Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

عرضِ ناشر
دیباچہ ترتیب جدید
تمہید
اسلام، سرمایہ داری اور اشتراکیت کا اُصولی فرق
اسلامی نظامِ معیشت اور اس کے ارکان
حرمت سود
ایجابی پہلو
جدید بینکنگ
سُود کے متعلق اسلامی احکام
سود کے متعلقات
معاشی قوانین کی تدوین جدید اور اُس کے اُصول
اصلاح کی عملی صورت
ضمیمہ نمبر (۱): کیا تجارتی قرضوں پر سود جائز ہے؟
ضمیمہ نمبر ۲ : ادارۂ ثقافت اسلامیہ کا سوال نامہ
ضمیمہ نمبر ۳ :مسئلۂ سود اور دارالحرب
تنقید: (از: ابوالاعلیٰ مودودی)
قولِ فیصل
مصادر ومراجع (Bibliography)

سود

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

ضمیمہ نمبر (۱): کیا تجارتی قرضوں پر سود جائز ہے؟

(یہ وہ مراسلت ہے جو اس مسئلے پر جناب سید یعقوب شاہ صاحب سابق آڈیٹر جنرل حکومت پاکستان اور مصنف کے درمیان ہوئی تھی)
سوال: خاکسار نے جناب کی تصنیف ’’سود‘‘ کا بغور مطالعہ کیا ہے۔ اس کے پڑھنے کے بعد میرے ذہن میں چند سوالات پیدا ہوئے ہیں اور گو میں نے کافی کاوش کی ہے تاہم ان کا تسلی بخش جواب کہیں سے نہیں مل سکا۔ اس لیے اب آپ کو تکلیف دینے کی جرأت کرتا ہوں اور اُمید ہے کہ آپ ازراہِ کرم میری رہنمائی فرمائیں گے۔
(۱) جناب نے اپنی کتاب کے حصہ اول (طبع سوم) کے صفحہ ۳۵ پر زمانۂ جاہلیت کے ’’رِبا‘‘ کی جو مثالیں دی ہیں ان سے یہ واضح نہیں ہوتا کہ آیا اس وقت کے لوگ تجارت کے لیے قرض لیتے تھے یا نہیں۔ جہاں تک میں معلوم کر سکا ہوں، کم از کم یورپ میں، قرض لے کر تجارت کرنا بہت بعد میں رواج میں آیا۔ اس سے پہلے تجارت نجی سرمائے سے یا مضاربت کے ذریعے ہوتی تھی۔ کیا جناب کسی ایسی مستند کتاب کا حوالہ عنایت فرمائیں گے جس سے معلوم ہو سکے کہ عرب میں تجارتی سود کا اس وقت رواج تھا کہ نہیں؟
(۱۱) اسی حصّے کے صفحہ ۱۶۹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ رِبا الفضل کی احادیث، تحریم سود کی آیت قرآن (سورۂ بقرہ) کے نزول سے پہلے کی ہیں۔ کیا اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا درست ہوگا کہ رِبا الفضل قرآنی حرمت اور قرآنی وعید کا حامل نہیں؟ یا بالفاظ سرسید احمد خاں صاحب ’’درحقیقت یہ معاملہ بیع فاسد کا ہے اور اس ربوٰ کی تفسیر میں داخل نہیں جس کا ذکر اس آیت میں ہے؟‘‘
امید ہے جناب والا میرے سوالات کا جواب عنایت فرما کر ممنون و مشکور فرمائیں گے۔
جواب: یہ بات کسی کتاب میں اس صراحت کے ساتھ تو نہیں لکھی گئی ہے کہ عرب جاہلیت میں ’’تجارتی سود‘‘ رائج تھا، لیکن اس امر کا ذکر ضرور ملتا ہے کہ مدینہ کے زراعت پیشہ لوگ یہودی سرمایہ داروں سے سود پر قرض لیا کرتے تھے، اور خود یہودیوں میں باہم بھی سودی لین دین ہوتا تھا۔ نیز قریش کے لوگ، جو زیادہ تر تجارت پیشہ تھے، سود پر قرض لیتے دیتے تھے۔ قرض کی ضرورت لازماً صرف نادار آدمیوں ہی کو اپنی ذاتی ضروریات پوری کرنے کے لیے پیش نہیں آتی بلکہ زراعت پیشہ افراد کو اپنے زرعی کاموں کے لیے اور سوداگر لوگوں کو اپنے کاروبار کے لیے بھی پیش آتی ہے، اور یہ آج کوئی نئی صورت نہیں ہے بلکہ قدیم زمانے سے چلی آ رہی ہے، اسی چیز نے رفتہ رفتہ ترقی کرکے وہ شکل اختیار کی ہے جو زمانۂ جدید میں پائی جاتی ہے۔ قدیم صورت زیادہ تر انفرادی لین دین تک محدود تھی، جدید صورت میں فرق صرف یہ ہوگیا کہ بڑے پیمانے پر قرض سے سرمایہ اکٹھا کرنے اور اسے کاروبار میں لگانے کا طریقہ رائج ہوگیا۔
رِبا الفضل کی احادیث سورۂ بقرہ والی آیت حرمت ِ سود سے تو پہلے کی ہیں، مگر سورئہ آل عمران والی آیت کے بعد کی ہیں۔ سورۂ آل عمران کی آیت نے قرآن کا یہ منشا واضح کر دیا تھا کہ سود ایک برائی ہے جس کو بالآخر مٹانا پیش نظر ہے۔ نبی a نے اسی کے لیے ماحول تیار کرنے کی خاطر معاشی معاملات میں وہ اصلاحات فرمائی تھیں جن کے لیے رِبا الفضل کا عنوان تجویز کیا گیا ہے۔ ان احادیث میں صاف طور پر لفظ رِبا استعمال ہوا ہے۔ اور ممانعت کے الفاظ خود اس کی حرمت پر دلالت کرتے ہیں۔ البتہ یہ صحیح ہے کہ قرآن میں جس سود کی حرمت کا حکم دیا گیا ہے وہ قرض والا سود ہے نہ کہ دست بدست لین دین والا سود۔ اور فقہا نے یہ تصریح بھی کی ہے کہ رِبا الفضل بعینہٖ وہ رِبا نہیں ہے جو قرآن میں حرام کیا گیا ہے، بلکہ یہ دراصل سود کا سدباب کرنے کے لیے ایک پیش بندی ہے جسے فقہی اصطلاح میں ’’سدِباب ذریعہ‘‘ کہا جاتا ہے۔
سوال: (۲) جناب نے جس تفصیل سے میرے سوالات کا جواب عنایت فرمایا ہے اس سے میری اس قدر حوصلہ افزائی ہوئی ہے کہ میں جناب کو دوبارہ تکلیف دینے کی جرأت کر رہا ہوں۔
قرآن کریم میں جس قدر سخت وعید ربوٰ کے متعلق آئے ہیں شاید کسی اور گناہ کے لیے نہیں آئے۔ اس لیے میرے خیال ناقص میں علمائے کرام کو چاہیے کہ اس معاملے میں قیاس سے کام نہ لیں اور جب تک سود کی کسی قسم کے متعلق ان کو یقین نہ ہو جائے کہ رسول کریمa کے زمانے میں اس قسم کا سود عام طور پر لوگوں میں متداول تھا اس کو ’’الرِبا‘‘ کی تعریف میں شامل نہ کریں۔ جناب کے خط سے معلوم ہوتا ہے کہ جناب والا نے تجارتی سود کے رواج کی موجودگی کا قیاس مندرجہ ذیل وجوہات کی بنا پر فرمایا ہے:۔
(i) مدینہ کے زراعت پیشہ لوگ یہودی سرمایہ داروں سے سود پر قرض لیا کرتے تھے۔ میں باادب عرض کروں گا کہ ایسے قرض ’’تجارتی قرض‘‘ نہ کہلانے چاہییں۔ اس قسم کے قرض نادار اور حاجت مند لوگ لیا کرتے ہیں۔ زراعت کے لیے ’’تجارتی قرض، زمانۂ جدید کی ایجاد ہے۔ جب سے بڑے پیمانے پر زراعت اور اس کے لیے مشینری کا استعمال شروع ہوا زمینداروں کو ’’تجارتی قرض‘‘ لینے کی ضرورت ہوئی۔ زمانہ قدیم کے زراعت پیشہ لوگوں کے قرض مجبوری کے قرض ہوا کرتے تھے۔ اور ضروریاتِ زندگی پورا کرنے کی غرض سے لیے جاتے تھے۔
(ii) خود یہودیوں میں باہم بھی سودی لین دین ہوتا تھا۔ اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ان کے قرض تجارتی کاموں کے لیے ہوتے تھے۔ عرب کے یہود اکثر زراعت پیشہ تھے یا ساہو کار، جیسا کہ یورپ میں عرصے تک ہوتا رہا۔ ممکن ہے کہ عرب کے یہودی ساہوکار بھی غریب اور امیر دونوں قسم کے حاجت مندوں کو ان کی نجی ضروریات کے لیے روپیہ قرض دے کر اپنا کام چلاتے رہے ہوں۔
