Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

پیش لفظ: جدید اڈیشن
عرضِ ناشر
دیباچہ: طبع ہفتم
دیباچہ: طبع اول
مقدمہ
تحریک ضبط ولادت کا مقصد اور پس منظر
تحریک کی اِبتدا
ابتدائی تحریک کی ناکامی اور اس کا سبب
جدید تحریک
ترقی کے اسباب
1۔ صنعتی انقلاب
2۔ عورتوں کا معاشی استقلال
3۔ جدید تہذیب وتمدن
نتائج
(1) طبقات کا عدم توازن
(2) زنا اور امراضِ خبیثہ کی کثرت
(3) طلاق کی کثرت
(۴) شرحِ پیدائش کی کمی
ردِّ عمل
اُصولِ اسلام
نقصانات
1۔ جسم ونفس کا نقصان
2۔ معاشرتی نقصان
3۔ اخلاقی نقصان
4۔ نسلی وقومی نقصانات
5۔ معاشی نقصان
حامیانِ ضبط ِولادت کے دلائل اور اُن کا جواب : وسائل ِ معاش کی قلت کا خطرہ
دنیا کے معاشی وسائل اورآبادی
پاکستان کے معاشی وسائل اور آبادی
موت کا بدل
معاشی حیلہ
چند اور دلیلیں
اُصولِ اسلام سے کلی منافات
احادیث سے غلط استدلال
ضمیمہ (1) : اسلام اور خاندانی منصوبہ بندی
ضمیمہ (2) : تحریکِ ضبطِ ولادت کا علمی جائزہ (پروفیسر خورشید احمد)

اسلام اور ضبطِ ولادت

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

ضمیمہ (1) : اسلام اور خاندانی منصوبہ بندی

اس مقالے کے لیے جوموضوع تجویز کیا گیا ہے وہ ہے ’’اسلام اور خاندانی منصوبہ بندی۔‘‘ بظاہر اس موضوع پر اظہار خیال کے لیے یہ بات بالکل کافی سمجھتی جا سکتی ہے کہ اولاد کی پیدائش کو کسی مطلوبہ حد کے اندر رکھنے کی خواہش اور کوشش، اور اس کی عملی تدابیر کے متعلق اسلام کے احکام نقل کر دیے جائیں، اور پھر یہ بتا دیا جائے کہ صاحب ِمقالہ کے نزدیک ان احکام کی روشنی میں یہ چیزیں جائز یا ناجائز لیکن درحقیقت اس طرح کے ایک تنگ دائرے میں موضوع اور بحث کو مقید کرکے گفتگو کرنا نہ تو تحقیق کا حق ادا کرنے کے لیے کافی ہے اور نہ اس طریقے سے اسلام کا نقطۂ نظر ہی ٹھیک سمجھا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ ’’خاندانی منصوبہ بندی‘‘ کا مسئلہ بجائے خود کیا ہے، کیوں پیدا ہوا ہے، ہماری زندگی کے کن کن پہلوئوں سے اس کا کیا تعلق ہے، اس کے عملی اقدامات سے زندگی کے ان مختلف پہلوئوں پرکیا اثرات پڑتے ہیں، اور یہ کہ اس کی انفرادی خواہش وکوشش اور قومی پیمانے پر اس کے لیے ایک اجتماعی تحریک برپا کرنے کے درمیان کوئی فرق بھی ہے یا نہیں، اور اگر فرق ہے تو وہ کیا ہے اور اس کے لحاظ سے دونوں کے احکام میں کیا فرق ہونا چاہیے۔ ان امور کو اچھی طرح جان لینے کے بعد ہی یہ ممکن ہو سکتا ہے کہ ہم اس مسئلے میں دین ِ فطرت کی ہدایات کے مغز تک پہنچ سکیں اور ان کا پورا پورا مدعا سمجھ سکیں۔ اس لیے میں پہلے انھی امور کے متعلق چند ضروری باتیں عرض کروں گا۔
نوعیت ِمسئلہ
’’خاندانی منصوبہ بندی‘‘ دراصل کوئی نئی چیز نہیں ہے بلکہ ایک قدیم تخیل کا صرف ایک نیا نام ہے۔ انسان کو اپنی تاریخ کے مختلف ادوار میں وقتاً فوقتاً یہ اندیشہ لاحق ہوتا رہا ہے کہ اس کی نسل بڑھنے کے امکانات بے پایاں ہیں اور زمین کے وسائل محدود ہیں، اگر وہ بے تحاشا نسل بڑھاتا چلا جائے تو یہ آبادی کہاں سمائے گی اور کیا کھائے گی۔ اس اندیشہ کو قدیم زمانے کا آدمی بڑے سادہ طریقے سے بیان کیا کرتا تھا۔ مگر جدید زمانے کے آدمی نے باقاعدہ حساب لگا کر بتا دیا کہ ہماری آبادی ہندسی سلسلے (Geometric Progression) سے بڑھتی ہے اور اس کے برعکس ہمارے وسائل رزق خواہ کتنے ہی عمدہ طریقوں سے بڑھائے جائیں بہرحال وہ زیادہ سے زیادہ صرف حسابی سلسلے (Arithmetic Progression) ہی سے بڑھ سکتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں انسانی آبادی 1-2-4-8-16-32-64-128-256 کی نسبت سے بڑھتی ہے، اور وسائل رزق صرف1- 2-3-4-5-6-7-8-9 کی نسبت ہی سے بڑھنے ممکن ہیں۔ لہٰذا اگر انسانی آبادی کسی رکاوٹ کے بغیر بڑھتی چلی جائے تو وہ ہر 25 سال میں دوگنی ہوتی چلی جائے گی اور دو صدی کے اندر ایک سے شروع ہو کر 256 تک جا پہنچے گی، لیکن وسائل رزق اس مدت میں ایک سے چل کر صرف نَو تک پہنچیں گے۔ تین صدی میں یہ نسبت 4096 بمقابلہ تیرہ ہو گی اور دو ہزار برس میں آبادی اور اس کے وسائل معیشت کے درمیان سرے سے کوئی نسبت ہی نہ رہ جائے گی۔ یہ سیدھا سا حساب لگا کر عالمگیر پیمانے پر سوچنے والے لوگ روئے زمین کے بارے میں، اور علاقائی طرز پر سوچنے والے اصحاب محدود علاقوں کے بارے میں، اس پریشانی کا اظہار کرتے ہیں کہ دنیا میں، یا فلاں علاقے میں، آبادی اگر یونہی بڑھتی رہی تو خواہ وسائل معیشت کو بڑھانے کے لیے کتنے ہی ہاتھ پائوں مارے جائیں، ترقی تو درکنار ہمیں زندگی بسر کرنے کے لیے بھی پورے ذرائع میسر نہ آ سکیں گے۔ حتیٰ کہ ایک وقت وہ آ جائے گا جب زمین میں سب آدمیوں کے لیے کھڑے رہنے کی جگہ بھی باقی نہ رہے گی۔
یہ ہے مسئلے کی نوعیت۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے قدیم زمانے کا آدمی قتلِ اولاد، اسقاطِ حمل اور منع حمل کے ذرائع استعمال کرتا تھا۔ جدید زمانے کا آدمی اگرچہ اب بھی پہلے دونوں ذرائع استعمال کرنے سے چوک تو نہیں رہا ہے، لیکن اس سائنٹفک ترقی کی بنا پر اس کا زیادہ تر زور تیسرے ذریعہ پر ہے۔ وہ اس غرض کے لیے ایسی دوائوں اور آلات سے بھی کام لینا چاہتا ہے جن سے قوتِ تولید برقرار رکھتے ہوئے آدمی جب اور جتنی مدت تک چاہے اولاد کی پیدائش کو روک سکے اور ایسے ذرائع بھی استعمال کرنے کے درپے ہے جن سے مرد، یا عورت، یا دونوں مستقل طور پر بانجھ ہو جائیں۔ اس کا نام کبھی ضبط ِولادت (Birth Control) رکھا جاتا ہے، کبھی اسے تحدید ِنسل (Birth Limitation) سے موسوم کیا جاتا ہے اور کبھی اس کے لیے خاندانی منصوبہ بندی (Family Planning) یا ایسی ہی اور کوئی خوب صورت اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔
