی ہیئت کو آبادی کے مناسب حال ترقی دے دی جائے تو معاشی حیثیت سے آبادی کا کوئی مسئلہ پیدا ہو جانے کا کوئی سوال نہیں۔ آج کی دنیا میں فی الواقع اگر آبادی کے لیے غربت، افلاس اور بدحالی کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے تو اس کی وجہ ہماری اپنی غلطیاں ہیں فطری وسائل اور اسباب اس کے ذمہ دار نہیں ہیں۔ اس سلسلہ میں بھی چند بنیادی باتیں ہم عرض کرنا چاہتے ہیں۔
(۱) ہم اپنے وسائل کو ٹھیک ٹھیک استعمال نہیں کر رہے ہیں۔ وسائل موجود ہیں اور بہ افراط موجود ہیں لیکن انسان اپنی سستی اور کاہلی کی وجہ سے ان سے فائدہ نہیں اٹھا رہا ہے۔ دنیا میں غربت کا سب سے بنیادی سبب یہی ہے۔
(ب) فطرت نے پوری دنیا میں وہ تمام وسائل ودیعت کر دیے ہیں جو انسانیت کے لیے ضروری ہیں۔ وسائل کی تقسیم اس طرح ہے کہ پوری دنیا ایک وحدت اور اکائی کی حیثیت رکھتی ہے۔ کوئی ایک ملک بھی ایسا نہیں ہے جو اپنی ضرورت کی تمام چیزیں صرف اپنے وسائل سے حاصل کرلے۔ البتہ پوری دنیا کے تمام وسائل سب انسانوں کے لیے کافی ہیں۔ انسان کو اپنی تنگ نظری کو چھوڑ کرایسے مسائل پر عالمی بنیادوں پر غور کرنا ہو گا۔ ہم ایک ملک میں یہ ضروری نہیں سمجھتے کہ ہر ہر شہر میں اس کی ضرورت کی تمام چیزیں پیدا ہوں۔ یہی نقطۂ نظر پوری دنیا کے لیے بھی اختیار کرنا ہو گا۔ تب ہی دنیا کے سارے وسائل انسانیت کی فلاح وبہبود کے لیے استعمال ہو سکیں گے۔
(ج) اسی غلط نقطۂ نظر کا نتیجہ ہے کہ اس وقت دولت کی تقسیم نہایت غلط ہے۔ جن حصوں میں پیداوار کی افراط ہے وہ وہیں ضائع ہو رہی ہے اور باقی انسانیت کی فلاح کے لیے استعمال نہیں ہو رہی۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ دنیا کی پیداوار کم ہے وہ نہیں جانتے کہ مغربی دنیا کے لیے اور خصوصیت سے امریکہ کے لیے اصل مسئلہ کثرت پیداوار (over-production) کا ہے۔ اس کے لیے زائد پیداوار کو ٹھکانے لگانے کا مسئلہ درد سر کا باعث بنا ہوا ہے۔ امریکہ کی حکومت کوبیس کروڑ سےچالیس کروڑ ڈالر (تقریباً ایک ارب روپیہ) تک محض فاضل آلوئوں کو ضائع کرنے یا کم قیمت پر بیچنے پر صرف کرنے پڑتے ہیں۔ کیلیفورنیا کی کروڑوں روپے کی کشمش اور منقیٰ سؤروں کو کھلا دی جاتی ہے۔ امریکہ کی کریڈٹ کارپوریشن (U.S Commodity Credit Corporation) کے پاس بیس ارب ڈالر (تقریباً 90 ارب روپے) کا فاضل مال بے کار پڑا ہوا ہے۔ اس میں سے چند چیزیں یہ ہیں:{ FR 8163 }
روئی
50 لاکھ گانٹھ تقریباً
مالیت: 75 کروڑ ڈالر
گندم
40 کروڑ بشل(2)
مالیت: 90کروڑ ڈالر
مکئی
60کروڑ بشل تقریباً
مالیت: 90کروڑ ڈالر
انڈے (سوکھے ہوئے)
7کروڑ پونڈ تقریباً
مالیت: 10کروڑ ڈالر
مکھن
10 کروڑ پونڈ تقریباً
مالیت: 6کروڑ ڈالر
دودھ (سوکھا ہوا)
25کروڑ پونڈ تقریباً
مالیت: 3کروڑ ڈالر
اسی طرح (F.A.O) کے اعداد وشمار سے معلوم ہوتا ہے کہ غیر استعمال شدہ اسٹاک برابر بڑھ رہے ہیں، اربوں من غذائی اور دوسری اشیاء دنیا کے کچھ حصوں میں بے کار پڑی سڑ رہی ہیں اور ان کی حفاظت پر کروڑوں روپیہ صرف کیا جا رہا ہے، جب کہ دنیا کے دوسرے حصوں میں فقر وفاقہ کی حکمرانی ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب صورت حال یہ ہے تو پھر ہم قلت کے لیے اللہ میاں اور معاشی وسائل کا رونا کیوں روئیں۔ بقول شیکسپیئر:
(The fault, dear Brutus, is not in our stars but in ourselves that we are underlings.)
