عقل گواہی دیتی ہے کہ ایسا ضرور ہوا ہو گا اورتاریخ گواہی دیتی ہے کہ فی الواقع ایسا ہی ہوا ہے۔ آج حدیث کا جو علم دُنیا میں موجود ہے وہ تقریباً دس ہزار صحابہ رضی اللہ نہم سے حاصل کیا گیا ہے۔ تابعین نے صرف ان کی احادیث ہی نہیں لی ہیں، بلکہ ان سب صحابیوں کے حالات بھی بیان کر دیے ہیں اور یہ بھی بتا دیا ہے کہ کس نے حضورﷺ کی کتنی صحبت پائی ہے اور کب اور کہاں آپ کو دیکھا ہے اورکن کن مواقع پر آپﷺ کی خدمت میں حاضری دی ہے۔ فاضل جج تو یہ فرماتے ہیں کہ احادیث ابتدائی دور کے مسلمانوں کے ذہن میں دفن پڑی رہیں اور دو ڈھائی صدی بعد امام بخاریؒ اور ان کے ہم عصروں نے انھیں کھود کر نکالا لیکن تاریخ ہمارے سامنے جو نقشہ پیش کرتی ہے وہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ صحابہؓ میں سے جن حضرات نے سب سے زیادہ روایات بیان کی ہیں، ان کی اور ان کی مرویات کی فہرست ملاحظہ ہو:
اسمِ گرامی
تعداد احادیث
۱۔ ابوہریرہؓ (متوفی ۵۷ھ) ان کے شاگردوں کی تعداد ۸ سو کے لگ بھگ تھی اور ان کے بکثرت شاگردوں نے ان کی احادیث کو قلم بند کیا تھا۔
۵۳۷۴
۲۔ ابوسعید خدریؓ، (متوفی ۴۶ھ)
۱۱۷۰
۳۔ جابر بن عبداللّٰہ ؓ، (متوفی ۷۴ھ)
۱۵۴۰
۴۔ انس بن مالکؓ، (متوفی ۹۳ھ)
۱۲۸۶
۵۔ ام المومنین عائشہ صدیقہؓ، (متوفیہ ۵۹ھ)
۲۲۱۰
۶۔ عبداللّٰہ بن عباسؓ، (متوفی ۶۸ھ)
۱۶۶۰
۷۔ عبداللّٰہ بن عمرؓ، (متوفی ۷۰ھ)
۱۶۳۰
۸۔ عبداللّٰہ بن عمرو بن عاصؓ ، (متوفی۶۳ ھ )
۷۰۰
۹۔ عبداللّٰہ بن مسعودؓ، (متوفی ۳۲ھ)
۸۴۸
کیا یہ اسی بات کا ثبوت ہے کہ صحابہ کرامؓ نبی ﷺ کے حالات کو اپنے سینوں میں دفن کرکے یوں ہی اپنے ساتھ دُنیا سے لے گئے؟