Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

دیباچہ
مقدمہ طبع اوّل
تعارف مقصد
تحریک اِسلامی کا تنزل
ضمیمہ
نسلی مسلمانوں کے لیے دوراہیں عمل‘ خواہ انفرادی ہویااجتماعی‘ بہرحال اس کی صحت کے لیے دو چیزیں شرط لازم ہیں:
اقلیت واکثریت
شکایات ناظرین’’ترجمان القرآن‘‘میں سے ایک صاحب لکھتے ہیں:
راہ رَوپِشت بمنزل
اسلام کی دعوت اور مسلمان کا نصب العین
اصلی مسلمانوں کے لیے ایک ہی راہِ عمل
اسلام کی راہِ راست اور اس سے انحراف کی راہیں
۱۔اسلامی نصب العین
۲- اس نصب العین تک پہنچنے کا سیدھا راستہ
۳-مشکلات
۴-انحراف کی راہیں
۵- منحرف راستوں کی غلطی
پاکستانی خیال کے لوگ
۶-مشکلات کا جائزہ
اسلامی حکومت کس طرح قائم ہوتی ہے؟
استدراک
ایک صالح جماعت کی ضرورت
مطالبۂ پاکستان کو یہود کے مطالبہ ’’قومی وطن‘‘ سے تشبیہ دینا غلط ہے
مسلم لیگ سے اختلاف کی نوعیت
وقت کے سیاسی مسائل میں جماعت ِاسلامی کا مسلک
نظام کفر کی قانون ساز مجلس میں مسلمانوں کی شرکت کا مسئلہ
مجالس قانون ساز کی رکنیت شرعی نقطۂ نظر سے
پُر امن اِنقلاب کا راستہ
۱۹۴۶ء کے انتخابات اور جماعت ِاسلامی
جواب
تقسیم سے قبل ہندستان کے مسلمانوں کو آخری مشورہ (یہ وہ تقریر ہے‘ جو ۲۶اپریل ۱۹۴۷ء کو جماعت ِاسلامی کے اجلاس منعقدہ مدراس میں کی گئی تھی)
صوبہ سرحد کے ریفرنڈم میں جماعت ِاسلامی کا مسلک
تقسیم ہند‘ حالات پر تبصرہ
تقسیم کے وقت مسلمانوں کی حالت کا جائزہ
تقسیم کے بعد سامنے آنے والے مسائل
کیا پاکستان کو ایک مذہبی ریاست ہونا چاہئے؟
پاکستان میں اسلامی قانون کیوں نہیں نافذ ہوسکتا؟
اسلامی نظامِ زندگی کا مآخذ
پاکستان میں اسلامی قانون کس طرح نافذ ہوسکتا ہے؟
مطالبہ نظام اسلامی

تحریک آزادی ہند اور مسلمان (حصہ دوم)

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

شکایات ناظرین’’ترجمان القرآن‘‘میں سے ایک صاحب لکھتے ہیں:

آپ کی نظر میں نہ موجودہ لیڈروں میں‘نہ عوام میں کوئی اس قابل ہے‘ کہ اپنے آپ کو مسلمان کہنے یا کہلانے کا مستحق ہو‘ نہ موجودہ دور کی سیاسی کش مکش میں ان تمام نام نہاد مسلمانوں کی بہبودی کی جدوجہد مستحسن ہے۔ پھر برائے خدایہ بتائیے کہ یہ مسلمان کس نام سے پکارا جائے‘ اور اس پر جو ہر طرف سے حملے ہورہے ہیں ان سے بچنے کے لیے کسی تدبیر کی ضرورت بھی ہے‘ یا نہیں؟
یہ سچ ہے‘ کہ دورِحاضر کے مسلمان بُرے ہیں۔ مذہب کی پابندی نہیں کرتے‘ لیکن آخر کیا انہیں ڈوبتا ہی چھوڑ دیا جائے؟… کیا‘ جس وقت تک سب راہِ راست پر نہ آجائیں اس وقت تک نہ اپنے آپ کو کوئی مسلمان کہے‘ نہ ان کی بہتری کے واسطے انہی جیسے مسلمانوں کی طرف سے کوئی جدوجہد کی جائے؟…ڈوبتے ہوئے سے یہ کہنا کہ تو گہرے پانی میں گیا ہی کیوں تھا‘ اور تو کسی ہمدردی کا مستحق نہیں ہے سراسر خلافِ انسانیت ہے۔ ضرورت تو اس کی ہے‘ کہ اسے نکالنے کی کوشش کی جائے‘ اور ہر ممکن تدبیر اس کی جان بچانے کی عمل میں لائی جائے۔