جناب پروٹس:
’’خرابی زمین وآسمان میں نہیں خود ہم میں ہے اور ہمیں خود اپنی آنکھ کے شہتیر کی طرف توجہ کرنی چاہیے۔‘‘
یہ مغربی انسان کی خود غرضی ہے جو دنیا میں معاشی بدحالی کی باعث ہے۔ مہذب انسان ایک طرف اپنی فاضل پیداوار کو مصنوعی قیمتوں کے قیام کی خاطر ضائع کر رہا ہے اورانسانیت کو اس سے مستفید نہیں ہونے دیتا۔ دوسری طرف وہ اپنے سارے وسائل کو پیداوار کے لیے استعمال نہیں کرتا بلکہ انھیں تعیش اور ضیاع کی نذر کر دیتا ہے۔ بقول پروفیسر لینڈس:
’’انانیت زدہ مغربی انسان ایک ایسے مقام پر پہنچ گیا ہے جہاں وہ اپنی ساری قوتیں خوراک کی رسد کو بڑھانے کے لیے استعمال کرنے پر تیار نہیں ہے۔‘‘{ FR 7298 }
(د) مشرقی ممالک میں کاہلی اور سست رفتاری ضرور ہے لیکن ان کے وسائل سے مغرب جس طرح فائدہ اٹھا رہا ہے وہ بھی ان کے لیے ایک بہت بڑا بار ہے جس کے نتیجہ کے طور پر ان کی غربت اور معاشی پریشانی کچھ اور بھی سوا ہو گئی ہے۔ استعمار نے جس طرح ان ممالک کے وسائل کو لوٹا کھسوٹا ہے اور افریقہ میں آج بھی لوٹ رہا ہے وہ بڑی تلخ داستان ہے۔ آزادی کے بعد بھی سو طریقوں سے ان ممالک کا انتفاع جاری ہے۔ اس کی صرف ایک مثال قیمتوں میں عدم استحکام (instability) ہے۔ مغربی ممالک جو ان ممالک کی اشیاء کے خریدار ہیں، قیمتوں میں استحکام نہیں آنے دیتے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ان ممالک کو بڑے عظیم مالی نقصان پر اپنا مال بیچنا پڑتا ہے۔ مثلاً صرف کوکو کی قیمتوں میں غیر معمولی کمی کی بنا پر مغربی افریقہ کے ممالک کو صرف ایک سال (1965ء) میں 62 کروڑ ڈالر کا نقصان ہوا۔ (1954ء میں قیمت 57 سینٹ فی پونڈ تھی جو 1956ء میں 26 سینٹ پر آ گئی) یا ربڑ کی قیمتوں میں عدم استحکام کی وجہ سے ایک سال میں جنوب مشرقی ایشیا کو ایک ارب بتیس کروڑ ڈالر کا نقصان ہوا۔ (1951ء میں قیمت 56 سینٹ فی پونڈ تھی جو 1954ء میں 23 سینٹ رہ گئی۔){ FR 7299 }
اگر سارے حقائق کو سامنے رکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ انسان کی پریشانیاں خود حضرت انسان ہی کی پیداکردہ ہیں۔ جو دو مثالیں ہم نے اوپر دی ہیں ان سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ اگر قیمتوں کو مستحکم کیا جاتا اور ان ممالک کی مجبوری سے ناجائز فائدہ نہ اٹھایا جاتا تو یہ سارا سرمایہ ان کی معاشی ترقی کے لیے استعمال ہو سکتا تھا۔ غیر ترقی یافتہ ممالک میں سرمایہ کی کمی ضرور ہے اور یہ کمی معاشی ترقی کی راہ میں مانع بھی ہے لیکن خود اس کمی کے اسباب کیا ہیں؟ ان کا سررشتہ خود انھی عناصر کی کرم فرمائیوں سے جا ملتا ہے جو سرمایہ کی قلت کا راگ صبح وشام الاپتے ہیں اور مشرقی لوگوں کو بچے کم پیدا کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔
(ھ) اسی طرح دنیا کے وسائل کا جو حصہ جنگ کی تیاری پر صرف ہو رہا ہے اگر اسے یا اس کے بڑے حصہ کو معاشی تعمیر کیلئے استعمال کیا جا سکے تو دنیا کی غربت ایک محدود عرصہ میں ختم ہو سکتی ہے۔ ۵۷۔۱۹۵۰ء کے اعداد وشمار کی بنیاد پر یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ اس زمانہ میں کم از کمنوّے ارب ڈالر سالانہ (تقریباً چار سو ارب روپے سالانہ) جنگی تیاری پر خرچ ہوا ہے۔{ FR 7300 }
برنال تفصیلی بحث کے بعد یہ ثابت کرتا ہے کہ:
’’یہ رقم اس رقم سے کہیں زیادہ ہے جو دنیا کے تمام غیر ترقی یافتہ ممالک میں تیز رفتار عملی ترقی کے حصول کے لیے ضروری ہے۔‘‘{ FR 7301 }
منجملہ اور اسباب کے یہ وہ موٹے موٹے اسباب ہیں جو دنیا میں غربت اور معاشی مفلوک الحالی کے ذمہ دار ہیں۔ آبادی کے مسئلہ کا اصلی حل ان موانع کو دور کرنے میں ہے، انسانوں کی پیدائش روکنے میں نہیں ہے۔
(5) کیا ضبط ِ ولادت کوئی حل ہو سکتا ہے؟
ضبط ِ ولادت کے متعلق دینی اور عقلی حیثیت سے جو بحثیں گزر چکی ہیں ان کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ شریعت میں اس کے لیے کوئی گنجائش نہیں۔ اگر ضبط ِولادت کی کوئی گنجائش ہے تو وہ ان حقیقی انفرادی ضرورتوں کے لیے ہے جن میں شریعت نے کسی اعلیٰ تر مصلحت کی خاطر ایک کم تر برائی کو گوارا کیا ہے۔ اور وہاں بھی یہ فرد کا انفرادی معاملہ ہے کہ وہ حقیقی مشکلات اور مسائل کو سامنے رکھ کر، خدا کے سامنے جوابدہی کے پورے احساس کے ساتھ اور مناسب طبی مشورہ کی بنا پر ایسا کرے۔ اگر یہ فعل محض لذت نفس کے لیے کیا جائے تو شریعت کی نگاہ میں یہ ناجائز ہے۔ اس لیے دینی حیثیت سے تو کسی ملک گیر مہم کے لیے قطعاً کوئی گنجائش ہی نہیں ہو سکتی۔
پھر اس تحریک کے جو نفسیاتی، اخلاقی، معاشرتی، سیاسی اور معاشی نقصانات رونما ہوتے ہیں وہ بھی تباہ کن ہیں اور خود عقل اس تحریک کو ملک کے لیے منفعت بخش نہیں سمجھتی۔
یہ تمام چیزیں درست! لیکن ہم تو یہ محسوس کرتے ہیں کہ عالمِ اسلام اور مشرقی ممالک میں واضح حقائق اس امر کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ یہ تحریک یہاں ایک لمبے عرصے تک کامیاب ہی نہیں ہو سکتی۔ خالص مادی بنیادوں پر بھی اس کی کامیابی کے امکانات موہوم ہیں اور بالآخر اس کی حیثیت ’’گناہ بے لذت‘‘ سے زیادہ نہ ہو گی۔ ہم اس سلسلہ میں بھی غور وفکر کے لیے چند معروضات پیش کرتے ہیں۔
