حامیان علی رضی اللہ عنہ کا گروہ ابتدا میں شیعان علی کہاجاتا تھا ۔ بعد میں اصطلاحا انھیں صرف شیعہ کہاجانے لگا۔ اگرچہ نبی ﷺ کے بعد بنی ہاشم کے کچھ لوگ ، اور دوسرے لوگوں میں سے بھی چند اصحاب ایسے تھے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کوخلافت کے لیے اہل ترسمجھتے تھے ، اور بعض کا خیال یہ بھی تھا کہ وہ دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم سے اور خصوصا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے افضل ہیں، اور بعض ایسے بھی تھے جو نبی ﷺ کے ساتھ ان کے رشتے کی بنا پر انھیں خلافت کا زیاہ حق دار خیال کرتے تھے ، لیکن حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے وقت تک ان خیالات نے ایک عقیدے اور مذہب کی سی شکل اختیار نہ کی تھی ۔ اس طرزِخیال کے لوگ خلفائے وقت کے مخالف بھی نہ تھے بلکہ تینوں خلفاء کی خلافت تسلیم کرتے تھے ۔ باقاعدہ مخصوص نظریات کے ساتھ ایک پارٹی کے وجود کا آغاز ان لڑائیوں کے زمانے میں ہوا جو حضرت طلحہ وزبیر رضی اللہ عنہما کے ساتھ معرکہ جمل میں ، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ صفین میں ، اورخوارج کے ساتھ نہروان میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کو پیش آئیں ۔ پھر حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت نے ان لوگوں کی صفوں کو مجتمع کیا، اور ان کے جذبات میں شدت پیدا کی ، اور ان کے نظریات کو ایک واضح شکل دے دی۔ علاوہ بریں بنو امیہ کے خلاف ان کے طرزِ حکومت کی وجہ سے عام مسلمانوں میں جو نفرت پھیلی ، اور اموی وعباسی دور میں اولاد علی اور ان کے حامیوں پر ظلم وستم کی وجہ سے مسلمانوں کے دلوں میں ہمدردی کےجو جذبات پیدا ہوئے ، انھوں نے شیعی دعوت کو غیر معمولی طاقت بخش دی ۔ کوفہ ان لوگوں کا سب سے مضبوط قلعہ تھا۔ ان کے مخصوص نظریات یہ تھے : 1۔ امامت( جوخلافت کے بجائے ان کی مخصوص اصطلاح ہے ) مصالح عامہ میں سے نہیں ہے کہ امت پر اس کا انتخاب چھوڑ دیا جائے اور امت کے بنانے سے کوئی شخص امام بن جائے ، بلکہ وہ دین کا ایک رکن اور اسلام کا بنیادی پتھر ہے ، اور نبی ﷺ کے فرائض میں سے یہ ہے کہ امام کا انتخاب امت پر چھوڑنے کے بجائے خود بحکم ِصریح اس کو مقرر کرے ۔ [1] 2۔ امام کو معصوم ہونا چاہیے ، یعنی وہ تمام چھوٹے بڑے گناہوں سے پاک اور محفوظ ہو ، اس سے غلطی کاصدور جائز نہ ہو، اور ہر قول وفعل جو اس سے صادر ہو برحق ہو۔ [2] 3۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ وہ شخص ہیں جن کو رسول اللہ ﷺ نے اپنے بعد امام نامزد کیا اور وہ بربنائے نص امام تھے ۔ [3] 4۔ ہر امام کے بعد نیا امام لازما اپنے سے پہلے امام کی نص پر مقرر ہوگا، کیونکہ اس منصب کا تقرر امت کے سپرد ہی نہیں کیا گیا کہ مسلمانوں کے منتخب کرنے سے کوئی شخص امام ہوسکے ۔ [4] 5۔ شیعوں کے تمام گروہ کے درمیان اس بات پر بھی اتفاق تھا کہ امامت صرف اولاد علی رضی اللہ عنہ کا حق ہے ۔ [5] اس متفق علیہ نظریے کے بعد شیعوں کے مختلف گروہوں کی آراء مختلف ہوگئیں۔معتدل شیعوں کی رائے یہ تھی کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ افضل الخلق ہیں ۔ ان سے لڑنے والا یا ان سے بعض رکھنے والا خدا کا دشمن ہے ۔ وہ ہمیشہ دوزخ میں رہے گا اور اس کا حشر کفار ومنافقین کے ساتھ ہوگا ۔ ابوبکر وعمر اور عثمان رضی اللہ عنہھم جو ان سے پہلے خلیفہ بنادیے گئے تھے ، اگران کی خلافت ماننے سے علی رضی اللہ عنہ نے انکار کردیا ہوتا اور ان سے ناراضی ظاہر کی ہوتی تو ہم کہتے کہ وہ بھی دوزخی ہیں ،مگر چونکہ علی رضی اللہ عنہ نے ان کی سرداری مان لی اور ان سے بیعت کی اور ان کے پیچھے نماز پڑھی اس لیے ہم علی رضی اللہ عنہ کے فعل سے تجاوز نہیں کرسکتے ۔ہم علی رضی اللہ عنہ اور نبی ﷺ کے درمیان مرتبہ نبوت کے سوا کوئی فرق نہیں کرتے اور باقی تمام حیثیتوں سے ان کو نبی ﷺ کے ساتھ مشترک فضیلت دیتے ہیں۔[6] متشدد شیعوں کی رائے یہ تھی کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے پہلے جن خلفاء نے خلافت قبول کی وہ غاصب تھے اور جن لوگوں نے ان کو خلیفہ بنایا وہ گمراہ اور ظالم تھے ، کیونکہ انھوں نے نبی ﷺ کی وصیت کا انکار کیا اور امام برحق کو حق سے محروم کیا ۔ بعض لوگ مزید تشدداختیار کرکے پہلے تین خلفاء اور ان کے منتخب کرنے والوں کی تکفیر بھی کرتے تھے ۔ ان میں سب سے زیادہ نرم مسلک زیدیہ کا تھا جو زید بن علی بن حسین ( متوفی 122ھ /740ء ) کے پیرو تھے ۔ وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو افضل مانتے تھے ، مگر ان کے نزدیک افضل کی موجودگی میں غیر افضل کا امام ہونا جائز تھا ۔ نیز ان کے نزدیک حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حق میں شخصا وصراحتا رسول اللہ ﷺ کی نص نہ تھی ، اس وجہ سے وہ حضرت ابوبکر وعمر رضی اللہ عنھما کی خلافت تسلیم کرتے تھے ۔ تاہم ان کی رائے یہ تھی کہ امام اولاد فاطمہ رضی اللہ عنھا میں سے کوئی اہل شخص ہونا چاہیے ،بشرطیکہ وہ سلاطین کے مقابلے میں امامت کا دعوی لے کر اٹھے اور اس کا مطالبہ کرے ۔ [7]