ایک دوسرے صاحب فرماتے ہیں:
آپ کی روش میرے لیے اور مجھ جیسے خیالات رکھنے والے بہت سے دوسرے لوگوں کے لیے سخت وجہ پریشانی بن گئی ہے۔ جب تک آپ نیشنلسٹ مسلمانوں یا کانگریس سے تعاون کرنے والے مسلمانوں کے طرزِعمل پر تنقید کرتے رہے‘ ہم نے یہ سمجھا کہ آپ ہندوستان میں مسلمانوں کی انفرادیت بر قرار رکھنے کے حامی ہیں اس لیے ان لوگوں سے اختلاف رکھتے ہیں‘ جن کے روّیہ سے آپ کو خطرہ ہے‘ کہ مسلمانوں کی انفرادی ہستی گم ہوجائے گی۔ مگر اب آپ نے ان دو تحریکوں اور ان کے لیڈروں پر بھی نکتہ چینی شروع کر دی ہے‘ جو اس انفرادیت کے تحفظ ہی کے لیے کوشاں ہیں‘ یعنی مسلم لیگ اور خاک سار تحریک۔اب ہماری سمجھ میں نہیں آتاکہ آپ آخر چاہتے کیا ہیں؟ ہندوستان میں اگر مسلمانوں کو زندہ رہنا ہے‘ تو بہرحال یہ ضرورت ہے‘ کہ وہ کسی مرکز پر جمع ہوں‘ ایک منظم گروہ بنیں‘ کسی قیادت کے تحت حرکت کریں۔ اس مقصد کے لیے جو کوشش کی جاتی ہے اس سے آپ کا اختلاف کیا معنی رکھتا ہے؟ اگر آپ مذہبیت کا احیاء چاہتے ہیں‘ تو یہ بھی تب ہی ہوسکتا ہے‘ کہ مسلمانوں کا ایک اجتماعی نظام بن جائے۔ فی الحال بری یا بھلی‘ جیسی بھی ہے‘ جماعت تو بن رہی ہے۔ اس کا ساتھ دیجیے۔ پھر مذہبی احیاء کے لیے بھی کوشش کر لیجیے گا۔ لیکن آپ کی روش سے تو ایسا معلوم ہوتا ہے‘ کہ مسلمانوں کی فلاح وبہبود کے لیے جو کوششیں کی جا رہی ہیں ان میں سے کسی کا بھی ساتھ آپ دینا نہیں چاہتے۔
یہ دو خط منجملہ ان بہت سے شکایتی خطوط کے ہیں‘ جو پچھلے دنوں مجھے وصول ہوئے ہیں۔ ہمارے تعلیم یافتہ لوگوں میں ایک بہت بڑا گروہ اسی طرز پر سوچ رہا ہے‘ اور ان خطوط میں دراصل اسی طرز خیال کی نمائندگی کی گئی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اپنے اوپر آپ تنقید کرنا اور اپنی کمزوریوں کا جائزہ لینا کوئی خوش آیند چیز نہیں ہے۔ میں بھی اس کام کو خوش آیند سمجھ کر نہیں کرتا۔ بڑا تلخ گھونٹ‘ زہر کا گھونٹ ہے‘ جسے حلق سے اتارتا ہوں‘ اور اچھی طرح اس تلخی کو محسوس کرتا ہوں‘ جو میرے دوسرے بھائی اس کے اندر پاتے ہوں گے۔ اس احساس کے باوجود میر ا ضمیر تقاضا کرتا ہے‘ کہ اس تلخی سے بچنے کے بجائے اسے گوارا کرنا چاہیے۔ تلخی تو واقعہ میں موجود ہے۔تغافل کا فائدہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ اپنے احساس کو حقیقی اور واقعی تلخی کے ادراک سے معطل کر لیا جائے۔ دوسروں کی چیرہ دستیوں اور جارحانہ کارروائیوں پر شکوہ سنج ہونا اور اپنی کمزوریوں اور غلطیوں سے نہ صرف غفلت برتنا بلکہ ان کے لیے جوازواستحسان کے دلائل ڈھونڈنا بہت خوش گوار چیز ہے‘ جس سے دل خوب بہلتا ہے‘ مگر اس کی حیثیت مارفیا کے انجکشن کی سی ہے۔ یہ ایک پینک ہے‘ جس کے نشہ میں مریض سو جاتا ہے‘ مگر وہ اندرونی خرابیاں دور نہیں ہوتیں جن کے سبب سے بیرونی آفات کو اس پر تسلّط حاصل ہوا ہے۔ میرے بھائی چاہتے ہیں‘ کہ میں بھی انہیں اسی پینک کی خوراکیں دیا کروں۔ ان کی خواہش ہے‘ کہ جس خیالی جنّت میں وہ جی رہے ہیں‘ جن سرابوں سے وہ چشمہ آبِ حیواں پانے کی اُمیدیں باندھے بیٹھے ہیں‘ اور جن غلط فہمیوں کا دل فریب طلسم انہوں نے اپنے گرد بنا رکھا ہے‘ ان سب چیزوں کو جوں کا توں رہنے دوں بلکہ اگر ہوسکے‘ تو خود بھی ان لوگوں میں شامل ہوجائوں جن کے لیے ان چیزوں کا سرا ہنا دین اور اُمت کی سب سے بڑی خدمت بنا ہوا ہے۔ اس خدمت کے فوائد بھی مجھے معلوم ہیں‘ مگر میں مجبور ہوں کہ مجھے محبوب دشمن کے بجائے مبغوض دوست بننا زیادہ مرغوب ہے۔
جانتا ہوں ثوابِ طاعت وزُہد
پر طبیعت اِدھر نہیں آتی
مسلمانوں کا مفاد‘ مسلمانوں کی فلاح وبہبود‘ مسلمانوں کی تنظیم‘ مسلمانوں کی جمعیت ومرکزیت‘ مسلمانوں کی ترقی وخوشحالی‘ یہ وہ چیزیں ہیں‘ جن کا ذکر بار بار زبانوں پر آتا ہے۔ میں بھی یہ ذکر کرتا ہوں‘ زید بھی کرتا ہے‘ بکر بھی کرتا ہے‘ اور ہر ایک شخص جو اس گروہِ مسلمین میں شامل ہے‘ انہی الفاظ سے اپنے مدعا کے اظہار میں کام لیتا ہے۔ مگر اس کے باوجود ہمارے عمل کی راہوں میں اختلاف ہے۔ ایک کسی طرف جا رہا ہے‘ دوسرا کسی اور طرف‘ تیسرا کسی اور طرف‘ آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ کیا یہ محض اتفاقی امر ہے؟یا اس کی تہ میں کوئی بنیادی سبب ہے‘ جسے سمجھنے کی کوشش نہیں کی جاتی؟
میرے نزدیک اس کی وجہ یہ ہے‘ کہ ہمارے درمیان الفاظ مشترک ہیں‘ مگر معنی ومفہوم میں اختلاف ہے۔ ایک ہی لفظ ہے’’مسلمان‘‘ لیکن میں اس سے کچھ اور مراد لیتا ہوں ‘اور دوسرے اس کا مفہوم کچھ اور سمجھتے ہیں۔ اسی وجہ سے مفاد‘ فلاح وبہبود‘ تنظیم‘ جمعیت ومرکزیت‘ ترقی وخوش حالی اور ہر ایک چیز جو لفظ’’مسلمان‘‘ کی نسبت سے بولی جاتی ہے‘ ہمارے درمیان مختلف المعنی ہوکر رہ گئی ہے۔ اسی اُلجھن کے سبب سے غلط فہمیاں واقع ہوجاتی ہیں‘ اور جب لوگ اسے سلجھانے سے عاجز رہ جاتے ہیں‘ تو شکایات کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ کہتے ہیں‘ کہ تم کو مسلمانوں کے مفاد اور فلاح وبہبود اور ترقی وخوش حالی وغیرہ سے ہمدردی نہیں۔ جمعیت بن رہی ہے‘ مرکزیت پیدا ہورہی ہے‘ مگر تم اس کی مخالفت کرتے ہو‘ مسلمانوں کی بہتری کے لیے کام ہوتا ہے‘ اور تم اس میں روڑے اٹکاتے ہو۔ حالانکہ ایک شخص ان الفاظ کا اطلاق جن مخصوص ومتعین چیزوں پر کرتا ہے دوسرے کے نزدیک ان پر یہ الفاظ منطبق ہی نہیں ہوتے‘ ورنہ ظاہر ہے‘ کہ کون کافر ہوگا‘ جس کو فی نفسہٖ فلاحِ مسلمین وغیرہ سے دشمنی ہو۔
آئیے‘ ذرا تحقیق کر کے دیکھیں کہ اس اُلجھن کی نوعیت کیا ہے۔