اولاً، ضبط ِولادت کوئی مثبت چیز نہیں ہے۔ اس کے ذریعے حالات کا مقابلہ کرنے کے بجائے ان کے آگے سپر ڈال دینے کی روش اختیار کی جاتی ہے۔ یہ ایک منفی چیز ہے اور اس کے ذریعہ کوئی بھی مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ دنیا کی ضرورت روٹی ہے، مانع حمل گولی نہیں۔ یہ پوری تحریک ایک منفی تحریک ہے اور معاشی مسئلہ کا کوئی مثبت حل پیش نہیں کرتی۔ یہی وجہ ہے کہ یہ اگر کامیاب ہو بھی جائے تب بھی معاشی حیثیت سے ملک کو کچھ حاصل نہیں ہوتا اور ہم وہیں رہتے ہیں جہاں تھے، بلکہ نئی پیچیدگیوں میں گرفتار ہو جاتے ہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ اس تحریک کا نتیجہ …… اگر اس پر بڑی سختی سے عمل ہو تب بھی کم از کم صدی نصف صدی کے بعد رونما ہو گا۔ خود یورپ میں اس کے نتائج خاصی مدت کے بعد رونما ہوئے تھے۔ اس لیے کوئی فوری اثر ہماری معیشت پر اس کا نہیں پڑ سکتا۔ لمبے عرصے میں شاید یہ کچھ نتائج نکالے لیکن لمبے عرصے کے متعلق، جیسا کہ لارڈ کینس (Keyns)نے کہا ہے کہ ہم صرف ایک ہی چیز جانتے ہیں اور وہ یہ کہ ’’لمبے عرصے میں ہم سب مر جائیں گے۔‘‘
“In the long run we all shall be dead.”
تیسری چیز یہ ہے کہ ضبط ِولادت محض ایک طبی یا معاشی اسکیم نہیں ہے جسے دنیا کے ہر ملک میں جب چاہے متعارف کرا دیا جائے۔ اس کی کامیابی کے لیے ایک خاص تمدنی ماحول اور کچھ خاص اخلاقی اور معاشرتی رویے (attitudes) ضروری ہیںاور ان کی عدم موجودگی میں یہ چل ہی نہیں سکتی۔ ہوراس بیل شا (Horace Belshaw)کہتا ہے کہ:
’’ضبط ِولادت کے پروپیگنڈے سے اس بات کی توقع کی جاتی ہے کہ عام لوگوں میں بیسیوں سال (many decades) کے بعد شرح پیدائش کم ہو گی۔ یہ پروپیگنڈا آہستہ آہستہ رائے عامہ کی تعمیر کرے گا۔ لیکن ترتیب امور سے پتہ چلتا ہے کہ اس قسم کے پروپیگنڈے کے اس وقت تک موثر ہونے کی توقع نہیں کی جا سکتی جب تک دوسری معاشرتی اور معاشی تبدیلیوں کے ذریعہ اس کے لیے زمین ہموار نہ کی جائے۔‘‘{ FR 7302 }
یہی مصنف مزید کہتا ہے:
’’متعدد قسم کی مزاحمتیں اور معاشی اور فنی مشکلات اتنی مضبوط اور موثر ہیں کہ تحدیدِ خاندان کے لیے تعلیم اور پروپیگنڈے کے بالواسطہ طریقے جلد نتائج نہ دے سکیں گے، جس طرح خود مغرب میں بھی وہ فوری نتائج نہ دے سکے تھے۔‘‘{ FR 7303 }
بیلشا اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ:
’’نتیجتاً ہم توازن کے ساتھ جو بات کہہ سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ لمبے عرصے میں لوگوں کے رویہ کی تبدیلی کے امکانات کے سلسلہ میں ہم بجا طور پر بڑی حد تک پر امید (Qualified Optimism)ہو سکتے ہیں۔ نیز آئندہ شرح پیدائش کی بیس تیس سال میں ایسی کمی کے سلسلہ میں جو شرح اموات کی کمی کی تلافی کر دے، ہم بڑی حد تک مایوس (Qualified Pessimism) ہیں۔‘‘{ FR 7304 }
اس لیے یہ مصنف مشورہ دیتا ہے کہ اصل توجہ آبادی سے ہٹ کر دوسرے ذرائع پر دینی چاہیے۔ سرچارلس ڈارون جو ضبط ِولادت کا متشدد حامی ہے اپنے حالیہ مضمون دی پریشر آف پاپولیشن (The Pressure of Population) میں لکھتا ہے کہ:
’’خواہ کتنی ہی تیزی کے ساتھ یہ (یعنی تحریکِ ضبط ولادت) پھیلائی جائے۔ یہ بات بعید از قیاس معلوم ہوتی ہے کہ ایک ارب لوگوں کی عادات میں اتنا مکمل انقلاب پچاس سال کے اندر بھی آ سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس سلسلہ کے حالیہ تجربات تو بہت ہی مایوس کن ہیں… گو یہ کام اس لائق ہے کہ اس کی ضرور حوصلہ افزائی کی جائے لیکن یہ ہرگز متوقع نہیں کہ پچاس سال بعد بھی یہ دنیا کی آبادی کے ایک معمولی حصہ سے زیادہ کو متاثر کر سکے گا۔‘‘{ FR 7305 }
میک کارمک اس رائے کا اظہار کرتا ہے کہ:
’’ان ممالک میں جہاں طبی خدمات بہت ہی کمیاب ہیں اور بڑے بڑے علاقوں میں بالکل ہی مفقود ہیں ضبطِ ولادت ناقابلِ عمل ہے اور نہ اس کی کامیابی کے امکانات ہیں۔‘‘{ FR 7306 }
ہندوستان میں تحریک ضبط ولادت کا ایک اولین علمبردار ڈاکٹر چندر سیکھر اپنی ایک جدید تصنیف میں لکھتا ہے کہ ؎
’’جہاں تک ضبط ِ ولادت کے پیغام کو دیہات کے لکھوکھا افراد تک پہنچانے کا سوال ہے یہ بات کہی تو آسانی سے جا سکتی ہے لیکن عملاً اسے انجام دینا محال ہے۔ حالات یہ ہیں کہ آج ایشیا کے دیہات میں طبی سہولتوں کا قحط ہے۔ لاکھوں گھروں میں پانی کا نل اور غسل خانہ تک نہیں ہے اور نہ تخلیہ ہی کا کوئی بندوست ہے۔ دیہات شفاخانوں اور مطبوں (clinics) سے بہت دور دور ہیں اور جن مقامات پر کچھ سہولتیں موجود ہیں وہاں بھی غربت، جہالت، کمزور صحت اور جمود وعدم حرکت کے مشکل اور پریشان کن مسائل موجود ہیں (جو انھیں غیر مؤثر بنا دیتے ہیں۔)
’’یہ تو ہوئیں عام مشکلات۔ جہاں تک خصوصی ضروریات کا سوال ہے وہ ہر ہر قوم میں مختلف ہو سکتی ہیں۔ معاشرتی اور اخلاقی زاویے، مذہبی عقائد، خاندانی تنظیم، جنسی رویہ کے ضابطے، گھریلو حالات اور دوسرے بے شمار حقائق ہیں جو ضبط ِتولید کے لیے آمادگی یا عدم آمادگی پر اثر انداز ہوں گے۔ اور ہمیں صاف صاف اس بات کا اعتراف کر لینا چاہیے کہ دنیا کے گنجان علاقوں کی قوموں اور نسلوں کے بارے میں ان امور کے متعلق ہمیں بہت کم معلومات حاصل ہیں۔ اس لیے اس کا امکان ہے کہ ہندوستان کے ایک جھونپڑے، چین کے ایک چھپر اور جاپان یا برما کے ایک دیہی مکان سے عملِ جراحی، ذرائع وادویہ ضبط تولید اور ان کے استعمال کی آمادگی ابھی صدیوں دور ہیں۔‘‘{ FR 7307 }
امریکی ماہر معاشیات پروفیسررچرڈ میئر (Richard Meier) اس رائے کا اظہار کرتا ہے کہ غیر ترقی یافتہ ممالک میں ضبط ِولادت کے ذرائع کا فروغ ایک معاشی عجوبہ ہو گا۔ وہ اس کے فوری اثرات کا بالکل منکر ہے اور ایسے سات اسباب بیان کرنے کے بعد جو اس تحریک کی راہ میں مانع ہیں اور جن کو دور کیے بغیر اسے فروغ نہیں ہو سکتا، لکھتا ہے:
’’یہ وہ حالات ہیں جو کسی معاشرہ میں اسی وقت موجود ہو سکتے ہیں جب وہاں معاشی ترقی واقع ہو چکی ہو۔ دنیا میں ابھی تک کوئی ایک مثال بھی ایسی نہیں ہے جو بتاتی ہو کہ ایک ایسی دیہی آبادی نے جس کا معیار خواندگی پست ہو اور جو کفالت کے معیار پر زندگی گزار رہی ہو، اپنی رضا مندی سے ضبطِ تولید کو اختیار کیا ہو اور اسے کامیاب بھی کر لیا ہو۔‘‘{ FR 7310 }
جدید تجربہ بھی ماہرین کی مندرجہ بالا آراء کی تائید تُوثیق کرتا ہے۔ جاپان اور پیورٹوریکو (Puerto Rico) میں دوسری جنگ کے بعد کروڑوں روپے کے صرف پر ضبط ِ ولادت کی تحریک کو فروغ دیا گیا اور مانع حمل ادویہ کو پھیلایا گیا۔ لیکن دونوں جگہ یہ تحریک ناکام رہی۔ بالآخر جاپان میں اسقاطِ حمل (abortion)کو اختیار کیا گیا اور پیور ٹوریکومیں آپریشن کے ذریعہ سے بانجھ کر دینے کا طریقہ اپنا لیا گیا ہے۔‘‘{ FR 7309 }
اس سے معلوم ہوا کہ ضبطِ ولادت
……مشرقی ممالک میں ناقابل عمل ہے۔
……اس کے تجربات ناکام رہے ہیں۔
……اور اگر یہ کامیاب ہو بھی جائے تب بھی اس کے اثرات پچاس سال سے ایک صدی بعد تک رونما ہوں گے اور ؎
کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک
اس تحریک کے ناقابلِ عمل ہونے کے سلسلہ میں ایک پہلو اور بھی قابل غور ہے۔ ضبطِ تولید کے جو ذرائع بھی آج تک دریافت ہوئے ہیں وہ سب بے حد گراں خرچ اور مسرفانہ ہیں۔
پچھلے دنوں انگلستان کے دارالامراء (House of Lords) میں ضبط ِولادت پر بڑی دلچسپ بحث ہوئی۔ اس بحث کے دوران ایک مقرر نے بتایا کہ ہندوستان کے تجربات اس بات پر شاہد ہیں کہ مانع حمل ذرائع کا استعمال بے حد گراں خرچ ہے اور ایک ڈاکٹر کے الفاظ میں ’’خواہ یہ کتنا ہی حیرت انگیز کیوں نہ معلوم ہو لیکن حقیقت یہی ہے کہ دیہی علاقے میں ایک بچے کی پیدائش پراتنا خرچ نہیں آتا جتنا مانع حمل ذرائع کے حصول پر آتا ہے۔‘‘ اسی بحث میں لارڈ کیسی (Lord Casey) نے ڈاکٹر اے۔ ایس پارکس کے حوالہ سے کہا کہ:
’’نئی دریافت شدہ گولی کے لیے ضروری ہے کہ مہینہ میں بیس گولیاں استعمال کی جائیں۔ ایشیائی دیہات کی ایک ان پڑھ خاتون کے لیے یہ کھکھیڑ بڑی پریشان کن اور ناقابل برداشت ہے۔ باقی تمام ذرائع (منع حمل) بھی بے کار ہیں، کیونکہ کچھ تو موثر نہیں، کچھ بہت مہنگے ہیں اور کچھ بہت تکلیف دہ۔‘‘{ FR 7311 }
منع حمل کے نئے ذرائع کی گرانی کا اندازہ صرف ایک مثال سے کیجیے:
آج کل ضبط ِولادت کی جن گولیوں کا بڑا چرچا ہے وہ صرف اسی صورت میں کارآمد ہو سکتی ہیں جب ہر مہینے ان کا پورا کورس استعمال کیا جائے یعنی بیس گولیاں۔ اگر ایک بھی دن چھوٹ جاتا ہے تو پوری دوا بے اثر ہو جاتی ہے۔ اس طرح ہر عورت کو سال میں 240 گولیاں کھانی پڑیں گی تب وہ اولاد کے ’’خطرے‘‘ سے محفوظ ہو سکے گی۔ ایک گولی کی قیمت 50 سینٹ ہے۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ ہر سال ایک عورت کو ۱20 ڈالر یا تقریباً 540 روپے صرف ان گولیوں پر خرچ کرنے ہوں گے۔{ FR 7312 } اب ذرا سوچئے کہ پاکستان میں جہاں کے ایک شہری کی اوسط سالانہ آمدنی (1960-61ء کے تازہ ترین اندازے کے مطابق) 244 روپے ہے۔{ FR 7313 } ہر عورت 540 روپے فی سال صرف ان گولیوں پرکیسے خرچ کر سکے گی؟
اس مسئلہ کو ایک دوسرے پہلو سے لیجے۔ ہماری کل آبادی نَوکروڑ ہے۔ اس میں سے اگربوڑھوں اور بچوں کی تعداد کو نکال دیا جائے تو ان عورتوں کی تعداد جو ماں بننے کے لائق ہیں تقریباً دو کروڑ ہو گی۔ اگر ان کا نصف بھی ان گولیوں کو استعمال کرے تو اس پر سالانہ خرچہ پانچ اربچالیس کروڑ روپے ہو گا۔ واضح رہے کہ پاکستان کے پورے مرکزی بجٹ(1960-61ئ) کی سالانہ آمدنی (revenue) ایک ارب چھیانوے کروڑ روپے ہے۔{ FR 7314 } اس طرح اگر ملک میں کل ترقیاتی خرچ (Development Expenditure) کو لیا جائے تو وہ 1960-61ء کے نظر ثانی شدہ تخمینہ کے مطابق ایک ارب اکہتر کروڑ تھا۔ اپنے وسائل اور اپنے ترقیاتی خرچہ کی روشنی میں ذرا غور فرمائیے کہ کیا فی الحقیقت ہم ان گولیوں کو ہضم کر سکتے ہیں؟ اور آخر یہی رقم اپنے ذرائع پیداوار کو بڑھانے اور ترقی دینے پر کیوں نہ صرف کریں؟
(6) اصل حل
اس پوری بحث کے بعد فطری طور پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اصل حل کیا ہے؟ اس سلسلہ میں ہمارا نقطۂ نظریہ ہے کہ اصل حل پیداوار کو بڑھانا اور معاشی تمدنی وسائل کو ترقی دینا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ معاشی ترقی اور پیداوار کے اضافے کو ’’حل‘‘ کہا جا سکتا ہے۔ ورنہ ضبط ولادت کے لیے ’’حل‘‘ کا لفظ استعمال کرنا خود اس لفظ کی توہین ہے۔
اگر آپ تھوڑا سا بھی غور کریں گے تومحسوس کر لیں گے کہ ضبط ولادت کی پالیسی کو اختیار کرنا دراصل اپنی شکست کا اعتراف کرنا ہے۔ اس کے معنی تو یہ ہیں کہ ہم انسان کی صلاحیتوں اور سائنس کی قوتوں سے مایوس ہو جائیں اور وسائل اور پیداوار کو بڑھانے کے بجائے انسانوں ہی کو کم کرنے لگیں۔ اگر کپڑا جسم پر راست نہیں آتا تو کیا اس کا سائز بڑھانے کی بجائے انسانی جسم ہی کی تراش خراش شروع کر دی جائے تاکہ لباس ٹھیک آ جائے۔
اگر اس نقطۂ نظر کی پشت پر کار فرما ذہنیت کا تجزیہ کیا جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس میں انسان کی حیثیت اصل مقصد (end) کی نہیں بلکہ صرف ایک ذریعہ کی سی ہے۔ جس طرح اور مصنوعات کی پیداوار کو طلب کے مطابق بڑھایا اور گھٹایا جاتا ہے، اسی طرح انسانوں کی پیداوار کو بھی بڑھایا اور گھٹایا جائے۔ جس طرح گیندیں، بلے اور جوتے ضرورت کے مطابق تیار کیے جاتے ہیں اسی طرح انسان بھی پیمائش کے مطابق تیار کیے جائیں۔ گویا انسان کی حیثیت یہ نہیں ہے کہ ہر چیز اس کی ضرورت کے مطابق درست کی جائے بلکہ صحیح چیز یہ ہے کہ معاشی حالات کے مطابق خود حضرت انسان ہی کو درست کر لیا جائے۔ دوسرے الفاظ میں انسان بھی بس منجملہ دوسری اشیاء کے ایک شے (commodity) ہے اور اس سے زیادہ کچھ نہیں۔