کیا اِضافۂ آبادی سے تنگی ِ معیشت کا خطرہ صحیح ہے؟
اب ہمیں سب سے پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ اندیشہ بجائے خود کہاں تک صحیح ہے جس کی بنا پر یہ مسئلہ پیدا ہوا ہے۔
اس سوال پر جب ہم غور کرتے ہیں تو پہلی ہی نظر میں یہ حقیقت ہمارے سامنے آتی ہے کہ پوری انسانی تاریخ میں آج تک کبھی انسانی نسل اُس ہندسی طریقے پر نہیں بڑھی ہے جو مالتھوس اور فزانسس پلاس کے پیرو بڑے حسابی انداز میں بیان کرتے ہیں۔ اور کوئی دور ایسا نہیں گزرا ہے جب آبادی اور وسائل رزق کے درمیان وہ نسبت رہی ہو جس کا ان لوگوں نے دعویٰ کیا ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو انسان کی نسل کبھی کی اس دنیا سے مٹ چکی ہوتی اور آج ہم اس مسئلے پر بحث کرنے کے لیے موجود ہی نہ ہوتے۔
یہ ایک پیش پا افتادہ حقیقت ہے، اور غالباً پیش پا اُفتادہ ہونے ہی کی وجہ سے اس کو چنداں قابل غور نہیں سمجھا جاتا، کہ یہ زمین جس پرانسان آباد ہے، انسان کے آنے سے بہت پہلے موجود تھی اور پہلے ہی اس میں وہ تمام سروسامان مہیا کردیا گیا تھا جو انسانی زندگی کی بقا اور اس کے تمدنی وتہذیبی نشوونما کے لیے درکار تھا۔ انسان نے یہاں آ کر کوئی چیز پیدا نہیں کی ہے، بلکہ جو کچھ یہاں موجود تھا، صرف اسے اپنی ذہانت ومحنت سے دریافت کیا ہے اور اس سے کام لیا ہے۔ اولین انسانی آبادکاروں کی ضروریات سے لے کر آج اس بیسویں صدی کے انسان کی ضروریات تک کوئی ضرورت ایسی نہیں ہے جسے پورا کرنے کے ذرائع ووسائل یہاں پہلے سے موجود نہ پائے گئے ہوں اور شاید کسی کو اس سے انکار نہ ہو گا کہ آگے بھی جو ضرورتیں انسان کو پیش آنے والی ہیں ان کے لیے موزوں اشیاء کہیں نہ کہیں فضا میں، یا سطح زمین پر یا زمین کی تہوں میں، یا سمندر کی گہرائیوں میں موجود ہیں۔ انسان نہ ان اشیاء کا بنانے والا ہے، نہ ان کا مقام، اور ان کی مقدار، اور ان کا وقتِ ظہور متعین کرنے میں اس کا ذرہ برابر کوئی دخل ہے۔ کوئی خدا کا قائل ہو یا فطرت نامی کسی اندھی طاقت کا، بہرحال اس امرِ واقعہ کو ماننا ہی پڑے گا کہ جو بھی اس دنیا میں انسان کو لانے کا ذمہ دار ہے۔ اسی نے انسان کو پیش آنے والی تمام ضروریات کا ٹھیک ٹھیک اندازہ کرکے ان کے مطابق ہر قسم کا سروسامان یہاں پہلے سے فراہم کر دیا ہے۔
یہ سارے وسائل ہمیشہ سے انسان کے سامنے نہیں رہے ہیں۔ جب آدمی اول اول یہاں آیا ہے تو پانی، مٹی ، پتھر، قدرتی نباتات اور جنگلی جانوروں کے سوا کوئی وسیلۂ معیشت اس کو نظر نہ آتا تھا، لیکن جوں جوں اس کی آبادی بڑھی ہے اور وہ یہاں جینے کے لیے کام کرتا گیا ہے، وسائل کے بے حد وحساب خزانے اس کے لیے کھلتے چلے گئے ہیں۔ اس نے نئے نئے وسائل دریافت بھی کیے ہیں اور پرانے وسائل کے نئے استعمالات معلوم بھی کیے ہیں۔ آج تک کی انسانی تاریخ میں کبھی ایک لمحہ بھی ایسا نہیں آیا ہے کہ کبھی انسانی آبادی تو پھیلی ہو مگر اس کے ساتھ ساتھ معیشت کے اسباب وذرائع نہ پھیلے ہوں۔ آدمی بارہا اس غلط فہمی میں مبتلا ہوا ہے کہ اس زمین پر جتنے کچھ بھی رزق کے خزانے تھے وہ سب اس کے سامنے آ چکے ہیں اور اب انسانی آبادی کو اسی سروسامان پر گزر بسر کرنا ہے جو آنکھوں سے نظر آتا ہے لیکن ایک بار نہیں سینکڑوں بار نوعِ انسانی کو یہ تجربہ ہو چکا ہے کہ آبادی کی افزائش کے ساتھ ساتھ قدرت ایسی ایسی جگہوں سے رزق کے اتھاہ خزانے نکالتی چلی گئی ہے جہاں ان کی موجودگی کا آدمی تصور تک نہ کر سکتا تھا۔
ہزارہا برس قبل مسیح سے آدمی اپنے چولہے پر رکھی ہوئی ہنڈیا سے بھاپ نکلتی دیکھ رہا تھا، مگر مسیح کے سترہسو برس بعد تک بھی کسی کو یہ اندازہ نہ تھا کہ اٹھارہویں صدی کے نصف آخر میں یہی بھاپ رزق کے کتنے نئے دروازے کھولنے والی ہے۔ سمیری تہذیب{ FR 7714 } کے زمانے سے آدمی روغن نفطا اور اس کی آتش پذیری سے واقف تھا، مگر انیسویں صدی کے نصف آخر تک بھی کسی کو یہ معلوم نہ تھا کہ عنقریب زمین کے پیٹ سے پٹرول کے چشمے ابلنے والے ہیں اور اس کے ساتھ ہی موٹروں اور ہوائی جہازوں کی صنعت ابھر کر معیشت کی ایک دنیا برپا کر دینے والی ہے۔ نامعلوم زمانے سے انسان رگڑ سے شرارے پیدا ہوتے دیکھ رہا تھا، لیکن بجلی کا راز ہزاروں برس بعد جا کر تاریخ کے ایک خاص مرحلے میں اس پر کھلا اور طاقت کا ایک بالکل نیا خزانہ اس کے ہاتھ آ گیا جس سے آج انسانی معیشت میں وہ کام لیے جا رہے ہیں جن کا اب سے ڈیڑھ سو برس پہلے بھی کوئی بندۂ خدا تصور تک نہ کر سکتا تھا۔ پھر یہ جوہرِ فرد (atom) جس کے قابل تجزیہ ہونے اور نہ ہونے کی بحث ولادتِ مسیح سے بھی سالہا سال پہلے سے فلسفیوں کے مدارس میں ہو رہی تھی، اس کے خول سے برآمد ہو گا جس کے سامنے انسان کے سارے معلوم وسائل قوت ہیچ ہو کر رہ جائیں گے۔ یہ وہ تغیرات ہیں جو معیشت اور اس کے وسائل میں پچھلے دو سو برس کے اندر اندر رونما ہوئے ہیں اور انھوں نے انسان کو دنیا میں زندگی بسر کرنے کے لیے وہ کچھ سروسامان دیا ہے اور اس کے وسائل حیات میں وہ اضافہ کیا ہے جس کا خواب بھی اٹھارھویں صدی میں نہ دیکھا جا سکتا تھا۔ اس کے ظہور میں آنے سے پہلے اگر کوئی شخص صرف اپنے زمانے کے وسائل معاش ہی کو دیکھ کر یہ حساب لگا تاکہ انسانی آبادی کے اضافے کا یہ وسائل کہاں تک ساتھ دے سکیں گے تو اندازہ کیجیے کہ وہ کس قدر نادان ہوتا۔