مُطْلق اور مُقیّد کا فرق ایک ایسی واضح چیز ہے‘ جسے ہر شخص سمجھ سکتا ہے جب ہم کوئی ایسا لفظ بولتے ہیں‘ جس میں اطلاق اور عموم ہو‘ تو اس کے استعمال میں وسعت ہوتی ہے۔ اور جب اسے مُقیّد کر دیا جاتا ہے‘ تو اس قید کا لحاظ کیے بغیر اس لفظ کا استعمال صحیح نہیں ہوتا۔ مثلاً جب ہم ’’رنگ‘‘ بولتے ہیں‘ تو اس کا استعمال ہر رنگ پر ہوگا کوئی چیز خواہ سیاہی میں ترقی کرے‘ یا سفیدی میں‘ یا سرخی میں‘ بہرحال ہم کہیں گے کہ اس کا رنگ گہرا ہورہا ہے۔ مگر جب رنگ کے ساتھ ہم سفید کی قید لگا دیں تو سیاہ‘ سرخ‘ سبز اور دوسرے رنگ کی چیزوں پر ہم اس لفظ کا اطلاق نہ کر سکیں گے‘ اور سیاہی یا سرخی میں ترقی کرنے کو سفید رنگ کی ترقی کہنا صحیح نہ ہوگا۔ اسی طرح مثال کے طور پر لفظ ’’قافلہ‘‘ کو لیجیے۔ ہر قافلہ جو کسی طرف جا رہا ہو‘ اس لفظ سے موسوم ہوسکتا ہے۔ جس طرف بھی وہ بڑھے اس کی پیش قدمی کو قافلہ کی پیش قدمی کہا جا سکتا ہے۔ ہر شخص اس کا میر قافلہ بن سکتا ہے۔ ہر گاڑی پر وہ سفر کر سکتا ہے۔ ہر قسم کا زادِ سفر اس کا زادِ سفر ہوسکتا ہے۔ غرض اصل کے مطلق ہونے کی وجہ سے ہر وہ چیز جو اس سے تعلق رکھتی ہومطلق ہی ہوگی۔ لیکن جب مثلاً عزم پشاور کی قید سے مُقیّد کر کے ’’قافلہ پشاور‘‘ کہہ دیا جائے‘ تو پھر وہ عموم باقی نہیں رہ سکتا جو محض قافلہ ہونے کی صورت میں تھا۔’’قافلہ پشاور‘‘ کا اطلاق صرف اسی قافلہ پر ہوگا‘ جو عازمِ پشاور ہو۔ یہ نہیں ہوسکتاکہ وہ جاتو رہا ہومدراس یا بمبئی کی طرف اور کہلائے قافلہ پشاور۔ اسی طرح ہر وہ چیز جو اس سے تعلق رکھتی ہو‘ پشاور کی قید سے مُقیّد ہوجائے گی۔ مثلاً قافلہ پشاور کی پیش قدمی کا مفہوم یہ ہوگا کہ وہ پشاور کی سڑک پر چل رہا ہے۔ اگر وہ کسی دوسری سڑک پر بڑھ رہا ہو‘ تو اسے قافلہ پشاور کی پیش قدمی نہیں کہا جا سکتا۔ بلکہ اسے پیش قدمی کے بجائے رُجعت کہا جائے گا۔ کیونکہ دوسرے راستہ پر وہ جتنے قدم بھی چلے گا۔ پشاور کی نسبت سے دور ہوتا چلا جائے گا۔ اس کا میر قافلہ بھی صرف وہی ہوسکتا ہے‘ جو پشاور کا راستہ جانتا ہو۔ دوسرے راستوں کے علم میں کوئی شخص خواہ کتنا ہی ماہر ہو‘ اگر وہ پشاور کی راہ سے ناواقف ہے‘ تو بہرحال وہ قافلہ پشاور کا سردار نہیں بن سکتا۔ اسی پر دوسرے امور کو بھی قیاس کر لیجیے۔
اب دیکھئے کہ اُلجھن کس طرح پیش آتی ہے۔ قافلہ ہی کی مثال کو لے لیجیے۔ ایک قافلہ کا نام تو ہے ’’قافلہ پشاور‘‘۔ مگر آپ یا تو پشاور کی قید کو بھول کر استے محض قافلہ سمجھ لیتے ہیں۔ یا آپ کو پشاور کا راستہ معلوم نہیں ہے۔ یا آپ کا خیال یہ ہے‘ کہ اس قافلہ کے لوگ جب ایک دفعہ ’’قافلہ پشاور‘‘ کے نام سے موسوم ہوچکے ہیں‘ تو اب یہ پشاور کے سوا جس رخ پر چاہیں سفر کریں بہرحال انہیں کہنا چاہئے’’قافلہ پشاور‘‘ ہی۔