(iii) قریش کے لوگ جو زیادہ تر تجارت پیشہ تھے باہم سود پر قرض لیتے دیتے تھے۔ اس کے متعلق عرض ہے کہ قریش میں سود کی جو مثالیں میری نظر سے گزری ہیں ان سے اس بات کی وضاحت نہیں ہوتی کہ متعلقہ روپیہ تجارت کے لیے قرض لیا گیا تھا۔ اگر جناب کے مطالعے میں کوئی ایسی مثال آئی ہو تو مہربانی فرما کر مطلع فرما دیں۔ تجارت ان دنوں یا نجی سرمائے سے یا مضاربت سے ہوتی تھی۔ جو تجارتی ’’کاروان‘‘ قریش بھیجتے تھے، ان میں سب لوگ حصہ لے سکتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ ایک دینار اور نصف دینار تک بھی حصہ لیا جا سکتا تھا۔ بظاہر اس طریقے کی تجارت کے لیے روپیہ قرض لینے کی حاجت نہ ہونی چاہیے۔ جیسا کہ میں پہلے لکھ چکا ہوں تجارتی سود یورپ میں بہت بعد میں آیا اور پانچویں اور دسویں صدی عیسوی کے درمیان اس کا وہاں رواج نہ تھا۔ اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ عرب کی بھی یہی حالت ہو لیکن یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ زمانۂ جاہلیت کے عرب میں تجارتی سود کے رواج کی موجودگی کو ماننے سے پہلے اس کے متعلق تحقیق کر لی جائے۔ عرب اور دیگر مورخوں نے رسول کریمa کے زمانے کے حالات کافی تفصیل سے بیان کیے ہیں۔ تجارتی سود کے متعلق ان کی خاموشی سے کیا یہ گمان نہ ہوگا کہ ایسے سود کا ان دنوں رواج ہی نہ تھا؟ خاص طور پر جب کہ تجارت کا طریق کار ہی ایسا تھا کہ اس میں ہر پیسے والا شامل ہو سکتا تھا۔
جناب کی نظر سے مولانا ابوالکلام آزاد صاحب کا سورۂ بقرہ کی آیات ۲۷۶،۲۷۷ کا ترجمہ گزر چکا ہوگا۔ انھوں نے ’’الرِبا‘‘ سے وہ سود مراد لیا ہے جو کسی حاجت مند سے لیا جائے۔ کیا علمائے کرام اور مفسرین عظام میں سے کسی اور نے بھی یہ معنی کیے ہیں؟ اگر ان معنوں سے اور بزرگانِ دین کو اتفاق ہو تو ایک بہت بڑے اور اہم مسئلے کا حل مل جائے گا۔
جواب: مجھے آپ کے اس خیال سے اتفاق ہے کہ جس چیز کی حرمت کی تصریح قرآن میں نہ کی گئی ہو اس کو بعینہٖ اس چیز کے درجے میں نہ رکھنا چاہیے جس کے حرام ہونے کی صراحت قرآن میں کی گئی ہے‘ لیکن ربوٰ کے معاملے پر اس قاعدے کا انطباق آپ جس طرح کر رہے ہیں وہ میرے نزدیک صحیح نہیں ہے۔ آپ کے استدلال کی بنیاد دو باتوں پر ہے۔ ایک یہ کہ رِبا سے مراد لازماً معاملہ قرض کی وہی صورت لی جانی چاہیے جو نبیa کے زمانے میں رائج تھی۔ دوسرے یہ کہ تجارتی سود کا رواج چونکہ اس زمانے میں نہ تھا اور صرف نادار حاجت مند لوگ ہی سود پر قرض لیا کرتے تھے۔ اس صرف دوسری چیز ہی قرآنی حکم تحریم کی زد میں آتی ہے اور پہلی چیز اس سے خارج رہتی ہے۔ یہ دونوں باتیں درست نہیں ہیں۔
پہلی بات اس لیے غلط ہے کہ قرآن صرف ان معاملات کا حکم بیان کرنے نہیں آیا تھا جو نزول قرآن کے وقت عرب یا دنیا میں رائج تھے، بلکہ وہ اصول بیان کرنے آیا تھا جو قیامت تک پیش آنے والے معاملات میں جائز و ناجائز اور صحیح و غلط کا فرق ظاہر کریں۔ اگر یہ بات نہ مانی جائے تو پھر قرآن کے ابدی اور عالم گیر راہ نما ہونے کے کوئی معنی نہیں ہیں نیز اس صورت میں معاملہ صرف ایک رِبا کا نہیں رہتا۔ ایک شخص یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ قرآن جس شراب کو حرام قرار دیتا ہے اس سے مراد صرف اس قسم کی شرابیں ہیں جو اس وقت عرب دنیا میں بنا کرتی تھیں۔ قرآن جس سرقے کو حرام ٹھیرا رہا ہے اس سے مراد صرف اس طریقے یا ان طریقوں سے سرقہ کرنا ہے جو اس وقت استعمال ہوتے تھے۔ حالانکہ اصل چیز شراب اور سرقے کی حقیقت ہے جو ممنوع کی گئی ہے نہ کہ اس کی رائج الوقت قسمیں اور صورتیں۔ اسی طرح اصل چیز رِبا کی حقیقت ہے جو حرام کی گئی ہے، اور وہ یہ ہے کہ معاملۂ قرض میں دائن مدیون سے اصل پر کچھ زائد وصول کرنے کی شرط کرے۔ یہ حقیقت جس معاملۂ قرض میں بھی پائی جائے گی اس پر قرآن کے حکم تحریم کا اطلاق ہو جائے گا۔ قرآن نے مطلق رِبا کو حرام کیا ہے اور کہیں یہ نہیں کہا کہ جو شخص ناداری و حاجت مندی کی حالت میں اپنی ضروریات شخصی کی خاطر قرض لے صرف اس سے سود لینا حرام ہے۔
دوسری بات اس لیے غلط ہے کہ اوّل تو تجارتی سود کی صرف یہ شکل جدید ہے کہ تجارت کے لیے ابتدائی سرمایہ ہی قرض کے ذریعے اکٹھا کیا جائے، ورنہ تجارتی کاروبار کے دوران میں تاجروں کا ایک دوسرے سے قرض لینا یا ساہو کاروں سے قرض لے کر کسی کاروباری ضرورت کو پورا کرنا تو قدیم ترین زمانے سے دنیا بھر میں رائج ہے اور اس کے جدید ہونے کا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے۔ دوسرے شخصی حاجتوں کے لیے غیر تجارتی قرض لینے کی بھی صرف یہی ایک صورت نہیں ہے کہ آدمی بیماری میں دوا کا محتاج ہو یا مفلسی کی حالت میں گھر کے لیے آٹا دال فراہم کرنا چاہتا ہو اور اس کے لیے کسی مال دار سے قرض لے۔ اس کے علاوہ بہت سی صورتیں ایسی بھی ہیں جن میں بالکل نادار نہ ہونے کے باوجود آدمی قرض لے کر اپنی کوئی ذاتی ضرورت پوری کرتا ہے۔ مثلاً بچوں کی شادیاں کرنا یا گھر بنانا۔ ایسے قرض بھی ہر زمانے میں لیے جاتے رہے ہیں۔ آپ قرض کی ان بہت سی مختلف صورتوں میں سے کس کس کو تحریم ربوٰ کے حکم سے خارج اور کس کس کو داخل کریں گے؟ اس کے لیے کیا اصول مقرر کریں گے؟ اور قرآن کے کن الفاظ سے یہ اصول نکالیں گے؟
زمانۂ جاہلیت یا ابتدائی زمانۂ اسلام کے کاروباری رواج میں تجارتی سود اور غیر تجارتی سود کی تفصیل نہ ملنے کی وجہ یہ ہے کہ اس زمانے میں اس تفریق و امتیاز کا تصور پیدا نہ ہوا تھا اور یہ اصطلاحیں نہیں بنی تھیں۔ اس زمانے کے لوگوں کی نگاہ میں قرض، ہر طرح کا قرض ہی تھا خواہ نادار لے یا مال دار، خواہ ذاتی ضروریات کے لیے لے یا کاروباری ضروریات کے لیے۔ اس لیے وہ صرف معاملہ قرض اور اس پر سود کے لین دین کا ذکر کرتے اور اس کی ان تفصیلات میں نہیں جاتے تھے۔
مولانا آزاد کا صحیح منشا وہ نہیں ہے جو آپ نے سمجھا ہے وہ اپنی تشریحی عبارتوں میں صرف یہ دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ سود میں اخلاقی حیثیت سے کیا قباحت ہے‘ لیکن ان کا منشا یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ سود سے مراد ہی صرف وہ سود ہے جو کسی حاجت مند کو ذاتی ضروریات کے لیے قرض دے کر وصول کیا جائے۔