اس طرح کے حساب لگانے والے صرف یہی غلطی نہیں کرتے کہ اپنے زمانے کے محدود علم کو مستقبل کے لیے بھی کافی سمجھ بیٹھتے ہیں، بلکہ وہ اس بات کو بھی بھول جاتے ہیں کہ آبادی کی افزائش صرف کھانے والوں کی افزائش ہی نہیں ہوتی، کمانے والوں کی افزائش بھی ہوتی ہے۔ معاشیات کی رو سے پیداوار کے تین عامل مانے جاتے ہیں۔ زمین، سرمایہ اور آدمی۔ ان میں سے اصل اور سب سے بڑا عامل آدمی ہے، لیکن کثرتِ آبادی کے غم میں گھلنے والے حضرات اس کو پیداوار (production) کے بجائے محض صرف (consumption) کا عامل سمجھ لیتے ہیں اور پیداوار کے عامل کی حیثیت سے اس کے کردار کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ انھیں یہ خیال نہیں رہتا کہ آج تک انسان نے جتنی ترقی کی ہے، اضافۂ آبادی کے ساتھ بلکہ اس کی بدولت کی ہے۔ اضافۂ آبادی نہ صرف نئے عامل فراہم کرتا ہے، بلکہ عمل کے لیے مزید محرکات بھی پیدا کرتا ہے۔ ہر روز مزید انسانوں کے لیے غذا، لباس، مکان اور دوسری ضروریات بہم پہنچانے کی ناگزیر حاجت کا پیش آنا ہی وہ اصل محرک ہے جو انسان کو موجود وسائل کی توسیع، نئے وسائل کی تلاش، اور ہر شعبۂ حیات میں اِکتشاف وایجاد پرمجبور کرتا ہے۔ اسی کی وجہ سے بنجر اراضی زیر کاشت آتی ہیں، دلدلوں اور جھاڑیوں اور سمندروں کے نیچے سے زمین نکالی جاتی ہے، کاشت کے نئے طریقے دریافت کیے جاتے ہیں، کانیں کھو دی جاتی ہیں، زمین، فضا اور سمندر میں ہر طرف انسان ہاتھ پائوں مارتا ہے، اور وسائل حیات کی تلاش میں ہر سمت بڑھتا چلا جاتا ہے۔ یہ محرک نہ ہو تو سستی وبے عملی اور حاضر وموجود پر قناعت کے سوا اور کیا حاصل ہو گا۔ یہی محرک تو ہے جو ایک طرف آدمی کو زیادہ سے زیادہ کام کرنے پر ابھارتا ہے، اور دوسری طرف روز نئے نئے کام کرنے والے بھی میدان میں لاتا چلا جاتا ہے۔
کیا آبادی کی افزائش سے فی الواقع معیشت تنگ ہوئی ہے؟
ہمارے زمانے کی قریب ترین تاریخ ان لوگوں کے حساب کو جھٹلانے کے لیے کافی ہے جو کہتے ہیں کہ وسائلِ حیات کی افزائش آبادی کی افزائش کا ساتھ نہیں دے سکتی۔
1880ء میں جرمنی کی آبادی 45 ملین تھی۔ اس وقت وہاں کے باشندے بھوکوں مر رہے تھے اور ایک مدت سے ہزاروں کی تعداد میں جرمن لوگ اپنے ملک سے نکل نکل کر باہر چلے جا رہے تھے لیکن اس کے بعد 34 سال کے اندر جرمنی کی آبادی68 ملین تک پہنچ گئی اور اس مدت میں بجائے اس کے کہ آبادی کی افزائش سے جرمنوں کے وسائل حیات کم ہو جاتے، ان کے وسائل میں اضافۂ آبادی کی بہ نسبت کئی سو گنا زیادہ اضافہ ہو گیا حتی کہ انھیں اپنی معاشی مشین کو چلانے کے لیے باہر سے آدمی درآمد کرنے پڑے۔ 1900ء میں جو غیر ملکی جرمنی میں کام کر رہے تھے ان کی تعداد آٹھ لاکھ تھی۔ 1910ء میں یہ تعدادتیرہ لاکھ قریب پہنچ گئی۔
اس سے بھی زیادہ عجیب صورتِ حال وہ ہے جو جنگ عظیم دوم کے بعد سے مغربی جرمنی میں دیکھی جا رہی ہے۔ وہاں قدرتی اضافۂ آبادی کے علاوہ مشرقی جرمنی، پولینڈ، چیکو سلواکیہ اور دوسرے اشتراکی مقبوضات سے جرمن نسل کے تقریباً ایک کروڑ پچیس لاکھ مہاجرین منتقل ہوئے ہیں اور اب تک ہر روز سینکڑوں کی تعداد میں چلے آ رہے ہیں۔ اس ملک کا رقبہ صرف 95,000 مربع میل ہے اور آبادی پانچ کروڑ بیس لاکھ سے اوپر پہنچ چکی ہے جس کے ہر پانچ آدمیوں میں سے ایک مہاجر ہے۔ پھر اس آبادی میں پینسٹھ لاکھ آدمی ناقابل کار ہونے کے باعث پنشن پارہے ہیں لیکن اس کے باوجود مغربی جرمنی کی معاشی حالت روز بروز ترقی کر رہی ہے۔ اس کی دولت جنگ سے پہلے کے متحدہ جرمنی کی دولت سے بھی زیادہ ہے۔ اس کو اضافہ آبادی کی نہیں قلت آبادی کی شکایت ہے اور کام کرنے کے لیے جتنے ہاتھ موجود ہیں ان سب کو استعمال کرنے کے بعد وہ مزید ہاتھوں کا طلب گار ہے۔
ہالینڈ کو دیکھیے۔ اٹھارہویں صدی میں اس کی آبادی مشکل سے دس لاکھ تھی۔ ڈیڑھ سو برس کے اندر وہ ترقی کرتے کرتے 1950ء میں ایک کروڑ سے اوپر پہنچ گئی۔ یہ آبادی صرف 12850 مربع میل کے رقبہ میں بس رہی ہے، جہاں فی کس پوری ایک ایکڑ قابلِ زراعت زمین بھی میسر نہیں ہے لیکن آج یہ آبادی نہ صرف اپنی ضروریات پوری کر رہی ہے بلکہ بہت سا غذائی سامان باہر برآمد کر رہی ہے۔ اس نے سمندر کو دھکیل کر اور دلدلوں کو صاف کرکے دو لاکھ ایکڑ زمین نکال لی ہے اور مزید تین لاکھ ایکڑ نکالنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس کی آج کی دولت سے اس دولت کو کوئی نسبت ہی نہیں ہے جو ڈیڑھ سو برس پہلے اس کی دس لاکھ آبادی کو حاصل تھی۔
انگلستان کو دیکھیے۔ 1789ء میں برطانیہ وآئرلینڈ کی مجموعی آبادی ایک کروڑ بیس لاکھ ہو گئی اور آج جنوبی آئرلینڈ نکل جانے کے باوجود پانچ کروڑچار لاکھ ہے تو کیا کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ اس پانچ گنا اضافہ نے برطانیہ کی آبادی کو پہلے سے زیادہ مفلس کر دیا ہے؟
بحیثیت ِمجموعی ساری دنیا کو دیکھیے۔ اٹھارہویں صدی کے آخر سے اس کی آبادی میں غیر معمولی اضافہ ہونا شروع ہوا ہے لیکن اس وقت سے آج تک دنیا کی آبادی جتنی بڑھی ہے اس سے بدرجہا زیادہ پیدائش دولت کے ذرائع بڑھے ہیں۔ آج متوسط درجے کے لوگوں کو وہ کچھ میسر ہے جو دو سو سال پہلے بادشاہوں کو بھی نصیب نہ تھا۔ آج کے معیار زندگی سے دو سو برس پہلے کے معیارِ زندگی کو آخر کیا نسبت ہے؟
اِضافۂ آبادی کا صحیح علاج