بخلاف اس کے میں قافلہ پشاور کو اس کے اصلی معنی میں لیتا ہوں ‘اور پشاور کی قید کو نظر انداز کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں۔ اس اختلاف کا نتیجہ یہ ہوتا ہے‘ کہ اس قافلے کے بارے میں جتنی گفتگو ہوتی ہے میرے اور آپ کے درمیان بات بات پر تصادم واقع ہوتا ہے۔ جب تک بات مجمل رہتی ہے ہم متفق رہتے ہیں۔ قافلہ کے منتشر مسافروں کو جمع کیا جائے انہیں دوسرے قافلوں میں گم نہ ہونے دیا جائے‘ رہزنوں سے ان کی حفاظت کی جائے۔ ان کے لیے زادراہ درکار ہے‘ انہیں ایک میر قافلہ کی ضرورت ہے‘ ان کو منظم طور پر تیز رفتاری سے منزل کی طرف پیش قدمی کرنی چاہئے‘ یہ سب باتیں مبہم اور مجمل الفاظ میں جب تک کہی جاتی ہیں‘ میں اور آپ دونوں ان سے اتفاق کرتے ہیں۔ مگر جب انہی چیزوں کے تعین کا وقت آتا ہے‘ تو آپ کے اور میرے خیالات میں بُعد المشرِقین پایا جاتا ہے۔ ایک شخص آتا ہے‘ اور اس قافلہ کے لوگوں کو جمع کر کے بمبئی کی طرف چلانا شروع کر دیتا ہے‘ دوسرا آتا ہے‘ اور کلکتہ کی طرف چل پڑتا ہے‘ تیسرا آتا ہے‘ اور کسی اور طرف کا رخ کرتا ہے۔ آپ ہر میرِ قافلہ کے جھنڈے کو دیکھ کر زندہ باد کا نعرہ لگاتے ہیں‘ اور پکارتے ہیں‘ کہ چل پڑا’’پشاوری قافلہ‘‘ میں اسی پر اعتراض کرتا ہوں کہ یہ جمعیت اور یہ پیش قدمی قافلہ پشاور کی جمعیت اور پیش قدمی تو نہیں ہے۔ آپ کہتے ہیں‘ کہ منتشر مسافر جمع تو ہورہے ہیں‘ اور صورت قافِلیّہ بن تو رہی ہے۔ میں کہتا ہوں کہ یہ سب کچھ بجا ودرست‘ مگر محض جمع ہونے اور صورت قافلِیّہ بن جانے کا نام تو قافلہ پشاور بننا نہیں ہے۔ آپ کہتے ہیں‘ کہ دیکھو‘ کتنی اچھی‘ تیز رفتار‘ شان دار گاڑی ہے‘ جس پر یہ قافلہ جا رہا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ آپ کی بیان کردہ صفات سے انکار نہیں‘ مگر یہ گاڑی جا کدہر رہی ہے؟ اگر اس کا رخ پشاور کی طرف نہیں ہے‘ تو قافلہ پشاور کے لیے موزوں نہیں۔ اس صورت میں اس کی تیز رفتاری اور زیادہ خطر ناک ہے‘ کیونکہ یہ روز بروز قافلہ کو اس کی منزل مقصود سے دُور ترلے جاتی رہے گی۔ آپ کہتے ہیں‘ کہ صاحب قافلہ بننے اور گاڑی چلنے تو دو‘ پھر پشاور کی سڑک بھی لے ہی لیں گے۔ میں عرض کرتا ہوں کہ جب تک عزم پشاور ملتوی ہے‘ اور دوسرے راستوں پر آپ گامزن ہیں اس وقت تک کے لیے نام تبدیل فرما لیجیے۔ مجھے آپ کی گاڑی چلنے پر اعتراض نہیں‘ بلکہ اس پر ہے‘ کہ آپ چلیں تو بمبئی یا مدراس یا کلکتہ کی طرف اور نام آپ کا قافلہ پشاور ہی رہے۔ آپ کہتے ہیں‘ کہ حضرت پشاور کی سڑک تو بڑی دشوار گزار ہے۔ اِس وقت اُدھر جانا تو محال ہے‘ لہٰذا سرِدست تو قافلہ پشاور کو دوسرے آسان راستوں ہی پر چلنے دو۔ میں گزارش کرتا ہوں کہ میں نے آپ کو دشوار گزار راستے کی طرف گھسیٹنے پر اصرار کب کیا تھا؟ میرا مقصد تو صرف یہ ہے‘ کہ قافلہ پشاور کا پشاور کے سوا دوسری سمت میں چلنا اور پھر قافلہ پشاور ہی رہنا مُتَنا قض بات ہے۔ آپ اس تناقُض کو دور فرما دیں۔