یہ ذہنیت بڑی ہی غلط ذہنیت ہے اور اس پستی پر انسان اسی وقت اتر سکتا ہے جب وہ تمام روحانی اور اخلاقی اقدار کا پاس چھوڑ دے۔ انسان اصل مقصد ہے اور باقی تمام چیزیں اس کی ضرورت کو پورا کرنے کا ایک ذریعہ ہیں۔ اگر آپ اس ترتیب کو الٹ دیں گے تو انسان اپنے اصل مقام سے گر جائے گا اور اگر انسانیت کے مقام سے گر کر اس نے مادی خوش حالی پا بھی لی تو اس کا کیا حاصل؟ اسی ذہنیت پر تنقید کرتے ہوئے پروفیسر کولن کلارک اپنی اس رپورٹ میں جو اس نے پاکستان کی معیشت پر پیش کی تھی، لکھتا ہے:
’’کچھ لوگ کہتے ہیں معاشی وجوہ اس بات کے متقاضی ہیں کہ آبادی کے اضافے کی رفتار کو کم کیا جائے یا یہ کہ ایک قائم (stationary) یا زوال پذیر آبادی اصل مطلوب ہے۔ مجھے ان میں سے کسی تجویز سے قطعاً کوئی دلچسپی نہیں۔ میرے خیال میں معاشی مفکرین کا کام یہ ہے کہ وہ بتائیں کہ معیشت کو آبادی کی ضرورتوں کے مطابق کیونکر ڈھالا جائے، نہ یہ کہ آبادی کو معیشت کے مطابق کس طرح تراشا خراشا جائے۔ والدین اپنے ضمیرا ور اپنی پسند کے مطابق بچے پیدا کرتے ہیں اور انھیں مستقبل میں بھی ایسا ہی کرنا چاہیے۔ کسی معاشی مفکر کو خواہ وہ کتنا ہی عالم وفاضل کیوں نہ ہو، اور کسی وزیر اعظم کو خواہ وہ کتنا ہی طاقتور ہو، یہ حق نہیں ہے کہ وہ والدین سے یہ کہے کہ ایسا نہ کرو۔ ہرگز نہیں! سارے حقوق دوسرے ہی پلڑے میں ہیں۔ ہر باپ کو ضرور یہ حق ہے کہ وہ معاشین اور وزرائے اعظم سے یہ مطالبہ کرے کہ وہ معیشت کو اس طرح منظم کریں کہ تمام لوگوں کو ان کی بنیادی ضروریات فراہم ہو جائیں۔‘‘{ FR 7315 }
ہماری نگاہ میں مسئلہ کا اصل حل پیداوار کو بڑھانے اور معیشت کو ترقی دینے میں ہے اور اس کے بے پناہ امکانات موجود ہیں۔ جس چیز کی ضرورت ہے وہ ہمت، قابلیت، صحیح منصوبہ بندی اور عملی جدوجہد ہے۔ اگر ہم جھوٹے آسروں کو چھوڑ کر اپنی قوتیں تعمیر و تشکیل کے لیے وقف کر دیں تو کوئی وجہ نہیں کہ دنیا کے دوسرے ترقی یافتہ ممالک سے بہتر معیار قائم نہ کرلیں۔ اصل خرابی ہماری اپنی پست ہمتی اور بے جا مرعوبیت میں مضمر ہے ورنہ فطرت نے ہمیں بھی وہ کچھ دے رکھا ہے جس کے بل بوتے پر ہم ایک بار پھر دُنیا سے اپنا لوہا منوا سکتے ہیں ؎
تُو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کرگیا
ورنہ گلشن میں علاجِ تنگیٔ داماں بھی ہے

\ \ \

شیئر کریں