مولانا موصوف کی تشریح سے جو مفہوم آپ اخذ کر رہے ہیں وہ قرآن کے الفاظ سے بھی زائد ہے اور مفسرین و فقہا میں سے بھی کسی نے تحریم ربوٰ کے اس قرآنی حکم کو حاجت مندی سے مقید نہیں کیا ہے۔
اس سلسلے میں بہتر ہو کہ آپ میری تفسیر ’’تفہیم القرآن‘‘ جلد اوّل صفحہ ۲۱۰ سے ۲۱۸ تک ملاحظہ فرما لیں۔{ FR 2249 }
سوال: جیسا جناب نے فرمایا تھا، میرے استدلال کی بنیاد دو باتوں پر ہے۔ ایک یہ کہ ربوٰ سے مراد لازماً قرض کی وہی صورت لی جانی چاہیے جو نبی کریمa کے زمانے میں رائج تھی۔ اور دوسرے یہ کہ تجارتی سود کا رواج چونکہ اس زمانے میں نہ تھا، اس لیے سود کی یہ صورت قرآنی حکم تحریم میں نہیں آتی۔ جناب ان دونوں باتوں کو درست نہیں سمجھتے۔ مگر یہ دونوں جناب کی تصنیف سود حصہ اوّل کے صفحات ۳۴،۳۵ کی بحث پر مبنی ہیں۔{ FR 2250 } جناب نے فرمایا ’’قرآن جس زیادتی کو حرام قرار دیتا ہے وہ ایک خاص قسم کی زیادتی ہے۔ اس لیے وہ اسے ’’الرِبا‘‘ کے نام سے یاد کرتا ہے۔ اہل عرب کی زبان میں اسلام سے پہلے بھی معاملے کی ایک خاص نوعیت کو اس اصطلاحی نام سے یا د کیا جاتا تھا … اور چونکہ ’’الرِبا‘‘ ایک خاص قسم کی زیادتی کا نام ہے اور وہ معلوم و مشہور تھی۔ اس لیے قرآن مجید میں اس کی کوئی تشریح نہیں کی گئی … ‘‘ اس کے بعد وہ روایات ہیں جن میں زمانۂ جاہلیت کے ربوٰ کی مثالیں دی گئی ہیں اور ان کے بعد مرقوم ہے کہ ’’کاروبار کی یہ صورتیں عرب میں رائج تھیں، انھی کو اہل عرب اپنی زبان میں ’’الرِبا‘‘ کہتے تھے اور یہی وہ چیز تھی جس کی تحریم کا حکم قرآن مجید میں نازل ہوا۔‘‘
میں یہ عرض کر چکا ہوں کہ جناب کی کتاب میں اور دوسری کتابوں میں ’’الرِبا‘‘ کی جو مثالیں دی ہوئی ہیں ان سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ عرب تجارت کے لیے بھی قرض لیتے تھے اور اگر عرب میں تجارتی سود رائج نہیں تھا تو جناب کے اپنے استدلال کے مطابق ’’الرِبا‘‘ کی زد میں نہیں آنا چاہیے۔ اگر یہ نتیجہ نکالنے میں مجھ سے کوئی غلطی سرزد ہوئی ہے تو مہربانی فرما کر مجھے اس سے مطلع فرمایئے اور علمائے کرام نے بھی مانا ہے کہ ’’الرِبا‘‘ سے وہی بڑھوتری مقصود ہے جو ان دنوں عربوں میں متد اول تھی اور رِبا کے نام سے یاد کی جاتی تھی۔
اب رہی یہ بات کہ آیا زمانۂ جاہلیت کے عربوں میں تجارتی سود واقعی رائج تھا کہ نہیں۔ اس کے متعلق جناب فرما چکے ہیں کہ یہ بات صراحت کے ساتھ کسی کتاب میں نہیں لکھی گئی۔ اس لیے میں نے عرض کیا تھا کہ ایسے سنگین معاملے میں جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے بڑی سخت سزا مقرر کی ہے قیاس پر عمل نہ کرنا چاہیے بلکہ جہاں تک ممکن ہو سکے اصل حالات معلوم کرنے چاہییں۔ میں نے یہ بھی عرض کیا تھا کہ یہ تاریخی امر ہے کہ یورپ میں پانچویں اور دسویں صدی عیسوی کے درمیان تجارتی سود کا رواج نہ تھا۔ اس کے لیے میں جناب کی خدمت میں مختلف کتابوں کے حوالے پیش کر سکتا ہوں۔ نیز جن کتابوں تک میری رسائی ہو سکی ان سے یہ معلوم ہوا کہ ان دنوں عرب میں تجارت نجی سرمائے سے یا مضاربت سے ہوتی تھی۔ تجارت کے جتنے تذکرے میری نظر سے گزرے ہیں ان میں کہیں تجارتی قرض کا ذکر نہیں۔ جناب کی علمیت اور وسعت مطالعے سے مجھے امید تھی کہ جناب میری رہنمائی کسی ایسی کتاب کی طرف فرمائیں گے جس سے اس بات کے متعلق قابل وثوق حالات معلوم ہو سکیں‘ لیکن یہ امید بر نہ آئی۔ جیسا میں پہلے عرض کر چکا ہوں مصنفین نے رسول کریمa کے زمانے کے حالات بڑی تفصیل سے بیان کیے ہیں لیکن اس کا کہیں ذکر نہیں آتا کہ لوگ قرض لے کر تجارت کیا کرتے تھے۔ قریش تاجر تھے۔ حضرت عباسؓ سود پر روپیہ دیتے تھے۔ مگر کن کو؟ کھجور کے کاشت کاروں کو۔ طبقہ تجار کا ایک فرد بھی اپنا سرمایہ سود پر دیتا ہے تو کاشت کاروں کو۔ کیا اس سے یہ گمان نہ ہوگا کہ تجارتی سود ناپید تھا؟
جناب نے دریافت فرمایا ہے کہ قرض کی بہت سی مختلف صورتوں میں سے کس کس کو تحریم رِبا کے حکم سے خارج اورکس کس کو داخل کریں گے۔ سود کی وہ صورتیں جو زمانۂ جاہلیت میں رائج تھیں سب ممنوع ہوں گی۔ جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں اس وقت ذاتی ضروریات کے لیے اور اضطراری قسم کے قرض ہی لیے جاتے تھے اور ایسے قرض لینے والے لوگوں کو مہاجن اکثر لوٹتے تھے اور ان کو بچانا ضروری تھا اس لیے ’’الربوٰ‘‘ حرام ہوا۔ ایسے سود کی جتنی بھی مذمت کی جائے درست ہے اور اس کے مجرموں کے لیے جس قدر سخت سزا تجویز کی جائے، بجا ہے۔ اس کے برخلاف ایسے قرض جن کے لینے والے نفع آور کامو ںمیں لگاتے ہیں ان پر سود جائز ہونا چاہیے۔ ایسے سود دینے والے اور لینے والے دونوں کے لیے فائدہ مند ہوتے ہیں۔ آپ دیکھیں گے کہ کئی دفعہ مدیون ان کو مضاربت پر ترجیح دیتا ہے۔ مجھے یہ سمجھنے میں بڑی مشکل پیش آتی ہے کہ علمائے کرام ایسے سود کو ’’حرب من اللّٰہ ورسولہ‘‘ جیسی سخت سزا کا مستوجب کیوں قرار دیتے ہیں۔ کیا اسلامی فقہ کے مطابق جرم اور اس کی سزا میں مطابقت نہیں ہونی چاہیے۔ ایسے سود پر جو اعتراض کیے جاتے ہیں وہ یہ ہیں:۔ ایک یہ کہ اس سے ایسا طبقہ پیدا ہوتا ہے جو بغیر محنت و مشقت کے آمدنی وصول کرتا ہے۔ یہ اعتراض ان لوگوں پر بھی ہونے چاہییں جن کے پاس بڑی بڑی زمینداریاں اور کئی کئی مکان ہیں اور وہ بن محنت گزر اوقات ہی نہیں بلکہ عیش کی زندگی بسر کرتے ہیں۔ اگر اسلام ان نکھٹوؤں کو نہیں روکتا تو تجارتی سود لینے والا ہی کیوں موردِ عتاب ہو؟ دوسرے یہ کہ سود لے کر تجارت کرنے والے کو چاہے نقصان ہو مگر سود لینے والے کو منافع ہی ملے گا۔ یہ اعتراض کچھ حد تک درست ہے لیکن اس بات کو نظرانداز نہ کرنا چاہیے کہ سود پر روپیہ تجارت کے لیے لیا جاتا ہے کہ مدیون کو اس شرح سود سے کئی گنا زیادہ منافع کی امید ہوتی ہے اور بیشتر اوقات یہ اُمید پوری ہوتی ہے، ورنہ تجارتی قرض کو اس قدر فروغ نہ ہوتا۔ ایسے قرض دینے والے کو سالانہ ایک چھوٹی سی رقم ملتی رہتی ہے اور اس کے بدلے روپیہ لینے والا کبھی اس رقم سے کئی گنا زیادہ نفع کما لیتا ہے اور کبھی اس کو نقصان ہوتا ہے۔ اس قسم کے خطرے (risk) کو قبول کرنا تجارت کا عام مسلک ہے۔ اور یہ ایسی چیز نہیں اور اس سے ایسی خرابیاں پیدا نہیں ہوتیں کہ اس پر ’’الرِبا‘‘ والی سزا لازم آئے۔ میرے خیال ناقص میں ہمیں سود کی نفع آور اور غیر نفع آور صورتوں میں تفریق کرنی چاہیے اور پہلی جائز اور دوسری ممنوع ہونی چاہیے۔{ FR 2251 }