اس تمام بحث میںبنائے نزاع صرف یہ ہے‘ کہ آپ مُقیّد کو مطلق بناتے ہیں‘ اور اس کے تمام متعلقات کو قید سے آزاد کیے دیتے ہیں۔ اور میں مُقیّد کو مُقیّد ہی سمجھ کر بات کرتا ہوں۔ اگر آپ اپنے ذہن کو صاف کر لیں‘ اور یہ بات سمجھ لیں کہ مطلق قافلہ‘ اور قافلہ پشاور میں کیا فرق ہے‘ تو کوئی اُلجھن پیش نہیں آسکتی۔ لیکن آپ سیدھی سمجھ کی بات اختیار کرنے کے بجائے گفتگو کا رخ کچھ دوسری ہی باتوں کی طرف پھیر دیتے ہیں۔ کبھی ارشاد ہوتا ہے‘ کہ تم قافلہ کے اجتماع اور اس کی تنظیم اور اس کی پیش قدمی کے مخالف ہو۔ حالانکہ نفسِ اجتماع وتنظیم اور پیش قدمی سے کس کافر نے انکار کیا تھا؟کبھی آپ سوال کرتے ہیں‘ کہ اگر یہ قافلہ پشاور نہیں‘ تو اسے اور کس نام سے یاد کیا جائے؟حالانکہ اس کا نام تجویز کرنے کی ذمّہ داری مجھ پر نہیں ہے۔ میری بات تو صاف ہے۔ اگر یہ پشاور کی سڑک پر ہے‘ تو قافلہ پشاور ہے۔ اور اگر اس پر نہیں ہے‘ تو اپنے لیے جو نام چاہے تجویز کر لے‘ بہرحال اس پر قافلہ پشاور کا نام راست نہیں آتا۔ آپ چاہیں‘ تو اس امر پر بحث کر لیجیے کہ جس سڑک پر یہ جا رہا ہے‘ وہ پشاور کی سڑک ہے‘ یا نہیں۔ مگر یہ اصول آپ کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ جو اس سڑک پر نہ ہووہ قافلہ پشاور نہیں ہے۔ پھر آپ ہمدردی کا سوال چھیڑ دیتے ہیں۔ حالانکہ ہمدردی اور بے دردی کا یہاں کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا۔ یہ تو واقعہ اور حقیقت کا سوال ہے۔ مدراس یا کلکتہ کی طرف جانے والوں کو آخر میں عازمِ پشاور کس طرح کہوں؟جانتے بوجھتے ایک خلافِ واقعہ بات باور کرنا آخر ہمدردی کی کون سی قسم ہے؟ میرے نزدیک تو ہمدردی کی صورت یہی ہے‘ کہ صاف صاف لوگوں کو بتا دیا جائے کہ یہ پشاور کی سڑک ہے‘ اور یہ دوسری سڑکیں فلاں فلاں سمت کو جاتی ہیں۔ جو لوگ فی الواقع پشاور جانا چاہتے ہیں‘ مگر راستہ سے ناواقف ہونے کے باعث دوسرے راستوں پر بھٹک رہے ہیں‘ یا بھٹکائے جا رہے ہیں وہ صحیح راستہ معلوم کر لیں گے۔ اور جو حقیقت میں جانا ہی دوسری طرف چاہتے ہیں میں نہ تو ان کا راستہ روکنا چاہتا ہوں‘ نہ ان سے مجھے کوئی دشمنی ہے‘ کہ انسانیت کے خلاف ان کے ساتھ کوئی بے دردی کروں۔ میرا مقصد تو صرف یہ ہے‘ کہ جدہر جانا چاہتے ہیں سمجھ بوجھ کر پورے شعور کے ساتھ جائیں‘ اور جب جائیں‘ تو غلط نام کے ساتھ سفر نہ کریں۔