ان مثالوں سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ آبادی اور وسائل حیات کے درمیان توازن برقرار رکھنے کا یہ نسخہ کہ آبادی کو گھٹایا جائے، یا اسے بڑھنے سے روک دیا جائے، سرے سے بالکل ہی غلط ہے۔ اس سے تو توازن برقرار رہنے کے بجائے اور زیادہ بگڑ جانے کا اندیشہ ہے۔ اس کے بجائے اِضافۂ آبادی کا صحیح علاج یہ ہے کہ وسائل حیات کو بڑھانے اور نئے وسائل تلاش کرنے کی مزید کوشش کی جائے۔ یہ نسخہ جہاں بھی آزمایا گیا ہے وہاں آبادی اور وسائل کے درمیان محض توازن ہی برقرار نہیں رہا ہے بلکہ آبادی کے اضافے کی بہ نسبت وسائل اور معیار زندگی میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔
یہاں تک جو کچھ میں نے عرض کیا ہے وہ صرف معاش اور اس کے ان بے اندازہ وسائل کے بارے میں تھا جو انسان کے خالق نے…یا منکرین ِخدا کی زبان میں فطرت نے…اپنی زمین میں اس کے لیے مہیا کر رکھے ہیں۔ اب میں مختصر طور پر خود انسانی آبادی اور اس کی افزائش کے بارے میں بھی کچھ عرض کروں گا تاکہ اس مسئلے کا یہ پہلو بھی ہمارے سامنے آ جائے کہ آیا واقعی ہم اس کی کوئی صحیح منصوبہ بندی کر بھی سکتے ہیں یا نہیں۔
انسانی آبادی کی حقیقی منصوبہ بندی کرنے والا کون ہے؟
غالباً کوئی انسان بھی اس غلط فہمی میں مبتلا نہ ہو گا کہ وہ خود اپنے ارادے اور انتخاب سے اس دنیا میں آیا ہے۔ صرف یہی نہیں کہ اس کے آنے میں اس کے اپنے ارادہ وانتخاب کا کوئی دخل نہیں، بلکہ اس کے ماں باپ کا دخل بھی اس معاملہ میں محض برائے نام ہے۔ موجودہ زمانے کے علمی مشاہدات سے جو حقائق روشنی میں آئے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر مواصلت کے موقع پر مرد کے جسم سے جو مادہ خارج ہوتا ہے اس میں بائیس کروڑ تک حومینات منویہ (supermatozoa) موجود ہوتے ہیں بلکہ بعض ماہرین نے تو ان کا اندازہ پچاس کروڑ لگایا ہے۔ ان کروڑوں جرثوموں میں سے ہر ایک اپنے اندر ایک انسان بن جانے کی پوری استعداد رکھتا ہے، بشرطیکہ اسے کسی عورت کے بیضی خلیے (Egg Cell Oxum) میں داخل ہو جانے کا موقع مل جائے۔ ان میں سے ہر جرثومہ آبائی خصوصیات اور انفرادی اوصاف کے ایک جداگانہ امتزاج کا حامل ہوتا ہے جس سے ایک منفرد شخصیت بن سکتی ہے۔
دوسری طرف ہر بالغ عورت کے خصیتین (ovaries) میں تقریباً چار لاکھ ناپختہ انڈے موجود رہتے ہیں۔ مگر ان میں سے ایک طہر کی مدت میں صرف ایک انڈا پختہ ہو کرکسی وقت (بالعموم حیض کی آمد سےچودہ دن پہلے) برآمد ہوتا ہے اور زیادہ سے زیادہ چوبیس گھنٹے تک اس کے لیے تیار رہتا ہے کہ اگر مرد کا کوئی جرثومہ آ کر اس میں داخل ہو جائے تو استقرار حمل واقع ہو جائے۔ بارہ برس کی عمر سےاڑتالیس برس کی عمر تک چھتیس سال کی مدت میں ایک عورت کے خصیتین اوسطاً 430 پختہ انڈے خارج کرتے ہیں جو بارور ہو سکتے ہیں۔ ان انڈوں میں سے بھی ہر ایک کے اندر سلسلہ مادری کی موروثی خصوصیات اور انفرادی اوصاف کا ایک جداگانہ امتزاج ہوتا ہے جس سے ایک منفرد شخصیت وجود میں آ سکتی ہے۔
مرد اور عورت کی ہر مواصلت کے موقع پرمرد کے جسم سے کروڑوں جرثومے نکل کر عورت کے انڈے کی تلاش میں دوڑ لگاتے ہیں، مگر یا تو وہاں انڈا موجود نہیں ہوتا یا وہ سب اس تک پہنچنے میں ناکام ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح عورت کے ہر طہر میں ایک وقتِ خاص پر ایک انڈا نکلتا ہے اور ایک شب وروز تک مردانہ جرثومے کا منتظر رہتا ہے۔ مگر اس دوران میں یا تو مواصلت ہی نہیں ہوتی، یا ہوتی ہے تو کسی جرثومے کی رسائی اس انڈے تک نہیں ہوتی۔ یوں بیسیوں مواصلتیں، بلکہ بعض جوڑوں کی عمر بھر کی مواصلتیں بے نتیجہ گزر جاتی ہیں۔ مرد کے اربوں جرثومے ضائع ہوتے رہتے ہیں جب مرد کے ایک جرثومے کو عورت کے ایک انڈے کے اندر داخل ہونے کا موقع مل جاتا ہے اور اس کے نتیجے میں استقرار حمل واقع ہوتا ہے۔
یہ ہے وہ نظام جس کے تحت انسان پیدا ہوتا ہے۔ اس نظام پر ایک سرسری نگاہ ڈال کر ہی آپ خود دیکھ سکتے ہیں کہ اس کے اندر ہماری منصوبہ بندی کے لیے کتنی گنجائش ہے۔ کسی ماں، کسی باپ، کسی ڈاکٹر اور کسی حکومت کا اس امر کے فیصلے میں ذرہ برابر بھی کوئی دخل نہیں ہے کہ ایک جوڑے کی بہت سی مواصلتوں میں سے کس مواصلت میں استقرار حمل واقع ہو۔ مرد کے اربوں جرثوموں میں سے کس خاص جرثومے کو عورت کے سینکڑوں انڈوں میں سے کس انڈے کے ساتھ لے جا کر ملایا جائے اور ان دونوں کے ملاپ سے کس قسم کی شخصیت پیدا کی جائے۔ فیصلہ کرنا تودرکنار کسی کو یہ بھی پتہ نہیں ہوتا کہ فی الواقع کب عورت کے تاریک رحم میں استقرارِ حمل ہوا ہے اور اس میں کن اوصاف اور کس قابلیت کے انسان کی بنا ڈالی گئی ہے۔
یہ سب کچھ اس مدبر کے اشارے سے ہوتا ہے جو انسانی ارادوں سے بالاتر ہے اور اس کارخانۂ خلق و ایجاد کا سارا منصوبہ بلاشرکتِ غیرے بنا اور چلا رہا ہے۔ وہی استقرار حمل کی ساعت مقرر کرتا ہے۔ وہی اس خاص جرثومے اور اس کے خاص انڈے کا انتخاب کرتا ہے جنھیں ایک دوسرے سے ملانا ہے۔ اور وہی یہ طے کرتا ہے کہ ان کے اِمتزاج سے لڑکا پیدا کیا جائے یا لڑکی، صحیح وسالم انسان پیدا ہو یا ناقص الاعضاء، خوبصورت پیدا ہو یا بدصورت، ذہین پیدا ہو یا بلید، لائق پیدا ہو یا نالائق، اس سارے منصوبے میں جو کام انسان کے سپرد کیا گیا ہے وہ اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے کہ مرد اور عورت اپنی فطرت کی مانگ پوری کرنے کے لیے باہم ملیں اور تناسل کی مشین کو بس حرکت دے دیں۔ اس کے بعد سب کچھ خالق کے اختیار میں ہے۔