جناب نے اپنے خط میں یہ بھی فرمایا ہے ’’اس زمانے کے لوگوں کی نگاہ میں قرض ہر طرح کا قرض ہی تھا۔ خواہ نادار لے یا مال دار خواہ ذاتی ضروریات کے لیے یا کاروباری ضروریات کے لیے۔ کیا جناب موخر الذکر حصّے کی حمایت میں کوئی حوالہ دے سکتے ہیں؟ کئی سو سال سے تجارتی سود تمام دنیا میں رائج ہے اور لوگوں کو اس کی عادت سی ہوگئی ہے۔ اس لیے ان کے لیے یہ مشکل ہوگیا ہے کہ اس بات کا تصور کر سکیں کہ ایک ایسا زمانہ بھی تھا جب تک کہ تجارتی سود ناپید تھا۔ حالانکہ تاریخی شواہد سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ تجارت کی اغراض سے سود کا لین دین کم از کم مغربی ملکوں میں رسول کریمa کی بعثت کے وقت رائج نہیں تھا۔{ FR 2252 }
میں جناب کو بار بار تکلیف دے رہا ہوں۔ اس کی تین وجوہ ہیں۔] ۱ [ ایک یہ کہ عملاً لاکھوں مسلمان تجارتی سود لیتے یا دیتے ہیں۔ کیونکہ اگر ان کو تجارت قائم رکھنی ہے، جس میں روز بروز مقابلہ تیز تر ہوتا جاتا ہے تو ان کے لیے اس کے سوا چارہ نہیں۔ مجھے معلوم ہے کہ جناب نے اس بات کو نہیں مانا اور متبادل طریقے تجویز بھی فرمائے ہیں‘ لیکن میں بصد ادب عرض کروں گا کہ ہم لوگوں کی موجودہ ذہنی اور اخلاقی حالت میں وہ قابلِ عمل نہیں ہیں۔ وہ اخلاق معیار جس کی آپ کو اپنے ہم مذہبوں سے توقع ہے ایک نبی چاہتا ہے۔ اور ہمارے مذہب میں دوسرے نبی کی گنجائش ہی نہیں۔ اس لیے مجھ ناچیز کے خیال میں ہمارے علمائے کرام کو چاہیے کہ مذہب کے تمدنی و معاشرتی معاملات میں ضرورت سے زیادہ سختی نہ برتیں اور اللہ تعالیٰ کے فرمان: ﴿يُرِيْدُ اللہُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ۝۰ۡ ﴾ (البقرہ2:185)کو یاد رکھیں۔ مزید برآں یہ ایک مسلمہ اصول ہے کہ جس چیز کو قانون منع کرے اس کا نقصان اس کے فائدے سے زیادہ ہونا چاہیے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے شراب اور جوئے کے بارے میں فرمایا ہے: ﴿ وَاِثْـمُہُمَآ اَكْبَرُ مِنْ نَّفْعِہِمَا۝۰ۭ﴾ (البقرہ2: 219) تجارتی سود بعض حالات میں بعض لوگوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے لیکن اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ وہ اکثر اوقات فائدہ مند ہی ہے۔ اور اس کا نفع اس کے نقصان سے بہت زیادہ ہے۔ اس لیے اس کی مناہی نہ ہونی چاہیے۔
] 2 [ دوسرے آج کل فوجی ضروریات کے لیے اس قدر روپے کی ضرورت پڑتی ہے کہ بوقت جنگ قرض کے بغیر چارہ نہیں۔ یہ ایک ٹھوس حقیقت ہے جسے نظرانداز نہ کرنا چاہیے۔
] 3 [تیسری وجہ ذاتی ہے ۔ میں سرکاری نوکری کے دوران میں جنرل پراویڈنٹ کے لیے روپیہ اپنی مرضی سے کٹواتا رہا۔ اس پر مجھے ایک کافی رقم سود کی ملی ہے جو میں نے نکال کر علیحدہ رکھ لی ہے ۔ میں یہ معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ آیا یہ سود ممنوع ہے یا جائز۔ کیا جناب میری رہنمائی فرمائیں گے؟ اگر ممنوع ہے تو اس رقم کو اب کس کام میں خرچ کیا جا سکتا ہے؟ کیا حاجت مندوں کی امداد پر اسے خرچ کرنا جائز ہوگا؟ اس رقم کی حرمت و حلت معلوم کرنے کے لیے مجھے جو سعی کرنی پڑی اس میں میں نے سود پر جتنی کتابیں ملیں پڑھ ڈالیں‘ لیکن چند نکتے صاف نہ ہو سکے۔ اور ان کو آپ کے سامنے حل کے لیے پیش کرنے کی جرأت کر چکا ہوں۔ امید ہے آپ مجھے اس تکلیف دہی کے لیے معاف فرما دیں گے۔ اطمینان قلب چاہتا ہوں‘ لیکن اس خط کے جواب کے بعد جناب کو مزید تکلیف نہ دوں گا۔
جواب: ] 1، 2 [ بے شک میں نے یہ لکھا تھا، اور اب بھی یہی کہتا ہوں کہ قرض پر جس نوعیت کی زیادتی کو عرب میں الربوٰ کہا جاتا تھا، قرآن میں اسی کو حرام کیا گیا ہے‘ لیکن آپ اس بات کو جس معنی میں لے رہے ہیں۔ وہ یہ ہے کہ قرض کی جو قسمیں عرب میں اس وقت رائج تھیں صرف انھی میں قرآن نے اصل سے زیادہ لینے کو حرام کیا ہے۔ حالانکہ میں نے اور تمام فقہائے اسلام نے بالا تفاق قرض کی نوعیت کا نہیں بلکہ زیادتی کی نوعیت کا استنباط کیا ہے۔
اس کو میں ایک مثال سے واضح کروں گا۔ عرب میں زمانہ نزول قرآن کے وقت اصطلاحاً لفظ خمر صرف انگور کی شراب کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ دوسری قسم کی شرابیں جو اس زمانے میں بنتی تھیں، ان پر بھی مجازاً یہ لفظ بول دیا جاتا تھا۔ بہرحال جب قرآن میں اس کی حرمت کا حکم آیا تو کسی نے بھی اس کا یہ مطلب نہیں لیا کہ یہ حکم تحریم صرف اس قسم کی شرابوں کے لیے جو عرب میں اس وقت رائج تھیں، مخصوص ہے، بلکہ یہ سمجھا گیا کہ ان سب میں جو ایک صفت مشترک، یعنی نشہ آور ہونے کی صفت، پائی جاتی ہے، اصل حرمت اسی کی ہے اور وہ جس قسم کی نوشیدنی یا خوردنی چیز میں پائی جائے وہ اس حکم کے تحت آتی ہے۔
اسی طرح عرب میں قرض کے معاملات کی بھی چند صورتیں رائج تھیں۔ ان سب میں یہ بات مشترک تھی کہ لین دین کی قرارداد میں اصل سے زائد ایک رقم ادا کرنا بطور شرط کے شامل ہوتا تھا اور اسی کا نام اہل عرب رِبا رکھتے تھے۔ قرآن میں جب رِبا کی حرمت کا حکم آیا تو کسی نے اس کا یہ مطلب نہ لیا کہ یہ حکم انھی اقسام قرض سے متعلق ہے جو عرب میں اس وقت رائج تھیں بلکہ شروع سے آج تک کے تمام فقہا نے اس کا یہی مطلب لیا ہے کہ ہر وہ زیادتی ممنوع ہے جو اصل رقم قرض پر بطور شرط عائد کی جائے۔ قطع نظر اس سے کہ قرض کسی نوعیت کا ہو۔ اس بات کی طرف خود قرآن میں ارشاد کر دیا گیا ہے۔ وَاِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوْسُ اَمْوَالِكُمْ۝۰ۚ ( البقرہ279:2 ) ’’اور اگر تم توبہ کر لو تو اپنے رأس المال لینے کے حق دار ہو۔‘‘
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ رأس المال سے زیادہ لینا ہی رِبا ہے اور اسی کو قرآن حرام کر رہا ہے۔ اگر قرض کی بعض خاص صورتوں ہی میں یہ زیادتی حرام کرنی مقصود ہوتی تو اشارے کنائے ہی میں یہ مقصد ظاہر کر دیا جاتا، مثلاً یہی کہہ دیا جاتا کہ حاجت مند کو قرض دے کر زیادہ نہ وصول کرو۔