مسلمانوں کے معاملہ میں جو اُلجھن پیش آرہی ہے اس کی نوعیت بعینہٖ وہی ہے‘ جو اوپر کی مثال میں بیان کی گئی ہے۔ مسلمان کا لفظ اسلام سے ماخوذ ہے‘ اور اسلام ایک طریقِ فکر‘ ایک مقصد ِزندگی‘ ایک سیرت وکردار اور ایک طرزِ عمل کا نام ہے۔ اس لحاظ سے مسلمان کے معنی محض آدمی کے نہیں ہیں‘ بلکہ اس آدمی کے ہیں‘ جو زندگی کے تمام معاملات میں وہ خاص طریقِ فکر‘ وہ خاص مقصد ِحیات‘ وہ خاص اخلاق واطوار اور وہ خاص طرزِ عمل رکھتا ہو‘ جس کا نام اسلام ہے۔ لفظ مسلمان کے ان تقیُّدات کو اگر صاف صاف سمجھ لیا جائے‘ تو مسلمانوں کی فلاح وبہبود‘ ان کا مفاد‘ ان کی تنظیم‘ ان کی قیادت وامارات‘ غرض ان سے تعلق رکھنے والی ہر چیز کا مفہوم معین ہوجائے گا۔ لیکن اگر ان تقیُّدات سے قطع نظر کر کے’’مسلمان‘‘ کے لفظ کو مطلقاً ایک گروہ اشخاص کے معنی میں لے لیا جائے‘ تو پھر ہر شخص کو آزادی ہوگی کہ جس چیز کو چاہئے مسلمانوں کا مفاد کہہ دے‘ جس چیز کو چاہے ان کی فلاح وبہبود قرار دے لے‘ جس نوع کی تنظیم کو چاہے ان کی تنظیم سمجھ لے‘ اور جو شخص بھی انسانی گلّے کو ہانکنے کی قابلیت رکھنے والا دکھائی دے اسے مسلمانوں کا قائد ملّت اور امیرِ مُطاع ماننے پر آمادہ ہوجائے۔
بد قسمتی سے یہاں کچھ ایسی ہی صورت حال درپیش ہے۔ ’’اسلام‘‘ کی قید سے قطع نظر کر کے فی الواقع’’مسلمانوں‘‘کو محض ایک گروہ اشخاص سمجھ لیا گیا ہے‘ اور اسی کا نتیجہ ہے‘ کہ عجیب عجیب چیزوں پر مسلمانوں کے مفاد‘ ان کی فلاح وبہبود‘ ان کی تنظیم وجمعیت‘ ان کی قیادت وامارات وغیرہ کا اطلاق کیا جاتا ہے۔ مثلاً کہنے والے کہتے ہیں‘ کہ مسلمانوں کا مفاد اس میں ہے‘ کہ یہ بنک اور انشورنس اور اسی قبیل کی دوسری چیزوں سے استفادہ کریں۔ حالانکہ مسلمان کا لفظ اگر کوئی معنی رکھتا ہے‘ تو اس کی رُو سے مسلمان مامور ہیں اس پر کہ اس پورے نظام مالیات کو توڑ ڈالیں‘ جو اس وقت دنیا میں قائم ہے‘ اور اپنے اصول پر ایک نیا نظام بنائیں‘ پھر یہ اُلجھے ہوئے دماغ کی بات نہیں‘ تو اور کیا ہے‘ کہ مسلمان کی حیثیت سے جس نظام کے ساتھ آپ کی اصولی عداوت ہے اسی میں آپ اپنامفاد سمجھیں‘ اور پھر اس کا نام’’مسلمانوں کا مفاد‘‘ رکھیں؟اسی طرح سرکاری ملازمتوں اور شریعت ساز مجالس کی نشستوں اور ایسی ہی دوسری چیزوںکو’’مسلمانوں کے مفاد‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ حالانکہ مسلمان کے لفظ کو اگر اسلام کی قید سے مُقیّد کر کے لیا جائے‘ تو یہ سب چیزیں مسلمان کے مفاد کی ضد ہیں۔ مسلمان کے مفاد کی حیثیت سے تو آپ کا کام اس نظام حکمرانی کو بدل ڈالنا ہے‘ جسے چلانے کو آپ اپنا مفاد کہہ رہے ہیں۔ اسی طرح وہ نظامِ تعلیم جو انگریزوں نے یہاں قائم کیا ہے اس کے تحت اپنی نسلوں کا ذہن تیار کرنا آپ کے نزدیک مسلمان کی فلاح وبہبود اور ترقی کا ذریعہ ہے‘ اور اس نظام کے تحت آپ خود اپنے خرچ سے درس گاہیں بنا کر‘ ان کے نام اسلامیہ اسکول اور اسلامیہ کالج اور مسلم یونی ورسٹی رکھتے ہیں۔ حالانکہ یہ پورا نظامِ تعلیم انسانیت کی تشکیل ایسے نقشے پر کرتا ہے‘ جو اسلامی نقشے کے عین برعکس ہے۔