انسانی آبادی کی حقیقی منصوبہ بندی دراصل تخلیق کا یہی نظام کر رہا ہے۔ آپ ذرا غور فرمائیں، ایک طرف آدمی کی قوتِ توالد وتناسل کا یہ حال ہے کہ ایک مرد کے جسم سے صرف ایک وقت میں جو نطفہ خارج ہوتا ہے وہ پاکستان کی آبادی سے کئی گنا زیادہ آبادی پیدا کر سکتا ہے، لیکن دوسری طرف اس زبردست قوتِ پیداوار کو کسی بالاتر اقتدار نے اتنا محدود کر رکھا ہے کہ ابتدائے آفرینش سے آج تک ہزارہا سال کی مدت میں انسانی نسل صرف تین ارب کی تعداد تک پہنچ سکی ہے۔ آپ خود حساب لگا کر دیکھیں لیں۔ تین ہزار برس قبل مسیح سے اگر صرف ایک مرد وعورت کی اولاد کو طبیعی رفتار پر بڑھنے کا موقع مل جاتا اور وہ ہرتیس سال یاپنتیس سال میں دوگنی ہوتی چلی جاتی، تو آج صرف اسی ایک جوڑے کی اولاد اتنی بڑی تعداد میں ہوتی کہ اسے لکھنے کے لیے چھبیس ہندسے درکار ہوتے۔
سوال یہ ہے کہ نوع انسانی کی جو آبادی اس رفتار سے بڑھ سکتی تھی آخر خالق کے اپنے منصوبے کے سوا اور کس کے منصوبے نے آج تک اس کو قابو میں رکھا ہے؟ درحقیقت اس کا غالب منصوبہ انسان کو دنیا میں لایا ہے۔ وہی یہ طے کرتا ہے کہ کس وقت کتنے آدمی پیدا کرے اور کس رفتار سے آدم کی اولاد کو بڑھائے یا گھٹائے۔ وہی ایک ایک شخص، ایک ایک مرد اور ایک ایک عورت کے متعلق یہ طے کرتا ہے کہ وہ کس شکل میں کن قوتوں اور استعدادوں کے ساتھ پیدا ہو، کن حالات میں پرورش پائے، اور کتنا کچھ کام کرنے کا موقع اس کو دیا جائے۔ وہی یہ طے کرتا ہے کہ کس وقت کس قوم میں کیسے آدمی پیدا کیے جائیں اور کیسے نہ کیے جائیں، کس قوم کو کتنا بڑھنے دیا جائے اور کہاں جا کر اسے روک دیا جائے یا پیچھے پھینک دیا جائے۔ اس کی اس منصوبہ بندی کو نہ ہم سمجھ سکتے ہیں، نہ ہم میں اسے معطل کر دینے کی طاقت ہے۔ ہم اس میں دخل انداز ہونے کی کوشش کریں گے بھی تو یہ اندھیرے میں تیر چلانے کا ہم معنی ہو گا، کیونکہ اس کارخانے کو جس عظیم حکمت کے ساتھ چلایا جا رہا ہے اس کے ظاہر کو بھی ہم پوری طرح نہیں دیکھ رہے ہیں، کجا کہ اس کے باطن تک ہماری نگاہ پہنچ سکے اور ہم سارے متعلقہ حقائق کو جان کر کوئی منصوبہ بنا سکیں۔
ممکن ہے کوئی صاحب میری اس بات کو مذہبیت کی ایک ترنگ قرار دے کر نظر انداز کر دینے کی کوشش فرمائیں، اور پورے زور کے ساتھ یہ سوال پیش کر دیں کہ اپنی آبادی کو اپنی معیشت کی چادر کا طول وعرض دیکھ کر آخر ہم کیوں نہ خود متعین کریں، خصوصاً جب کہ خدا نے ہم کو ایسے علمی اور فنی ذرائع دے دیے ہیں جن سے ہم آبادی بڑھانے اور گھٹانے پر قادر ہو گئے ہیں؟ اس لیے اب میں ذرا وضاحت کے ساتھ یہ بتائوں گا کہ آبادی کی پیدائش اور افزائش کے فطری انتظام میں ہماری مداخلت کے نتائج کیا ہو سکتے ہیں اور عملاً جہاں یہ مداخلت کی گئی ہے وہاں کیا نتائج فی الواقع برآمد ہوئے ہیں۔
آبادی کی منصوبہ بندی کے بجائے خاندانی منصوبہ بندی کیوں؟
اس سلسلے میں پہلی بات جسے اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے، یہ ہے کہ خاندانی منصوبہ بندی کے حق میں معاشیات کی بنیاد پر جتنے دلائل دئیے جاتے ہیں وہ درحقیقت خاندانی منصوبہ بندی (Family Planning) کا نہیں بلکہ آبادی کی منصوبہ بندی (Population Planning) کا تقاضا کرتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں، ان دلائل کا اقتضا یہ ہے کہ ہم ایک طرف اپنے ملک کے وسائل ِ معیشت کا ٹھیک ٹھیک حساب لگائیں اور دوسری طرف یہ طے کریں کہ ان وسائل کے تناسب سے اس ملک کی آبادی اتنی ہونی چاہیے اور اس رفتار سے اس میں مرنے والوں کی جگہ نئے آدمی آنے چاہئیں۔ لیکن فی الواقع اس طرح کی منصوبہ بندی اس وقت تک نہیں ہو سکتی جب تک نکاح اور خاندان کے اداروں کو بالکل ختم کرکے تمام مردوں اور تمام عورتوں کو حکومت کا ’’مزدور‘‘ نہ بنا لیا جائے، اور ایسا انتظام نہ کر دیا جائے کہ دونوں صنفوں کے ان مزدوروں کو ایک مقرر منصوبے کے تحت صرف پیداآوری(production) کے لیے سرکاری ڈیوٹی کے طور پر ایک دوسرے سے ملایا جاتا رہے اور مطلوبہ تعداد میں عورتوں کے حاملہ ہو جانے کے بعد ان کو ایک دوسرے سے الگ کر دیا جایا کرے۔ یا پھر یہ منصوبہ بندی اس صورت میں ہو سکتی ہے کہ عورتوں اور مردوں کی براہِ راست مواصلت بالکل ممنوع ٹھیرا دی جائے، خون کے بینکوں کی طرح ’’منی بینک‘‘ قائم کر دیے جائیں، اور پچکاریوں کے ذریعہ سے گائے بھینسوں اور گھوڑیوں کی طرح عورتوں کو بھی ایک مخصوص طے شدہ تعداد میں گیا بھن کیا جاتا رہے۔ ان دو صورتوں کے سوا کوئی تیسری صورت ایسی نہیں ہو سکتی جس سے ایک منصوبے کے مطابق ملک کے وسائلِ معیشت اور اس کی آبادی کے درمیان توازن قائم کیا جا سکے۔
چونکہ انسان ابھی تک اس تنزل کے لیے تیار نہیں ہے، اس لیے مجبوراً آبادی کی منصوبہ بندی کی بجائے خاندانی منصوبہ بندی کا طریقہ اختیار کرنا پڑتا ہے۔ یعنی یہ کہ آدمی کے بچے پیدا تو اُنھی چھوٹے چھوٹے آزاد کارخانوں میں ہوں جن کا نام ’’گھر‘‘ ہے اور ان کی پیدائش کا انتظام بھی صرف ایک ایک ماں اور ایک ایک باپ کے ہاتھوں ہی میں رہے، لیکن ان آزاد ’’کارخانہ داروں‘‘ کو اس بات پر آمادہ کیا جائے کہ وہ بطور خود پیداوار کم کر دیں۔
خاندانی منصوبہ بندی کے ذرائع
اس مقصد کو عملاً حاصل کرنے کے لیے دو ہی طریقِ کار اختیار کرنے ممکن ہیں اور وہی اختیار کیے جا رہے ہیں:
ایک یہ کہ افراد سے ان کے ذاتی مفاد کے نام پر اپیل کی جائے اور پیہم تبلیغ کے ذریعہ سے ان میں یہ احساس پیدا کیا جائے کہ زیادہ بچے پیدا کرکے وہ اپنا معیار زندگی گرا لیں گے، اس لیے انھیں اپنی آسائش اور خوشحالی کی خاطر اور اپنے بچوں کا مستقبل بہتر بنانے کی خاطر کم بچے پیدا کرنے چاہئیں۔ اپیل کی یہ نوعیت لازماً اس وجہ سے اختیار کرنی پڑتی ہے کہ آزاد افراد کو اپنے ذاتی معاملات میں خود بخود اپنے عمل پر پابندیاں عائد کرنے کے لیے خالص اجتماعی مفاد کے نام پر آمادہ نہیں کیا جا سکتا۔ اس غرض کے لیے ان کے ذاتی مفاد سے اپیل کرنا بالکل ناگزیر ہے۔
دوسرا طریق کار یہ اختیار کرنا پڑتا ہے کہ وسیع پیمانے پر ایسے طریقوں کا علم لوگوں میں پھیلایا جائے، اور ایسے آلات یا دوائوں کو عام لوگوں کی دسترس تک پہنچا دیا جائے جن سے مرد اور عورتیں باہم لذت اندوز تو برابر ہوتے رہیں مگر استقرارحمل نہ ہونے دیں۔
اس منصوبہ بندی کے نتائج
ان دونوں تدبیروں کے استعمال سے جو نتائج برآمد ہوتے ہیں ان کو میں نمبروار آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں:
آبادی کی کمی
ان طریقوں سے جوخاندانی منصوبہ بندی کی جاتی ہے وہ کبھی ان مقاصد کو پورا نہیں کر سکتی جن کے لیے آبادی کی منصوبہ بندی پر زور دیا جاتا ہے۔ آبادی کی منصوبہ بندی کے لیے تو یہ ضروری ہے کہ ہم اپنے ملک کے ذرائع ووسائل کو دیکھ کر یہ طے کریں کہ یہاں اتنے باشندے ہونے چاہئیں، اور ان کے اندر نئے انسانوں کی پیدائش اس تناسب سے ہوتی رہنی چاہیے تاکہ ملک کی آبادی اس معیارِ مطلوب پر قائم رہے، لیکن جب یہ طے کرنا ایک ایک شادی شدہ جوڑے کے اختیار میں ہو کہ وہ کتنے بچے پیدا کریں اور کتنے نہ کریں، اور اس چیز کا فیصلہ وہ ملک کی ضروریات کے لحاظ سے نہیں بلکہ اپنی آسائش اوراپنے معیارِ زندگی کی بہتری کے لحاظ سے کرنے لگیں، تو اس امر کی کوئی ضمانت نہیں کہ وہ لازماً اتنے بچے پیدا کرتے رہیں گے جتنے ان کی قوم اور ان کے ملک کو اپنی آبادی کا معیار برقرار رکھنے کے لیے درکار ہیں۔ اس صورت میں بہت زیادہ متوقع یہی ہے کہ جتنا جتنا ان کے اندر ذاتی آسائش اور معیار زندگی کی بلندی کا چسکا بڑھتا جائے گا، وہ اولاد کی پیدائش کم کرتے چلے جائیں گے، یہاں تک کہ قوم کی آبادی بڑھنے کے بجائے گھٹنی شروع ہو جائے گی۔
یہ نتیجہ محض متوقع ہی نہیں ہے، بلکہ عملاً فرانس میں رونما ہو چکا ہے۔ دنیا میں پہلا ملک جس نے ضبط ولادت کے طریقوں کو وسیع پیمانے پرآزمایا ہے، یہی فرانس ہے۔ وہاں انیسویں صدی کے آغاز سے ہی یہ تحریک مقبول ہونی شروع ہو گئی تھی۔ ایک صدی کے اندر اندر اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ فرانس کے بیشتر اضلاع میں شرح پیدائش، شرح اموات سے کم تر ہوتی چلی گئی۔ 1890ء سے 1911ء کے مقابلے میں 1921ء میں فرانس کی آبادی اکیس لاکھ کم نکلی۔ 1932ء میں فرانس کے 90 اضلاع میں سے صرف 12 ایسے تھے جن کی شرح پیدائش شرح اموات سے کچھ زیادہ تھی۔ 1933ء میں ایسے اضلاع کی تعداد صرف6 رہ گئی یعنی 84 اضلاع وہ تھے جن میں مرنے والوں کی تعداد پیدا ہونے والوں سے زیادہ تھی اور صرف6اضلاع وہ جن میں پیدا ہونے والے مرنے والوں سے زیادہ تھے۔ اس حماقت کا نتیجہ فرانس کو دو عالمگیر لڑائیوں میں ایسی سخت شکستوں کی شکل میں دیکھنا پڑا جنھوں نے اس کی عظمت کا خاتمہ کر دیا۔
سوال یہ ہے کہ کیا یہ خطرہ وہ ملک مول لے سکتا ہے جس کے دس کروڑ باشندے ایک ارب اٹھائیس کروڑ کی آبادی رکھنے والے چار ایسے ملکوں سے گھرے ہوئے ہیں جن کے مقابلے میں اپنی آزادی کو محفوظ رکھنے کا سوال کسی وقت بھی ان کے لیے نازک صورت اختیار کر سکتا ہے؟
2۔ اخلاق کی تباہی
ذاتی مفاد کے نام پر جو اپیل بچے کم پیدا کرنے کے لیے کی جائے گی اس کا اثر صرف بچے ہی کم پیدا کرنے تک محدود نہ رہے گا۔ ایک مرتبہ آپ لوگوں کے سوچنے کا انداز بدل کر اس رخ پر ڈال دیجیے کہ ان کی کمائی کا زیادہ سے زیادہ حصہ ان کی اپنی آسائش ہی پر صرف ہونا چاہیے، اور ان کے اندر یہ احساس پیدا کر دیجیے کہ خاندان کے جو افراد کمانے کے بجائے صرف خرچ کرنے والے ہیں ان کی شرکت سے کمانے والے کا معیارِ زندگی گر جاتا ہے جسے برداشت نہ کرنا چاہیے۔ اس کے بعد آپ دیکھیں گے کہ لوگوں کو صرف نئی پیدا ہونے والی اولاد ہی نہ کھِلے گی، بلکہ ان کواپنے بوڑھے ماں باپ بھی کھلیں گے، اپنے یتیم بہن بھائی بھی کھِلیں گے، ایسے مُزْمِن مریض بھی کھلیں گے جن کے شفایاب ہونے کی توقع باقی نہ رہی ہو، ایسے عزیز بھی کھلیں گے جو اپاہج اور ناکارہ ہو چکے ہیں، غرض ہر اس شخص کا وجود ان کی نگاہ میں ناقابلِ برداشت بوجھ بن جائے گا جو ان کی کمائی میں حصہ بنا کران کا معیارِ زندگی گراتا ہے۔ ظاہر ہے کہ جو شخص اپنی اولاد تک کا بوجھ اٹھانے کے لیے تیار نہ ہو اور اسی بنا پر آنے والوں کا راستہ روک کر کھڑا ہو جائے، وہ آخر ان لوگوں کا بوجھ کیسے اٹھائے گا جو پہلے سے آئے بیٹھے ہیں اور اولاد سے کم تر ہی عزیز ومحبوب ہو سکتے ہیں۔ اس طرح یہ تحریک ہمارے اخلاق کا دیوالہ نکال دے گی، ہمارے افراد کو خود غرض بنا دے گی اور ان کے دلوں میں ایثار وقربانی اور ہمدردی ومواسات کے سُوتے خشک کرکے رکھ دے گی۔
یہ نتیجہ بھی محض قیاس وگمان پر مبنی نہیں ہے بلکہ جن معاشروں میں یہ طرزِ فکر پیدا کیا گیا ہے وہاں یہ سارے حالات آج رونما ہو رہے ہیں۔ مغربی ممالک میں آج بوڑھے والدین کے ساتھ جو سلوک ہو رہا ہے اور بھائی بہنوں اور قریب ترین رشتہ داروں کی مصیبت میں ان کی جیسی کچھ خبر گیری کی جاتی ہے اس سے کون ناواقف ہے؟
3۔ زنا کی کثرت