آپ حاجت مند کی شرط قرآن میں نہیں پاتے بلکہ باہر سے لاتے ہیں اور یہ شرط بڑھانے کے لیے جو دلیل آپ پیش کرتے ہیں اس سے بہت بڑی اصولی قباحت یہ واقع ہوتی ہے کہ ایک سود ہی نہیں، قرآن کے سارے احکام ان حالات و معاملات کے لیے مخصوص ہو جاتے ہیں جو عرب میں اس کے نزول کے وقت پائے جاتے تھے۔ نیز یہ استدلال کرکے آپ ایک بڑا رسک (risk) بھی لیتے ہیں۔ آپ کے پاس اس امر کا کوئی تاریخی ثبوت نہیں ہے کہ اس زمانے میں کوئی شخص قرض لے کر تجارت نہیں کرتا تھا نہ اس امر کا کوئی ثبوت ہے کہ دورانِ تجارت میں بھی کوئی تاجر کبھی دوسرے تاجر یا ساہو کار سے قرض نہ لیتا تھا۔ یہ دونوں باتیں آپ نے صرف دور متوسط کے یورپ سے متعلق اس عام تاریخی بیان سے نکال لی ہیں کہ اس زمانے میں تجارت نجی سرمائے سے یا مضاربت پر ہوا کرتی تھی اور تجارتی سود کا رواج بہت بعد میں ہوا ہے۔ حالانکہ اس طرح کے تاریخی بیانات جو ایک عمومی کیفیت پیش کرتے ہیں، کبھی اس امر کا ثبوت نہیں ہو سکتے کہ اس زمانے میں کوئی دوسری صورت واقع نہ ہوتی تھی۔
میں نے جو پچھلے خط میں عرض کیا تھا کہ اس زمانے کے لوگ ہر قسم کے قرض کو ہی سمجھتے تھے خواہ نادار لے یا مال دار اور خواہ ذاتی ضروریات کے لیے لے یا کاروباری ضروریات کے لیے۔ یہ میرا قیاس ہے اور اس بنیاد پر ہے کہ میری نگاہ سے قدیم زمانے کی تحریروں میں کبھی قرض کی اقسام قرض لینے والے کی حالت یا غرض کے لحاظ سے نہیں گزریں، حالانکہ انسان ہر زمانے میں قرض مختلف اغراض کے لیے لیتا رہا ہے، اور قرض لینا صرف نادار لوگوں تک کبھی محدود نہیں رہا ہے۔
اس جگہ میرے لیے یہ بحث کرنا غیر ضروری ہے کہ نفع آور اغراض کے لیے بھی قرض پر سود لینا کیوں حرام ہونا چاہیے۔ اس کے متعلق اس سے پہلے اپنے دلائل میں بیان کر چکا ہوں۔
] 3 [میری رائے میں پراویڈنٹ فنڈ پر جو سودی رقم آپ کو ملی ہے اسے آپ اپنی ذات پر خرچ نہ کریں۔ اگر آپ کو اس کے حرام ہونے کا یقین نہیں ہے، تب بھی یہ رقم مشکوک تو ہے۔ آپ جیسا نیک دل آدمی ایک ایسی چیز سے کیوں فائدہ اٹھائے جس کے پاک ہونے کا یقین نہ ہو، خصوصاً جب کہ آپ اس کے محتاج بھی نہیں ہیں۔ بہتر یہ ہو کہ آپ اس سے ایک ایسے فنڈ کی ابتدا کریں جو حاجت مند لوگوں کو بلا سود قرض دے۔ میرا خیال یہ ہے کہ دوسرے بہت سے لوگ بھی جن کو اس طرح کی سودی رقمیں ملی ہیں، یا آئندہ ملیں گی۔ اس فنڈ میں اپنی رقمیں بخوشی داخل کر دیں گے اور ایک اچھا خاصا سرمایہ اس کام کے لیے جمع ہو جائے گا۔{ FR 2253 }
سوال: ماہ جون کے ترجمان القرآن میں جناب نے میرے سوال متعلقہ تجارتی سود اور اپنے جواب کو نقل فرمایا ہے جس سے مجھے جسارت ہوتی ہے کہ باوجود اس کے کہ میں نے جناب کو مزید تکلیف نہ دینے کا وعدہ کیا تھا، آپ سے تھوڑی سی وضاحت کی درخواست کروں۔
(۱) آپ نے تحریر فرمایا ہے ’’اسی طرح عرب میں قرض کے معاملات کی بھی چند صورتیں رائج تھیں۔ ان سب میں یہ بات مشترک تھی کہ لین دین کی قرارداد میں اصل سے زائد ایک رقم ادا کرنا بطور شرط کے شامل ہوتا تھا اور اسی کا نام اہل عرب ربوٰ رکھتے تھے۔‘‘ اس سے ظاہر ہے کہ جناب نے بھی رائج الوقت اقسام قرض سے ہی زیادتی کی نوعیت کا استنباط کیا ہے اور یہی میری کوشش رہی ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ جاہلیت کے عرب میں قرض کی جو صورتیں رائج تھیں ان سب کو اکٹھا کیا جائے اور دیکھا جائے کہ ان سب میں کیا جز و مشترک تھا۔ جناب کے نزدیک جو بات مشترک تھی وہ یہ تھی کہ لین دین کی قرارداد میں اصل سے زائد ایک رقم ادا کرنا بطور شرط کے شامل ہوتا تھا۔ میری عرض ہے کہ ایک اور بات بھی مشترک تھی اور وہ یہ کہ مدیون کی حاجت مندی کی وجہ سے اس پر ناجائز شرائط عائد کی جا سکتی تھیں یا بالفاظ دیگر اس پر جبر و ظلم کا احتمال تھا۔ قرض کی جتنی مثالیں آپ نے اپنی کتاب ’’سود‘‘ میں لکھی ہیں ان سب میں یہ احتمال موجود ہے۔ اس لیے یہ جز و مشترک بھی ’’رِبا‘‘ کی تعریف میں شامل ہونا چاہیے اور اس کو شامل کیے بغیر ’’رِبا‘ کی تعریف نامکمل رہ جائے گی۔
احتمال جبر و ظلم، سب حاجت مندانہ (non-productive) اور صَرفی (consumptive) قرضوں کا خاصہ ہے اور شاید یہی وجہ تحریم رِبا ہو‘ لیکن اگر یہ ثابت ہو جائے کہ اس زمانے میں عرب منفعت بخش (productive) کاموں کے لیے بھی سود پر روپیہ قرض لیتے تھے تو میرا نظریہ غلط ہو جائے گا۔ چونکہ میری اپنی کوشش جاہلیت کے عربوں میں اس قسم کے قرض کا کھوج لگانے میں ناکام رہی اس لیے میں نے جناب کو تکلیف دی ہے اور امید رکھتا ہوں کہ جناب اپنی تحقیق کی بنا پر فرما سکیں گے کہ آیا منفعت بخش (productive) قرض کا بھی ان دنوں عربوں میں رواج تھا کہ نہیں؟
] 2 [جناب نے قرض کی جو مختلف صورتیں نقل فرمائی ہیں ان میں صرف ایک ہے جس کا تجارت سے کچھ تعلق معلوم ہوتا ہے یعنی وہ جو قتادہؒ نے بیان فرمائی ہے کہ ’’ایک شخص ایک شخص کے ہاتھ کوئی چیز فروخت کرتا اور ادائے قیمت کے لیے ایک وقت مقررہ تک مہلت دیتا۔ اگر وہ مدت گزر جاتی اور قیمت ادا نہ ہوتی تو پھر وہ مزید مہلت دیتا اور قیمت میں اضافہ کر دیتا۔{ FR 2401 } غور فرمایئے کہ یہ زیادتی کس وقت عائد کی جاتی تھی؟ جب کہ قرض دار وقت مقررہ پر قیمت ادا کرنے سے عاجز ہو چکا ہوتا تھا۔{ FR 2254 }اور قرض خواہ اپنی من مانی شرائط اس سے منوا سکتا تھا۔ یعنی جبر و ظلم کا احتمال موجود تھا۔
(۳) جناب نے خمر کی مثال دی ہے اور فرمایا ہے کہ حکم تحریم کا کسی نے یہ مطلب نہیں لیا کہ یہ حکم صرف اس قسم کی شراب یا ان اقسام کی شرابوں کے لیے جو عرب میں اس وقت رائج تھیں مخصوص ہے بلکہ یہ سمجھا گیا کہ ان سب میں جو ایک صفت مشترک، یعنی نشہ آور ہونے کی صفت پائی جاتی ہے، اصل حرمت اسی کی ہے۔ میری عرض ہے کہ اسی طرح ہمیں ’’رِبا‘‘ کی ضرر رساں صفت مشترک معلوم کرنی چاہیے اصل حرمت اسی کی ہوگی، اور سود کی جو صورتیں اس ضرر سے مبرّا ہوں ان کو ’’رِبا‘‘ کے تحت نہ لانا چاہیے۔