ایسا ہی غلط تصوّر آپ کے ذہن میں مسلمانوں کی جمعیت‘ مسلمانوں کی تنظیم اور مسلمانوں کی قیادت کا بھی ہے۔ اگر آپ کو معلوم ہوکہ اسلام کس تحریک کا نام ہے‘ اس کا مقصد کیا ہے‘ اس کے اصول کیا ہیں‘ اور وہ کیا طرزِعمل چاہتا ہے‘ تو آپ بڑی آسانی کے ساتھ یہ فیصلہ کر سکتے ہیں‘ کہ ان سیاسی جمعیتوں اور تنظیموں اور ان قائدوں اور امیروں کی صحیح حیثیت کیا ہے‘ جو اسلام کے نام سے اس وقت کام کر رہے ہیں۔ اسلام کی رُو سے مسلمانوں کی جمعیت صرف وہ ہوسکتی ہے‘ جو غیر الٰہی حکومت کو مٹا کر الٰہی حکومت قائم کرنے اور قانون خدا وندی کو حکمراں کرنے کے لیے جدوجہد کرتی ہے۔ جو جماعت ایسا نہیں کرتی بلکہ غیر الٰہی نظام کے اندر ’’مسلمان‘‘نامی ایک قوم کے دنیوی مفاد کے لیے جدوجہد کرتی ہے وہ نہ تو اسلامی جماعت ہے‘ اور نہ اسے مسلمانوں کی جماعت ہی کہنا درست ہے۔ اسی طرح مسلمانوں کی تنظیم صرف وہی ہوسکتی ہے‘ جو خالص اسلامی اصول اجتماع پر قائم ہو‘ اور جس کا مقصد اسلامی ہو۔ ورنہ جو تنظیم فاشستی اصولوں پر کی جائے‘ اور جس کا مقصد محض اپنی قوم کا غلبہ وتمکن ہو‘ اسے محض اس بنا پر مسلمانوں کی تنظیم نہیںکہا جا سکتاکہ وہ مردم شماری کے مسلمانوں کو منظم کرتی ہے‘ اور ان کے ’’استخلاف فی الارض‘‘ کے لیے کوشاں ہے۔ علی ہذا القیاس مسلمانوں کے رہنما بھی صرف وہی لوگ ہوسکتے ہیں‘ جو سب سے پہلے اسلامی تحریک کے مقصد‘ اصول اور طریق کار کو جانتے ہوں ‘اور اہلِ تقویٰ ودیانت ہوں۔ باقی رہے وہ لوگ جو سرے سے اسلام کا علم ہی نہ رکھتے ہوں‘ یا ناقص علم کی بناء پر اسلام اور جاہلیت کو خلط ملط کرتے ہوں ‘اور پھر تقویٰ ودیانت کی کم سے کم ضروری شرائط سے بھی عاری ہوں‘ تو ایسے لوگوں کو محض اس لیے مسلمانوں کی قیادت کا اہل قرار دینا کہ وہ مغربی سیاست کے ماہر یا مغربی طرز تنظیم کے استادِ فن ہیں‘ اور اپنی قوم کے عشق میں ڈوبے ہوئے ہیں‘ سراسر اسلام سے جہالت اور غیراسلامی ذہنیت ہے۔
یہ باتیں جب مسلمانوں سے صاف صاف کہی جاتی ہیں‘ تو وہ اس پرچیں بہ جبیں ہوتے ہیں‘ اور شکایات کے طومار باندھ دیتے ہیں۔ مگر فی الحقیقت اس معاملہ میں جذبات کی برانگیختگی کا کوئی موقع نہیں ہے۔ لوگوں کو ٹھنڈے دل سے سوچ سمجھ کر یہ فیصلہ کرنا چاہئے کہ وہ اسلام کے لیے اسلام کے اصول پر کام کرنا چاہتے ہیں‘ یا اپنے لیے اپنے اصول پر۔ اگر پہلی بات ہے‘ تو انہیں سیدھی طرح ہر اس چیز کو ترک کرنا چاہئے‘ جو غیراسلامی ہے۔ اور اگر دوسری بات ہے‘ تو جو کچھ وہ کرنا چاہتے ہیں شوق سے کریں‘ ہم ان کا راستہ روکنے نہیں آتے‘ ہمارا مطالبہ ان سے صرف یہ ہے‘ کہ وہ اسلام اور مسلمان کے نام کو غلط طریقے پر استعمال کرنا چھوڑ دیں۔
(ترجمان القرآن۔دسمبر۱۹۳۹ء)

خ خ خ

شیئر کریں