اس تحریک کو عملاً کامیاب کرنے کے لیے جب ضبط ِولادت کے طریقوں کا علم عام طور پر پھیلایا جائے گا، اور اس کے ذرائع وسائل عام لوگوں کی دسترس تک پہنچا دیے جائیں گے تو کسی کے پاس بھی اس امر کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ اس علم سے اور ان ذرائع سے صرف شادی شدہ جوڑے ہی استفادہ کریں گے بلکہ زیادہ صحیح یہ ہے کہ شادی شدہ زوجین اس سے اتنا فائدہ نہ اٹھائیں گے جتنا بن بیاہے ’’دوست‘‘ اٹھائیں گے، اور اس سے زنا کو وہ فروغ نصیب ہو گا جو ہمارے معاشرے کی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا ہے۔ جہاں تعلیم وتربیت میں دین واخلاق کا عنصر روز بروز کمزور ہوتا چلا جا رہا ہو، جہاں سینما، فحش تصاویر، فحش لٹریچر اور فحش گانے، جنسی محرکات میں روز بروز اضافے کیے جا رہے ہوں، جہاں پردے کے حدود وقیود ٹوٹ رہے ہوں اور مردوں اور عورتوں کے لیے آزادانہ میل جول کے مواقع روز بروز زیادہ سے زیادہ پیدا ہو رہے ہوں، جہاں جوان لڑکوں اور جوان لڑکیوں کو ایک ساتھ تعلیم دی جا رہی ہو، جہاں عورتوں کے لباس میں عریانی اور زینت اور نمائش حسن روز افزوں ہو، جہاں تعددِ ازواج کے راستے میں قانونی رکاوٹیں کھڑی کر دی گئی ہوں مگر ناجائز تعلقات کے راستے میں کوئی قانونی رکاوٹ نہ ہو، اور جہاں سولہ برس سے کم عمر کی لڑکی کا نکاح قانوناً ممنوع ہو، وہاں بداخلاقیوں کے راستے میں بس ایک ہی آخری رکاوٹ باقی رہ جاتی ہے اور وہ ہے ناجائز حمل کا خوف۔ ایک دفعہ یہ رکاوٹ بھی دور کر دیجیے اور برے رجحانات رکھنے والی عورتوں کو یہ اطمینان دلا دیجیے کہ وہ استقرارِ رحمل کا کوئی خطرہ انگیز کیے بغیر اپنے آپ کو اپنے دوستوں کے حوالے کر سکتی ہیں، اس کے بعد آپ دیکھیں گے کہ زنا کے سیلاب کو امنڈ آنے سے کوئی طاقت نہ روک سکے گی۔
یہ نتیجہ بھی محض قیاس نہیں ہے، بلکہ دنیا میں جہاں بھی ضبط ِولادت کا عام رواج ہوا ہے وہاں زنا کی وہ کثرت ہوئی ہے جس کی کوئی نظیر انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔
انفرادی ضبط ِولادت اور اس کی اجتماعی تحریک
خاندانی منصوبہ بندی کو ایک عمومی تحریک کی حیثیت سے رائج کرنے کے یہ تین نتائج ایسے ہیں جن سے بچنا کسی طرح ممکن نہیں ہے۔ اگر ضبط ِولادت صرف مخصوص انفرادی معاملات تک محدود رہے جن میں کوئی شادی شدہ جوڑا اپنے ذاتی حالات کی بنا پر اس کی ضرورت محسوس کرتا ہو اور ایک خدا ترس عالم ِ دین اس کی ضرورت کو جائز تسلیم کرکے احتیاط کے ساتھ اسے جواز کا فتویٰ دے دے، اور صرف ایک ڈاکٹر ہی کے ذریعہ سے اس کو ضبطِ ولادت کے وسائل بہم پہنچ سکیں، تو اس سے وہ اجتماعی نقصانات کبھی رونما نہیں ہو سکتے جن کا میں نے ابھی ابھی ذکر کیا ہے لیکن اس محدود انفرادی ضبط ِولادت کی نوعیت اس تحریک سے بالکل ہی مختلف ہے جو تحدیدِ نسل کے لیے وسیع پیمانے پر عام لوگوں میں پھیلائی جائے اور جس کے ساتھ مانع حمل ذرائع بھی ہر ہر شخص کی دسترس تک پہنچا دیے جائیں۔ اس صورت میں مذکورہ بالا نتائج کو رونما ہونے سے روک دینا کسی کے بس میں نہیں ہے۔
اسلام کا نقطۂ نظر
اس بحث کے بعد میرے لیے یہ بتانا بہت آسان ہو گیا ہے کہ جس دین ِفطرت کے ہم پیرو ہیں وہ اس مسئلے میں ہماری کیا رہنمائی کرتا ہے۔ عام طور پر ضبطِ ولادت کے حامی حضرات جن احادیث سے ’’عَزْل‘‘ (Coitus Interruptus)کا جواز نکال کر دکھاتے ہیں وہ اس امرِ واقعہ کو نظر انداز کر جاتے ہیں کہ احادیث کے پس منظر میں تحدیدِ نسل کی کوئی عام تحریک موجود نہ تھی۔ اس زمانے میں سرکارِ رسالت مآب a کے سامنے کوئی شخص یہ فتویٰ پوچھنے کے لیے نہیں گیا تھا کہ حضورa ہم ایسی کوئی تحریک چلا سکتے ہیں یا نہیں بلکہ وہاں تو مختلف اوقات میں بعض افراد نے محض اپنے انفرادی حالات پیش کرکے یہ دریافت کیا تھا کہ اس صورتِ حال میں ایک مسلمان کے لیے عَزْل کرنا جائز ہے یا نہیں۔ ان متفرق سائلوں کو حضورa نے جو جوابات دئیے تھے ان میں سے بعض میں آپؐ نے اس سے منع فرمایا، بعض میں اسے ایک فضول حرکت قرار دیا، اور آپؐ کے بعض جوابات سے یا آپؐ کے سکوت سے جواز کا پہلو بھی نکلتا ہے۔ ان مختلف جوابات میں سے اگر صرف انھی جوابات کو چھانٹ لیا جائے جو جواز پر دلالت کرتے ہیں، تب بھی ان کو بس انفرادی ضبط ِولادت ہی کے لیے دلیل بنایا جا سکتا ہے۔ اس کی بنیاد پر ایک عمومی تحریک جاری کر دینے کا جواز ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ یہ بات میں ابھی آپ سے عرض کر چکا ہوں کہ یہ انفرادی ضبط ِولادت ہی کے لیے دلیل بنایا جا سکتا ہے۔ اس کی بنیاد پر ایک عمومی تحریک جاری کر دینے کا جواز ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ یہ بات میں ابھی آپ سے عرض کر چکا ہوں کہ انفرادی ضبطِ ولادت اور اس کی اجتماعی تحریک میں کتنا عظیم فرق ہے۔ اس فرق کو فراموش کرکے ایک کے جواز کو دوسرے کے جواز کی دلیل بنانا قیاس مع الفارق ہے۔
رہی تحدیدِ نسل کی اجتماعی تحریک، تو اس کی بنیادی فکر سے لے کر اس کے طریقِ کار تک اور اس کے عملی نتائج تک، ہر چیز اسلام سے قطعی طور پر متصادم ہے۔ اس کی بنیادی فکر آخر اس کے سوا کیا ہے کہ آبادی بڑھے گی تو رزق کم ہو جائے گا اور جینے کے لالے پڑ جائیں گے۔ لیکن قرآن سرے سے اس اندازِ فکر ہی کو غلط قرار دیتا ہے۔ وہ بار بار مختلف طریقوں سے یہ بات انسان کے ذہن نشین کرتا ہے کہ رزق دینا اسی کی ذمہ داری ہے جس نے پیدا کیا ہے۔ وہ تخلیق کا کام اندھا دھند طریقے سے نہیں کر رہا ہے کہ آنکھیں بند کرکے بس پیدا کرتا چلا جائے اور یہ نہ دیکھے کہ جس زمین میں وہ اس مخلوق کو لا لا کر ڈال رہا ہے یہاں اس کی روزی کا سامان بھی ہے یا نہیں۔ یہ کام اس نے کسی اور پر نہیں چھوڑا ہے کہ پیدا تو وہ کر دے اور رزق رسانی کی فکر کوئی دوسرا کرے۔ وہ محض خالق ہی نہیں، رازق بھی ہے اور اپنے کام کو وہ خود زیادہ جانتا ہے۔ اس مضمون کو اس کثرت سے قرآن میں بیان کیا گیا ہے کہ اگر میں اس سلسلے کی ساری آیات آپ کو سنائوں تو بات لمبی ہو جائے گی۔ میں یہاں صرف نمونے کی چند آیات پیش کرتا ہوں:
﴿وَكَاَيِّنْ مِّنْ دَاۗبَّۃٍ لَّا تَحْمِلُ رِزْقَہَا۝۰ۖۤ اَللہُ يَرْزُقُہَا وَاِيَّاكُمْ﴾(العنکبوت 60:29)
اور کتنے ہی جاندار ہیں کہ اپنا رزق اٹھائے نہیں پھرتے۔ اللہ ہی ان کو رزق دیتا ہے۔ وہی تم کو بھی رزق دے گا۔
﴿وَمَامِنْ دَاۗبَّۃٍ فِي الْاَرْضِ اِلَّا عَلَي اللہِ رِزْقُہَا ﴾ ( ہود 6:11)
زمین میں چلنے والا کوئی جاندار ایسا نہیں ہے جس کا رزق اللہ کے ذمے نہ ہو۔
﴿اِنَّ اللہَ ہُوَالرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّۃِ الْمَتِيْنُo ﴾ (الذاریات 58:51)
درحقیقت اللہ ہی رزق دینے والا ہے۔ بڑی قوت والا اور زبردست۔
﴿لَہٗ مَقَالِيْدُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝۰ۚ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَّشَاۗءُ وَيَقْدِرُ۝۰ۭ﴾
(الشوریٰ 12:42)
آسمانوں اور زمین کے خزانے اسی کے اختیار میں ہیں، جس کے لیے چاہتا ہے رزق کشادہ کرتا ہے اور جس کے لیے چاہتا ہے تنگ کر دیتا ہے۔
﴿وَجَعَلْنَا لَكُمْ فِيْہَا مَعَايِشَ وَمَنْ لَّسْتُمْ لَہٗ بِرٰزِقِيْنَo وَاِنْ مِّنْ شَيْءٍ اِلَّا عِنْدَنَا خَزَاۗىِٕنُہٗ۝۰ۡوَمَا نُنَزِّلُہٗٓ اِلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُوْمٍo ﴾ (الحجر 20-21:15)
اور ہم نے زمین میں تمھارے لیے بھی معیشت کا سامان فراہم کیا ہے اور ان دوسروں کے لیے بھی جن کے رازق تم نہیں ہو۔ کوئی چیز ایسی نہیں ہے جس کے خزانے ہمارے پاس نہ ہوں۔ اور ہم (ان خزانوں میں سے) جو چیز بھی نازل کرتے ہیں ایک سوچے سمجھے اندازے سے نازل کرتے ہیں۔
ان حقائق کو بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ انسان کے ذمے جو کام ڈالتا ہے وہ یہ ہے کہ اس کے ان خزانوں سے وہ اپنا رزق تلاش کرنے کی سعی کرے۔ بالفاظِ دیگر رزق دینا اللہ کا کام ہے اور ڈھونڈنا انسان کاکام:
﴿ فَابْتَغُوْا عِنْدَ اللہِ الرِّزْقَ وَاعْبُدُوْہُ وَاشْكُرُوْا لَہٗ۝۰ۭ ﴾ ( العنکبوت 17:29)
پس اللہ ہی کے پاس رزق تلاش کرو، اور اسی کی بندگی بجا لائو اور اسی کے شکر گزار ہو۔
اسی بنیاد پر قرآن متعدد مقامات پر ان لوگوں کو ملامت کرتا ہے جو زمانۂ جاہلیت میں رزق کی کمی کے اندیشے سے اپنی اولاد کو قتل کر دیتے تھے:
﴿وَلَا تَقْتُلُوْٓا اَوْلَادَكُمْ مِّنْ اِمْلَاقٍ۝۰ۭ نَحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَاِيَّاہُمْ۝۰ۚ﴾
(الانعام 151:6)
اور قتل نہ کرو اپنی اولاد کو مفلسی کی وجہ سے۔ ہم ان کو بھی رزق دیں گے اور تم کو بھی۔
﴿وَلَا تَقْتُلُوْٓا اَوْلَادَكُمْ خَشْـيَۃَ اِمْلَاقٍ۝۰ۭ نَحْنُ نَرْزُقُہُمْ وَاِيَّاكُمْ۝۰ۭ﴾
(بنی اسرائیل 31:17)
اور قتل نہ کرو اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے۔ ہم ان کو بھی رزق دیں گے اور تم کو بھی۔
ان آیات میں ملامت ایک ہی غلطی پر نہیں ہے بلکہ دو غلطیوں پر ہے۔ ایک غلطی یہ کہ وہ اپنی اولاد کو قتل کر دیتے تھے اور دوسری غلطی یہ کہ وہ اولاد کی پیدائش کو اپنے لیے مفلسی کا سبب سمجھتے تھے۔ اس لیے دوسری غلطی کی اصلاح یہ کہہ کر فرمائی گئی کہ آنے والے انسانوں کی رزق رسانی کا ذمہ دار تم نے اپنے آپ کو کیوں سمجھ لیا ہے، تم کو بھی ہم رزق دیتے ہیں، ان کا رزق بھی ہمارے ہی ذمہ ہے۔ اب اگر افزائش نسل کو روکنے کے لیے بچوں کو قتل نہ کیا جائے بلکہ ایسے ذرائع استعمال کیے جانے لگیں جن سے استقرارِ حمل ہی نہ ہونے پائے، تو یہ صرف پہلی غلطی سے اجتناب ہو گا۔ دوسری غلطی پھر بھی باقی رہ جائے گی جبکہ معیشت کے تنگ ہو جانے کا خطرہ ہی اولاد کی پیدائش روکنے کا اصل محرک ہو۔
یہ تو ہے قرآن کا نقطۂ نظر اس اندازِ فکر کے بارے میں جس کی بنا پر تحدیدِ نسل کا خیال دنیا میں پہلے بھی پیدا ہوتا رہا ہے اور آج بھی پیدا ہو رہا ہے۔ اب ان نتائج پر ایک نگاہ ڈالیے جو اس تخیل کو ایک اجتماعی تحریک کی شکل دینے سے لازماً رونما ہوتے ہیں اور خود غور کیجیے کہ کیا دین اسلام ان میں سے کسی نتیجے کو بھی گوارا کر سکتا ہے۔ جو دین زنا کو بدترین اخلاقی جرم سمجھتا ہو اور اس کے لیے نہایت سخت سزا مقرر کر تا ہو، کیا آپ توقع رکھتے ہیں کہ وہ کسی ایسی تحریک کو برداشت کرے گا جس کے پھیلنے سے معاشرے میں اس فعل شنیع کی وبا پھوٹ پڑنے کا خطرہ ہو؟ جو دین انسانی معاشرے میں صلہ رحمی اورایثار وہمدردی کے اوصاف کو پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتا ہے، کیا آپ امید رکھتے ہیں کہ وہ اس خود غرضانہ ذہنیت کے نشوونما کو برداشت کرے گا جو تحدیدِ نسل کی تبلیغ سے لازماً پیدا ہوتی ہے؟ پھر جس دین کو اُمت ِ مسلمہ کی سلامتی سب سے بڑھ کر عزیز ہے، کیا آپ یہ گمان کر سکتے ہیں کہ وہ کسی ایسی تحریک کو برداشت کر لے گا جس کی بدولت کثیر التعداد دشمنوں کے درمیان گھرے ہوئے مٹھی بھر مسلمانوں کی تعداد اور بھی کم ہو جائے اور ان کا دفاع خطرے میں پڑ جائے۔{ FR 7274 } یہ ایسے سوالات ہیں جن کا جواب عقلِ عام (common sense) خود دے سکتی ہے۔ ان کے لیے آیات اور احادیث لانے کی حاجت نہیں ہے۔

\ \ \

شیئر کریں