(۴) سورۂ بقرہ کی آیت وَاِنْ تُبْتُمْ فَلَکُمْ رَئُوْسُ اَمْوَالِکُمْ (البقرہ2: 279) سے جناب نے استدلال فرمایا ہے کہ رأس المال سے زیادہ لینا ہی رِبا ہے۔ کیونکہ اگر قرض کی بعض خاص صورتوں ہی میں یہ زیادتی حرام کرنی مقصود ہوتی تو اشارے ہی میں یہ مقصد ظاہر کر دیا جاتا۔ مثلاً یہ کہ حاجت مند کو قرض دے کر زیادہ نہ وصول کرو۔ اس آیت کو اس کے ماسبق سے ملا کر پڑھیے تو پورا حکم یہ ہے۔ يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَذَرُوْا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبٰٓوا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَo فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللہِ وَرَسُوْلِہٖ۝۰ۚ وَاِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوْسُ اَمْوَالِكُمْ۝۰ۚ لَاتَظْلِمُوْنَ وَلَا تُظْلَمُوْنَo (البقرہ 2: 278-279) یہ احکام اس ربوٰ بڑھوتری کو چھوڑنے کے لیے تھے جو اس وقت قرض خواہوں کو ملنے والی تھی۔ اس لیے لازماً اس کا تعلق ان اقسام قرض سے تھا جو اس وقت رائج تھیں اور راس المال کا حکم بھی انھی اقسامِ قرض سے تعلق رکھتا ہے۔
(۵) جناب نے درست فرمایا کہ میرے پاس اس امر کا کوئی تاریخی ثبوت نہیں ہے کہ اس زمانے میں کوئی شخص قرض لے کر تجارت نہیں کرتا تھا نہ اس امر کا کوئی ثبوت ہے کہ دورانِ تجارت میں بھی کوئی تاجر کبھی دوسرے تاجر یا ساہوکار سے قرض نہ لیتا تھا‘ لیکن ان قرائن سے جن کا ذکر میں نے اپنے پہلے خطوط میں کیا ہے، یہ اغلب معلوم ہوتا ہے کہ ان دنوں کے عربوں میں اس قسم کے قرض رائج نہ تھے۔ میرا نظریہ یہ ہے کہ ’’رِبا‘‘ لینے والے کے لیے جس قدر سخت سزا مقرر کی گئی ہے اس کے پیش نظر بڑھوتری کی کسی قسم کو رِبا میں شامل نہ کرنا چاہیے جب تک کہ یقین نہ ہو جائے کہ دراصل رسولِ کریمa کے وقت میں بھی وہ ربوٰ میں شامل تھی۔ اس کے برخلاف جناب کا نظریہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ گمان کی بنا پر ہی اس کو ربوٰ میں شامل تصور کر لینا چاہیے اور جب تک پورا ثبوت اس بات کا نہ مل جائے کہ اس قسم کی بڑھوتری کا ان دنوں رواج نہ تھا، اس کو ربوٰ کی حدود سے خارج نہ سمجھنا چاہیے۔ جناب کا نظریہ احتیاط و زہد پر مبنی ہے‘ لیکن مجھے ڈر ہے کہ یہ احتیاط کہیں دنیوی نقصان کے علاوہ اُخروی نقصان کا باعث بھی نہ ہو۔ آج کل کی دنیا میں بغیر تجارتی سود کے گزارہ نہیں جو قوم اس سے پرہیز کرتی ہے وہ دوسری قوموں کے مقابلے میں معاشی لحاظ سے پست اور کمزور رہ جاتی ہے اور ایسی کمزوری کا جو اثر اس قوم کی آزادی پر پڑ سکتا ہے وہ جناب سے مخفی نہیں۔ اللہ تعالیٰ کو یقینا مرغوب نہ ہوگا کہ مسلمان محکوم ہو کر رہیں۔ سورۂ مائدہ کی آیت ’’لَاتُحَرِّمُوْا طَیِّبٰتِ مَا اَحَلَّ اللّٰہُ وَلاَ تَعْتَدُوْا۔‘‘(المائدہ5: 87) کی تشریح میں جناب نے تفہیم القرآن میں لکھا ہے، ’’اس آیت میں دو باتیں ارشاد ہوئی ہیں۔ ایک یہ کہ خود حلال حرام کے مختار نہ بن جاؤ، حلال وہی ہے جو اللہ نے حلال کیا۔ اور حرام وہی ہے جو اللہ نے حرام کیا۔‘‘ مزید نوٹ نمبر ۱۰۴ میں جناب نے ارشاد فرمایا ہے کہ رسول اکرمa نے ہر مسلمان کو اپنے اوپر سختی کرنے سے روکا ہے۔ اس لیے کیا یہ درست نہ ہوگا کہ جب تک اس کا ثبوت نہ مل جائے کہ تجارتی (productive) سود بھی رِبا میں شامل تھا‘ اس کو گمان کی بنا پر حرام قرار نہ دیا جائے؟
(۶) جو سودی رقم مجھے پراویڈنٹ فنڈ سے ملی تھی اسے چند روز بعد ہی ایک دوست بطور قرض لے گئے اور آج تک ان سے واپس نہیں ملی‘ لیکن اگر مل گئی تو ان شاء اللہ تعالیٰ آپ کی ہدایت کے مطابق میں اس کو اپنی ذات پر خرچ نہ کروں گا۔
(۷) ایک غیر متعلقہ امر کے متعلق بھی جناب سے کچھ پوچھنا چاہتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ خمرو مَیسَر کے متعلق فرماتے ہیں: ’’وَاِثْـمُہُمَآ اَكْبَرُ مِنْ نَّفْعِہِمَا۝۰ۭ (البقرہ2 :219)‘‘ آپ نے اس آیت کا ترجمہ یہ کیا ہے کہ ان کا نقصان ان کے فائدے سے بہت زیادہ ہے۔ لغت کی جو کتابیں میری نظر سے گزری ہیں ان میں مجھے ’’اثم‘‘ کا ترجمہ ’’نقصان‘‘ نہیں ملا۔ جناب سے استدعا ہے کہ اپنے ترجمے کے حق میں کوئی مستند حوالہ عنایت فرما کر ممنون فرما دیں۔
جواب: عنایت نامہ مورخہ ۳۱ جولائی مجھے بروقت مل گیا تھا، لیکن اس وقت سے اب تک مسلسل ایسی مصروفیت رہی کہ جواب لکھنے کی مہلت نہ مل سکی۔ اس تاخیر کے لیے معافی چاہتا ہوں۔
آپ نے جن نکات کی طرف توجہ دلائی ہے ان کے متعلق کچھ عرض کرنے سے پہلے میں چاہتا ہوں کہ آپ ایک مرتبہ پھر اصل مسئلے کو نئے سرے سے سمجھنے کی کوشش فرمائیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ’’الرِبا‘‘ جس کو قرآن نے حرام کیا ہے اس کی حقیقت یا بالفاظ دیگر علتِ حرمت کیا ہے۔ آیا یہ کہ ایک شخص اپنے دیے ہوئے مال (رأس المال) سے زیادہ وصول کرے، یا یہ کہ وہ دوسرے شخص کی حاجت مندی سے ناجائز فائدہ اٹھائے؟ میں پہلی چیز کو اس کی حقیقت اور عِلّتِ حرمت کہتا ہوں، اور اس کے دلائل مختصراً یہ ہیں:۔
(۱) قرآن جس چیز کو حرام کر رہا ہے اس کے لیے وہ مطلق لفظ الرِبا استعمال کرتا ہے جس کا مفہوم لغت عرب میں مجرد زیادتی ہے‘ حاجت مند سے زیادہ لینا اس لفظ کے مفہوم میں شامل نہیں ہے۔ غیر حاجت مند کو قرض دے کر یا بار آور اغراض کے لیے قرض دے کر زیادہ واپس لیا جائے تب بھی لغت کے اعتبار سے اس زیادتی پر الرِبا ہی کا اطلاق ہوگا۔
(۲) قرآن خود اس الرِبا کو کسی ایسی قید سے مقید نہیں کرتا جس سے یہ معلوم ہوتا ہو کہ وہ اس رِبا کو حرام کرنا چاہتا ہے جو کسی حاجت مند کو قرض دے کر وصول کیا جائے اور اس ربا کو حکم حرمت سے خارج کرنا چاہتا ہے جو غیر حاجت مند لوگوں سے یا بار آور اغراض کے لیے قرض دے کر کاروباری لوگوں سے وصول کیا جائے۔
(۳) اہل عرب قرض پر منافع لینے کو یکساں سمجھتے تھے۔ چنانچہ ان کا قول تھا کہ اِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبٰو (البقرہ2: 275) قرآن نے ان دونوں قسم کے منافعوں میں فرق کرکے واضح کر دیا کہ بیع کا منافع حلال اور قرض کا منافع حرام ہے۔ اَحَلَّ اللّٰہُ الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰو (البقرہ2: 275) اس سے یہ بات صاف ہوگئی کہ نفع کمانے کے لیے بیع اور شرکت فی البیع کا دروازہ تو کھلا ہوا ہے مگر قرض کی شکل میں روپیہ لگا کر فائدہ کمانے کا دروازہ بند ہے۔
(۴) قرآن نے لَکُمْ رَئُوْسُ اَمْوَالِکُمْ کہہ کر اس بات کی وضاحت بھی کر دی کہ قرض دینے والا صرف اتنا ہی واپس لینے کا حق دار ہے جتنا اس نے دیا ہے۔ اس سے زائد لینے کا حق دار نہیں ہے۔ یہاں بھی کوئی اشارہ اس امر کی طرف نہیں ہے کہ جس شخص کو بار آور اغراض کے لیے رأس المال دیا گیا ہو اس سے اصل پر کچھ زائد لینے کا حق دائن کو حاصل ہوتا ہے۔
(۵) لغت اور قرآن کے بعد تیسرا اہم ترین ماخذ سنت ہے جس سے اللہ تعالیٰ کے احکام کا منشا معلوم کیا جا سکتا ہے۔ یہاں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ علت حکم مجرد زیادتی کو قرار دیا گیا ہے نہ کہ اس زیادتی کو جو کسی حاجت مند سے وصول کی جائے۔ حدیث میں یہ صراحت ہے کہ کُلُّ قَرْضٍ جَرَّ مَنْفَعَۃً فَہُوَ وَجْہٌ مِّنْ وُّجُوْہِ الرِّبَا۔{ FR 2402 } اور کُلُّ قَرْضٍ جَرَّبِہٖ نَفْعًا فَہُوَ رِباً { FR 2403 } یعنی ’’ہر وہ قرض جس سے نفع اٹھایا جائے ربوٰ ہے۔ ‘‘ { FR 2255 }
(۶) نبی a نے صرف اس رِبا کی حرمت پر اکتفا نہیں فرمایا جو قرض کی صورت میں لیا جاتا ہے، بلکہ دست بدست لین دین کی صورت میں بھی ایک ہی جنس کی اشیا کے درمیان تفاضل کا معاملہ کرنا حرام کر دیا۔ ظاہر ہے کہ اس میں حاجت مندی کا کوئی سوال نہیں ہے اور اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ نبی a نے اللہ تعالیٰ کے حکم کا جو منشا سمجھا تھا وہ لا محالہ یہی تھا کہ زیادہ ستانی کو اللہ حرام کرنا چاہتا ہے۔ اسی کے رجحانات کو ختم کرنے کے لیے حضورa نے قرض کے علاوہ دست بدست لین دین میں بھی زیادہ ستانی سے منع فرما دیا۔
(۷) اُمت کے تمام فقہا نے بالا تفاق اس حکم کا منشا یہی سمجھا ہے کہ قرض کے معاملے میں اصل سے زائد جو کچھ بھی لیا جائے وہ حرام ہے، قطع نظر اس سے کہ قرض لینے والا اپنی شخصی حاجات کے لیے قرض لے، یا کسی نفع آور کام میں لگانے کے لیے ہو فِی الشَّرْعِ اَلزِّیَادَۃُ عَلٰی اَصْلِ الْمَالِ مِنْ غَیْرِ عَقْدٍ تَبَایَعَ { FR 2404 } یعنی شریعت کی اصطلاح میں ربوٰ سے مراد اصل مال سے زیادہ لینا ہے بغیر اس کے کہ فریقین میں بیع کا معاملہ ہوا ہو۔ اس تعریف کے مطابق تمام فقہا اس نفع کو حرام قرار دیتے ہیں جو قرض دے کر دائن مدیون سے حاصل کرے۔
ان وجوہ کو نظر انداز کرکے آپ جس بنا پر حرمت رِبا کو صرف ان قرضوں تک محدود رکھنا چاہتے ہیں جو حاجت مند لوگ اپنی ضروریات کے لیے لیں اور نفع بخش کاموں پر لگانے کے لیے جو قرض دیا جائے اس کے سود کو اس حرمت سے مستثنیٰ قرار دیتے ہیں، وہ صرف یہ ہے کہ آپ کے نزدیک عرب میں نزولِ قرآن کے وقت پہلی قسم کے معاملہ قرض کا رواج تھا، اور دوسری قسم کے کاروباری قرض کا رواج دنیا میں بہت بعد میں شروع ہوا لیکن آپ کی یہ رائے اس وقت تک قبول نہیں کی جا سکتی جب تک آپ حسب ذیل سوالات کا واضح اور اطمینان بخش جواب نہ دیں۔
(۱) کیا اللہ تعالیٰ نے اور اس کے رسول نے قرضوں کے درمیان نفع آور اور غیر نفع آور کا فرق کرکے صراحتہً یا اشارۃً حرمت رِبا کو صرف دوسری قسم تک محدود اور پہلی قسم کو حرمت کے حکم سے مستثنیٰ کیا ہے؟ اگر کیا ہے تو اس کا حوالہ ملنا چاہیے کیونکہ حرمت کا حکم جس نے دیا ہے، مستثنیٰ کرنے کا اختیار بھی اسی کو حاصل ہے اور اس کے کسی اشارے کے بغیر ہم اور آپ بطور خود حرام اور حلال کا فیصلہ کر لینے کے مختار نہیں ہیں۔ اس سلسلے میں غالباً آپ یہ استدلال کریں گے کہ ’’چونکہ اس زمانے میں صرف غیر نفع آور قرضوں ہی پر سود لینے کا رواج تھا اس لیے اللہ تعالیٰ کے حکم تحریم کو اسی سے متعلق مانا جائے گا۔‘‘ لیکن یہ استدلال اس وقت تک نہیں چل سکتا جب تک یہ بھی فرض نہ کر لیا جائے کہ انسانی معاملات میں اللہ اور اس کے رسول کا علم بھی بس انھی معاملات تک محدود تھا جو نزولِ قرآن کے دور میں رائج تھے، اور انھیں کچھ پتہ نہ تھا کہ آگے کیا کچھ آنے والا ہے، نیز یہ کہ اسلام صرف ایک وقت خاص تک کے معاملات میں رہنمائی دینے والا ہے، کوئی ازلی و ابدی رہنما نہیں ہے۔ اگر یہ مفروضہ آپ کے استدلال کی بنیاد میں کام نہیں کر رہا ہے تو پھر آپ کو ماننا پڑے گا کہ معاملات کی وہ صورتیں بھی اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں تھیں جو بعد میں پیش آنے والی تھیں اور جب یہ مان لیں گے تو آپ کو ساتھ ہی یہ بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ اللہ تعالیٰ کا منشا فی الواقع غیر نفع آور قرضوں تک ہی حکم تحریم کو محدود رکھنا ہوتا تو وہ ضرور کسی نہ کسی طریقے سے اپنے اس منشا کو ظاہر فرماتا اور اس کے رسول a بھی اس منشا کو اس حد تک کھول دیتے کہ تحریم رِبا کا حکم تمام اقسام قرض پر حاوی نہ ہو سکتا۔
(۲) دوسرا سوال یہ ہے کہ آپ کے پاس اس کا کیا ثبوت ہے کہ عرب میں صرف حاجت مند لوگ ہی اپنی ذاتی ضروریات کے لیے قرض لیا کرتے تھے اور کوئی شخص کاروبار میں یا کسی نفع بخش کام میں لگانے کے لیے قرض نہ لیتا تھا؟ صرف یہ بات کہ دنیا میں نفع آورکاموں کے لیے قرض پر سرمایہ جمع کرنے کا رواج عام بہت بعد میں شروع ہوا ہے اس بات کا فیصلہ کر دینے کے لیے کافی دلیل نہیں ہے کہ پہلے کوئی شخص کاروبار کے آغاز میں یا کاروبار کے دوران میں کبھی کاروباری اغراض کے لیے قرض نہ لیا کرتا تھا۔ آپ ایک بہت اہم مسئلے کا فیصلہ کرنے بیٹھے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے کسی چیز کو مستثنیٰ کرنا کوئی ہلکی بات نہیں ہے۔ اس کے لیے آپ کو اس سے زیادہ وزنی دلیل لانی چاہیے جو آپ پیش کر رہے ہیں۔ یہ ثبوت لانا ہمارے ذمے نہیں ہے کہ عرب میں اس وقت کاروباری اغراض کے لیے کوئی شخص قرض نہ لیتا تھا۔ اس لیے کہ استثنا کا دعویٰ آپ کر رہے ہیں اور اس کی بنا آپ نے خدا اور رسولؐ کے کسی اشارے یا تصریح پر نہیں رکھی ہے بلکہ اس دلیل پر رکھی ہے کہ عرب میں اس وقت الربوٰ کا اطلاق صرف ان قرضوں پر ہوتا تھا جو غیر نفع بخش اغراض کے لیے لیے جاتے تھے۔
اب میں مختصراً آپ کے پیش کردہ نکات کا جواب عرض کرتا ہوں۔
] 1 [ الرِبا کا مفہوم متعین کرنے اور اس کی علت حرمت معلوم کرنے میں ہمارا انحصار صرف ان معاملات کی نوعیت پر ہی نہیں ہے جو اس وقت عرب میں رائج تھے بلکہ لغت، بیانِ قرآن، حدیث اور فقہائے امت کی توضیحات اس کے اصل مآخذ ہیں اور ان کے ساتھ ایک مددگار چیز یہ بھی ہے کہ اس وقت جن معاملات پر رِبا کا اطلاق ہوتا تھا ان میں قدر مشترک معلوم کی جائے۔
آپ فرماتے ہیں کہ ان میں قدر مشترک صرف اصل سے زائد ایک رقم لینا ہی نہ تھا بلکہ یہ بھی تھا کہ یہ زائد رقم حاجت مندوں کی ذاتی ضروریات کے لیے قرض دے کر وصول کی جاتی تھی‘ لیکن اوّل تو اس کا اعتبار علت حکم مشخص کرنے میں اس لیے نہیں کیا جا سکتا کہ نہ قرآن نے اس کی طرف کوئی اشارہ کیا ہے اور نہ سنت میں کوئی چیز ایسی ملتی ہے جس کی بنا پر یہ فرض کیا جائے کہ حاجت مندوں سے زائد رقم وصول کرنا وجہ حرمت ہے۔ دوسرے ہم یہ تسلیم نہیں کرتے کہ اس وقت قرض کے معاملات صرف اسی نوعیت تک محدود تھے۔ جہاں تک عرب کے تجارتی معاملات کا تعلق ہے، ان کے بارے میں نہ یہ تصریح ہمارے علم میں آئی ہے کہ وہ قرض کے سرمائے سے چلتے تھے اور نہ یہ تصریح ہم تک پہنچی ہے کہ ان میں قرض کا عنصر بالکل ہی شامل نہ ہوتا تھا۔ اس لیے کسی ریکارڈ پر نہ ہم مدارِ بحث رکھ سکتے ہیں نہ آپ‘ لیکن یہ بات تو عقل عام سے تعلق رکھتی ہے اور دنیا کے عام تجارتی معاملات کی سمجھ بوجھ رکھنے والا کوئی شخص بھی اس سے انکار نہیں کر سکتا کہ تجارت میں قرض کے سرمائے کو بطور بنیاد استعمال کرنے کا رواج چاہے بعد ہی میں شروع ہوا ہو لیکن تاجروں کو اپنے کاروبار کے دوران میں ایک دوسرے سے بھی اور ساہوکاروں سے بھی قرض لینے کی ضرورت پہلے سے بھی پیش آیا کرتی تھی اور چھوٹے تاجر بڑے تاجروں سے قرض پر مال پہلے بھی حاصل کیا کرتے تھے۔
] 2 [عرب کے متعلق ایسا ریکارڈ اگر موجود نہ ہو تب بھی دنیا کے دوسرے ملکوں کے متعلق تو ایسا ریکارڈ نزولِ قرآن سے سینکڑوں بلکہ کئی ہزار برس پہلے کا بھی ملتا ہے اور تاریخی طور پر یہ دعویٰ نہیں کیا جا سکتا کہ پہلے زمانے میں تجارتی کاروبار قرض کے عنصر سے بالکل خالی ہوا کرتا تھا۔ { FR 2256 }
] 3 [آپ کا خیال یہ ہے کہ سود کے معاملات میں ضرر رساں صفت مشترک صرف یہ ہو سکتی ہے کہ حاجت مندوں کی شخصی ضروریات کے لیے قرض دے کر ان سے ظالمانہ شرح سود طے کی جائے‘ لیکن ہمارے نزدیک صرف یہی ایک ضرر رساں صفت اس میں نہیں ہے۔ یہ صفت بھی ضرر رساں ہے کہ ایک شخص یا ادارہ صرف روپیہ دے کر اپنے لیے ایک متعین منافع کی ضمانت حاصل کرے اور وہ سب لوگ جو اس روپے کے ذریعے سے اپنی محنت، قابلیت اور دماغ سوزی کرکے منافع حاصل کرنے کی کوشش کریں ان کے لیے متعین منافع تو درکنار، خود منافع تک کی کوئی ضمانت نہ ہو، قرآن مجید جو قاعدہ تجویز کرتا ہے وہ یہ ہے کہ قرض کی صورت میں کسی کو مال دو تو تم اصل سے زائد کچھ لینے کے حق دار نہیں ہو اور بیع، یعنی تجارت کا منافع حاصل کرنا چاہو تو پھر سیدھی طرح یا تو خود براہ راست تجارت کرو، یا پھر تجارت میں شریک بن جاؤ۔ قرآن کے اسی منشا کو سمجھ کر اسلام میں مضاربت کو جائز اور سودی قرض کو ناجائز قرار دیا گیا ہے۔
] 4 [وَذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبَا سے آپ نے جو استدلال کیا ہے وہ صحیح نہیں ہے۔ یہ محض اسی زمانے کے لیے ایک وقتی حکم نہ تھا بلکہ قرآن کے دوسرے احکام کی طرح ایک ابدی حکم تھا۔ جب اور جہاں بھی کوئی آدمی ایمان لائے وہ اس حکم کا مخاطب ہے۔ اسے اگر کسی سے اپنے دیے ہوئے قرض پر سود لینا ہو تو اس کو سود کا مطالبہ چھوڑنا ہوگا اور صرف اپنے دیے ہوئے رأس المال کی واپسی پر اکتفا کرنا پڑے گا۔ علاوہ بریں اس آیت سے آپ کا استدلال اس دعوے پر مبنی ہے کہ اس وقت کی اقسام قرض کاروباری نوعیت کے سود سے خالی تھیں۔ یہ دعویٰ خود محتاج ثبوت ہے‘ اسے دلیل کیسے بنایا جا سکتا ہے۔ جن اقسام قرض کا آپ بار بار حوالہ دیتے ہیں کہ یہ صرف ذاتی نوعیت کے قرض ہی ہو سکتے تھے، خود ان میں یہ احتمال موجود ہے کہ ایک چھوٹا تاجر کسی بڑے تاجر سے قرض پر مال لے کر جاتا ہو اور بڑا تاجر اس پر اصل قیمت کے علاوہ سود بھی عائد کرتا ہو، پھر جب وہ مدتِ مقررہ کے اندر پوری قیمت ادا نہ کرتا ہو تو وہ مزید مہلت دے کر سود میں اور اضافہ کر دیتا ہو۔ اس طرح کے سود کے بقایا بھی تو حکم ذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰو کی زد میں آ جاتے ہیں۔ آپ کے پاس اس کا کیا ثبوت ہے کہ ان بقایا میں اس نوعیت کے بقایا شامل نہ ہوتے تھے۔
] 5 [ میرے نزدیک اگر تجارتی سود کو حکم رِبا کے تحت لانے یا نہ لانے کی بنا محض گمان ہی پر ہو (اگرچہ واقعہ یہ نہیں ہے) تب بھی گمان پر ایک امکانی حرام کو حلال کر دینا اس سے زیادہ خطرناک ہے کہ اسے حرام مان کر اس سے اجتناب کیا جائے۔ حدیث کا یہ حکم صاف ہے کہ دَعُوْا الرَّبَا اوَالرِّیْبَہَ { FR 2405 } سود کو بھی چھوڑو اور اس چیز کو بھی جس میں سود کا شک ہو۔ یہ بات میں برسبیل تنزل محض آپ کی اس بات کے جواب میں کہہ رہا ہوں کہ تجارتی سود کو حرام قرار دینے کی بنیاد محض گمان ہے۔ ورنہ مجھے اس امر میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ قطعاً حرمت کے تحت آتا ہے اور اس کے حرام ہونے کی بنا گمان نہیں ہے بلکہ قرآن اور سنت کے محکمات ہیں۔
] 6 [مجھے اس بات کی مسرت ہے کہ آپ نے خود اپنے پراویڈنٹ فنڈ کے سود کے معاملے میں میرا مشورہ قبول فرما لیا ہے آپ سے توقع یہی ہے کہ کم از کم اپنی ذات کو تو مالِ مشکوک کے فائدے سے محفوظ رکھیں گے۔ خدا کرے کہ آپ اسے دوسروں کے لیے حلال کرنے کی فکر بھی چھوڑ دیں اور مالیات کے مسائل پر جو تجربہ و بصیرت آپ کو حاصل ہے اسے ایک غیر سودی نظام مالیات مرتب کرنے میں استعمال کریں۔
] 7 [آپ کے آخری سوال کا جواب یہ ہے کہ میں نے اثم کا ترجمہ نفع کے تقابل کی وجہ سے گناہ کے بجائے نقصان کیا ہے۔ ویسے یہ زبان کے اعتبار سے غلط بھی نہیں ہے، کیونکہ اثم کے اصل معنی خیر مطلوب کو پہنچنے میں قاصر رہ جانے کے ہیں۔ اسی معنی کے لحاظ سے عرب کہتے ہیں اثمت الناقۃ یعنی اونٹنی سست رفتار ہے جو تیز رفتاری اس سے مطلوب ہے اس میں کوتاہی برتتی ہے۔(ماہنامہ ترجمان القرآن محرم‘ صفر ۱۳۷۷ھ اکتوبر‘ نومبر ۱۹۵۷ء)
٭…٭…٭

شیئر کریں